ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی
فقیر عربی لفظ ہے جو “فقر” سے مشتق ہے، جس کے معنی ضر ورتمند، غریب اور محتاج کے ہیں۔ دنیا کے سبھی ممالک میں اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں لیکن کسی بھی ملک میں ایسا فقیر نہیں ہے جس کے ہاتھوں میں زمام اقتدار ہو، جس کی سرکار ہو، جو 135 – 130 کروڑ لوگوں کا سردار ہو، جو کسی ملک کے تخت و تاج کا تنہا مالک ہو، جس کے ایک اشارے پر ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک کے ججز رقص کناں ہوں ، جس کی مرضی و منشا کے عین مطابق ججز فیصلے کرتے و سناتے ہوں، جس کے ایک اشارے پر ہی پولس، فوج ،سی بی آئی اور ای ڈی جیسے محکموں سے وابستہ ایک ایک فرد حکم کی تعمیل میں سجدہ ریز ہو ، فقیر کے مخالفین کا دائرہ حیات تنگ کر دیتا ہو، الٹا مظلوموں کو ہی کٹہرے میں لا کھڑا کرتا ہو، غریبوں ، مزدوروں ، بے روزگاروں ، کسانوں، بےبسوں ، بےکسوں ، محتاجوں ، لاچاروں ، بے قصوروں و معصوموں پر لاٹھی ٹھنڈے برساتا ہو۔ دنیا کا کوئی فقیر ایسا نہیں جو برسرِ اقتدار ہو اور وہ اپنی رعایا، بالخصوص مسلمانوں کے مذہب کا مذاق اڑاتا ہو، اس کے پیغمبر کی شان میں گستاخی کرتا ہو یا گستاخی کرنے والوں کی حمایت کرتا ہو۔ گستاخوں کے خلاف قانون کو کام کرنے دیتا ہو ناہی خود اس کی مذمت کرتا ہو، مکمل طور پر مون برت رکھا ہو مانو گونگا اور بہرا ہو۔ اپنے مخالفین کی املاک اور مدارس و مساجد پر بلڈوزر چلواتا ہو، ان کا قتلِ عام کرواتا ہو، ان کے بچوں کو یتیم اور ان کی ازواج کو بیوہ بنواتا ہو، ان کی خواتین کی عصمت دری کرواتا ہو، ان کے پیٹوں کو چاک کرواتا اور جنین کو فضا میں اچھال کر انہیں ترشول کا نشانہ بنواتا ہو، سبئیت و بہیمیت کا ننگا ناچ ناچتا ہو اورکھلے عام انصاف کا گلا گھونٹتا ہو۔ دنیا میں کہیں بھی کوئی ایک بھی فقیر ایسا نہیں جس کے ایک اعلان پر پورے ملک میں نوٹ بندی ہوجائے اور محض 4 گھنٹے کے اندر 500 اور 1000 کے نوٹوں کا Value کوڑا کاغذ سے بھی کم تر ہو جائے۔ یقینا روئے زمین پر ایک بھی ایسا فقیر نہیں ہوگا جس کے ایک فرمان پر پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا نفاذعمل میں آجائے، لوگ خود کو ایک دو دن کے لیے نہیں، بلکہ مہینوں کے لئے گھروں میں بند کر لیں۔ دنیا میں کوئی ایسا فقیر نہیں ہوگا جس کے ایک حکم پر پورے ملک کی رفتار تھم جائے، کاروبار ٹھپ ہو جائے ، اسکول ، کالج ، یونیورسٹی ، مال، کارخانہ، فیکٹری ، سنیماہال ، دکان ، بازار ، چڑیاگھر ، مسجد ، مدرسہ، مندر، گرجاگھر اورچرچ جیسے مقامات مقفل کردیے جائیں۔ ٹرین ، بس ، جہاز ، کار ، بائک سبھی طرح کی سواریوں و گاڑیوں کی آمد ورفت پر یکایک بریک لگ جائے۔ایک انسان دوسرے انسان سے مصافہ ، معانقہ اورملاقات تک ترک کردے ، ایک دوسرے سے ملنے جلنے میں بھی وحشت ودہشت محسوس کرنے لگے ، سب کچھ معطل ہوجائے ۔ جو جہاں ہو وہیں رک جائے ۔ انسان کی دوڑتی بھاگتی زندگی پر مکمل طور پر قدغن لگ جائے۔ سڑکوں ، گلیوں اور محلوں میں سناٹا اس طرح پھیل جائے کہ وہاں سے گزرنے پرخوف و دہشت محسوس ہونے لگے ۔ گاؤں اور قصبہ سے لےکر شہر تک میں ایسا سناٹا چھاجائے کہ معلوم ہی نہ پڑے کہ وہاں انسان بستے بھی ہیں ۔ دنیا میں ایسا فقیر نہیں ہوگا جس کا دوست امریکہ ، چین ، جاپان ، روس ، برطانیہ ، اسپین، اسرائیل ، فرانس اور اٹلی جیسے طاقت ورممالک کے وزرائے اعظم وصدور ہوں۔ میں نے اپنی بساط کے مطابق ایسا فقیر تلاش کرنے کی انتھک کوشش کی، مگر ایسا عجوبہ، انوکھا و شاہی فقیر کا کہیں سراغ نہیں لگ سکا، سوائے اپنے پیارے ملک ہندوستان کے!
یہ بات میں اپنی جانب سے نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ خود اس عجوبہ ، انوکھا اور عجب و غضب شاہی فقیر نے 2014 کے لوک سبھا انتخاب سے لے کر اب تک نہ جانے کتنی دفعہ کہی ہے ۔ صدرنگی گرگٹ نما اس عجب و غضب شاہی فقیر کا یہی تو سب سے بڑا ہتھیار ہے کہ اپنی باتوں کو Emotional بناکر ملک کے سادہ لوح عوام کو اپنے دام تزویر میں آسانی سے پھانسنے میں کامیاب ہے ۔ وہ خود کو کبھی چائے والے کا بیٹا بتا کر لوگوں کو گمراہ کرتا ہے تو کبھی غریب پریوار کا بیٹا بتا کر ووٹ بینک کی گندی سیاست کرتا ہے اور کبھی خود کو فقیر بتا کر سادہ لوح عوام کی ہمدردی و حمایت کو اپنے Favour میں Cash کرتا ہے۔
وطن عزیز کے ایک ایک شخص کو یاد ہے اور اچھی طرح یاد ہے کہ اس شاہی فقیر نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں کئی ریلیوں میں خود کو فقیر کہہ کر ملک کے عوام سے ووٹ مانگا تھا۔ علاوہ ازیں ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو دینے کے دوران کہا تھا :
” میرے پاس پریوار نہیں ہے ۔ میں کس کے لیے کما ؤنگا ؟ میں نہ کھاؤنگا، نہ کھانے دونگا ۔ میں تو فقیر ہوں ، جھولا لوں گا اور چل دوں گا “۔
ہندوستان کے اس عجب وغضب فقیر نے 2019 کے عام انتخابات کے دوران بھی کئی ریلیوں میں خود کو فقیر کہہ کر ایموشنل کارڈ کھیلا تھا۔میں نہیں جانتا کہ اس شاہی فقیر کو لوک سبھا انتخابات میں دوبارہ کیسے کامیابی ملی، مگر جیسے بھی ہو پر ملی ضرور۔ اس کامیابی کے بعد دہلی میں واقع بی جے پی کے ہیڈ کوارٹر میں 23 مئی 2019 کو ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں اس نے پارٹی کارکنان کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا:
” ملک کے عوام نے فقیر کی جھولی بھر دی ہے…. “۔
بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشاۓ اہل کرم دیکھتے ہیں
وطن عزیز کا یہ فقیر یقیناً دنیا کا اکلوتا عجوبہ، انوکھا اور عجب و غضب شاہی فقیر ہے۔اس جیسا فقیر کبھی بھی چشم ارض نے دیکھا ہوگا اور ناہی چشم فلک نے ہی اس کا دیدار کیا ہوگا ۔ دنیا کا ہر فقیر ہر ایک چیز کا محتاج ہوتا ہے ، تبھی تو وہ فقیر کہلاتا ہے، مگر ہندوستان کا یہ فقیر ہر چیز سے مالامال ہے۔اس فقیر کے پاس ذاتی Boing امریکی جہاز ہے جو کروڑوں کا ہے۔ اس فقیر کی BMW اٹالین کار ہے جو بم پروف ہے۔ اس کے جوتے kenneth امریکن ہوتے ہیں۔ اس کا iphone امریکن ہے ۔ اس کی گھڑی Roger Dubuis اٹالین اور سویزرلینڈ کی Rolex ہے۔ اس کا چشمہ versace اٹالین ہے۔ اس کے Sun Glases کا Coper Vision امریکن ہے ۔ اس کا قلم Monta Blanc جرمنی کا ہے۔
دنیا کا ہر فقیر پھٹیچر ہوتاہے ، اس کو اپنے تن کو چھپانے کےلیے ڈھنگ کا کپڑا نصیب نہیں ہوتا۔ پھٹا پرانا جو مل گیا ، اس سے اپنے تن کو ڈھنک لیتا ہے، اسی میں اس کو ساری دنیا کی خوشی مل جاتی ہے لیکن دنیا کا یہ عجب ع غضب شاہی فقیر 10- 10 لاکھ کا سوٹ بوٹ زیب تن کرتاہے۔ طرفہ تماشہ یہ کہ اس سوٹ بوٹ پر سونے کے پانی سے اس کا نام منقش ہوتا ہے۔ عام طور فقیر کو ایک دو سے زیادہ کپڑے نصیب نہیں ہوتے،جو ہوتے ہیں وہ بھی پھٹے و بوسیدہ ، مگر یہ عجب و غضب شاہی فقیر نوع بنوع اقسام کے زرق برق والے بیش قیمتی fashionable لباس زیب تن کرتا ہے۔ دو گھنٹے کے پروگرام میں چار پانچ لباس فاخرہ تبدیل کرتا ہے۔ دنیا میں جتنے رنگ کے قیمتی کپڑے پائے جاتے ہیں وہ سب اس کے لباس میں شامل ہیں۔ کمال تو یہ ہے کہ اس عجب وغضب فقیر کے لباس کا جو کلر ہوتا ہے اسی کلر کے 10 روپیے ، 20 روپیے ، 50 روپیے ، 100 روپیے ، 200 ، 500 اور 2000 روپے کے نوٹ چھاپنے کا سرکاری فرمان جاری کیا جاتاہے جس پر آر بی آئی گورنر آمنا وصدقنا کہتے ہیں اور بخوشی اس کو عملی جامہ پہناتے ہیں ۔
فقیر عام طور پر کسی جگہ کو اپنے لیے مخصوص کرلیتا ہے، جہاں وہ صبح وشام رومال بچھا کر بیٹھتا ہے اورلوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور ان سے مدد کی فریاد لگاتا ہے، مگر دنیا کا یہ عجوبہ و شاہی فقیر پوری دنیا کی سیر کرتا ہے۔ ابن بطوطہ کے عالمی ریکارڈ کو توڑنے کا خواب دیکھتا ہے اور حکومت کے خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لٹاتا ہے، مانو اس کی خود کی محنت کی گاڑھی کمائی ہو یا اس کے آنجہانی پتاجی نے وراثت چھوڑ رکھی ہو کہ بیٹا اس سے خوب پھٹانی کرنا۔
دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا عجب وغضب شاہی فقیر نہیں ہو گا جس نے محض ایک مجسمے کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ کیے ہوں۔یہ اعزاز تو ہندوستان کے اس عظیم شاہی فقیر کو حاصل ہے جس نے گجرات میں سردار بلبھ بھائی پٹیل کا 182 میٹر فلک شگاف مجسمہ تین ساڑھے تین ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کروایا ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب میں بھی کروڑوں روپے لٹائے ہیں۔ اسی طرح نئی دہلی میں بی جے پی کے ہیڈکوارٹر کی عالیشان فلک شگاف عمارت کی تعمیر پر اربوں روپے اڑایے ہیں۔
ہندوستان کا یہ عالمی شہرت یافتہ عجب وغضب شاہی فقیر کانگریس اور دوسری اپنی حریف پارٹیوں کے لیڈروں کو خریدنے اور ملک کی کسی بھی ریاست میں توڑ جوڑ کر بھاجپا کی سرکار بنانے میں کروڑں روپیے بےدریغ خرچ کرتا ہے۔ یہ فقیر الیکٹرونک میڈیا سے لیکر پرنٹ میڈیا پر اربوں روپے لٹاتاہے تاکہ گودی میڈیا کے چاٹوکار پترکار دن رات اسی کا قصیدہ پڑھتا رہے۔ اس کے اشارے پر ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑاتا رہے۔کشمیر، پاکستان اور مندر مسجد کی غیرضروری بحثوں میں لوگوں کو الجھائے رکھے۔ مہنگائی ، بے روزگاری اور نوکری جیسے مد عوں پر اس سے کوئی سوال نہ کرے۔اس کو قطعا یہ یاد نہ دلائے کہ 2014 کے عام انتخابات میں اس نے ڈھیروں وعدے کئے تھے ۔ وعدہ کیا تھا کہ اس کے اقتدار میں آنے کےبعد ہر برس 2 کروڑ نوجوانوں کو نوکری دی جائے گی۔ ہر غریب کے اکاؤنٹ میں 15 – 15 لاکھ روپیے ڈالے جائیں گے۔مہنگائی کو کنٹرول و کم کیا جائے گا۔ پٹرول، ڈیزل ، گیس سلینڈر ، دال ، سبزی اور دوسری سبھی چیزوں کی آسمان چھوتی قیمتوں کو زمیں بوس کیا جائےگا ۔ “سب کا ساتھ سب کا وکاس” ہوگا ۔ بیرون ممالک سے کالا دھن واپس لائے جائیں گے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔ گد ھ میڈیا کے ضمیر فروش فرضی سبھی صحافی اپنے اس شاہی فقیر آقا کی نمک حلالی کا پورا پورا ثبوت دیے رہے ہیں اور وہ وہی کر رہے ہیں جو ان سے وہ شاہی فقیر کروانا چاہتا ہے ۔ آج تک ، زی نیوز لائیو ، انڈیا ٹی وی ، نیوز 18، اے ، بی ، پی نیوز ، نیوز نیشن ، انڈیا ٹوڈے ، نیوز 24 ، سدرشن نیوز اور ری پبلک وغیرہ کے گدھ پتر کاروں، مثلاً ارنب گوسوامی، رجت شرما، سدھیر چودھری، امیش دیوگن، سمیت اوستھی ، انجنا اوم کشپ، روبیکا لیاقت، چترا ترپاٹھی، شویتا سنگھ، راہل کنول، سعید انصاری، رمانہ اسراراور دیپک چورسیا جیسے سبھی زرخرید و فقیر کے غلام صحافی اس شعر کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں :
تم دن کو کہو رات تو ہم رات کہیں گے
جو تم کو اچھی لگے وہی بات کہیں گے
نیز :
سر تسلیم خم ہے جو ہو مزاج یار میں
عجب وغضب فقیر نے چونکہ گدھ میڈیا کو خرید رکھا ہے اس لیے اس کے چاٹوکار پتر کار ہر وقت ہندو مسلم اور ہندوستان پاکستان تو کرتےہی رہتے ہیں۔ انہوں نے تبلیغی جماعت کو نشانہ بنا کر کوروناوائرس جیسی عالمی وبا کو بھی اسلام اور مسلمانوں سے ہمرشتہ کردیاتھا۔ دماغی ٹی بی کا شکار کوئی ٹی وی والا چیخ چیخ کراس وائرس کو “کورو نا جہاد “کہہ رہا تھا تو کوئی “طالبانی کورونا “۔ کوئی “مسلم کورونا “کہہ رہا تھا تو کوئی” تبلیغی بم ” کہہ رہا تھا اور نفرت کی آگ سے قومی یکجہتی کے شیش محل کو جلا کر راکھ کر رہا تھا۔ٹی وی پر ان زرخرید اینکروں کی چیخ میں بلا کی شدت ہوتی ہے اس لیے ہو نہ ہو چیختے وقت عقب سے غلا ظت نکل جاتی ہو، مگرمسلم دشمنی میں اس قدر اندھے ہیں کہ انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ عقب سے کچھ گڑبڑ بھی ہورہا ہے۔
کسی بھی ملک میں ایسا شاہی فقیر نہیں ہوگا جو ووٹ کے بدلے نوٹ کا گھناؤ نا کھیل کھیلتا ہوگا۔ الیکشن کے مقصد سےکھلوا ڑ کرتا ہوگا۔جمہوری طریقہ انتخاب کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوگا۔الیکشن کمشنر کو خریدتا ہو۔ ای وی ایم میں ہیراپھیری کراکر یا ای وی ایم کو ہائی جیک کراکر انتخاب میں فتح حاصل کرتا ہو اور اس طمطراق سے حکومت بناتا ہو کہ مانو عوام نے انہیں فتحیاب اور اقتدار کے تخت و تاج پر براجمان کیا ہے ۔ دنیا میں کوئی ایسا فقیر نہیں ہوگا جو ریلیوں اور سبھاؤں میں کرائے کے ٹٹوؤں کو بلاتا ہو اور ان سے اپنے نام کا جاپ کرواتا ہو،مگر ہمارے ملک کا یہ عجب وغضب فقیر اپنی ہر ریلی میں بھاڑے کے ٹٹؤوں کو بلواکر ان سے اپنے نام کا جاپ جپواتا و نعرے لگواتا ہے اور ان پر کروڑوں روپئے لٹاتا ہے۔
ہمار ے سماج میں فقیروں کو کوئی نہیں پوچھتا اور ناہی ان کی باتوں کو کو ئی اہمیت د یتا ہے،مگر یہ ایسا فقیر ہے جس کے اندھ بھکتوں کی بڑی تعداد ہے جو اس کے ہر حکم کی تعمیل میں ہمہ وقت سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ان میں یہ بھی سوچنے سمجھنے یا تفریق کرنے کی صلاحیت نہیں کہ اس کے عجب وغضب آقا کی بات عقل سے لگتی ہوئی ہے بھی یا نہیں۔ جو کرنے کا فرمان جاری کیا جارہا ہے اس کی اصلییت و حقیقت ہے یا نہیں ؟ مثلا وہ فقیر کورانا وائرس کو بھگانے کے لیے تالی ،تھالی اور گھنٹی بجانے کی سفیہانہ واحمقانہ بات کہتا ہےتو اندھ بھکت بڑی خوشی سے ایسا کرتے ہیں۔ جب وہ کورونا سے نجات پانے کےلیے گھر کی لائٹ بند کرکے دیا ، ٹارچ اور موم بتی جلانے کی غیرمنطقانہ،بلکہ جاہلانہ بات کرتا ہے تو بھی اندھ بھکتوں کو نہیں لگتا کہ یہ محض بے وقوف بنانے والی بات ہے۔ اس وقت بھی ان کو لگتایے کہ یہ ایشوریہ کتھن ہے۔
فقیر بھی اپنے اندھ بھکتوں کو تھوڑی بہت اہمیت دیتا ہے۔ جب وہ اخلاق احمد ، پہلو خان ، تبریز انصاری اور دوسرے بےقصور مسلمانوں کو ماب لنچنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں تو انہیںٰ سزا دینے کی بجائے ان کو پھول مالا پہنا کر ان کی آؤ بھگت کرواتا ہے اور انہیں بہادر ہونے کا تمغہ دلواتا ہے۔جب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف وہاں کے طلبہ اپنے حقوق کے لیے پرو ٹیسٹ کرہے ہوتے ہیں اور ان پر جن سنگھی گولی چلاتا ہے تو اس کو نابالغ بتا کر اس کے ساتھ عفو درگزر کا معاملہ کرواتاہے۔ جب شاہین باغ کے مظاہرین پر آرایس ایس کا پٹھو گولی چلاتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی بجا ئے اس کو تحفظ فراہم کرواتا ہے اور اس کے سامنے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ “جب سینیاں بھئیل کوتوال تب ڈر کاہے کا”۔
دنیا کے کسی بھی فقیر کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کون مسمان ہے۔کون ہندو اور کس کا کونسا مذہب ہے،مگر اس فقیر کو ان سب چیزوں سے بہت مطلب رہتا ہے۔ یہ فقیر پیدائشی طور پر مسلمانوں کا دشمن ہے۔اس کو مذہب اسلام یک آنکھ بھی نہیں بھاتا۔ملک میں مسلمانوں کے وجود سے اس کو سخت نفرت ہے۔ یہ چاہتاہے کہ مذہب کی بنیاد پرہندوستان کو تقسیم کردیا جائے ۔ یہاں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے آئین و قوانین کو ختم کرکے منو اسمرتی کو قانونی حیثیت دے دی جائے اور اس کو ہندو راشٹر بناکر آرایس ایس کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جائے تاکہ پورے ملک پر صرف 14 فیصد برہمنوں کا ہی راج چلے۔باقی سبھی ذات،دھرم اور طبقہ کے 86 فیصد لوگ شدر کے زمرے میں رکھ د ئیے جائیں اور انہیں ہرطرح کے حقوق ومروعات سے محروم کردیاجائے۔مسلمانوں پر اس فقیر کےظلم و بربریت کی داستان الم ناک سے پوری دنیا واقف ہے۔ جب یہ فقیر گجرات میں وزیراعلی تھا تو 2002 میں وہاں کے مسلمانوں کے اوپر جس طرح ظلم و بربریت کا ننگا ناچ ناچا گیا وہ ہندوستانی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ وہاں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ مسلمانوں کے مکانات کو بے دردی سے نذر آتش کیا گیا۔ مسلمان عورتوں کی عصمتیں تار تار کی گئیں۔ حاملہ مسلم عورتوں کے پیٹوں کو چاک کرکے ان کے جنین کو فضا میں اچھالا گیا اور پھر ترشول پر ان جنین کو گھوپاگیا۔کانگریس لیڈر احسان جعفری اور ان کے اہل خانہ کو گھروں میں بند کرکے جلا گیا۔چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور پورے گجرات میں جس طرح درندگی و حیوانیت کا کھیل کھیلا گیا۔اب جب یہ فقیر وزیراعظم ہے تب بھی ملک کے مسلمانوں کو اس نے اور اس کے غنڈوں و دہشت گرد ہمنواؤں نے اپنے نشانے پر لے رکھا ہے اور انہیں طرح طرح سے اذیت پہنچارہاہے ہیں۔سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر وغیرہ اس فقیر کے ناپاک ایجنڈوں کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ مسلمانوں کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے یا پھر ان کے سبھی طرح کے حقوق و مراعات کو ختم کرکے ہندوراشٹر بنانا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں سے ووٹ دینے کا حق چھین لیا جائے ، انہیں سرکاری نوکری نہ دی جائے ، انتخابات لڑنے سے محروم کر دیا جائے اور مسلمان محض اور محض ان کا غلام بنکر رہیں یا پھر ڈیٹینشن کیمپ میں قید و بند ہوکر دنیا میں جہنم جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں۔
اس فقیر اور اس کے کچھ کوڑھ دماغ نیتاؤ ں کی وجہ سے آج پورے ملک میں ہندو مسلمانوں کے درمیان نفرت کی آگ لگ چکی ہے، انہیں خبیثوں کی وجہ سے ملک کی راجدھانی دہلی کے بھجن پورہ ، مصطفی آباد ، شیواجی نگر ، جعفرآباد، موجپور اور یمونا وہار، جہانگیر پوری جیسے علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی ہوئی، مسلمانوں کی دکانیں اور ان کے مکانات نذرآتش کئے گئے ہیں۔ مسجد توڑی گئی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ الٹے مسلمانوں کو ہی فسادات بھڑکانے کا قصور وار ٹھہرایا گیا اور سینکڑوں مسلمانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قیدو بند کر دیا گیا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ کہ آر ایس ایس کے ایک خاص شخص کو عام سمجھ کر مسلمانوں نے دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران اپنی بھرپور حمایت کی تھی اور مسلسل تیسری بار وزیر اعلی بننے کا موقع دیا تھا، اس صد رنگی گرگٹ نے بمصداق ” منہ پر رام رام ، بغل میں چھری ” اپنے آپ کو نہ صرف ابن الوقت ہونے کا ثبوت پیش کیا ، بلکہ آر ایس ایس کا پکا ایجنٹ ہونے پر بھی مہر تصدیق ثبت کردی ۔ جب دہلی جل رہی تھی اور مسلمانوں کو مارا کاٹا جا رہا تھا تب یہ گرگٹ سراخ میں بند ہوگیا تھا۔ بعد میں نمودار ہوا بھی تو بڑی صفائی سے یہ کہہ کر پلہ جھاڑ لیا کہ دہلی پولیس اس کے اختیار میں نہیں۔دھلی پولیس کی لگام مرکزی وزیر داخلہ کے ہاتھوں میں ہے۔ گویا یہ اور وہ دونوں موسیرے بھائی ہیں اور دونوں کچھ بھی کرلیں، مگر ان دونوں کی صحت پر کوئی فرق پڑتا۔ان دونوں پر کلیم عاجز کا یہ شعر صادق آتا ہے:
دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
یہ عجب وغضب فقیر خود کو ایک غریب پریوارکا فرد باور کراتا ہے لیکن اسے غریبوں سے سخت نفرت ہے، تبھی تو امریکی سابق صدر کے( 24 فروری 2020 کو) ہندوستان دورے سے قبل گجرات کے احمد آباد میں واقع غریبوں کی کچی بستیوں اور وہاں کے مکانوں کو طویل دیوار سے راتوں رات کروڑوں روپے خرچ کرکے ڈھانکوا دیتا ہے تاکہ جب دوست کو احمدآباد میں استقبالیہ دیا جائے تو اس کی نظر غریبوں کی جھونپڑیوں پر نہ پڑے اور ان کے سامنے گجرات ماڈل کی پول نہ کھل سکے۔بقول مومن خان مومن:
غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا
میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا
کہا جاتا ہے کہ اس شاہی فقیر نے اپنےامریکی یار کی آمد پر تقریبا ایک سو بیس کروڑ روپیے سرکاری خزانے سے خرچ کئے اور انہیں شاندار استقبالیہ دیا۔ ایسا کر کے اسں نے 2019 میں امریکہ میں منعقد ایک پروگرام کا کفارہ ادا کیا تھا۔حالانکہ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کا یہ امریکی یار بالکل بھی دلدار نہیں۔ وہ تو ایک نہایت کنجوس، مگر شاطر دماغ ہے۔اس نے اپنے صدارتی انتخاب کے پیش نظر امریکہ میں مقیم ہندستانیوں کے درمیان پروگرام کروایا تھا اور اس نے الٹے اس شاہی فقیر سے ہی کروڑوں روپیے خرچ کر وائے تھے۔حالانکہ اس امریکی یار کو صدارتی انتخاب میں شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
دنیا کے اس عجب و غضب فقیر کے بھیک مانگنے کا انداز بھی انوکھا اور عجوبہ ہی ہے۔ کبھی وہ ملک کے خوشحال لوگوں سے بھیک مانگتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ لوگ گیس سلینڈر کی سبسڈی کے روپیے لینا چھوڑ دیجئے تو کبھی پلوامہ حملے میں شہید فوجیوں کے اہل خانہ کی مدد کے نام پر مدد کی فریاد لگاتا ہے اور کبھی کورونا کا رونا رو کر لوگوں سے بھیک مانگتا ہے۔ اس نے کورونا کے برے حالات میں پی ایم راحت فنڈ کے ہوتے ہوئے الگ سے اپنا “پی ایم کیریس فنڈ ” بنایا تھا اور لوگوں سے اپیل کی تھی کہ یہ فنڈ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ ناخوشگوار حالات میں ضرورت مندوں تک مدد پہنچانے کا ذریعہ بنے گا۔ اس فقیر نے پی ایم کیریس فنڈ کے نام سے بھیک کا جھولا جیسے ہی لوگوں کے سامنے پھیلایا ویسے ہی اس میں بھیک ودان ڈالنے والوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اکشے کمار نے 25 کروڑ، نانا پاٹیکر نے ایک کروڑ، سلمان خان نے سو کروڑ ،شاہ رخ خان نے 250 کروڑ، عظیم بیگ نے پچاس ہزار کروڑ، اسدالدین اویسی نے 13 کروڑ، محمد کیف نے ایک کروڑ، ظہیر خان نے 2 کروڑ ،عرفان پٹھان اور یوسف پٹھان نے مشترکہ طور پر 5 کروڑ، عامر خان نے 200 کروڑ، ثانیہ مرزا نے سوا سو کروڑ، مہندسنگھ دھونی نے ایک لاکھ دیے تھے جبکہ دہلی جامع مسجد کی طرف سے 20 کروڑ اور سنی وقف بورڈ کی طرف سے 200 کروڑ روپیے دان کئے گئے تھے۔ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے اداروں،تنظیموں اور فلم، کرکٹ اور صنعت کی دنیا سے وابستہ شخصیات نے بھی اس فقیر کے لیے دریا دلی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اب تک “پی ایم کیرس فنڈ ” کے نام سے اس شاہی فقیر کے جھولا میں بھیک اور دان کی کتنی رقم ڈالی گئی۔ اندازہ ہے کہ اس فنڈ میں اربوں روپیے ڈالے گئے ہونگے۔ بھیک دینے والوں نے اتنی فراخدلی کا مظاہرہ کیوں کیا تھا میں نہیں جانتا۔ بھیک دینے والے بخوبی جان رہے تھے کہ اس فقیر نے گجرات سے لے کر دہلی تک کی اپنے حکومت میں کوئی بھی کام عوامی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی کیلئے نہیں کیا ہے۔ وزیراعلی کی حیثیت سے گجرات کے لوگوں کے ساتھ چھلاواکیا، انہیں ،ٹھگا بیوقوف بنایا ،ہندومسلم کے درمیان نفرت کی آگ بھڑکائی اور آر ایس ایس کو مستحکم کیا۔اس کے برعکس ہمیشہ غریبوں،کسانوں، مزدوروں،بیروزگاروں اور نوجوانوں کو ٹھینگا دکھایا، ان کے مسائل کو یکسر نظر انداز کیا اور انہیں کبھی بھی خاطر میں نہیں لایا۔ان کے ساتھ مسلسل مکر، فریب، دجل،تلبیس اور چھلاواکیا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس نے اب تک اپنا ایک بھی وعدہ وفا نہیں کیا ہے۔جب بے روزگار روزگار مانگتے ہیں تو انہیں پکوڑا بیچنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ جب لوگ مہنگائی کی شکایت کرتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ عالمی سطح پر مہنگائی بڑھی ہوئی ہے۔جب انہیں ان کے وعدے یاد دلائے جاتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ وہ تو انتخابی جملے تھے۔
عین ممکن ہے کہ کیئر فنڈ کے روپیوں سے وہ عجب و غضب فقیر اپنا سامان تعیش خریدے گا، کرایہ کے ٹٹؤوں سے ریلیوں میں اپنے نام کا جاپ جپوائےگا،کسی ریاست میں کانگریس اور دیگر حریف پارٹیوں کے لیڈران کو خرید کر ان کی سرکار کو گرانے اور اپنی سرکار بنانے میں استعمال کرے گا۔”نوٹ فار ووٹ” کا کھیل کھیلے گا، پاکستان کو لعن طعن کرنے، کشمیریوں کو برا بھلا کہنے اورہر مسئلہ میں ہندومسلم کے درمیان نفرت کی آگ بھڑکانے والے ٹی وی چینلوں اور ضمیر فروش صحافیوں و چاٹو کار پتر کاروں کی منہ بھرائی کرے گا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد جو کچھ بچے گا اس کو اپنے جھولا میں رکھ دےگا۔جب وہ یہ محسوس کرنے لگے گا کہ اب اس کے ظلم اور پاپ کا گھرا بھر گیا، اس کی بربریت انتہا کو پہنچ گئی،لوگوں کے سامنے اس کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا،اس کے جھوٹے و کھوکھلے بیانوں کو لوگ سمجھنے لگے ہیں،اس کےاچھے دن لدنے والے اور برے دن آنے والے ہیں تو شاید وہ جھولا اٹھاۓ گااور امریکہ، لندن ، دبئی یا پھر دنیا کے کسی اور ملک میں جا چھپے گا۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب ملک کے عوام بھی چاہتے ہیں کہ اس عجب وغضب شاہی فقیر سے جلد نجات ملے۔ خاص کر مہنگائی، بےروزگاری، نوٹ بندی ، جی ایس ٹی اوربغیر منصوبہ کے لاک ڈاؤن، ہندو مسلم کے درمیان نفرت، مساجد و مدارس پر بلڈوزر سے حملہ اور اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم و اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان اقدس میں بے ہودہ بیانات او گستاخانہ معاملات کو لے کراس کے خلاف نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا تمام مسلم ممالک اور امریکہ و دیگر مغربی ممالک میں شدید ناراضگی پائی جارہی ہے۔ مزید برآں یہ کہ بات بات پر گاندھی جی، پنڈٹ جواہرلال نہرو، سونیا گاندھی، پرینکا گاندھی، راہل گاندھی، منموہن سنگھ اور کانگریس حکومت کو نشانہ بنانے، ملکی و خارجہ پالیسی پر ان سب کو دھاڑ کر آڑے ہاتھوں لینے، پاکستان میں گھس کر مارنے، ایک سر کے بدلے سو سر کاٹنے اور چین کو لال آنکھ دکھانے کی بات کہنے والے کی حالت نہایت پتلی ہوچکی ہے۔اقتصادیات و معاشیات کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ نیپال وچین نے ہندوستان کےکئی علاقوں اور حصوں پر قبضہ کر لیا ہے، اپنا گاؤں بسالیا ہے،پلوں کی تعمیر کروالی ہے اور یہاں کے درجنوں فوجی جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیاہے۔ان سب سے عجب وغضب فقیر نکو اور گونگا نظر آر ہا ہے، اس کا 56 انچ کا سینہ سکڑ کر 26 انچ ہوگیاہے، اس کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اب وہ کرے تو کیا کرے۔
قارئین ! قصہ کوتاہ یہ کہ اس فقیر نے پوری زندگی میں نہ اپنے آنجہانی پتاجی سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا، نہ ماتا جی کے وعدہ کو ساکار کیا، نہ بنارس کی گنگا میاں کے وعدہ کا ایفا کیا اور نا ہی ملک کے عوام سے کئےاپنے سینکڑوں دلفریب و خوش کن وعدوں میں سے کسی ایک کو ہی پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے، مگر ہمیں صد فی صد امید، بلکہ یقین ہے کہ وہ اپنا یہ وعدہ ضرور پورا کرے گا کہ “جھولا لونگا، چل دونگا” ، صبر کریں اور انتظار کریں، یقیبا وہ دن ضرور آئے گا جس دن فقیر اپنا جھولا لے گا اور چل دےگا۔۔۔۔۔۔۔!