طنز و مزاح” دیوار” ​از: ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم

0
267

اسسٹنٹ پروفیسر ،ملت کالج دربھنگہ

دیوار محض پانچ حروف کا مرکب ہے اور جنس کے اعتبار سے مونث غیر حقیقی ہے. یعنی بے جان ہونے کی وجہ سے اہل زبان نے اسے مونث غیر حقیقی قرار دیا ہے. عربی میں اسے جدار اور انگریزی میں وال کہتے ہیں. لیکن معنی سب کے ایک ہی ہیں اوٹ یا پختہ پردہ. تعجب ہے کہ معنی کی سطح پر ان زبانوں میں اتنی رواداری ہے. ورنہ جانداروں میں تو اس طرح کی رواداری اب کمیاب ہی ہے. حضرت اشرف المخلوقات کا کیا پوچھنا.” ایشور اللہ ترو نام” بس یونہی طوطے کی طرح رٹ لیا ہے.سمجھ میں نہیں آتا کہ کچھ جانوروں کو لوگ خونخوار کیوں کہتے ہیں .؟ اللہ خیر کرے . بہر کیف.

دیوار کے متعلق ایک سوال نے مجھے بہت پریشان کیا کہ بھلا دیوار کی تعریف کیا ہے یا دیوار کسے کہتے ہیں؟ ایک مدت تک پریشان ہونے اور تلاش بسیار اور پیہم تحقیق و جستجو کے نتیجے میں مجھے الہام ہوا کہ” جب کسی ٹھوس مادہ میں طول و ارض کے ساتھ ساتھ ایک خاص اونچائی ہو اور جسے آنکھیں دیکھ بھی سکیں اسے دیوار کہتے ہیں.” جیسے گھر کی دیوار، جیل کی دیوار، اسکول اور کالج کی دیوار وغیرہ وغیرہ. اس سلسلے میں ایک وضاحت عرض خدمت ہے کہ کچھ دیواریں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں اونچائی تو ہوتی ہے لیکن لمبائی، چوڑائی کا سرے سے فقدان ہوتا ہے پھر بھی دیوار کہلاتی ہے. جیسے مذہب کی دیوار، نفرت کی دیوار، ذات پات کی دیوارشرافت کی دیوار …. وغیرہ وغیرہ. اس نسل کی دیواروں کی خاص پہچان یہ ہے کہ دکھائی نہیں دیتیں. اسے صرف محسوس کیا جاتا ہے. اسی لئے یعنی دکھائی دینے اور دکھائی نہ دینے کی بنا پر دیوار کو ماہرین سماجیات اور تعمیرات نے متفقہ طور پر دو خانوں میں تقسیم کیا ہے. اول وہ دیوارجو دکھائی دیتی ہے اور دوئم وہ جو دکھائی نہیں دیتی ہے . اس کے علاوہ دیوار کی دو قسمیں اور ہیں جن کا شمار عجائبات میں ہوتا ہے. ایک ‘دیوار چین’ اور دوسرا `دیوار قہقہہ’. اول الذکر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کے سات عجائب میں سے ایک ہے. جبکہ آخر الذکر کے متعلق یہ مشہور ہے کہ جو کوئی اس کے اوپر سے نیچے کی طرف دیکھتا ہے وہ بے اختیار قہقہہ لگانے لگتا ہے. آج کے اس پر فتن دور میں جبکہ ہر آدمی روہانسا چہرہ لیے گھوم رہا ہے اس قسم کی دیوار کا وجود میں آنا عجوبہ ہی تو ہے. اس کے علاوہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں دیوار کی اہمیت ہوا پانی اور غذا کی طرح ہے. ایسا میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہماری زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو دیوار سے متاثر نہیں ہے. زبان و ادب یا عام بول چال کی گفتگو میں ہی دیکھئے. اگر دیوار نے معتوب اردو کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہ رکھا ہوتا تو محاوروں کی مفلوک الحالی کا یہ عالم ہوتا کی ہما شما کی تو بات ہی چھوڑیئے میر امن دہلوی بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ جاتے. اب بھلا دیوار کےبھی کان ہوتے ہیں، دیوار کھڑی کرنا……جسے کثیرالاستعمال محاوروں کو زبان و ادب سے خارج کر دیا جائے تو ذرا تصور کیجئے فرق و تفریق کے معاملات کو کیونکر بیان کیا جاسکتا اور راز و نیاز کی باتیں بھلا کیا معنی رکھتیں.

اس کی افادیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شہروں میں دیواریں رفع حاجت کے معاملے میں اتنی کارآمد ہوتی ہیں کہ پوچھئے مت. اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ صاحب دیوار رفع حاجت نہ کرنے کی تاکید کے علاوہ رفع حاجت کرنے والوں کا شجرہ نسب دیوار پر ہی بے غل وغش ایسے جانور سے ملا دیتے ہیں جس کی وفاداری کے بڑے بڑے قصے مشہور ہیں اور جس کے ایک بزرگ جد امجد کو جنت میں جانے کی بشارت بھی دی گئی ہے.

عوامی ذرائع ترسیل و ابلاغ میں اس کی افادیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ ریڈیو، ٹیلی وژن اور اخبارات و رسائل کو خطرہ در پیش ہے. کیونکہ دیواریں مفت میں ہی خبر رسانی کا جو اعلیٰ اور عمدہ خدمت انجام دیتی ہیں وہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبار پر ہزاروں روپیہ بھی خرچ کرنے پر ممکن نہیں ہے. خونخوار مجرموں کی گرفتاری ہو یا کسی شریف شہری کے گمشدگی کی خبر، کل ہند مشاعروں اور سیمیناروں کا پروگرام ہو یا قوالی کی ایک شام ان سب کی جانکاری دیواریں ہی فراہم کرتی ہیں. شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں بینڈ باجے کا پتہ معلوم کرنے میں دیواریں پہلا زینہ کا رتبہ رکھتی ہیں. بے روزگاروں کے لئے تو دیواریں اور بھی راحت بخش ہوتی ہیں. کیونکہ ان کی ساری برگستگی دیواریں ہی دور کرتی ہیں. دیواروں پر چسپاں فلمی اشتہار سے ان کی تفریح تو ہوتی ہی ہے، چپراسی اورسیکوریٹی گارڈ سے لیکر منیجنگ ڈائریکٹر تک کی سیکڑوں اسامیوں کا پتہ دیواریں فراہم کرتی ہیں.

دیواروں کے اور بھی بےشمار فوائد ہیں. جیسے کبھی کبھی کچھ خاص جگہ کی دیواروں کو دیکھ کر اسپتال کا گمان ہوتا ہے. کیونکہ ان دیواروں پر مرض اور اس کا علاج کی تفصیلات سے بعض لوگوں کو از خود تشخیص مرض کرنے کی صلاحیت کوند کر آجاتی ہے. کون سا کمبخت مرض ہے جس کا علاج دیواروں پر موجود نہیں ہوتا ہے. پیٹ میں جلن اور قبض دائمی کی شکایت ہے تو ماہرین حب حکیم نور میاں کا اشتہار زیادہ کارآمد ہے. حافظہ کمزور ہو رہا ہے تو سفوف دماغین کے استعمال کا طریقہ یاد کر لیجئے. بال سفید ہو رہے ہیں یا گر رہے یا ایک ایک بال گر چکے ہیں تو مرآداباد کے مشہور و معروف طبیب کے تجربات سے استفادہ کرلیجئے. اور اگر جنسی مرض نے آپکڑا ہے تو شرطیہ علاج کے لئے پرانی دلی کے کسی حکیم کا پتہ اور موبائل نمبر نوٹ کر لینے میں کوئی عذر نہیں ہے. غرض کوئی بیماری ہو سب کا علاج دیواروں پر موجود ہوتا ہے. اتنا ہی نہیں الیکشن کے دنوں میں سیاسی درد مندی، اعلانات امکانات اور بھی بہت کچھ دیواروں پر نظر آتے ہیں.جمہوری نظام میں یہ کوئی کم رتبے کی بات نہیں ہے.اس کے علاوہ ریلی، مظاہرہ، بھوک ہڑتال، ہیومن چین، خودسوزی، رام لیلا اور ملی کانفرنس جیسے پروگرام کی کامیابی کا دارومدار بھی دیواروں پر ہی ہے.

آخر میں دو باتیں اور عرض کرتا چلوں. پہلی بات تو یہ کہ دیواروں سے اچھا کوئی ساتھی نہیں ہوتا. یہ ہمارا محافظ ہیں. اور دوسری یہ ایک عجیب و غریب پہیلی ہے جس کو سمجھنا عام ہندوستانی کے بس کی بات نہیں ہے. کیونکہ کہیں یہ گرائی جاتی ہے تو قہر برپا ہوتا ہے اور کہیں کھڑی کی جاتی ہے تو ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے.چونکہ یہ تمام باتیں تحقیق شدہ ہیں اس لئے ان پر یقین کیا جا سکتا ہے لیکن اگر آپ کو شک یا شبہ ہے تو آزمانے کی اجازت ہے. شرط یہ ہے کہ دیواروں کا بغور جائزہ لیں.(یہ بھی پڑھیں!اشفاق احمد کا افسانہ گڈریا – ایک جائزہ از: ڈاکٹر محمد شاہنواز عالم)

Previous article“میں نہیں مانتا _ تم دہشت گرد ہو _”از: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
Next articleآیت اللہ العظمی حضرت امام خمینی کی ایک فارسی غزل کا منظوم اردو ترجمہ از:احمد علی برقی اعظمی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here