ڈاکٹر ظفرکمالی

شاعر کا خط مدیرِ محترم کے نام
دست بستہ ، سر خمیدہ ، باادب با احترام
اے مدیرِ محترم میں عرض کرتا ہوں سلام
مقتدی میں آپ کا ہوں آپ ہیں میرے امام
آپ ہی آقا مرے میں آپ کا ادنا غلام
حال پر میرے کرم اتنا تو حضرت کیجیے
چوم لوں قدموں کو میں اس کی اجازت دیجیے
آپ جب پیرِ ادب ہیں کیوں نہ ہوں روشن ضمیر
آپ کی عظمت کے آگے کیا ہیں غالبؔ کیا ہیں میرؔ
لانہیں سکتا زمانہ ڈھونڈ کر اس کی نظیر
اس جہاں میں آپ جیسا ہے کہاں کوئی مدیر
صاحبِ فہم و ذکا ہیں صاحبِ ادراک ہیں
آپ اردوے معلاّ کی مقدس ناک ہیں
کس قدر نامی گرامی خاندانی آپ ہیں
علم کے گہرے سمندر کی روانی آپ ہیں
جو چڑھی ہے فکر و فن پر وہ جوانی آپ ہیں
آج کل ملکِ ادب کی راجدھانی آپ ہیں
کیوں نہ عظمت کا رہے سرپر نشہ چھایا ہوا
آپ کا ہر قول جب ہوتا ہے فرمایا ہوا
چومتا ہوں چاٹتا ہوں میں رسالا آپ کا
با وضو پڑھتا ہوں میں حضرت مقالا آپ کا
دیتے ہیں نقّاد سارے جب حوالا آپ کا
پھر نہ ہو دنیا میں کیسے بول بالا آپ کا
آپ کی قیمت کہاں ہے آپ توانمول ہیں
جس میں ہیرے ہوں جڑے شہرت کے ، ایسے ڈھول ہیں
قد مرا کیا ہے ادب میں آپ اس کو ناپیے
ساٹھ غزلیں بھیجتا ہوں جلد ان کو چھاپیے
جانچیے گہرائیاں ، گیرائیاں بھی ماپیے
ساری غزلیں آگ ہیں جاڑے میںان کو تاپیے
میں ذرا بھی کم نہیں ہوں حضرتِ اقبال سے
پوچھیے رتبہ مرا جاکر کسی قوّال سے
جو غزل بھیجی تھی پہلے اس کو تولوٹا دیا
حاضرِ خدمت ہوا تو بات میں ٹرخا دیا
میں نے جب شکوہ کیا بہلادیا پھسلا دیا
سچ تو یہ ہے آپ نے زندہ مجھے دفنادیا
اب ستم ایسا نہ ڈھائیں آپ میری جان پر
آرہی ہے آنچ اب میرے قلم کی شان پر
آپ کہتے ہیں خیالوں کی جنھیں کھٹّی ڈکار
میرے وہ اشعار ہیںاردو ادب کا شاہکار
چھاپیے پھر دیکھیے اپنے رسالے کا وقار
کس طرح لگتی ہے درپر اشتہاروں کی قطار
ندرتِ افکار کا ٹاور(۱) ہوں اردو کے لیے
میں تو معجونِ شباب آور ہوں اردو کے لیے
(۱)ٹاور۔Tower
مجھ کو چھاپیں گے تو میں احسان اٹھائوں گا سدا
دیدہ و دل راہ میں حضرت بچھائوں گا سدا
صبح ہو یا شام میں مکھّن لگائوں گا سدا
آپ ہی کے نام کا بھونپو بجائوں گا سدا
پیرِ تسمہ پا ہوں قدموں سے لپٹ جائوں گا میں
خاک بن کر آپ کے در سے چمٹ جائو ں گا میں
چھاپیے تو دردِ دل کا میں فسانہ بھیج دوں
آج کل کیا عاشقوں کا ہے ترانہ بھیج دوں
اپنی نظموں اور غزلوں کا خزانہ بھیج دوں
آپ کی محنت کا بھی کچھ محنتانہ بھیج دوں
کہیے تو میں بھیج دوں رنگین اک تصویر بھی
خواب ہی کے ساتھ جائے خواب کی تعبیر بھی
کٹ چکی فصلِ سخن کھلیان بھی تیّار ہے
سر فرازی کا مری ، سامان بھی تیّار ہے
اک بڑے نقّاد کا فرمان بھی تیّار ہے
شکرِ رب ہے اب مرا دیوان بھی تیّار ہے
جھونکے سہہ سہہ کے خزا ئو ں کے کھِلے ہیں میرے پھول
عمر بھر کی میری پونجی کیجیے حضرت قبول
ساری دنیا یک زباں ہوکر یہ کہتی ہے حضور
آپ ہیں اردو کے موسیٰ آپ ہیںاردو کے طوٗر
ہر طرف پھیلا دیا ہے علم اورحکمت کا نوٗر
اپنی رحمت سے نوازے آپ کو ربِّ غفور
کب ستارا جگمگائے گا مری تقدیر کا
’’صبح کرنا شام کا لانا ہے جوے شیر کا‘‘
جاں نثاروں کی صفوں میں جلد شامل کیجیے
مجھ کو بسم اللہ کے گنبد میں داخل کیجیے
عقل کی باتیں سکھا کر مجھ کو عاقل کیجیے
کیا ادب کی ہے سیاست اس میں کامل کیجیے
چوستے ہیں کس طرح اردو کو یہ بتلا ئیے
یہ بڑا جادو ہے یہ جادو مجھے سکھلائیے
کب پڑے گی آپ کی مجھ پرنگاہِ التفات
اپنی آنکھوں سے میں کب دیکھوں گا خوشیوں کی برات
مجھ پہ کب نکلے گا گوشہ کب بنے گی میری بات
دیجیے گا کب مجھے اپنی محبت کی زکات
سامنے آئے گا کب تک میرے فن کا بانکپن
میری گمنامی نہ بن جائے کہیں میرا کفن
آپ ہوجائیں اگر حق میں مرے ابرِ کرم
خاص نمبر بھی نکل سکتا ہے مجھ پر محترم
اب سہا جاتا نہیں حالات کا ظلم و ستم
آپ ہی کے ہاتھ میں ہے میری شہرت کا بھرم
بے سہارا ہوں محبت کا سہارا چاہیے
ہے بھنور میں ، میری کشتی کو کنارا چاہیے
آپ چاہیں گے تو مجھ کوزندگی مل جائے گی
آنکھ والا میں بنوں گا روشنی مل جائے گی
فکر و فن کو اک نئی تابندگی مل جائے گی
دل کی مرجھائی کلی کو تازگی مل جائے گی
عاجزی کرتا ہوں میں مجھ کو بنالیں اب مرید
ورنہ ہوجائے گی میرے نام کی مٹی پلید