اسسٹنٹ پروفیسر ،شعبہ اردو
ملت کالج دربھنگہ
پطرس بخاری ایک ایسے مزاح نگار ہیں جو اپنی واحد تصنیف ‘مضامین پطرس’ کے باعث اردو ادب میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں. ان کے مضامین کے تعلق سے وجاہت علی سندیلوی نے بڑی معقول بات کہی ہے کہ “اردو کی کتابوں کا کیسا بھی سخت سے سخت ترین انتخاب کیا جائے دیوان غالب ہی کی طرح پطرس کے مضامین کا اس میں شامل کیا جانا نا گزیر ہوگا.”بلا شبہ اس بات میں بڑی حد تک صداقت بھی ہے. کیونکہ پطرس بخاری نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ ادبی اعتبار سے ظرافت کا اعلیٰ اور عمدہ نمونہ ہے. ایک ایسا نمونہ جو ظرافت کے بڑے بڑے کارناموں پر بھاری ہے. واضح رہے کہ ‘مضامین پطرس’ میں صرف گیارہ مضامین شامل ہیں. لیکن یہ پطرس کی ہی شخصیت تھی کہ اتنے کم ادبی سرمائے کو انہوں نے ایک ادبی معیار و مقام عطا کر کے بقائے دوام کی منزل تک پہنچا دیا. اور ایک عظیم فنکار کی حیثیت سے اپنا نام تاریخ ادب اردو میں محفوظ کر لیا.
مضامین پطرس کا مزاح اتنا اعلیٰ ہے اور طنز و مزاح کی ادبی چاشنی میں لپٹا ہوا ہے کہ کوئی بھی مضمون پڑھتے ہوئے لبوں پر مسکراہٹ خود بخود رقص کرنے لگتی ہے. ‘ہاسٹل میں پڑھنا’ کے طالب علم کی سر گزشت ہو یا ‘سویرے جو کل میری آنکھ کھلی’ میں علی الصباح بیدار ہونے کی جدوجہد، ‘کتے’ میں کتوں کے مشاعرے کا یا ‘ سنیما کا عشق’ میں مرزا کی شخصیت کا بیان ہو یا پھر’ مرحوم کی یاد میں’ مرزا سے خریدی گئی سائیکل کا ذکر،’ لاہور کا جغرافیہ ‘ یا ‘اردو کی پہلی کتاب’ میں تحریف نگاری کا کرشمہ ہو’یا پھر ‘میبل اور میں’ میں عورت یا مرد کی مکاری یا عقلمندی کی روداد . ‘انجام بخیر’ میں خود ساختہ اصولوں کے ٹوٹنے کا المیہ کا ذکر ہو یا ‘مرید پور کا لیڈر ‘ کی بے ربط تقریر کا بیان. پطرس نے ایک ماہر نفسیات کی طرح سب کا تجزیہ اس انوکھے انداز میں کیا ہے کہ جس کو پڑھ کر ہم قہقہہ بھی لگاتے ہیں اور اس کے پس پردہ غوروفکر بھی کرتے ہیں. اس قہقہہ اور غوروفکر کی دعوت سب سے پہلے مضامین پطرس کے دیباچہ سے ملتی ہے جو کتاب کے پہلے صفحہ پر “چلئے! ذرا پڑھیے تو” کے عنوان سے ہے.
“اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو
مجھ پر احسان کیا ہے. اگر آپ نے کہیں سے چرائی
ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں. آپ نے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے…….”
اردو ادب میں دیباچہ لکھنا کوئی نئی بات نہیں ہے. لیکن پطرس نے جس انداز میں دیباچہ لکھا ہے وہ
ایک نئی بات ضرور ہے. پطرس کا کمال یہ ہے کہ اپنی دانائی اور عقلمندی سے اپنے آپ کو صیغہ راز میں رکھتے ہوئے اپنی قابلیت کا اعتراف کرواتے ہیں. اور مترجم قسم کے انشاپردازوں کو ان کے ناقص ترجمہ پر طنز کی زہریلی گولی مزاح کے شکر میں لپیٹ کر انہیں کچھ یوں پلا دیتے ہیں.
“جو صاحب اس کتاب کو غیر ملکی زبان میں ترجمہ کرنا چاہیں وہ پہلے اس ملک کے لوگوں سے اجازت لے لیں.”
پطرس کی یہی فنی بصیرت ہے کہ ان کے مضامین میں باوجود اس احساس کے کہ ہم کو بےوقوف بنایا جا رہا ہے جھنجھلاہٹ کے بجائے گدگدانے کی ادا نکلتی ہے اور اس کے ساتھ ہی غوروفکر کی شعائیں پھوٹتی ہیں.
دراصل پطرس جب زندگی کے مضحک پہلوؤں کی نقاب کشائی کرتے ہیں تو اسے واقعاتی صورت میں پیش کرتے ہیں. لیکن وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ واقعہ کی ناہمواریوں میں ہمدردانہ انداز برقرار رہے. اپنے ماحول اور کرداروں سے وہ نفرت کرنا نہیں جانتے. توازن، اعتدال اور شخصی وقار کو ملحوظ رکھتے ہیں. پطرس کی مزاح نگاری کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ واقعات اور انداز بیان کی مضحک کیفیات کے بیان میں ایک روانی اور شگفتگی ہوتی ہے. واقعہ کو بیان کرنے کا یہ سلیقہ ان کے مزاح کا مزاج ہے. وہ اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کس واقعہ کو کس طور پر بیان کرنا ہے اور واقعہ کے بیان میں کیا لینا چاہیے اور کیاچھوڑناچاہیے.’کتے’ کا یہ اقتباس دیکھیں.
“……رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گد گدائی تو انہوں نے باہر سڑک پر آ کر طرح کا ایک مصرعہ دے دیا. ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں سے ایک کتے نے مطلع عرض کر دیا. اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا ایک حلوائی کے چولھے میں سے باہر لپکے اور بھنا کر پوری غزل مقطع تک کہہ گئے. اس پر شمال مشرق کی طرف سے ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داد دی، اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھئے.
پطرس کی اس خصوصیت یعنی واقعات کے بیان کے متعلق رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں –
“پطرس کی ظرافت کا آرٹ الفاظ میں نہیں واقعات میں ہوتا ہے. ان کی تحریر فضا پیدا کرتی ہے نہ کہ نغمہ.”
(طنزیات و مضحکات- از رشید احمد صدیقی، صفحہ- 211)
وزیر آغا رشید احمد صدیقی کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے لکھتے ہیں –
“پطرس کو صورت واقعہ کی تعمیر کا ایک خاص سلیقہ
ہے. وہ واقعہ کی مختلف کڑیوں کو اس انداز سے مربوط کرتا ہے کہ مضحک کیفیات کی نمود کسی شعوری کاوش کا نتیجہ معلوم نہیں ہوتی بلکہ از خود حالات و واقعات کی ایک مخصوص نہج سے ابھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.”
(تنقید اور احتساب – ڈاکٹر وزیر آغا- صفحہ – 235)
یہ صحیح ہے کہ پطرس واقعہ سے مزاح پیدا کرتے ہیں. لیکن اس واقعہ کو اپنے الفاظ کے ذریعہ ایسا بنا کر پیش کرتے ہیں کہ واقعات مزاحیہ معلوم ہونے لگتے ہیں. مثلاً ‘سویرے جو کل میری آنکھ کھلی ‘یا
پھر ‘مرید پور کا پیر’ میں پطرس کے الفاظ ہی ہوتے ہیں کہ واقعات زیادہ مضحک معلوم ہونے لگتے ہیں. اگر ان کے الفاظ میں تبدیلی پیدا کر دی جائے تو ان کے تمام مضامین کا حسن سحر ختم ہو جائے گا.
‘سویرے جو کل میری آنکھ کھلی’ کے اس اقتباس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے.
“اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلاف ہے. بہرحال اس بات کا مجھے یقین ہے کہ اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں. پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے
مسلمان کی طرح کلمہ شہادت بھی پڑھا تھا، پھر یہ بھی یاد ہے کہ اٹھنے سے پیشتر دیباچہ کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی تھی. پھر پتہ نہیں شاید لحاف اوپر سے اتار دیا، شاید سر اس میں لپیٹ دیا یا شاید کھانسا کہ خدا جانے خراٹا لیا.خیر یہ تو یقینی امر
ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے.”
پطرس کی شخصیت میں گہرائی، بے تکلفی اور علمی بصیرت اتنی رچی بسی تھی کہ معمولی سے معمولی بات. میں بھی فن اور فکر کی شعائیں بکھیر دیتے تھے. انہوں نے دوسرے مزاح نگاروں کے برخلاف خالص مزاح کو اپنایا. لہٰذا وہ چھوٹی سے چھوٹی اور باریک سے باریک بات میں بھی مزاح کا پہلو نکال لیتے تھے جس کی وجہ سے ان کے مضامین میں دلچسپی کا سامان افراط سے ملتا ہے. پطرس کی انہیں خصوصیات سے ان کے مضامین کی فنی عظمت میں اضافہ ہوتا ہے.
ایک اچھے اسلوب کے لئے ماہرین فن نے حسن ادا، سادگی، قطعیت، اختصار، زور بیان، بذلہ سنجی اور گداز یعنی جس سے دوسرے ہمدردانہ طور پر متاثر ہوں، کو ضروری قرار دیا ہے. پطرس کے یہاں یہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں. ان کے اسلوب میں بلا کی شگفتگی اور دلکشی ہے. ان کو زبان و بیان پر ایسی قدرت حاصل تھی کہ کوئی بھی موضوع ہو نہایت سادگی اور بے تکلفی سے لکھتے چلے جاتے تھے. یعنی پطرس کے یہاں بے ساختہ اسلوب ہے جس میں کہیں ایک لمحے کے لئے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ انہیں اپنے اسلوب کو برقرار رکھنے کے لئے کسی طرح کی کوشش یا کاوش کرنی پڑ رہی ہے. پال والیری نے زبان کے ادبی استعمال کے بارے میں بڑی مناسب بات کہی ہے کہ زبان کا مقصد چونکہ ترسیل ہے اس لئے عام زبان معانی کے ساتھ تحلیل ہو جاتی ہے،یعنی الگ سے اس کا کوئی وجود باقی نہیں رہتا اگر وجود باقی رہے یعنی زبان اپنی حیثیت سے قائم رہے تو یہی اس کی ادبیت کی پہچان ہے. پطرس کے مضامین اس اعتبار سے ادبی امتیاز کے حامل ہیں کہ ان میں مطالب کی ترسیل کے ساتھ ساتھ زبان کی حیثیت برقرار رہتی ہے. بلا شبہ اردو ظرافت میں پطرس کی ظرافت نگاری ان کی دلکش و دلآویز شخصیت کے ایسے نقش ہیں جوہمیشہ نشان راہ بنے رہیں گے.
***
Email – drshahnawaz52@gmail.com