از قطب الدین اشرف
لسانی و ادبی زاویے سے اکبر الٰہ آبادی کی نثری کاوشیں نوادرات کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ تحریریں برسوں پر محیط اپنے عہد کے اہم رجحانات و میلانات کی گواہ ہیں۔ لکھنؤ سے ’’اودھ پنچ‘‘ کا اجرا اور اکبرؔ کی نثر نویسی کا باضابطہ آغاز ساتھ ساتھ ہوا۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا بھی اس خیال کے مؤید ہیں۔ مگر ان کا یہ بیان کہ ’’اودھ پنچ‘‘ کے اجرا سے قبل انھوں نے نثر نہیں لکھی تھی ‘‘۱؎ تحقیق طلب ہے۔
’’اودھ پنچ‘‘ عہد رفتہ میں ظرافت کا دبستان تھا۔ مسلک و مزاج کے اعتبار سے یہ اخبار حکومت برطانیہ کا حریف، کانگریس کی پالیسیوں کا ترجمان اور حرّیت ووطن کی سا لمیت کا علم بردار تھا۔ ا س کے نَورتنوں میں منشی سجادحسین، نواب سید محمد آزاد، پنڈت رتن ناتھ سرشار، مرزا مچھو بیگ ستم ظریف، احمد علی شوق، پنڈت تربھون ناتھ ہجر، جوالا پر شاد برق، اکبر الٰہ آبادی وغیرہ کے اسما خصوصیت کے ساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ ’’اودھ پنچ‘‘ کے ان قلمی معاونین کے نثر پاروں کا ایک انتخاب پنڈت کشن پرشاد کول نے ۱۹۱۵ء میں ’’گلدستۂ پنچ‘‘ کے نام سے ترتیب دیاتھا۔ البتہ اکبرؔ کے نثری کارناموں کو کسی مجموعے کی شکل نہ دی جاسکی۔’’ اودھ پنچ‘‘ کے رنگا رنگ شماروں سے ان کے اکتالیس مضامین برآمد ہوئے جو پاشا اورینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سیوان)میں محفوظ ہیں۔ ڈکٹر خواجہ محمد زکریا نے اپنی کتاب’’اکبر الٰہ آبادی ‘‘ کے صفحہ ۴۱۵ پر ان کی چالیس تحریروں کا ذکر کیا ۔ نیز صفحہ ۴۶۱ اور ۴۶۲ پر ان کی انتالیس تحریروں کی فہرست دی ہے۔ ان میں ’’گانو کے قاضی‘‘، ’’دہلی دربار‘‘، ’’لالہ شتاب رائے کا خط‘‘،’’ کلکتہ کی وجہ تسمیہ‘‘ وغیرہ اہم و منفرد مضامین غائب ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکبر کے مضامین کی تعداد کہیں زیادہ ہے اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کی تحقیقی کاوشیں ابھی تشنہ ہیں۔
اکبرؔ نے ان مضامین میں رعایت لفظی، لطیفہ گوئی، تمثیل نگاری،قافیہ پیمائی، واقعہ طرازی، مکالماتی انداز اور زبان و بیان کی شعبدہ بازی سے ظرافت کے چمن آباد کیے ہیں۔ ان کے موضوعات سنجیدہ ہیں مثلاً سیاستِ عصر، معاشرت ،مغربیت، معیشت و برطانوی جارحیت کے بین بین سرسیدؔ کے نظریات کی مخالفت وغیرہ۔ انداز بیان طنزیہ مگر لطیف ہے۔ اسلوب جدّت و قدامت کے ساتھ ساتھ منفرد اس لیے ہے کہ اس میں تنقید ی بصیرت، عصری آگہی اور ناوک طنز کو ہدف کے عین جگر میں اتاردینے کا موثر پیرایہ کارفرما ہے۔
اکبرؔ کی اکتالیس طویل و مختصر تحریروں سے بہ خوفِ طوالت پندرہ مضامین کے تعارف تک ہی خودکو محدود رکھوں گا جو بہ اعتبار فن و معیار بلاشبہ نثر نگاری کی جملہ سمتوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایسے مضامین یہ ہیں۔
(۱)دہلی دربار (۲)گانو کے قاضی (۳)حدیث از مطرب و مے گو وراز دہر کمتر جُو (۴)انگریزوں کی زبان دانی (۵)کوئی کہتا ہے دیوانہ کوئی کہتا ہے سودائی (۶)لالہ شتاب راے کا خط ان کے دوست کے نام (۷)کلکتہ کی وجہ تسمیہ (۸)مسلمانوں کی ترقی اور عالی ہمتی کا ثبوت (۹)تم بھی برطرف (۱۰)چھپارہے گا نہ احوال آسماں زنہار (۱۱)خدا غارت کرے ان موزیوں کو (۱۲)فلسفیانہ اوہام (۱۳)مکرمی فتنہ انگیزی (۱۴)بجز اونٹ کے سب سواریاں موقوف (۱۵)پردۂ نسواں۔
(۱)دہلی دربار:
یہ مضمون نہایت مختصر ہے۔ اس میں مکالماتی وافسانوی انداز کارفرما ہے۔ اس کا موضوع سوِل سروس کے امتحانوں سے مسلمانانِ ہند کی بے توجہی اور سراسیمگی کی طرف توجہ دلانا ہے۔ محاکاتی انداز کے سہارے مقصد کی پیش کش میں وہ کامیاب ہیں۔ زبان شگفتہ و شاداب ہے۔
(۲)گانو کے قاضی:
یہ اُس عہد کے دیہات کی رنگا رنگ جہالت ، توہم پرستی ، گانو کے رہبر کی ذہنیت وخود پرستی ، گانو والوں کی عقیدت مندی اور اوہام پرستی کا انتہائی دل چسپ البم ہے۔ قصہ نگاری، جزئیات اور زبان و بیان کے اختلاط سے طنزیہ و مزاحیہ فضا پیدا کی گئی ہے۔ گانو کے قاضی کی نسبت فرماتے ہیں:
’’ اب ہم ایک آدمی کو ساتھ لے کر قاضی صاحب کے مکان پر پہنچے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک اُلُّو کا پٹّھا چمروا پگڑی باندھے ہوئے بیٹھا ہے۔ میں نے جاتے ہی سلام علیکم کہا۔ انھوں نے بالے کم سلام جواب دے کر کہا: بھیّا بیٹھ جا، تو کہاں سے آیا ہے؟میں : دلّی سے آیاہوں۔ کیا دلی میں بڑے اچھے اچھے آدمی ہیں؟ باد ساہی سہر ہے، کیو ں نہ ہو، پر تیراگلام بھی سوسو کوس میں اِکّا ہی ہے۔ میں نے کہا:بجاہے۔ اتنی باتیں ہوئی تھیں کہ ایک شخص دوڑا ہوا آیا کاجی جی ننواں پٹھان کا اونٹ مرگیا۔ حلال کردو۔ آپ نے کہا:گردن چھوڑدیں اور اس کی ٹانگیں کاٹنی شروع کردیں۔ ایک بھلے مانش سے باتیں کرلوں تو آکر اس کی ناڑی کاٹ دوں۔ میں نے یہ باتیں سن کر کہا کہ یہ جونپور کے بھی پردادا نکلے‘‘۔ ۲؎
غرض یہ کہ طنزو تبسم کے پیرایہ میں دیہات کے جاہلانہ نظام حیات کی بڑی دل چسپ اور انوکھی تصویر پیش کی گئی ہے۔
(۳) حدیث از مطرب:
یہ مضمون سراسر تمثیلی ہے۔ اس میں زمانے کو ایک کوہ پیکر ، فلک کا ہم عصر تغافل شعار شخص قرار دیا ہے اور اس کی کروٹوں کو انقلاب دنیا سے تشبیہ دی ہے:
’’جب وہ کروٹ بدلتا ہے تو آندھیاں آتی ہیں، زلزلے محسوس ہوتے ہیں۔ پرانے پہاڑ غرق، نئے کہسار پیدا ہوجاتے ہیں، نئے نئے دریا نئے نئے جزیرے ظاہر ہوتے ہیں۔ عالم تہ وبالا ہوجاتا ہے اور جدھر سے کروٹ پھیر ی ادھر کی دبی ہوئی خلقت پھر از سرنو زندہ ہوکر دوسروں کی مصیبت کی تماشائی بن جاتی ہے‘‘ ۳؎
یہاں تمثیلی انداز میں فکر انگیز خیالات کی عمدہ ترجمانی کی گئی ہے۔ بہ اعتبار ظرافت یہ اعلا درجہ کا مضمون ہے۔ زبان و بیان میں روانی ہے ثقالت کہیں نہیں ملتی۔ یوں بھی اکبرؔ کی نثر سادہ اورترسیل و ابلاغ کے زیور سے آراستہ ہے۔ روانی، شگفتگی اور بے ساختگی اکبرؔ کی نثر کی مشترکہ خوبی ہے۔ اس میں اشعار بھی آئے ہیں مگر وہ محض ادائیگیٔ مطلب اور فکر کی ترجمانی کے لیے۔
(۴)انگریزوں کی زبان دانی:
یہ مختصر سی لطیف تحریر ہے۔ انگریزوں کی زبان اردو یا ہندی سے کم آشنائی سے متعلق ہے۔ ملاحظہ کریں:
’’ایک میم صاحبہ کے لڑکا پیدا ہوا اور دودھ پلانے کے واسطے حسب معمول گدھی کی ضرورت ہوئی۔ اپنے بیر اکو بلاکر فرمایا:ول بیرا! بابا کے واسطے ایک گدھا لائو۔ بیرا بیچارہ ایک کمہار سے جاکر گدھا خرید لایا۔ اب میم صاحبہ دیکھتی ہیں تو اس کے تھن ہی نہیں۔ گھبرا کر تیز چیختی آواز سے بولیں : ول بیرا یہ تو صاحب کے ماپیک ہے، ہمارے ماپیک لائو‘‘ ۴؎
اس میں اکبرؔ نے لطیفہ گوئی اور حاضر بیانی کے امتزاج سے مزاحیہ ماحول پیدا کیا ہے۔ ’’سسرل کی گالی‘‘، ’’بیل کا میم‘‘اور ’’بِل آف ایکسچینج‘‘ اسی قبیل کی مختصر تحریریں ہیں جن میں بذلہ سنجی سے لطافت و ظرافت پیداکردی ہے۔’’بِل آف ایکسچینج‘‘ کی یہ عبارت ملاحظہ کریں:
’’ایک صاحب نے شائستہ و تعلیم یافتہ لڑکے کی تعریف میں فرمایا کہ حضرت ماشاء اللہ یہ کرنسی نوٹ ہے جہاں پہنچا روپیہ لایا۔ ایک خوشامدی بیٹھے تھے ، بول اٹھے: بجاہے پیرو مرشد اگر کوئی دختر نیک اختر ہوتی تو وہ بھی ’’بِل آف ایکسچینج‘‘ ہوتی‘‘ ۵؎
’’سسرال کی گالی‘‘ بھی گوکہ ایک لطیفہ ہے مگر اس میں اس وقت کے ایک سلگتے سیاسی واقعہ پر طنز بھی ہے۔ ’’بیل کا میم‘‘ بھی ایک خوبصورت لطیفہ ہے:
’’ایک ولایت سے تازہ وارد انگریز کے سامنے ایک گاے کی چوری کا مقدمہ پیش ہوا۔ صاحب بہادر کا اجلاس سہ منزلہ کوٹھے پرتھا۔ صاحب بہادر گاے کانام سن کر گھبرائے اور کہا: گاے عدالت میں حاضر کیا جائے۔ اہل عملہ نے عذر کیا کہ گاے کوٹھے پر نہیں آسکتی، آپ نیچے چل کر ملاحظہ فرمائیں ۔ جب صاحب بہادر نیچے گئے اور گاے کو دیکھا تو فرمایا: او کالالوگ! ہم کو کھراب کرتا ہے، گاے گاے پکارتا ہے یہ نہیں کہتا کہ بیل کا میم ہے‘‘ ۶؎
(۵)کوئی کہتا ہے دیوانہ:
اپنی نوعیت کا بہت دل چسپ و لطیف تمثیلی مضمون ہے۔ اس میں خیال کو شخص قرار دیاگیا ہے اور اس کی زبانی بڑی شاداب باتیں کی ہیں۔ اس میں زبان لکھنوی کا چٹخارا اور بے ساختہ پن ملتا ہے۔ اس کے علاوہ حالات حاضرہ و گذشتہ پر تبصرہ و تنقید اور کچھ دوسرے سیاسی معرکوں کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ آغاز و اختتام حسین محاکاتی و مزاحی انداز میں ہوتا ہے۔ مضمون گرچہ طویل ہے مگر گراں نہیں گذرتا۔ عبارت بلا ترتیب پیش نظر ہے:
’’ہٹو بچو! سنبھل کر بیٹھو جگہ دو ہم آتے ہیں ہم آتے ہیں۔ ہاں ہاں ہم۔
یا اللہ اے حضت آپ ہیں کون؟
ایں ہم ہیں کون؟ ہم ہیں ہم۔
توبہ ارے میاں کچھ کہوگے بھی، آخر ہو کون؟
بتاہی دیں۔ ہم ہیں خیال ولد دماغ ولد نیچر ولد قل ہو اللہ احد۔
واہ ! واہ! یہ تو آپ نے اپنے نام کے ساتھ اپنا نسب نامہ بھی پڑھ سنایا یہ تو فرمائیے یہاں نہ کوئی کمیٹی ، نہ سوسائٹی، نہ لکچر، نہ آرٹِکِل، نہ چندہ ، نہ لاٹری آپ زور وشور سے جو تشریف لائے ہیں اس کا کیا باعث… کہنے میں کیا عذر ، وہ بھی سن لیجیے ؎
ہوتے تھے آگے ہند میں مجنون بادشاہ
کرتے تھے بے خطا بھی بہت خون بادشاہ
اے پنچ میرا عہد عجب عہد امن ہے
یعنی ہے اس زمانے میں قانون بادشاہ
یوں ہے تو خیر۔ خیرکیسی؟ خون جگر کھاکر نظم کروں اور آپ ایک خیر میں خاتمہ بالخیر کیے دیتے ہیں‘‘ ۷؎
غرض بے حد شاداب اور باغ و بہار مضمون ہے۔ اس میں زبان کی کاریگری ، مزاح کی تخلیق میں معاون ثابت ہوئی ہے۔ بہ اعتبار ظرافت اکبرؔ کا شاہ کار مضمون ہے۔
(۶)لالہ شتاب راے:
اکبر الٰہ آبادی نے لفظوں کی تکرار کے ذریعہ بھی مزاحیہ نثر کی اچھی مثال قائم کی ۔ ظرافت کی تخلیق کا یہ حربہ گرچہ فی زمانہ متروک ہوچکا ہے مگر اگلے وقتوں کے ادیبوں کا یہ مقبول حربہ تھا۔ یہ مـضمون اس طرز کا بہترین نمونہ ہے۔ ملاحظہ کریں:
’’مشفق مہربان! سلامت۔ بعد سلام شوق کے واضح ہو کہ یہاں سب خیریت ہے۔ فقط ۔ مکرریہ کہ اپنی خیریت مزاج سے مطلع فرمائیے۔ فقط۔ لیکن جلد مطلع فرمائیے۔ فقط۔ ہاں خوب یاد آیا بیرنگ خط نہ بھیجئے گا۔ فقط۔ مکرر یہ کہ اگر بیرنگ آئے گا تو واپس ہوگا۔ فقط۔ اس بے تکلفی کو معاف کیجیے گا۔فقط۔ زیادہ نیاز۔ فقط۔نیاز مند۔ فقط۔مکرر یہ کہ شتاب رائے۔ فقط۔مکتوب الیہ نے جواب میں یہ شعر لکھا:
تحریر بند کیجیے ایسے خطوط کی
بھرمار کیا ضرور ہے اتنے فقوط کی
(فقط کی جمع)‘‘ ۸؎
مختصر یہ بہ اعتبارِ ظرافت اکبر کا بہترین مضمون ہے۔
(۷)کلکتہ کی وجہ تسمیہ:
یہ مضمون ایک لطیفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں لفظوں کی الٹ پھیر ظرافت کی موجب بنی ہے۔ ملاحظہ کریں:
’’جناب پنچ! تسلیم۔ کلکتہ کی وجہ تسمیہ بہت لوگ لکھ چکے ہیں لیکن بندہ کی تحقیق بھی نرالی ہے۔ جب شروع میں اہل یورپ یہاں آئے تو پہلے کلکتہ میں جاکر دیکھا تو چند مشٹنڈے بیٹھے ہوئے گھاس کاٹ رہے تھے۔ ان لوگوں نے پوچھا اس شہر کا نا م کہا ہے۔ یہ اُلُّو کے پٹّھے سمجھے کہ پوچھتے ہیں کہ گھاس کب کاٹی۔ جواب دیا کل کاٹا۔ کثرت استعمال سے کلکتہ ہوگیا‘‘ ۹؎
(۸)مسلمانوں کی ترقی:
یہ بات واضح ہے کہ اکبر کی طنزیہ و مزاحیہ فکر مقصدی تھی ۔ چوں کہ مغربی نظام عروج پر تھا۔ براہِ راست کچھ کہنا بغاوت کے مترادف تھا ۔ اکبر نے ہنسی مذاق کا توازن پسندانہ پیرایہ اختیار کیا ۔ اکبر کا انداز مزاحی تھا مگر سنجیدہ مقاصد کا ترجمان تھا۔ علاوہ ازیں اکبر پررجعت پسندی و جدید ترقیات کا دشمن ہونے کی تہمت عائد کی جاتی ہے حالانکہ ان کے نثری اسلوب میں رجائیت و ترقی پسندی ملتی ہے۔ یہ مضمون اکبر کے ترقی پسند ذہنی رجحان کا امین ہے۔ اس میں انھوں نے ۱۸۸۲ء میں وکالت کے امتحان میں شریک امیدواروں کا ڈاٹا پیش کیا ہے جس میں مسلمانوں کافی صد () ایک ہے۔ اس پرافسوس و ملال کا اظہار کرتے ہوئے گویا ہیں:
’’اب ذرا انصاف کیجیے کہ علی گڑھ والا کافر کیوں نہ غل مچائے اور بگڑ بگڑ کر کیوں نہ گالیاں سنائے کیوں نہ کم بخت اور جاہل کا لقب دے۔ اے کسی زمانے کے کشور کشالوگو!اب تم کتاب کشائی کے قابل بھی نہ رہے۔ اے رئیسو! اے آسودہ حال صاحبو! تم اپنے موجود کھیتوں کی آمدنی کے بھروسے اپنی اولاد کے نہال عزت و آبرو کو کیوں خشک کررہے ہو۔ قیامت کو ابھی بہت دن باقی ہیں۔ غیرت مندوں کی جان پر تم ابھی سے کیوں قیامت ڈھارہے ہو‘‘ ۱۰؎
ناصحانہ انداز سے قطع نظر ان سطور میں قوم کا جو درداور متاعِ آبرو کی بربادی کی جو کسک پنہاں ہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔ اس سے یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود اکبر اور سرسید دونوں کے مطمح نظر کی تانیں ایک ہی جگہ ٹوٹتی ہیں اور مقاصد میں اشتراک نظرآتا ہے۔ دونوں ہی کلرک سازی و تقلید پرستی سے بیزار اور جدید تعلیم و علوم کے موئد تھے۔ مگر طریقۂ کار الگ و جداگانہ تھے۔ اکبر مزاح نگار تھے اورسر سید مصلح۔ اخلاقی ضابطوں کی پامالی، مسلمانوں کی معاشی و تعلیمی تنزّلی پر دونوں متفکر تھے۔
(۹)تم بھی برطرف:
اکبر الٰہ آبادی اور سرسید کی چشمک ادب کی تاریخ کا ایک دل چسپ باب ہے۔ سرسید نے علاوہ اور باتوں کے عقلیت پسندی کی رَو میں بہہ کرحضرت خضر کے وجود سے انکار کردیا۔ ’’خضر کوئی چیز نہیں‘‘(مطبوعہ تہذیب الاخلاق)میں اس عالمانہ بحث کو سرسید نے چھیڑا تھا۔ اکبر نے اس کی تردید نہیں کی صرف اس خیال کاتمسخر اڑایا۔ انداز و اسلوب کے لحاظ سے یہ اکبر کا نمائندہ مضمون ہے۔ اکبر کا انداز تحریر ملاحظہ کریں:
’’ایک نواب صاحب ایک مسندپر بیٹھے اور نوکر کو پکارنا شروع کیا اور جو سامنے آیا اس سے کہا تم بھی برطرف۔ یہاں تک کہ جو روبچے بھی برطرف۔اسی طرح سید صاحب نے ریفارمری کے اجلاس پر بیٹھ کر مذہبی لشکر میں تخفیف شروع کردی۔ تم کون ہو؟ حوریں برطرف۔تم کون؟ فرشتے ۔ تم بھی برطرف۔ تم کون؟ بہشت و دوزخ تم بھی برطرف۔ آخر عمر پوری کرکے ہمارے پرانے رفیق خواجہ صاحب بھی کہیں نظرآہی گئے۔ سید صاحب نے للکارا! یہ کون بڈھا آدمی جارہا ہے۔ جناب میں کمترین حضرت خواجہ خضر۔ تم بھی برطرف‘‘ ۱۱؎
(۱۰)چھپارہے گا نہ:
یہ بھی نسبتاً اچھا مضمون ہے۔ اس میں بہ انداز مزاح وکیل، منصرم اور پٹواری وغیرہ کی بددیانتی اور ضمیر فروشی کی تصویر کشی کی ہے۔ زبان اور آداب لکھنوی نے اس میں جان ڈال دی ہے۔ اندازِ بیان مکالماتی اور محاکاتی ہے۔
(۱۱)خداغارت کرے:
یہ ایک اچھی مزاحیہ تحریر ہے۔ تمثیلی و مکالماتی انداز غضب کا ہے۔ خشک سالی کاشتکاروں کی پریشانی ، موسم کی بے وفائی کو اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔ نیز رشوت خوری کی رسمِ دیرینہ کی خبر یوں لی ہے:
’’میرا نام بی رشوت ہے۔ قریب قریب اکثر ملازمین کے دلوں میں میرا مکان ہے۔ پہلے تو انسان مجھ پر عاشق ہوتے ہیں، مگر جناب میںا یسی ڈھیلی مٹی کی بنی نہیں کہ مجھ کو کھاکر اُوپر سے نمک سلیمانی یا پنجم صاحب کی گولیاں ، ایک بوتل سوڈا واٹر اُڑالی جائے اور بندی ہضم ہوگئی۔ جناب میرے کھانے سے تو وہ کھٹی کھٹی ڈکاریں آتی ہیں کہ فوراً بدہضمی کا پتہ چل جاتا ہے۔ علاوہ اس کے میر ا کنبہ ماشاء اللہ بہت بڑا ہے اور طرّہ یہ کہ ابّا جان تو کچھ کمسن نہیںیعنی زمانۂ سلف سے ان کا وجود ہے لیکن خدارکھے بڑے کلّے ٹھلے کے جوان ہیں ہاتھ پائوں کی قوت میں روز بروز ترقی ہوتی جاتی ہے۔ ایک نہ ایک بچہ ہر سال پیدا ہوتا ہے‘‘ ۱۲؎
رشوت خوری ایک آفاقی موضوع ہے۔ اس مضمون میں اس کے مضرت رساں اثرات کی تصویر کشی تمثیلی و محاکاتی نیز نسوانی طرز کے سہارے کی گئی ہے۔ اکبرؔ کے بہترین مضامین کی فہرست میں اسے شامل کیا جاناچاہیے۔
(۱۲)فلسفیانہ اوہام:
یہ مـضمون ’’فلسفیانہ اوہام‘‘ منطق طرازی و فلسفیانہ انداز تحریر میں اکبر کی نمائندہ نثر ہے۔ اس میں شے کی بالارادہ حرکت کو فلسفیوں کی خودساختہ حقیقت کانام دیا ہے۔ سائنسی اذہان رکھنے والوں کا عقیدہ ہے کہ ہر چیز اپنے ارادہ سے حرکت کرتی ہے۔ مگر مذہبی نظریات و عقائد اس میلان کی نفی کرتے ہیں۔ اندازِ بیان خشک مگر بحث نہایت معلوماتی ہے۔
(۱۳)مکرمی فتنہ انگیزی:
اس کا اندازِبیان بہت شگفتہ ہے۔ اس میں ایک خوش گوار واقعہ درج ہے۔ کسی صاحب کو انھوں نے ’’مکرما‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ایک دوسرے کو ’’مکرمی‘‘ کہا۔ مکرمی والے دوست نے یہ خیال فرمایا کہ ’’مکرمی‘‘ ’’مکرما‘‘ کی مادہ ہے۔شکایت کی اور اخیر تک نہیں مانے۔ مختصر یہ کہ یہاں لطیفہ سنجی اور اندازِ بیان سے ظرافت پیداکی ہے اور علم کی کمی سے پیدا ہونے والی فتنہ انگیزی کو ہدف طنز بنایا ہے۔
(۱۴)بجز اونٹ:
یہ قدرے طویل مضمون ہے۔ اس میں جدید ترقیات کے مخالفین کی کھِلّی اڑائی ہے۔ ایسے لوگوں کو طنز کا موـضوع بنایا ہے جو سائنسی ایجادات و گوناگوں ترقیات کے باوجود ریل موٹر پر اونٹ کی سواری کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ مضمون اکبریات کے طلبا کے لیے اہم مواد کی حیثیت رکھتا ہے۔ مضمون نیم مزاحیہ نیم سنجیدہ ہے۔ یہ اکبر الٰہ آبادی کی رجائیت پسندی، روشن خیالی اوروسیع النظری کی پُرزوردلالت کرتا ہے۔
(۱۵) پردۂ نسواں:
خواتینِ ہند کی تعلیم و پردہ اکبر کا خاص موضوع رہاہے۔ انھوں نے سید نذیر احمد انبالوی کے مضمون ’’درباب مخالفت پردۂ نسواں‘‘ کے رد میں یہ مضمون قلم بند کیا۔ اس میں مضمون نگار (نذیر احمد انبالوی)نے مردو زن کے مراتب میں مساوات کی حمایت اور عورتوں کو پردے کی قید بیجا کی پرزور مخالفت کی تھی ۔اکبرکو یہ بات ناگوار گذری اور اس کے ردِّ عمل کے طورپر یہ تحریر وجود میں آئی۔
متذکرہ بالا سطور میں اکبر الٰہ آبادی کی نمائندہ تحریروں کا تذکرہ کیا گیا۔ اس کی روشنی میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ اردو نثر کی تاریخ اکبر الٰہ آبادی کی نثری کاوشوں کا اہم حصہ ہے جنھیں باضابطہ کھنگالا نہیں گیا۔
اکبر کے طنز ومزاح کا موضوع ان کے عہد کی ناہمواریاں اور اقدارِحیات کی پامالیاں ہیں۔ تمثیل نگاری و مکالماتی انداز اکبر کے طنز ومزاح کا وصفِ خاص ہے۔ ان کے علاوہ محاکات، مکالمہ،جزئیات، ایمائیت، قصہ نگاری و لطیفہ گو ئی ان کے خاص حربے ہیں۔
اکبر کی نثر میں اصلاحی فکر کی جستجو زحمتِ بے جا ہے۔بحیثیتِ مزاح نگار اکبر اپنے عصر کی ناہمواریوں کی عکاسی کرتے یا کچوکے لگاتے ہیں۔ مگر وہ معاشرتی پھوڑوں کی جراحی کرنا نہیں چاہتے اور نہ ماحول سے برہمی ، بیزاری کا سایہ کہیں ملتاہے۔ اکبر کی نثر میں رجائیت ، شعلگی یا جذباتیت نہیں ملتی۔ وہ نہایت خوشگواراور لطیف انداز میں معاشرے کی بے ڈھنگیوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ یہ طریقۂ کار عینی طورپر مزاح نگار کا ہے نہ کہ طنز نگار یا مصلح کا۔
اکبر الٰہ آبادی کا نثری اسلوب قدیم و جدید کا سنگم ہے جو لطافت ، ذہانت ، بے ساختگی کے مرکب سے تیار ہوتا ہے۔ اس میں نہ کہیں ثقالت ملتی ہے ، نہ رومانیت ، نہ آداب و القاب کی گراں باری۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اکبر کی نثر حالیؔ کی نثر کی مانندروکھی پھیکی ہے۔ اکبر ؔ نے اپنی نثر میں دل چسپی کے عنصر کوہرجگہ برقرار رکھا ہے۔اکبر کی نثر کا یہ وصف غالبؔ کی نثر کی یاد تازہ کرتا ہے۔ مگر غالبؔ اس طرز کے موجد ہیں اور اکبر اپنی تمام تر جدّتوں کے باوجود غالبؔ کے خوشہ چیں۔ اکبر کی نثر پر روایت کا اثر عیاں ہے اس کے باوجود اس کی اہمیت و لسانی حییثت مسلّم ہے۔
حواشی:
۱۔ اکبرؔ الٰہ آبادی۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعہ،مطبوعہ ۱۹۹۴ء ،سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور۔ ص۴۱۵۔
۲۔’’اودھ پنچ‘‘ جلد اول ۲۴؍ اپریل ۱۸۷۷ء، ص ۷۵۔ ’’انتخاب اودھ پنچ‘‘
۳۔ ’’اودھ پنچ‘‘ جلد اول۲۹؍مئی ۱۸۷۷ء ۔ ’’انتخاب اودھ پنچ‘‘ص ۹۸۔۹۷۔
۴۔ ’’اودھ پنچ‘‘ جلد اول۱۹؍جون ۱۸۷۷ء ۔
۵۔ ’’اودھ پنچ‘‘ جلد دوم۲۵؍ستمبر ۱۸۷۷ء ۔’’نقوش‘‘ لاہور طنز و مزاح نمبر،ص ۲۹۸۔
۶۔ بہ حوالہ’’نقوش‘‘ لاہور طنز و مزاح نمبر،ص ۲۹۸۔
۷۔ ’’اودھ پنچ‘‘ ۔جلد دوم۶؍اگست ۱۸۷۸ء ۔
۸۔ ’’اودھ پنچ‘‘ جلد پنجم،۱۰؍ فروری ۱۸۸۱ء ۔ص ۴۔
۹۔ ’’اودھ پنچ‘‘ جلد پنجم،۲۸؍ جون ۱۸۸۱ء ۔نمبر ۲۶، ص ۴۔
۱۰۔’’اودھ پنچ‘‘ جلد ششم،۱۰؍ جنوری ۱۸۸۲ء ۔نمبر۱ ۔ضمیمہ ۱۔
۱۱۔’’اودھ پنچ‘‘ جلد ہشتم،اپریل ۱۸۹۶ء ۔نمبر ۱۴۔بحوالہ فائل مملوکہ محمودآباد لائبریری، ریاست محمود آباد۔
۱۲۔’’اودھ پنچ‘‘ جلد ہشتم،۱۰؍ستمبر ۱۸۹۶ء ۔نمبر۳۷۔بحوالہ فائل مملوکہ محمودآباد لائبریری، ریاست محمود آباد۔