عقیل حشمی کی یاد میں از:امتیاز وحید

0
215

تین اگست 2021 کی شب عقیل حشمی کے اچانک انتقال کی دل پاش خبر کلکتہ میں موصول ہوئی تو میں اور میرا اہل خانہ غم میں ڈوب گیا۔ مرحوم عقیل میرے بچپن کا دوست ،عزیزیار اور ہم راز تھا۔ بلکہ ہم جماعت بھی تھا۔ بچپن میں ہماری تعلیم درسگاہ ‘مدرسہ دارالسلام’ میں ایک ساتھ ہوئی، جہاں ان کے والد بزرگ مولوی عبدالعزیز سلفی مدظلہ العالی مدرس تھے۔ گوکہ میرا تعلق ‘مدرسہ اسلامیہ’ سے زیادہ رہا تاہم ہمارا تعلیمی زمانہ گاؤں میں ایک ساتھ گزرا اور ہم فکر امروز و فردا سے بے نیاز گاءوں کے ماحول میں ایک ساتھ پلے بڑھے۔گاءوں کا وہ زمانہ آج کی طرح گاءوں پن سے عاری نہیں تھا۔ کچی سڑکیں تھیں۔ گاءوں کے لوگ آج کی طرح قرب و جوار میں جانے کے لیے سواری کے منتظر نہیں رہتے تھے ، پاؤں پیدل چلنے کا رواج تھا۔میرے ،قاسم بابو اور چند اور گھرانوں کے سوا گاؤں میں غربت کا راج تھا ۔ گاءوں کے باشندے گھیتی باڑی پر گزارہ کیا کرتے تھے۔ عقیل مرحوم کا تعلق ایک ایسے فیملی سے تھا جو اس وقت غربت سے جوجھ رہا تھا۔ ان کے والد ماجد کے پاس مدرسہ سلفیہ دربھنگہ کی سند فضیلت کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس وقت وہ مدرسہ دارالسلام میں مستقل ملازم بھی نہ تھے اور غالباً مدرسہ دارالسلام بھی اس وقت مدرسہ شمس الہدی، پٹنہ سے منظور شدہ نہیں تھا۔ مسلکی ہم آہنگی تھی لیکن گاءوں خاندانی چپقلش سے کلیتاً مبرا نہ تھا۔ تنا تنا رہتی تھی۔ مولوی عبدالعزیز صاحب کی حیثیت اس وقت قاسم بابو کے گھرانے سے وابستہ ایک درباری استادکی تھی۔ زمین داری نظام کا طنطنہ تھا اور سلفیہ سے فراغت کے بعد نسل نو گاءوں کے جکڑبند زمین دارانہ نظام سے گلو خلاصی کی جدوجہد سے گزررہی تھی۔ مرحوم کے ساتھ ہم نے گاءوں کی کھلی اور آزاد فضا میں پروش پاءی اور وسطانیہ کا امتحان ایک ساتھ مدرسہ فلاح المسلمین گواپوکھر، بھوارہ میں جاکر دیا۔وہاں ایک ہفتہ ساتھ بھی رہے ، ہمارا ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا۔وہیں انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ امتحان ختم ہوگیا تو مرحوم حاجی محسن سلفی اور مولوی عبدالعزیز صاحب کی رہنماءی میں ہم نےگاءوں کا قصد کیا۔مدھوبنی سے رہیکا تک بس کی سواری ملی اور وہاں سے گاءوں پیدل جانا طے ہوا۔ عقیل کی معذوری کے سبب یہ طے پایا کہ جسمانی طور پر مضبوط طلبہ عقیل کو تھوڑی تھوڑی دور اپنے کاندھوں پر بٹھاکرلے چلیں گے۔ یہ سعادت اس وقت میرے حصے میں بھی آءی اور ہم سرخرور ہوئے۔

مرحوم عقیل ہم عام بچوں کی طرح جسمانی طور پر تنومند نہیں تھے بلکہ پیدائشی طور پر معذور تھے۔ مرورایام کے ساتھ ان کی معذوری میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ بچپن میں لاٹھی کے سہارےوہ چل پھر لیتے تھے اور ہمارے ساتھ معمول کی زندگی میں مدرسہ آتے جاتے رہتے تھے اور اب عالم یہ تھا کہ وہ خود کچھ کرنے کے اہل نہیں تھے حتی کہ حوائج ضروریات کے لیے بھی جانا محال ہوگیا تھا۔تاہم اللہ نے ان کے نطق لسان میں بڑی تاثیر رکھی تھی۔ میں نے دیکھا جس کسی کو انھوں نے کسی ضرورت کے لیے آواز دی وہ شخص اپنی جملہ مصروفیات کو چھوڑ کر فوراً عقیل کی بات پر عمل پیرا ہوجاتا اور اس طرح ان کی ضرورت پوری ہوجاتی تھی۔بلکہ بسا اوقات تو مجھے احساس گزرا کہ لوگ اس کے گرد اس کی آواز پر کان لگائے رہتے ہیں اور جیسے ہی انھوں نے کسی کام کو کہا فکیون کی منزل آجاتی تھی۔ گھر والوں کی دل جوئی کا عالم ہی دگر تھا۔ والدہ کے انتقال کے بعد بھابی نے اس کی جگہ لے لی اور کبھی کوءی کسر نہ اٹھا رکھا۔ بڑے بھاءی مکرمی شکیل صاحب نے بھی ایک مثالی بھاءی کا کردار نبھایا اور ہرآن عقیل کی دلجوئی میں بچھے رہے۔ بھاءی کے بچے بھی عقیل مرحوم کے ہمیشہ دست و بازو ثابت ہوءے۔ آس پڑوس کے نوجوان اور بزرگوں نے عقیل کا ہمیشہ خاص خیال رکھا۔

عقیل مرحوم نے گاءوں کے مدرسے میں واجب تعلیم پاءی۔ بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ابتدائی امتحان کے بعدوہ ہیں سے فضیلت تک پہنچے اور اسی کی بنیاد پربینی پٹی بلاک کے دھکجری پنچایت کے تحت چلنے والے پراءمری اسکول، نبٹولی کے مدرس مقرر ہوءے۔ عقیل جسمانی معذوری کے باوصف ایک حوصلہ مندانسان تھے۔ابتدائی دور میں وہ اپنے گھر سے متصل چھوٹی موٹی دکان چلاتے تھے، پان کی یہ دکان بعد میں دوا کی دکان میں بدل گءی اور اب تو ماشاء اللہ وہ ایک سرکاری مدرس ہوگیے تھے۔وہ خود کفیل تھے اور معذوری کے باوجود اپنی مددآپ کے فلسفے پر گامزن تھے۔ س ان سے مل کر زندگی اور زندہ دلی کا احساس ہوتا تھا۔ میں نے انھیں ہمیشہ ایک ذہین اور ہمدرد انسان کی حیثیت سے دیکھا۔وہ کبھی قنوطیت کا شکار نہیں دیکھے گءے۔ انتقال کے بعد معلوم ہوا کہ ایک سال سے تنخواہ نہ ملنے کے سبب ذہنی تناؤ کے شکار تھے لیکن مجھے کبھی ان سے مل کر یہ احساس نہیں ہوا۔ اپنے کام سے کام ہی ان کا شغل تھا۔ یار باشی کے میرے بیشتر ایام ان کی معیت اوران کی محفل میں گزرے۔ اب بھی گاءوں میں میرے لیے ان کا دم غنیمت تھا، بڑی عزت افزائی فرماتے تھے۔چاءے اور پان سے متھلا کی روایت کی تجدید ان کا معمول تھا۔ بغیر اس اہتمام خاص کے وہ کم پر کبھی راضی نہ ہوتے تھے۔ ادھر کافی عرصے سے شوگر کے مہلک مرض میں مبتلا تھے، گوکہ دربھنگہ کے ایک اچھے ڈاکٹر کی نگرانی میں زیر علاج رہے لیکن شوگر کو جسمانی حرکات و سکنات کی جس فعالیت سے قابو میں رکھا جاتا ہے ، معذوری کے سبب عقیل اس رکھ رکھاؤ سے قاصر رہے اور یوں یہ مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ مرحوم عقیل ہاشمی میرے استاد مولانا عبدالعزیز سلفی کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ ماں بہت پہلے گزرگئی تھیں۔ اب مولانا کے لیے ان کے عین عالم پیری میں یہ صدمہ قیامت صغری سے کم نہ ہوگا۔ ہم محشر خیال کے پلیٹ فارم سے اپنے دیرینہ رفیق کی جداءی پر شدید غم کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ انھیں غریق رحمت کرے اور لواحقین کو صبر جمیل دے۔ اللهم اغفر له وارحمه و عافه و اعف عنه وادخله فسيح جناته، آمین يا رب العالمين۔

تجھے اس وبا میں یہ فکر ہے سبھی روزگار چلے گئے
مجھے رنج ہے مری بزم کے کءی نامدار چلے گئے

Previous articleطنز و مزاح “…. کےنام…….” از: ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم
Next article(ہار ڈنگ )ہر دیا ل میونسپل پبلک لائبریری میں ہندو مذہب کے چند قلمی نسخے از: ڈاکٹر عرفان رضا

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here