ظفرکمالی کی صفدری رباعیاں

0
142

امتیاز وحید

شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی

صفدرفہمی کا ایک حوالہ ظفرکمالی کی وہ رباعیاں ہیں، جن میںصفدرامام قادری صاحب کی شخصیت کو بنیاد بناکر موصوف کے امیال و عواطف،علمی کارنامے،زندگی کی ترجیحات،پٹنے میں درپیش چیلنجز، روزوشب کے معمولات ، کالج،طلبہ اور ان کے تدریسی جنون ، زندگی کی محرومیوں، ادبی سرگرمیوںاوردرون و بیرونِ ذات کے مختلف رنگ اور پہلوئوں کو قریب سے دیکھنے اورانھیں نشان زدکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ کام ظفرکمالی جیسے ان کے رفیقِ دیرینہ ہی انجام دے سکتے ہیں، جو انھیں ایک طویل عرصے سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔تقریباً چالیس برسوںپر محیط یہ دوستانہ تعلق زمانۂ طالب علمی کی یادگارہے،جو وقت کے ساتھ مزید مستحکم، پُراعتماد اور باوقارہوتا جارہا ہے۔اس دوران میں کئی نشیب و فراز آئے تاہم دوستانہ مراسم اوران کی اخلاقیات پرآنچ نہیں آئی۔ تعلقات کا یہ کنایہ ذاتی اورنجی دائرے سے ہوتا ہواادبی اور علمی اخذو استفادے تک پھیلا ہواہے۔دونوں دو مختلف کالج اور شعبے میں مدرّس ہیں۔ صفدرامام قادری کاتعلق پاٹلی پترا یونیورسٹی، پٹنہ کے شعبۂ اردو ،کالج آف کامرس سے ہے ،جبکہ ظفرکمالی جے پرکاش یونیورسٹی،چھپرا کے زیڈ۔اے اسلامیہ کالج، سیوان میں شعبۂ فارسی میں استاد ہیں۔ علم وادب سے دونوں کا تعلق بہت گہراہے۔ صفدرامام قادری تازہ دم اسکالر،ناقد، کالم نویس اور مدرّس کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ ظفرکمالی کاامتیاز شعرونثرمیں قائم ہوچکا ہے،جہاں وہ گذشتہ چاردہائیوں سے پوری یکسوئی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہیں۔ تصنیف الرجال دونوں کا میدانِ عمل ہے ، ساتھ ہی دونوں کے پاس کثیر ادبی سرمایہ ہے، جس پردن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔

اردو میںشخصی رباعیوں کی روایت کوئی آج کی بات نہیں بلکہ طویل ہے۔ ذات کی خوبیاں شخصی رباعیوں کا اصل محرک بنتی ہیں،جو بالعموم چار چھے یا اس سے کچھ زائد رباعیوں پر سمٹ جاتی ہیں۔علقمہ شبلی کا ایک مجموعۂ رباعیات’چہرہ نامہ‘ محض شخصی رباعیوں پر مشتمل ہے تاہم کسی بھی شخصیت پررباعیوں کی تعدادآٹھ سے آگے نہیں بڑھتی۔شاہ حسین نہری نے گرچہ اپنے شخصی رباعیات کے مجموعے’گل بدن کی یاد میں‘میں ایک قابلِ لحاظ تعداد میں رباعیاں کہی ہیں تاہم وہ رباعیاںبھی چوہتّر پر سمٹ گئی ہیں۔ اس عام روش کے علی الرغم صفدرصاحب کے سلسلے سے ظفرکمالی نے ایک سو پچیس رباعیاں کہی ہیں۔ اس طرح ایک طرف جہاں شخصی رباعیوں کے باب میں رباعی گو کے کمالات ہمارے سامنے آتے ہیں وہیں اس شخصیت کاطلسم بھی وجہہِ کشش بنتا ہے، جنھیں سامنے رکھ کراتنی بڑی تعدادمیں رباعی کہنے کی گنجایش نکل آئی ہے۔
شخصی تعارف و توقیر کے لیے شاعری کی مختلف ہیئت کا استعمال ہوتا رہا ہے لیکن کسی فرد یا شخصیت کے لیے صنفِ رباعی کا انتخاب یا پیمانہ اختیارکرناکئی معنوں میںقابلِ توجہ ہے۔ وزن وبحر کی دشوارگزاری، شاعرکی فنی پختگی اور اس کی مشّاقی جیسے بدیہی اوصاف سے زیادہ یہ صنف دانشوری کے فنکارانہ اظہار کا وسیلہ خیال کی جاتی ہے۔ استادانہ سطوت کے اظہارکا کنایہ بالعموم رباعی کی خارجی ہیئت اور چوبیس اوزان کے فنکارانہ استعمال ہی کو سمجھا جاتا ہے جبکہ اصل ہدف رباعی کے داخلی اختصاص و امتیازات ٹھہرتے ہیں۔خلّاقی رباعی کا وصف ہے اور یہ صنف زندگی کی گہری معنویت تک رسائی کا وسیلہ ہے۔ شخصی رباعی کا اختصاص یہ ہے کہ زندگی کے متنوع پہلوئوں پر لطیف اشاروں اور نکتہ سنجی کے درمیان غزل کی طرح پس منظر میں ممدوح کی ذات جلوہ فگن رہتی ہے۔ شخصی رباعیوں کا معنوی آہنگ محبوب سے قوت کشید کرتا ہے۔

یہ رباعیاںدراصل شخصی مرقعے، خاکہ اور سوانح کے قبیل کی چیز ہیں، جن کا بنیادی محرک رشتوں کا تحفظ اور اس کا احترام ہے۔شاعری کی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ شاعر کو یہ آسانی ہوتی ہے کہ وہ صراحت کے بغیراپنی بات کہہ سکتا ہے۔ان رباعیوں کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ ظفرکمالی نے صفدرصاحب کی زندگی کے ایک ایک پہلو کو نظم کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو صراحت کے ساتھ پیش کیا اور جب کسی ایک آدمی پر اتنی بڑی تعداد میں رباعیاں کہی جائیں گی تو اس کی زندگی کے مختلف پہلو آئیں گے ہی۔اس میں بالکل سامنے کے پہلو اور پوشیدہ پہلو سبھی آئیں گے یا شخصیت کی تہہ میں اتر کر کچھ ایسی باتیں تلاش کرلی جائیں گی، جو عام طور پر لوگوں سے پوشیدہ ہیں۔ فنکاری یہ ہے کہ بادی النظر میں رباعی گو کی نگاہ ذاتی اوصاف و کمالات پر مرکوز ہوتی ہے لیکن اس کا اصل ہدف شخصیت کا محجوب اور مخفی گوشہ ہوتا ہے، جن تک رسائی کے لیے نظرکی ضرورت پڑتی ہے۔وہ نکتہ رباعی میں ڈھل کر نہ صرف خوشگوار تحیرات کی فضاخلق کرتا ہے بلکہ اس سے شخصیت کے آفاق بھی روشن ہواٹھتے ہیں۔ شخصیت شناسی میں ظفرکمالی بڑی باریکی سے چیزوں کو دیکھتے ہیں اور بڑی صفائی اور ایمانداری سے اپنی بات کہتے ہیں۔کئی بار ناپسندیدہ بات بھی اس بیان کا حصہ ہوتی ہے۔ ایک شاگرد کے بموجب صفدرصاحب کا کہنا ہے کہ ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ظفرکمالی نے ہاتھ میں قرآن لے کریہ رباعیاں لکھی ہیں‘‘۔صفدرشناسی کے سلسلے کی یہ رباعیاںانھی اسباب کی بنا پر ہماری توجہ کی مستحق ہیں۔

یہ رباعیاں وقفے وقفے سے ٹھہر ٹھہر کر تقریباً دس برس (۲۰۱۳ء تا ۲۰۲۳ء) کے عرصے میں کہی گئی ہیں۔ احساس ہوتا ہے کہ کسی ایک بھی رباعی کی بُنت میں سہل پسندی یا رواروی کا گزرنہیں بلکہ زور شخصیت کے درون سے چھن کر آنے والی حقیقتوں پر مرکوز ہے۔وہ بھی فنِ رباعی کی معنوی مقتضیات پر کچھ اس ذمے داری کے ساتھ کہ تخلیقی عمل میں نظرنہ صرف فنکاری کے خارجی امور پر ٹکی رہے بلکہ شخصیت کے حسبِ حال شاعراپنی فہم و فراست،فکری بصیرت اور برنائی کو بھی بروے کار لائے اور اظہارکے پردے میں شخصی حقائق کے جمال کو خود بھی دیکھے اور قاری کو بھی دکھائے۔ اس عمل میںشاعراس احساس سے بھی بے گانہ نہیں کہ رباعی اپنے معنی کا دانشورانہ رخ از خود متعین کرتی ہے۔

زیرنظر رباعیوں کا ستّرفیصدی حصّہ صفدرامام قادری کے قیامِ عظیم آبادسے متعلق ہے، جہاں وہ گذشتہ چاردہے سے مقیم ہیں۔یہ شہراُن کے لیے کارگاہِ عمل ہے۔۱۹۸۴ء میں بہار یونیورسٹی، مظفرپور سے پوسٹ گریجویشن کے بعد وہ یہاں منتقل ہوئے۔ ۱۹۹۲ء میں تقررکے بعد سلسلہ دراز ہواتو صفدر صاحب یہیں کے ہوکر رہ گئے تاہم وہ ہنوز خود کوپٹنے کی فضامیں پوری طرح تحلیل نہیں کر پائے۔ یہ شہر ’عدمِ قبولیت‘ کو اپنا حسن جانتا ہے تاکہ اندرون و بیرون کا فرق مٹنے نہ پائے۔ روایتی طور پر قدیم زمانے سے پٹنہ گنگاپار والوں کے لیے کبھی کشادہ قلب نہیں رہا۔ آدمی خواہ کتنا ہی کارآمد کیوں نہ ہواہالیانِ پٹنہ کی نگاہ میں’غیر‘ٹھہرتا ہے اور کھٹکتا ہے۔ اعتبارکے دائرے میں دیکھنا تو کجااسے علمی طور پر کام کرنے والا بھی نہیں مانا جاتا۔پٹنہ میں صفدرصاحب کواس صورت حال کا ہمیشہ سے سامنا رہا ہے۔ ظفرکمالی نہ صرف حقیقتِ حال سے پوری طرح واقف ہیں بلکہ وہ صفدر صاحب کی اس مہم جُو طبیعت سے بھی آگاہ ہیں،جومخالف ماحول اور صورتِ حال میں جینے کا ہنرجانتی ہے،اس میں نبردآزمائی کاحوصلہ ہے بلکہ وہ پوری دلجمعی سے ہرجگہ اپنے ہونے کا احساس بھی درج کراتی رہتی ہے۔ذیل کی رباعیوں میں پٹنے میں صفدرصاحب کے گردوپیش کے ماحول اوراس میں صفدرصاحب کی ثابت قدم شخصیت جلوہ نماہے:
آغوشِ گردش میں جینا سیکھا
تیروں کی بارش میں جینا سیکھا
فن جینے کا اس سے سیکھو ، اس نے
کوفے کی سازش میں جینا سیکھا

دل پر جو لگیں زخم تو سہلائے نہیں
گھبرانے کی باتوں سے بھی گھبرائے نہیں
حیرت سے نہ کیوں اس کو تکے بادِ سموم
یہ پھول خزائوں میں بھی مرجھائے نہیں

ہیں تیر ہزار اس کا سینہ تنہا
یہ صبر و تحمّل کا نگینہ تنہا
آلام کی بپھری ہوئی موجوں کے بیچ
رہتا ہے رواں اس کا سفینہ تنہا

مضبوط ارادوں کے حامل صفدرؔ
عاقل صفدر بڑے ہی قابل صفدر
ہیں ان پہ زمانے کی نگاہیں مرکوز
کتنوں کی جستجو کے حاصل صفدرؔ

دریا کی طرح اس نے بہنا سیکھا
حالات کی سختیوں کو سہنا سیکھا
کھا کھا کے بہت چوٹ ، بڑی محنت سے
نرغے میں حاسدوں کے رہنا سیکھا
متذکرہ رباعیوں میں ’کوفے‘ میں مقیم ایک ایسے صفدرسے ملاقات ہوتی ہے ،جو کشاکشِ حیات کا شیدااوروالاہے،حالات کی سختیاں برداشت کرتا ہے،مضبوط قوتِ ارادی کا مالک ہے، چوٹ کھاتا ہے، حاسدوں کے درمیان رہتا ہے لیکن مخالف ماحول میں کسی صورت سپر ڈالنے پر آمادہ نہیں۔وہ ہرآن اپنی خوداعتمادی کا ہنرآزماتا ہوادکھائی دیتا ہے۔وہ خود صفدرہے،اسم بامسمیٰ؛ صف شِکن،بہادر اور دلیر۔لہٰذا گھبرانا کیا وہ دریاکے مانند حالات کی بپھری موجوں کے درمیان سے گزرجاتا ہے۔ذیل کی رباعی میں لفظِ’ صفدر‘ کی رعایت سے ’باطل‘ کا حسن ملاحظہ ہو:
ٹھوکر میں رکھے اونچے دربار کے بُت
پوجے نہیں اس نے غلط افکار کے بُت
صفدر ہے تو باطل کی صفوں میں گھس کر
توڑے ہیں بہت اس نے پندار کے بُت
صفدرصاحب زمانۂ طالب علمی ہی سے بڑے فعال رہے۔مطالعہ کا ذوق بھی انھیں خوب رہا۔اپنے زمانے میں وہ تقریباً ہر علمی سمینار میں نہ صرف شرکت کیا کرتے تھے بلکہ ہدف یہ متعین کیا جاتا تھا کہ سمینار کے موضوع کے حسبِ حال خوب مطالعہ بھی کیا جائے ؛ضروری نہیں کہ انھیں اس سمینارمیں مدعوہی کیا جائے یا وہ مقالہ نگارہی کی حیثیت سے شریک ہوں۔تاہم وہ،ظفرکمالی خورشید اکبراوراس وقت زیرِتعلیم ان کے دیگراحباب پوری تیاری کے ساتھ شریکِ بزم ہوتے تھے۔ظفرکمالی ‘صفدرصاحب کے تیورکے عینی مشاہد ہیں۔رباعی میں اسی صفدری برق و رعد کی طرف اشارہ مقصود ہے۔
حق کا علم بلند کرنے، حق بیانی سے کام لینے اور اس کے برملا اظہارکے حوالے سے صفدری زنبیل میں نہ عزائم کی کمی ہے اور نہ واقعات کی۔صفدر حوصلہ منداورجری ہیں۔یہ حوصلہ انھیں مرعوبیت کی تمام تر لہروں میں سلامت روی سے منزلِ مقصود تک پہنچاتا ہے۔چنداور رباعیاں ملاحظہ فرمائیں:
کیوں ساتھ سدا نہ دے وہ سچّائی کا
ہے شوق اسے محاذ آرائی کا
خاطر میں وہ دشمنوں کو لائے کیسے
نام اس نے کہاں سنا ہے پسپائی کا

رونا وہ کسی بات کا روتا ہی نہیں
غفلت کی کبھی نیند وہ سوتا ہی نہیں
ہے اُس کے کلیجے میں قیامت کا دَم
مرعوب کبھی کسی سے ہوتا ہی نہیں

حکمت کی کوئی کمی نہیں ہے اس میں
ندرت کی کوئی کمی نہیں ہے اس میں
کہتا ہے برملا وہ کہنے کی بات
جرأت کی کوئی کمی نہیں ہے اس میں
حق گوئی اورجرأتِ رندانہ کی بدولت صفدرصاحب نے بہت دشمن بنائے:
رہبر ہیں کہاں اس کے رہزن ہیں بہت
دشمن ہی بنائے ہیں تو دشمن ہیں بہت
وہ توڑ کے نکلے گا لیکن سب کو
ہرگام جو سازشوں کے بندھن ہیں بہت
نتیجتاً ان پر دشنامی کے پتھرپھینکے جاتے ہیں اوربہتان تراشے جاتے ہیں:
دشنام کے پتھّر بھی چلے ہیں اُس پر
بہتان کے خنجر بھی چلے ہیں اُس پر
ایسے ہی نہیں اُسے سراَفرازی ملی
احساس کے نشتر بھی چلے ہیں اُس پر

بہتان سے ملتی ہی نہیں اس کو نجات
گھمسان سے ملتی ہی نہیں اس کو نجات
ہر سانس نئی الجھن بن کر آئے
طوفان سے ملتی ہی نہیں اس کو نجات

بہتان کی بارشوں سے واقف صفدر
اغیار کی سازشوں سے واقف صفدر
آنکھیں ہیں کھلی ہوئی تو کیسے نہ رہیں
اپنوں کی ’’نوازشوں‘‘ سے واقف صفدر

لگتی ہی رہی دل پر آلام کی چوٹ
احباب کے سو طرح کے الزام کی چوٹ
فولاد نہیں بنے وہ کیسے؟ اس نے
کھائی ہے بہت گردشِ ایّام کی چوٹ

کب اُس نے نہیں کھائے ہیں گھاو بہت
احباب نے مارے ہیں اسے داو بہت
وہ کیسے کرے خود کو مرتّب آخر
باطن میں جب اُس کے ہے بکھراو بہت
بظاہرتہمتوں میں گھری صفدر صاحب کی زندگی اور وقتاً فوقتاًانھیں مطعون رکھنے کی منصوبہ بند سازش کے پس پردہ کوئی حقیقت نہیں بلکہ مخاصمت کارفرماہوتی ہے۔اس صورتِ واقعہ کو بڑی لطافت کے ساتھ رباعی کے قالب میں یوں ڈھالا گیا ہے:
رعنائی کو اللہ سلامت رکھّے
دانائی کو اللہ سلامت رکھیّ
ایسا ہے وہ رسوا؟ تو دعا کرتا ہوں
رسوائی کو اللہ سلامت رکھّے
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہ کون سی ’رسوائی‘ ہے، جس کے لیے سلامتی کی دعاکی جارہی ہے تو عقدہ کھلتا ہے کہ لفظِ ’رسوائی‘یہاں اپنے سیدھے مفہوم میں نہیں بلکہ طنزیہ انداز میں بیان ہوا ہے۔ ظفرکمالی طنز نگار بھی ہیں۔یہاں انھوں نے عمداً اپنے طنزیہ ہنرکو آزمایا ہے تاکہ یہ باورکراسکیں کہ ایک شخص (صفدر)جو ہر ادارے میں یکساں طور پر نامقبول اورناپسندیدہ ہے لیکن جب وہ ا س کی تہہ میں جاتے ہیں تو انھیں ایسا لگتا ہے کہ اس کی کوئی اور وجہ نہیں بلکہ محفل میں اس کے جانے کے بعد دوسروں کا رنگ پھیکا پڑجاتا ہے، ناپسندیدگی کی اصل وجہ یہ ہے۔لہٰذا وہ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اس وجہ سے اگر وہ ’رسوا‘ ہے تو ایسی رسوائی سلامت رہے۔
راست گوئی اورحق بیانی کے اسی تسلسل کے ساتھ آگے بڑھیں تو ظفرکمالی ہمیں اپنی رباعیوں میں صفدر صاحب کے غیرمصالحانہ رنگِ’تنقید‘ کی طرف بھی مائل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ظرافت نگار اور نقّاد دنوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ حق کے علم بردار ہوتے ہیں۔ ان کی یہ حس کب بیدار ہوجائے گی ، کہنا مشکل ہے۔حق بات خواہ کتنی کڑوی اور دوستوں سے دوری کا سبب بنتی ہو، بحیثیتِ نقّادصفدر صاحب اپنے اس اساسی منصب سے کبھی غافل نہیں رہے۔طالب علمی کے زمانے میں اپنے والدکی شاعری پر لکھنے کا موقع ہاتھ آیا توبلاکم و کاست دوٹوک انداز میں اپنے محسوسات کا اظہارکیااوروالد کی شاعری کو تضیع اوقات بتایا۔شاعری کے مقابلے میں ان کی تنقیدکو البتہ قیمتی قراردیا۔یہی احساس ان کے والد کا بھی تھا،جو اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے اپنی سوانح لکھی اور اس میں صفدر صاحب کے جملے نقل کیے اور اپنی شاعری کے تعلق سے ان کی راے کی تائید کی۔سنِ شعور کے ساتھ نقد و نظر کے سلسلے سے صفدر صاحب کی اخلاقی ذمے داری میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ظفرکمالی اسی حق گوئی کے تناظر میں انھیں’خطرناک‘ بتارہے ہیں:
دنیا کو سمجھتا ہے، چالاک ہے وہ
لڑتا ہے زمانے سے، بے باک ہے وہ
وہ یار ہے یاروں کا جب تک خوش ہے
ہوجائے جو ناخوش تو خطرناک ہے وہ
آج عالم یہ ہے کہ صفدرامام قادری ایک پختہ نقّادکے منصب پر فائز ہیں۔ان کی تنقیدی ہنرمندی کے متعلق پروفیسرمحمدذاکرنے لکھا ہے کہ’’ادبی تنقید میں ایکسرے کی سی نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے؛فن پارے کے مطالعے میں دقّتِ نظر سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔صفدرامام قادری کے ہاں یہ باتیں نمایاں ہیں۔اُن کے موضوعات میں بھی تنوع ہے۔اُن کی تنقید تحقیق آشنا بھی ہے‘‘۔اسی طرح پروفیسروہاب اشرفی کا ماننا ہے کہ ’’نظر(ان کی)ادب پر گہری ہے…تجزیہ اور تخیل کا گُرجانتے ہیں۔معنی اور مفاہیم کی دنیا دلیلوں سے قائم کرتے ہیں…اُن کی ذہانت ان کی گفتگو سے ٹپکتی ہے‘‘۔ظفرکمالی نے اپنی رباعیوں میں صفدر صاحب کی تنقیدی بصیرت کو بڑی اہمیت کے ساتھ نشان زد کیا ہے۔چند رباعیاں دیکھیں:
محنت کی ، مشقّت کی ، ریاضت کی دھاک
حکمت کی ، متانت کی ، دیانت کی دھاک
تنقید کی دنیا میں آکر دیکھو
ہے بیٹھی ہوئی اس کی ذہانت کی دھاک

جو ٹھہری ہوئی تھی وہ رواں اس سے ہوئی
دنیاے ادب کاہکشاں اس سے ہوئی
صفدرؔ کا بڑھے آج نہ کیوں وزن و وقار
تنقید کی میزان گراں اس سے ہوئی

الفاظ کو پرکھے گا انھیں تُولے گا
ایسے ہی وہ محفل میں نہیں بولے گا
رکھتا ہے وہ حکمت کے خزانے کی کلید
کھولے گا وہی بابِ خرد کھولے گا
حق بیانی کا یہ سلسلہ صفدر صاحب کی تحریراور تقریر دونوں جگہ یکساں طور پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ سچ کی طرفداری کے سیاق میںظفرکمالی کی رباعیاں باربار صفدرصاحب کی تحریری ہنرمندی کا علم بلند کرتی ہیں۔اس ضمن میںچندرباعیاں حاضرِخدمت ہیں:
لکھنی ہو کوئی چیز تو بے لاگ لکھے
وہ آگ کو پانی نہ لکھے، آگ لکھے
گھبرائے نہیں، جان ہتھیلی پہ لیے
ظالم کو وہ لہراتا ہوا ناگ لکھے

شاداب تخیّل ہے نظر تیز بہت
تحریریں ہیں صفدر کی دل آویز بہت
یہ کشت ِ ہنر یونہی نہیں ہے سرسبز
مٹّی بھی تو اس کی ہے زرخیز بہت

جب لکھّے تو شادکام ہوکر لکھّے
وہ روح سے ہم کلام ہوکر لکھّے
حالات کے جبر پر جو لکھنا ہو اسے
پھر تیغِ بے نیام ہوکر لکھّے

احساسِ لطافت میں اضافہ وہ کرے
تقدیسِ فراست میں اضافہ وہ کرے
مفہوم و معانی کی تابانی سے
ذہنوں کی ذکاوت میں اضافہ وہ کرے

ہے اس کو غرض سچ کی طرفداری سے
پڑھتا ہے کتابیں بھی ہشیاری سے
رکھتا ہے سدا قلم کی حرمت کا خیال
تحریر میں بچتا ہے ریاکاری سے

دل میں بے جا نہ آرزو رکھّی ہے
دنیا سے الگ ہی اپنی خوٗ رکھّی ہے
بے خوف و خطر کہتا ہے جھوٹ کو جھوٹ
ہاں اُس نے قلم کی آبرو رکھّی ہے
زمانہ جانتا ہے کہ صفدرصاحب کا قلم بہت رواں ہے۔تحقیق، تدوین، مقالہ،مضامین اور ان سب پر مستزادان کے اخباری کالم۔وہ ہرادا میں قلم کے ایک سچے سپاہی کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں، جنھیں نہ صرف تحریرکا سلیقہ معلوم ہے بلکہ وہ قلم کی طاقت کا گہراادراک بھی رکھتے ہیں اور اسی بنا پر شعوری طور پرقلم کی پاسبانی پرخود کومکلف پاتے ہیں۔ جو لوگ صفدرصاحب کی ادبی اور علمی سرگرمیوں سے واقف ہیں،انھیں ظفرکمالی کی رباعیوں میں صداقت بیانی اورجمال کاایک پُرکیف احساس ضرورہوگا۔ قلم کی حرمت کا معنیاتی سیاق بہت وسیع ہے، جو حوصلوں سے نموپاتا ہے۔وہ حوصلہ جوشعور کی کسی منزل پرظلم اورنارسائیوں کی شدت کو کسی طورسے کم آنکنے پر آمادہ نہ ہو۔فریب کو فریب لکھے اور حسن کو محض حسن!وہ چوکنّارہے کہ کہیںمصلحت کوشی قلم کے تقدس پر شب خون نہ مارڈالے۔ اس میں کلام نہیں کہ صفدرصاحب میں حق کاساتھ نبھانے کا بوتا ہے۔ان کے یہاں احتساب کا عمل بڑاشدید ہوتا ہے۔ان کا تنقیدی مسلک نہ ہی کسی کو آسانی کے ساتھ قبول کرتا ہے اور نہ ہی کسی کو بہ آسانی رد کرسکتا ہے۔دونوں صورت میں استدلالی قوت اور فکروتدبر کی کارفرمائی ہوتی ہے تاکہ تجزیاتی نتائج کماحقہ‘ ثمرآور اورمفیدمطلب ہوں۔ یہی رویہ ان کی تحقیق وتنقید کا بھی ہے۔یہیں سے ان کے صحافیانہ بانکپن کا عقدہ کھلتا ہے اور دیگرعلمی و ادبی تحریریں بھی وجہہِ التفات بنتی ہیں۔متذکرہ رباعیوں میں ظفرکمالی نے صفدرصاحب کی ذکاوت و ذہانت، معیارِتحریر، فکرِ رسا ، شادابیِ تخئیل،شادکام اورروح سے ہم کلام ہوکرلکھنے کی اُن کی خُو کے ساتھ’تیغِ بے نیام‘ کے پردے میں ان کے بے باکانہ اندازِ نگارش کو سراہا ہے۔صفدرصاحب کی تحریرمیں حسن‘ قلم کی حرمت سے قائم ہوتاہے ؛ان کی تحریریںاحساسِ لطافت کومہمیزکرتی ہیں۔وہ جس طورپرمفہوم و معانی کا درکھولتے ہیں، وہ تقدیسِ فراست میں اضافے کا باعث ہوتا ہے۔شعری بیانیہ میں احساسِ جمال کی یہ لطافت ملاحظہ ہو:
بے مثل ذہانت سے چمک اٹھتی ہے
معیار کے جادو سے لہک اٹھتی ہے
صفدرؔ کے قلم کی ہو کوئی بھی تحریر
افکار کی خوشبو سے مہک اٹھتی ہے
صفدرصاحب کے تنقیدی احتساب کے زمرے کی یہ رباعی قابلِ توجہ ہے:
زیرک ہیں ، دوربیں ہیں صفدر صاحب
بس تھوڑے نکتہ چیں ہیں صفدر صاحب
ٹیڑھا تو انھیں نہیں کہیں گے، لیکن
سیدھے بھی بہت نہیں ہیں صفدر صاحب
زیرک اوردوربیں کے ساتھ ظفرکمالی نے صفدرصاحب کو نکتہ چیں بتایا ہے؛ایک ایسا نکتہ چیں جو ٹیڑھے ہیں اور نہ سیدھے ہیں۔ٹیڑھاپن عیب ہے تاہم تنقید میں سیدھا پن اُس سے بڑا سقم۔ تنقید نگار چوکنّا رہتا ہے۔یہاں سیدھے پن سے کام نہیں چلتا۔صفدرصاحب تنقیدی مسلک کے’ امام‘ ہیں، جہاں پندو نصائح کے بجائے حشووزائدکا فیصلہ تنقیدی میزان پرتول کرکیا جاتاہے۔ امام کے ساتھ’ قادری‘ کا لاحقہ صفدرصاحب کے تنقیدی مزاج اورمقدرت کو دوآتشہ بناتا ہے۔ یوں بھی پروفیسر کلیم الدین احمدصفدر صاحب کے پسندیدہ نقاد ہیں۔ ظفرکمالی نے ان کی زندگی کے متنوع رخ کی نشاندہی کے لیے ٹھوس پیمانہ متعین کیا ہے کہ عملی زندگی میں ایک نقّادکا رویہ کیسا ہوتا ہے۔یہاںکمالی صاحب اپنے نقطۂ نگاہ کے اظہار میں حق بجانب نظرآتے ہیں۔
پٹنے کے مخالف ماحول کی طرح صفدرصاحب کی ذاتی محرومیاں بھی کچھ کم سوہانِ روح نہیں۔انھوں نے ذاتی زندگی کا جو رُخ متعین کیا، اس میں سکون اور طمانیت کم، آزار اور کلفت کا حصہ زیادہ ہے۔اس حرماں نصیبی نے بھی انھیں سکون سے بیٹھنے اور ٹک کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ان حالات نے انھیں بھیڑمیں تنہاکردیا ہے:
ظاہر میں تو لوگوں کا ریلا ہے ظفرؔ
محسوس یہ ہوتا ہے کہ میلا ہے ظفرؔ
کچھ لوگ ہی واقف ہیں اس کے غم سے
وہ بھیڑ میں رہ کے بھی اکیلا ہے ظفرؔ

مت پوچھ، کہاں خندہ زنی میں گزری
ہر سانس ظفرؔ کوہ کنی میں گزری
جنگ اُس نے لڑی خود سے کیسی کیسی
زیست اُس کی عجب تناتنی میں گزری
ظفرکمالی ایک دوست اور محرم راز کی حیثیت سے صفدرصاحب کی نجی زندگی اور معاملات سے واقف ہیں؛انھیں احساس ہے کہ صفدرصاحب نے احساسِ جمال کے ہاتھوں بھی چوٹ کھائی ہے۔رباعی ہے:
احساسِ جمال نے بھی مارا ہے اسے
خوباں کے خیال نے بھی مارا ہے اسے
تیّار تھا کچھ دل بھی مرمٹنے کو
کچھ شہرِ غزال نے بھی مارا ہے اسے
صفدرصاحب کی ازدواجی زندگی ان کی محرومیوں کا ایک اہم پڑاو ہے۔اپنی پسند کی راہ پر چل کر صفدرصاحب نے زندگی بسائی تو انھیں خوشیوں کے مقابلے تلخیوں کا سامنا کرنا پڑا۔مستقل آزمایشیں ان کا مقدر ہوئیں۔صفدرصاحب نے دل کا خون کیا ، ہزارجتن کیے لیکن نامرادیوں نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ احساسِ جمال کی راہ سے آنے والے درد کا عالم دیکھئے :
اس کو جو لگی وقت کے تیور کی چوٹ
محسوس کرو قلبِ صفدر کی چوٹ
عرفان کہاں سب کو اس کا ہوگا
لہریں ہی بتائیں گی سمندرکی چوٹ

کب اس نے نہیں کھائے ہیں گھاو بہت
احباب نے مارے ہیں اسے داو بہت
وہ کیسے کرے خود کو مرّتب آخر
باطن میں جب اس کے ہے بکھراو بہت
تاہم صفدرصاحب نے صبرکیا، گھٹن برداشت کی اور نہایت ہمت اور عزم اور حوصلے کے ساتھ درونِ خانہ اور بیرونی حالات میں ٹوٹنے بکھرنے سے بچے اور خود کو ثابت قدم رکھا۔
گھر اپنا اُجڑنے سے بچایا اُس نے
تقدیر میں دکھ تھا تو اُٹھایا اُس نے
جینا تھا بہر حال تو مر مر کے جیا
جو زیست کا قرض تھا چکایا اُس نے

ہمّت کی کہانیاں ہیں اس سے روشن
خوابوں کی جوانیاں ہیں اس سے روشن
قدرت نے اسے ایسا بخشا ہے شرف
حکمت کی نشانیاں ہیں اس سے روشن
صفدرصاحب کی طبیعت کے کچھ اوررنگ ملاحظہ ہو:
کس وقت پگھل جائیں یہ کہنا مشکل
کب ضد میں مچل جائیں یہ کہنا مشکل
ہوجائیں رفیقوں پر کس دم قربان
کب آنکھیں بدل جائیں یہ کہنا مشکلؔ

وہ خشک تو ہے ذرا مگر تَر بھی ہے
امّید بہت ہے اُس سے، کچھ ڈر بھی ہے
ہم کیسے کہیں اُسے سراپا ہے خیر
جب ہے وہ بشر تو اُس میں کچھ شر بھی ہے

خود اپنی خوشی سے دردِ سر بھی پالے
دریاے محبت میں مگر بھی پالے
نااہل بھی پہلو میں بیٹھیں اس کے
اچھّوں کے ساتھ بد گہر بھی پالے
ان رباعیوںمیں شخصیت کے داخلی عناصر ایکسرے میں قید خدوخال کی طرح ابھرتے ہیں توصفدرصاحب کی شبیہ ابھرتی ہے؛وہ خوبیوں اور کوتاہیوں کا آبیاژہ ہوتی ہے۔ سیماب صفت، ضدمیں مچل جانے والے؛یارباش اور دوستوں سے آمادۂ پیکار صفدر۔امید کی آماجگاہ، خیر، خوف اور شرسے بیک وقت نباہ کرنے والا بشر؛صوفی نہیں بلکہ دنیاداری سے آگاہ ادبی اور سماج کا تجربہ کار انسان،جو پیش بندی اور پیش قدمی کا ہنرجانتا ہے اور حسبِ موقع اقدامی ا ور دفاعی پوزیشن اختیارکرتا ہے اس کے باوصف وہ دشوار گزار راہوں کا انتخاب کرتا ہے۔اس کی مہم جُو طبیعت اسے ہمیشہ اونچے اہداف کا تعین کرنے پر اکساتی ہے۔صفدرکی مہم جُو طبیعت کا حوالہ دیکھیں:
بھاتا ہے اسے بہت سفر میں رہنا
لوگوں کی نگاہوں میں خبر میں رہنا
ساحل پہ رہے وہ کیسے جس کو ہو عزیز
دریائوں کے پُرپیچ بھنور میں رہنا
لہٰذاصفدرصاحب کی آنکھوں میں بڑے بڑے منصوبے بستے ہیں،جن میں رنگ آمیزی کے لیے وہ سو جتن کرتے ہیں،ان کے پاس نہ ختم ہونے والے کاموں کا انبارہے؛دوست، احباب اور طلبہ کی خوشیوں کے لیے وہ دکھ کا سنسار لیے پھرتے ہیں۔وہ سچّی دوستی اور خاموش محبت کے قدردان ہیں،سب کی دلداری میںماہر ہیں۔نرم خُوہیں۔دوستی کی گرمی سے پگھل جانا صفدرصاحب کی فطرتِ ثانیہ ہے اور یہی ان کی کمزوری بھی ہے۔آخری رباعی میں پنہاں دردکا خلاصہ یہ ہے کہ اچھوں کے ساتھ نااہلوں پر بھی ان کی نوازشیں ہوتی ہیں۔عینی مشاہدین بتاتے ہیں کہ اُن لوگوں نے صفدر صاحب کوزیادہ نقصان پہنچایا، جنھوں نے ان سے فائدہ اٹھایا۔ انتہایہ ہے کہ اس قماش کے لوگوں سے وہ بخوبی واقف ہوتے ہوئے بھی جب کبھی انھیں صفدرصاحب کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے دربارِ صفدری میں ان کاوالہانہ استقبال ہوتا ہے۔ یہ رویہ صفدرصاحب کی شرافتِ نفس کو سامنے لاتا ہے۔انھیں نصرت اور موانست میں انسانی توقیر دکھائی دیتی ہے؛دکھ کے ماروں کا درما ںبننے کا یارا ہرکس وناکس میں نہیں ہوتا۔ ظفرکمالی نے صفدرصاحب کے اس متین رویے کو ان کی ’جواں مردی‘ پر محمول کیا ہے۔
صفدرصاحب کے بعض ذاتی پہلو ہمیں زیرِ لب تبسم پر مجبورکرتے ہیں:
آپس میں کریں جیسے بچّے وعدے
کرتے ہیں اسی طرح یہ کچّے وعدے
ٹوکے جو کوئی ، ان کا ہوتا ہے جواب
ہوتے ہیں کہاں پورے سچّے وعدے
اس رباعی میں ظرافت کی پُٹ ہے۔ حقیقت سے گریزپائی ظفرکمالی کے لیے ممکن نہیں۔ البتہ جہاں کہیں انھیں حقیقتِ حال کی ترسیل میں تردّدہوتا ہے، وہاں ظریفانہ آہنگ اختیارکرتے ہیں تاہم یک گونہ لحاظ کے باوصف بڑی سادگی سے اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔ یہ رباعی بھی دیکھیں:
دشمن کی ہر اک بازی کو وہ مات کرے
دن ان کا اگر ہو تو اسے رات کرے
جب یار کوئی اس کا گھاتی بن جائے
ساتھ اس کے اسی طور سے وہ گھات کرے
اور یہ صفدری حکمت بھی ملاحظہ ہو:
حکمت کے کرشموں سے گھبرائے رکھے
ہر وقت نئی کڑھن میں الجھائے رکھے
لہرائے کچھ ایسے کامرانی کا عَلَم
وہ اپنے حاسدوں کو چکرائے رکھے
متذکرہ رباعیاں صفدرصاحب کے بشری رویے کو سامنے لاتی ہیں۔وہ آزار سے بھرے سماج میں جینے کے فن سے آگاہ ہیں۔وہ اس کلّیے سے واقف ہیں کہ زندگی کی بہتر تنظیم اور تدبیر کے بغیرمطلوبہ زندگی کے لیے معیاری ہدف کا تعین نہیں کیاجاسکتا۔البتہ بادِ مخالف میںظفرکمالی صفدرصاحب کے حوصلوں کو مزیدسوادیکھتے ہیں۔ان کاماننا ہے کہ صفدرصاحب کے گردوپیش کے یہ داخلی اور خارجی طوفانِ حوادث انھیں اونچا اڑانے کا سامان ہیں:
طوفانِ حوادث سے سنورتا ہے اور
اُس کو جو دباؤ تو اُبھرتا ہے اور
جب وقت کی دھوپ اُس کو جلانا چاہے
سونے کی طرح تپ کے نکھرتا ہے اور
مخالف ماحول اور فضا میں صفدرصاحب نے خو د کو پوری یکسوئی کے ساتھ علم و ادب کے کاز کے لیے فارغ کررکھا ہے۔علم و آگہی کے لیے کلیتاً فارغ تو کالج، یونیورسٹی کے اساتذہ بھی خیال کیے جاتے ہیں تاہم صفدری سیاق میں اس کا مفہوم بالکل جدا ہے۔ ان کے تدریسی جنون کا تصور کلاس روم کے گوشۂ عافیت میں بیٹھے کسی بھی دوسرے استاد سے ممکن نہیں کہ وقت کے ساتھ تدریس پیشہ ورانہ شغل میں تبدیل ہوتی جارہی ہے جبکہ صفدرصاحب کے یہاں ہنوز اسے عبادت کی طرح عملاً ایک مقدس فریضہ سمجھاجاتا ہے۔ صفدرصاحب تدریس کو اپنی شناخت کا بنیادی حوالہ تصور کرتے ہیں۔وہ اپنی طبیعت کے ہررنگ میں ایک مدرّس اورمعلّم ہیں۔تصنیف الرجال ان کا پہلا عشق ہے اورتصنیف و تالیف اسی اساسی عشق کی راہ سے چھن کرآنے والی نعمتیں۔صفدرصاحب بہارمیں طلبہ و طالبات کی مضبوط پناہ ہیں، جہاں ان کی کلاسزکی دھوم ہے۔صبح چھے بجے سے رات دیر گیے تک انھیں عملاً طلبہ کے درمیان دیکھا جاتا ہے۔ظفرکمالی نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ :
صفدرؔ کا مکاں ہے کہ ہے کاشانۂ علم
لوگ اس کو سمجھتے ہیں مے خانۂ علم
ہر وقت وہاں رہتی ہے پیاسوں کی بھیڑ
دن رات چھلکتا ہے پیمانۂ علم
صفدرصاحب کی تدریس کے حوالے سے قدرے تفصیل کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ اس کے بغیر ظفرکمالی کی اس سلسلے کی رباعیوں کا درست تناظرسامنے آنا دشوار تھا۔کمالی صاحب‘ صفدرصاحب کے تدریسی شغل کے بڑے مدّاح ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ صفدرصاحب کے بغیر اردو کے طلبہ یتیم ہوجاتے ۔اس قبیل کی چندرباعیاں ملاحظہ ہوں:
کم سوئے ، پڑھے لکھے ، جگائے ، جاگے
غفلت کی نیند سے ہمیشہ بھاگے
میں دیکھ رہا ہوں دور سے ہی بیٹھا
دھیرے دھیرے وہ بڑھ رہا ہے آگے

ہوتی ہے کہاں سب کی ایسی تقدیر
جو اپنے زمانے کو کرلے تسخیر
کہتے ہیں اُسے لوگ ادب کی تنویر
ہے علم کی وہ چلتی پھرتی تصویر

قدموں میں رہے کیوں نہ سدا راہِ کمال
ہے جہدِ مسلسل کی وہ جب زندہ مثال
دن سمجھے نہ دن کو نہ کبھی رات کو رات
ایسے ہی نہیں بلند اُس کا اقبال

پہنا تو نہیں سر پہ کبھی تاج اس نے
حکمت سے مگر خوب کیا راج اس نے
شاگرد نہ کیوں اس کے گرویدہ ہوں
استاد کے معنیٰ کی رکھی لاج اس نے

جانباز سپاہی ہیں اُس کے شاگرد
دشمن کی تباہی ہیں اُس کے شاگرد
جان اُس پہ فدا کرنے کو تیّار رہیں
انعامِ الٰہی ہیں اُس کے شاگرد

شاگردوں کی تادیب اُسی سے زندہ
معیار کی ترغیب اُسی سے زندہ
اقرار کے آداب کی تابانی وہی
انکار کی تہذیب اُسی سے زندہ

نقّاد بنادے وہ شاگردوں کو
فولاد بنادے وہ شاگردوں کو
پتھّر کو تراشے تو ہیرا کردے
استاد بنادے وہ شاگردوں کو
غورسے کام لیں تومحسوس ہوتا ہے کہ صفدرامام قادری کے پورے تدریسی سفرکا حسن ان رباعیوں میں سمٹ آیاہے۔دھیرے دھیرے جادئہ تدریس پر آگے بڑھنا،استاد ہونے کے مفہوم کا شعوری ادارک ،تنویرِ اقبال کے لیے جہدمسلسل،علم کی چلتی پھرتی تصویربن جانا،اپنی طرح شاگردوں کی تہذیب و تربیت اورمعیاربندی اور پھرراہِ علم میںہیرے کے مانند تراش کر انھیں میدانِ عمل میں خوداعتمادی کی اساس فراہم کرنا وغیرہ قدروں کا لامتناہی تسلسل ہے، جو صفدرصاحب کی ذات اور ان کے کام سے وابستہ ہے۔
اب اسی تسلسل کی چند اور رباعیاں ملاحظہ ہوں،جن میں ممدوح کی ذات کو رباعی گو نے قدروں میں تبدیل کردیا ہے:
افکار کے افلاک اسی سے روشن
آئینۂ ادراک اسی سے روشن
کیا شخص ہے ! اس دورِ زباں بندی میں
ہے لہجۂ بے باک اسی سے روشن

دیں اس کی مثال ، ایسا قد آور ہے وہ شخص
تہذیب و تمدّن کا تو خاور ہے وہ شخص
الفاظ کی حرمت کا رکھے کیوں نہ لحاظ
دریاے معانی کا شناور ہے وہ شخص

ٹھہرے ہوئے دریا میں روانی کے گیت
ہر آگ کی محفل میں پانی کے گیت
ہوں لاکھوں بیاں قصّے ناکامی کے
گاتا ہی رہے وہ کامرانی کے گیت

تابانی میں خورشید ہوئی، اُس کی ذات
یوں لائقِ تقلید ہوئی، اُس کی ذات
اُس کی ہی طرف سب کی نگاہیں اُٹھّیں
اب مرکزِ امّید ہوئی، اُس کی ذات
مذکورہ رباعیوں میں اقداری سیاق،بلند آہنگی اورتمجیدِ انسانیت جیسے رباعی کے صنفی خصائص، موضوع اور اصول بڑی خوبی سے نظم ہوگئے ہیں۔شبیہ سازی(Sketching) میں کم سے کم لکیروں کا استعمال ہنرمندی خیال کیا جاتا ہے۔یہاںچارمصرعوںکا مختصرپیمانہ لکیروں کے سہارے مصورکی کم بیانی کو ایمائیت کے پردے میں ظاہر کرتا ہے۔ظفرکمالی مصورکا ہنر رکھتے ہیں اوراپنی رباعیوں میں ایمائیت، علامت اور استعاراتی نظام کاایسا ہیولیٰ خلق کرتے ہیں کہ فردکی ذات کا آفاقی آہنگ ابھرنے لگتا ہے۔افکار کے افلاک، آئینۂ ادراک،تہذیب و تمدن کا خاور، دریائے معانی کا شناور ، دریا میں روانی کے گیت،تابانی میں خورشید اور مرکزِ امیدوغیرہ جیسے شعری علائم اوران کی تجلی سے مستعارایک فردکی شخصیت قدرآفریں ٹھہرتی ہے۔بشری کمیوں اور کوتاہیوں کے باوصف رباعی گوممدوح کی شخصیت کا آفاقی رخ پیش کرنے میں پوری طرح کامیاب نظرآتا ہے۔یہ شعری اظہار کی انتہاہے۔یہی سیاق انسان کو خلقِ خداکے درمیان میں اعلا منصب پر متمکن کرتا ہے۔فن کو عروج ملتا ہے اور شاعراور اس کا ہدف دونوں لوحِ فکر پرنقش کالحجرہوجاتے ہیں۔
صفدرشناسی کے سلسلے کی ان رباعیوں کوازاول تا آخربغور دیکھیں تو ایک منظوم کہانی معلوم ہوتی ہے۔یہاں ایجازاور اجمال کا حسن ہے، جسے ڈی کوڈ کیا جائے تو اس ایک ایک رباعی کے نفسِ مضمون سے واقعات کا ایک تسلسل قائم ہوتا ہے اور اس کے معنیات کا بسیط کینوس ہمارے سامنے آجاتاہے۔
ذیل کی رباعی میںصفدرصاحب کی زندگی کے ایک اہم موڑ کی نشاندہی کی گئی ہے:
کچھ اور نظر آتے تھے تب کے صفدر
دیکھا ہے ادھر؟ کیسے ہیں اب کے صفدر
آئے ہیں وہ کعبے کی زیارت کرکے
ہوجائیں نہ کیوں دل سے رب کے صفدر
’تب‘ اور ’اب‘ کے اشارے میں رباعی گوکی نظر دراصل صفدرصاحب کے ارتقائی سفر پر مرکوزہے۔اس سے یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ صفدرصاحب کی شخصیت میں ایک بنیادی تبدیلی کا آغاز ہواچاہتا ہے۔یہ تبدیلی ایک نئے صفدرکی تمہید بن سکتی ہے۔
صفدرصاحب کے اس روشن علمی و ادبی کارگزاریوں کی موجودگی میں ظفرکمالی کو محسوس ہوتا ہے کہ اہالیانِ پٹنہ کے لیے ان کی ذات نعمتِ غیر مترقبہ ہے۔وہ صحیح معنوں میں پٹنہ کی روشن علمی روایات کے امین اور اس کے پاسباں ہیں۔اپنے وقیع کارنامے کے سبب موجودہ دور میں صفدرپٹنے کی پہچان بن گئے ہیں۔یہ رباعی دیکھیں:
اب آن ہوا شان ہوا پَٹنے کی
سب خوش ہیں کہ وہ جان ہوا پَٹنے کی
یہ اس کی ریاضت کا صلہ ہے کہ وہی
اس عہد میں پہچان ہوا پَٹنے کی
کمالی صاحب نے صفدر صاحب کو سراپا’حق بات‘ کا علم برداربتایا ہے، جو ایک دوست کی حیثیت سے ان کے لیے کسی ’سوغات سے ذرابھی کم نہیں‘ہے۔صفدرجیسی خوبیوں سے متصف دوست پر ظفرکمالی کیوں نہ نازاں ہوں۔ان کا یہ دوستانہ کمٹمنٹ ملاحظہ ہو:
تازیست نہیں ہونا ہے اس سے جدا
ہوتی ہے اگر دنیا ہوجائے خفا
تسلیم کہ سو عیب ہیں اس میں لیکن
مجبور ہوں دل سے جو اسی پر ہے فدا

جیسے ساہوکاری کا سرمایہ
یاری اس کی یاری کا سرمایہ
یاروں کو وہ بخشے خاموشی سے
خوشیوں کی سرشاری کا سرمایہ
صفدرشناسی کا یہ تسلسل ذیل کی دعائیہ رباعیوں پر ختم ہوتا ہے:
خادم کی طرح قوم کی خدمت میں رکھے
تا عمر اُسے سایۂ رحمت میں رکھے
جادو نہ چلے اُس پہ نگاہِ بد کا
اللہ اُسے اپنی حفاظت میں رکھے

دل میں جو لگی ہے وہ لگن باقی رہے
ہونٹوں پہ تبسم کی کرن باقی رہے
تونے جو خیالوں میں چمن بندی کی
بن جائے حقیقت وہ چمن باقی رہے
گزرتے وقت کے ساتھ قدریں نموپاتی ہیں،ان قدروں سے مزید قدریں جنم لیتی ہیں اور یہ سلسلہ نسلاً بعد نسلِِ یونہی چلتا رہتا ہے۔توقع ہے کہ کمالی اور صفدرصاحبان کا اقداری رشتہ وقت کے ساتھ مزیداستحکام اورقرب کی منزلیں طے کرے گا اور صفدرشناسی کے نئے زاویے سامنے آتے رہیں کیوں کہ
ترغیب کے اسباب ابھی زندہ ہیں
اس بحر میں گرداب ابھی زندہ ہیں
تعبیر کی سانسیں نہ رہیں کیوں زندہ
صفدرؔ کے سبھی خواب ابھی زندہ ہیں
٭٭٭

Previous articleشعبئہ اُردو سمستی پور کالج میں بیس سال بعد اُردو کتابیں ڈاکٹر ستین کمار اور ڈاکٹر صالحہ صدیقی کی کوشش سے منگوائی گئی
Next article“سفید خون” ایک تجزیاتی مطالعہ

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here