جناب رضوان مصطفٰے اور میرے عم مکرم حافظ عزیزالرحمان معروف بہ ”بھوگی” 29 اگست 2021 کی شب تقریباً دو بج کر تیس منٹ پر انتقال فرماگءے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون اور اس طرح چار بھائیوں پر مشتمل ہنستا کھیلتا یہ گھرانہ اب دو بھائیوں پر سمٹ کر رہ گیا۔ ان کی رحلت کے ساتھ ہی خوش گپیوں کے ایک دور کا خاتمہ ہوگیا، جس کے ہم رفتہ رفتہ عادی ہوگئے تھے۔ جسمانی طور پر مضبوط عم مرحوم لحیم شحیم شخصیت اوربڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ کتابی چہرے پہ ستواں لمبی ناک، سانولی رنگت ،قد و قامت اور ظاہری وجاہت سے کھاتے پیتے، قدرے پرسکون اور قانع نظر آتے تھے۔ طبعاً بڑے زندہ دل اور ظریف واقع ہوئے تھے۔ اپنی قلیل آمدنی کے باوصف بچوں کی تعلیم و تربیت میں خود کو کھپایا اور بڑی جانفشانی سے کام لیا تھا۔ آج مرحوم کے بچے ماشاء اللہ برسر روزگار ہیں اور ترقی کررہے ہیں۔ مرحوم ایک عرصے سے شوگر کے مرض میں مبتلا تھے اور تقریباً تعطل زدگی کی زندگی گزاررہے تھے۔ ایک زمانہ ان کی جسمانی تنومندی کا بھی گزرا ہے،جب وہ گاءوں سے باہر کرتا پاءجامہ اور گاوں محلے میں لنگی کرتہ یا لنگی بنیاءن میں دیکھے جاتے تھے، ہرچند کہ چلنا پھرنا کلیتاً موقوف نہیں ہوا تھا لیکن نہ کہ برابر ہی رہ گیا تھا۔ ادھر چند برسوں سے انھوں نے اپنے چھوٹے بھاءی کے زیر تعمیر مکان کو اوپر سے چھپر ڈال کر کٹیا نما بنا رکھا تھا، جہاں وہ مستقل بیٹھے دیکھے جاتے تھے۔آنے جانے والوں سے ان کی ملاقات وہیں ہوتی تھی۔ کبھی کبھار سر راہ وہ چہل قدمی کرتے ہوءے کہیں مل بھی جاتے تو بڑے تپاک سے گھر لاتے اور چاءے ناشتے کے بغیر چھٹی نہیں دیتے تھے۔ بڑے زمانہ شناس واقع ہوئے تھے۔ اہل علموں بطور خاص بڑے بھائی مرحوم عاشق الہی سلفی کی صحبت سے انھیں بڑا فیض پہنچاتھا ۔علماء سے انھیں بڑی انسیت تھی اور انھیں علماء کی صحبت بھی ملی۔ علماء، صالحین اور شرفا کا تذکرہ جس رکھ رکھاؤ سے کیا کرتے تھے، وہ انہی کا حصہ تھا۔ معلوم ہوتا کہ ہم انھیں چلتے پھرتے اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ سماجی معاملات میں بڑے ذکی الحس ، وضع دار اور مردم شناس تھے۔ کلکتہ سے جب بھی گھر جانا ہوتا تو میں بلا تاخیرمرحوم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ علمی، سماجی اور غیر علمی ڈھیروں موضوعات پر بہت سی باتیں ہوتی تھیں۔ انھیں گردو پیش میں پھیلا ماضی ازبر تھا۔ ایک ایک واقعہ جزئیات کے ساتھ یوں بیان کرتے جیسے بس کل کی بات ہے ،ہمیں ان کی ذہانت اور یاد داشت پر رشک آتا تھا۔ ان سے مل کر زندگی اور سماج میں احتیاط کی معنویت دو چند ہوجاتی تھی۔اسی غایت احتیاط کے سہارے انھوں نے بہشت گریزاں سرزمین رگھے پورہ جیسے آتش کدہ میں خود کو شر اور فتنہ و فساد کی لپک سے بچاءے رکھا اور پوری فیملی کو ایک خاص نہج ‘تعلیم’ پر لگایا۔قوم کے نشیب وفراز سے واقفیت کے بنا یہ کیوں کر ممکن تھا۔ یہ کسی مجاہدہ سے کم نہ تھا،جس میں وہ سرخرو ہوءے اور سلامت روی کے ساتھ گزرگءے۔ اس امر میں وہ اپنے پیر و مرشد اخی عاشق سلفی کے سخت گیر پیروکارتھے۔ مدارس اور مساجد کے لیے طلق الیدین صاحب ثروت کے ساتھ محصلین کے کارناموں پر جب وہ روشنی ڈالتے تو محسوس ہوتا گویاکوئی داستان چھیڑدی گئی ہے یا ایک درویش کئ درویشوں کی کہانی سنا رہا ہے۔
مرحوم نیرنگ زمانہ کے شکار بھی رہے۔ اپنے بڑے بھاءی کا تذکرہ اکثر و بیشتر ان کی زبان پہ رہتا تھا۔ مرحوم بھاءی کے ساتھ مدرسہ سلفیہ، دربھنگہ کے ارباب حل و عقد کے متعصبانہ رویہ کا ذکر کرتے تو تاسف اورغم و غصہ کی آتی جاتی لہریں ان کے چہرے پر صاف پڑھی جاسکتی تھیں۔ معلوم ہوا کہ مدینہ منورہ میں اعلی تعلیم کے لیے مقابلاجاتی امتحان میں پاس ہونے کے بعد بھی ان کے بھاءی مرحوم عاشق الہی سلفی کووہاں داخلہ کی اجازت نہیں دی گءی بلکہ مدینہ جانے سے عمداً روکا گیا۔ دربھنگہ میں سلفی تحریک کے روح و رواں ڈاکٹرعبدالحفیظ سے غایت درجہ عقیدت رکھنے کے باوجود ان کے دل سے بھاءی کے ساتھ کی گءی ناانصافی کا زخم جیتے جی مندمل نہیں ہوا۔ وہ عموماً ان وجوہات پر باتیں کرتے اور دکھ کا اظہار کرتے تھے۔ ایک ملاقات میں بتایا کہ بھاءی کی لکنت کو بھی بہانہ بنایا گیا کہ اس بناپر انھیں چھانٹا گیا تھا۔ کہنے لگے کہ بھاءی نے کسی کو خط میں لکھا تھا کہ میری پسپاءی کا سبب میری لکنت بنی جب کہ لکنت بردارحضرت موسی کو پیغمبری سے سرفرازی نصیب ہوءی۔ اب انھیں اپنے بھاءی کے ساتھ ہوءی ناانصافی کے لیے دربار الہی میں حاضری کا موقع ملا ہے۔ اس کا انصاف اب عین تقاضاءے عدل کاءنات کے منصف اعلی اور عادل اکبرکے دربار میں ہوگا اور ان کے دل کا میل وہیں زاءل ہوپاءے گا۔
مرحوم کی ابتدائ تعلیم مدرسہ اسلامیہ رگھے پورہ میں ہوءی۔انھوں نے استاد گرامی قدرحافظ عبدالودود صاحب ، رانی پورکی نگرانی میں حفظ مکمل کیا، حافظ جسم الدین، حافظ مرتضی،معشوق علی ، حافظ ہاشم اور فضل الرحمن ان کے ہم جماعت ہیں۔مدرسہ فیض عام ، مءو ناتھ بھنجن ، یوپی میں زیر تعلیم تھے کہ والد کے انتقال کی خبر ملی ، گھر آءے تو پلٹ کر پھر مدرسہ نہیں گءے۔اس کے بعد اصلاح المسلمین پٹنہ میں رہے ، طبیعت نہیں لگی تو بڑے بھاءی کے کہنے سنے پر مدرسہ اسلامیہ گواپوکھر مدھوبنی میں داخلہ لیا اور چھٹی جماعت تک کی آدھی ادھوری تعلیم حاصل کی اور بس ۔مگر اس مدرسہ کے عالم شیخ الحدیث مولانا قاسم صاحب اور مولانا عزیز الرب وغیرہ کے واقعات، علمیت اور قابلیت کے قصے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں بیان کرتے تھے۔ مرحوم نے انارھ بن ، لوکہا بلاک، ضلع مدھوبنی کے مدرسہ نورالاسلام میں کئی برسوں تک شبعہ حفظ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس وقت مدرسے کے صدر حاجی عین الحق صاحب اور صدر مدرس رضاءاللہ سلفی ہواکرتے تھے، جہاں مرحوم حاجی صاحب کے گھر کے ایک ناگزیر فرد کی حیثیت سے تمام گھریلو امور میں دخیل تھے۔ مولانگر، اڑیسہ سے امامت اور تدریسی وابستگی رہی۔کچھ وقفہ جگن ناتھ پور میں بھی ملازمت کی۔ لکڑی مدار پور، ضلع سیوان میں بھی امام و خطیب رہے۔وہاں ایک مکتب کی بنا ڈالی جو آج ‘المدرستہ ا لسلفیہ ‘ کی صورت میں معروف تعلیمی ادارہ ہے۔ مولانا اشفاق احمد ، مولانا رضاءاللہ،عظیم الدین ‘ بچنو’ ، رگھے پورہ سے پلسا، بنگال ہجرت کرنے والے مولانا عزیر شمسی ،ظفیر مرحوم اور جناب فضل الرحمن مرحوم کے بے تکلف دوستوں شمار کیے جاتےہیں۔
مرحوم بھوگی چچا کا دل ایک نگار خانہ تھا بلکہ ایک سماجی اور تہذیبی دستاویز کی حیثیت رکھتا تھا۔ حسب ضرورت اس کے اوراق پلٹتے جاءیں اورغم اور نشاط کی پھیلی کاءنات اور اس کی نیرنگیوں سے لطف اندوز ہوتے جاءیں۔ مدرسہ، مسجد اور رفاہی اداروں کی سفارت نے انھیں سفر اور حضر میں تجربات کی دولت کثیر سے مالا مال کیا تھا۔ دکنی اور شمالی ہندوستان، انگنت گاءوں، قصبہ اور ان میں بسنے والے نفوس ، ان کی نفیسات اور ان سے وابستہ یادیں جب ان کی زبان سے سنی جاتیں تو الف لیلوی داستان معلوم ہوتی تھیں۔بات کرنے کا انداز بڑا نرالا تھا۔ پیرایہ اظہارمیں بڑی چاشنی تھی۔ اگر وہ مشاقی کرتے اور قلم سنبھالتے تو طرح دار قلم کار ہوتے۔
مقامی زبان میں انھیں ید طولی حاصل تھا ۔کبھی کبھار وہ مقامی الفاظ اور تلازمات کے نفیس اردو متبادلات پر کلام کرتے تو سماں باندھ دیتے تھے۔ ایک دفعہ میں رضوان کی معیت میں ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا ۔ باتوں باتوں میں مرحوم مضطر بعدہ خوشتر اصلاحی کا ذکر چھڑگیا، جو اپنے وقت کے نہ صرف جید عالم تھے بلکہ ماہنامہ دعوت صادق، پٹنہ کے اڈیٹر بھی تھے، کہنے لگے کہ مرحوم اصلاحی سیلانی طبیعت کے مالک تھے۔ ٹک کر بیٹھنا ان کے بس کا روگ نہیں تھا۔ مزاج میں سیمابیت تھی یا پارہ بھرا ہوا تھا۔ مزاج کے خلاف بات کو برداشت کرپانا ان کے لیے دشوار تھا۔ اس لیے دربدری مقدر ہوءی۔ راجستھان تک ملازمت کے لیے جانا پڑا۔ شاعرتھے لیکن جہاں گیے وہیں شعری اور علمی اثاثہ لٹادیا۔ لوگ اب ان کے کارناموں سے واقفیت نہیں رکھتے ہیں۔ اسی ملاقات میں انھوں نے یہ بھی بتا یا کہ ایک دفعہ مرحوم اصلاحی صاحب کو دیکھا کہ بدن پر کءی جھولے لٹکا رکھے ہیں۔ دریافت کرنے پر پتا چلا کہ چندہ کررہے ہیں۔ اور چونکہ اپنا سامان بھی ہے لہذا چیزیں الگ الگ اس کے متعلقہ جھولوں ہی میں رکھی جاتی ہیں تاکہ خلط ملط نہ ہو اور یہ بھی بتا یا کہ اصلاحی مرحوم نے کہا کہ مجھے چندہ کرنا نہیں آتا ، ذرا وہ بھی بتادو۔ مرحوم کی باتیں ہی باتیں تھیں ۔ میرے خاندان کے پہلوان سورماوءں کا ذکر بڑے چاءو سے کرتے تھے،سوہانس کے رہنے والے جناب نعیم الحق کا ذکر بھی ان کی خدا ترسی اور حق گوءی کے سیاق میں کیا کرتے تھے۔ یہ صاحب مولانانہیں تھے مگر مدرسہ کے پڑھے ضرور تھے، اچھی صلاحیت تھی ۔سناہے فارسی بہت اچھی تھی۔گلستاں اور بوستاں کے اشعار سے اپنی تقریر کومزین کرتے تھے۔ خاتون آہن’ڈگری حجن’ کے بھاءی تھے۔ کبڈی اور مدرسہ اسلامیہ کے مولویوں کا تذکرہ بھی عموماً ان کی زبان پر رہتاتھا، بڑے بھیا مرحوم مولوی شاکرسلفی کا ذکربڑی عقیدت اور مودب ہوکر کرتے تھے۔مولوی ڈاکٹر سالم سلفی سے خاص لگاؤ تھا ۔ جب تک ان کے بڑے بھائی مرحوم عاشق سلفی حیات تھے، ان سے مشورہ کرنااوران کی باتوں پر عمل کرنا، مرحوم کا خاص شیوہ تھا ۔مقامی جنگ و حرب کا بیان، کھرتل اور عینل کی رام کتھا، مقامی زمین داروں کے جلوے، غربت سے جوجھتا گاءوں، آپسی ناچاقیاں، خواتین کے جھگڑے اور دشنام طرازیاں، شادی بیاہ کا پرلطف بیان، اہل کمال بھلے لوگوں کی بھلی اور معصوم باتیں، گاءوں کے مسلمانوں کو اللہ کی ودیعت کردہ نعمتیں اورانعام و اکرام پر احسان مندی کا اظہار فرماتے ،آلہا رودل کےواقعات کو بہت خوبصورت انداز میں بیان کرتے، خاص طور پرجنگ کےمیدان کا نقشہ اور رودل کی انفرادیت کی پیش کش میں ان کا رویہ پیکر تراشی اور منظر کشی کی سرحدوں کو چھونے لگتاتھا۔ مفہوم اس طرح واضح کرتے گویا یہ منظر نظروں کے سامنے ہے۔ قاسم بابوکی لشکر کشی اور گوہر بابو سے ان کی معرکہ آراءیاں، جہلا اور جہالت کی حشر سامانیاں اور نہ جانے کیا کیا۔ وہ گویا ہوتے تو ع۔۔۔۔
”وہ کہے اور سنا کرے کوئی”
جیسا معاملہ ہوتا۔ دوران گفتگو ان کے نطق لسان سے ظرافت کی پھل جھڑیاں چھوٹتیں اور ہمیں لطف و طرب میں بھگوجاتی تھیں۔ سامع لطف اندوز ہوءے بغیر نہیں رہ پاتا۔ ہم سے بڑی محبت فرماتے تھے۔ ہم ان کے اہل خانہ سے تہہ در تہہ رشتہ داری میں پہلے سے ہی بندھے تھے، تازہ رشتہ جب میرا ان کی بھانجی سے طے پایا تو گویا یہ سابقہ تمام رشتوں کی تجدید کا سبب بنا، ان کی شفقت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ رشتہ کا احترام ان کا بنیادی وصف تھا۔ ہم کبھی کبھار ان کی زیارت کے لیے اس لیے بھی حاضر ہوتے تھے کہ ہمیں اپنے ماضی سے عشق ہے بلکہ کئی معنوں میں میں ماضی گرفتہ بھی ہوں اور وہ ماضی کو سجونے والے۔ اب فانی دنیا کی تمام چیزوں کی طرح وہ بھی فنا کی راہ کوسدھارے۔ باقی رہے نام اللہ کا۔
مقامی اور قرب و جوار کی کئی ذی علم شخصیات پر ابھی ان سے بہت کچھ سننا اور سجونا باقی تھا۔ پچھلی دفعہ کی ملاقات میں میں نے ان کی باتوں کی ویڈیو گرافی بھی کی لیکن وہ محفوظ نہ ہوءی ۔ ٹکنالوجی سے میری بے بضاعتی سدراہ ثابت ہوئی۔ ارادہ تھاکہ اب کی ملاقات میں میں ان کے ذہن و قلب کی وادی میں داخل ہوجاؤں گا اور سارے خزانے اپنی تحویل میں لے لوں گا لیکن موت نے انھیں مہلت نہ دی، دیر رات تقریباً چار بجے صبح میں فون سے ان کی موت اطلاع ملی اور میں دم بخود رہ گیا۔ معلوم ہوا کہ انارھ بن کے مولانا رضاءاللہ صاحب کے انتقال کا غم زیادہ تھا تقریبا 25 روز قبل ان کا بھی انتقال ہو گیا تھا ۔ع
جانے کیوں اک خیال سا آیا
میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی
پس ماندگان میں مرحوم کی بیوہ کے علاوہ پانچ بیٹے ؛جاوید عزیز عمر ی, ،خالدعزیزبخاری المدنی ,غزالی عزیز، شارق عزیز اسلامی,کاشف عزیز اور بیٹی سلمی عزیز ہیں۔اللہ سے مرحوم کی مغفرت کی دعا ہے۔ اللہ انھیں غریق رحمت کرے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق دے۔ آمین
۔۔۔۔۔ع
کون جینے کے لیے مرتا رہے
لو، سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے
ماشاء اللہ پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آ گیا اللہ نانا کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیں