غزل:از تنظیم اختر

3
226

جہاں دیکھوں وہاں پاؤں میں تنہائی یہ تنہائی
نہ جانے کس طرف لیکر مجھے آئی یہ تنہائی

ہوئے تھے گم کہیں شاید ہم اس دنیا کے میلے میں
ہے ہم کو پھر ہمیں سے ہی ملا لائی یہ تنہائی

اکیلا یہ مجھے اک پل کبھی ہونے نہیں دے گی
رہے گی زندگی بھر ساتھ تنہائی یہ تنہائی

یہی اب سوچ کر اس کو گلے ہم نے لگایا ہے
کہ اپنی جان دے کے ہم نے ہے پائی یہ تنہائی

بھری محفل میں جی اپنا نہیں لگتا ہے کیوں تنظیم
یوں لگتا ہے طبعیت کو مرے بھائی یہ تنہائی

دوحہ قطر

Previous articleمجید امجدکی نظمیں:ایک ماحولیاتی تنقیدی مطالعہ
Next articleنظم “ظفر ؔکمالی” از ظفر ؔکمالی

3 COMMENTS

  1. سلام مسنون
    کمال کر دیا بھائی۔کیا ہی خوبصورت اشعار
    مکمل غزل اک لئئے میں ہے ۔۔کیا کہنے

    طالب دعا
    ​✍?….. #نون_میم : #نؔورمحمد_بن_بشیر

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here