“سفید خون” ایک تجزیاتی مطالعہ
عارفہ مسعود عنبر
کہا جاتا ہے کہ ادب معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے ۔نثر ہو یا نظم ایک قلم کار جو کچھ دیکھتا ہے محسوس کرتا ہے ، اسے ہی الفاظ کی لڑی میں پرو کر صفحہ قرطاس کے سپرد کر دیتا ہے ۔ جدید اردو نثر میں جس صنف نے سب سے زیادہ مقبولیت اور ترقی حاصل کی ہے وہ صنف افسانہ نگاری ہے ۔ افسانہ زندگی سے عبارت ہے اور انسانی زندگی سماج میں تشکیل پاتی ہے ۔مختصر افسانے میں سماجی زندگی کی بھر پور عکاسی ملتی ہے ۔ایک افسانہ نگار اپنے افسانے کے کرداروں کے ذریعے اپنی اپنی سوچ و فکر اور عمل کو اجاگر کرتا ہے ۔مختصر افسانہ خارجی واقعات اور داخلی کیفیات اور محسوسات کا ترجماں ہوتا ۔ اس لیے افسانہ سماجی سروکار سے مبرا نہیں ہو سکتا ۔
یامین برکاتی صاحب کے افسانوی مجموعے ”سفید خون“ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ برکاتی صاحب نے سماجی زندگی اور نفسیات کے معمولی اور غیر معمولی پہلوؤں کا باریک بینی سے مشاہدہ کر کے سلیقے سے افسانے کے قالب میں ڈھال دیا ہے ۔موجودہ دور میں برکاتی صاحب اردو فکشن کی ناقابلِ فراموش خدمات انجام دے رہے ہیں ۔یامین برکاتی کے افسانوں میں تخیل اور حقیقت کی حسین آمیزش دیکھنے کو ملتی ہے ۔برکاتی صاحب کے مجموعے “سفید خون”کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا دامن بہت وسیع ہے ۔اپنے معاشرے میں پھیلے مختلف مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے ۔یہ کہا جائے تو بیجا نا ہوگا کہ برکاتی صاحب کی کہانیاں موجودہ معاشرے کی چلتی پھرتی تصویر یںپیش کرتی ہیں ۔
آج اردو کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ اپنے ہی ملک میں اردو کے ساتھ متعصبانہ سلوک کیا جا رہا ہے ۔ہندستانی تہذیب و ثقافت کی جس حسین ترین لسانی تخلیق کو ہم اردو کے نام سے جانتے ہیں یہ خالص ہندوستانی زبان ہے ۔جو اسی ملک میں پیدا ہوئی اور اسی مٹی میں کھیل کود کر پروان چڑھی ہے ۔ لیکن رسم الخط اور لفظیات کو بنیاد بنا کر اسے غیر ملکی قرار دیا جانے لگا ۔اردو ہندی زبانوں کا حلقہ اوراثر ایک ہے ۔ان کی ترقی ایک ہی علاقے میں ہوئی جس کی وجہ سے یہ زبانیں ایک جیسی لگتی ہیں اور انہوں نے ہمیشہ ایک دوسرے سے استفادہ کیا ہے ۔دونوں نے ایک دوسرے کو متاثر کیا ہے ۔ان سے ملنے والی مماثلتوں کے سبب ماہر لسانیات نے انہیں سگی بہنیں قرار دیا ہے ۔لیکن اس کے باوجود اپنے مادر وطن میں ہی اردو تعصب کا شکار ہو رہی ہے ۔کیونکہ زبان کے سیاست دانوں نے اردو اور ہندی میں دوری پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔یامین برکاتی صاحب اپنے افسانے “سگی بہنیں” میں اردو کے اس درد کو اردو ہی کی زبان سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
”میں پردیس سے نہیں آئی ہوں ۔میں یہیں پیدا ہوئی ہوں ۔یہیں میرا بچپن اور جوانی بیتی ۔تیری اور میری ماں ایک ہی ہے ۔ہمارے دادا یعنی امیر خسرو نے ہم دونوں کو انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ۔ میری کلکاریاں یہاں گونجیں ہیں ۔جوانی کی اداؤں سے سب کو لبھایا ہے ۔پھر بھی تو مجھے پردیسی کہ رہی ہے ۔میں نے اس ہندستان کے چپے چپے پر ہندوستان کی تعریف کے نغمے گائے ہیں ۔ پھر تو ہندوستان کو میرے لئے پرایا کہتی ہے ”
[سگی بہنیں صفحہ نمبر 28]
سن 2014 سے 2018 تک گائے کے تحفظ کے نام پر طبقہ خاص پر کھلے عام تشدد ہؤا ۔ گو رکشوں یعنی گائے کے محافظوں نے گائے کی حفاظت کے نام پر مئی 2015 سے لیکر 2018 تک 40 افراد کو ہجومی تشدد کا شکار بنا کر ان کی جان لے لی گئی ۔ان واقعات میں گائے لیکر سفر کرنے والوں یہاں تک گائے پالنے والوں تک تشدد کا شکار بنانے سے نہیں چھوڑا گیا ۔ سماج میں پھیلی اس بدعنوانی کا اثر ایک حساس قلم کار کے دل پر پڑنا لازم تھا ۔ “چھتیس ہزاری کرنٹ” میں برکاتی صاحب نے انہیں سانحات کی ایک جیتی جاگتی تصویر پیش کی ہے ۔ جس میں گائے پالنے کے جرم میں پولس طفیل کو گرفتار کرنے آ جاتی ہے ۔ دروگا ساب وہ تو ہماری پولتو گائے ہیں ۔پانچ سال سے وہ ہمارے گھر ہے وہ اس کا بچھڑا ہے گائے کے دو بچے مر چکے ہیں ۔اس کو میں بچوں کے دودھ کے لیے پال رہا ہوں ۔تمہارے منیجر کو آج دکھائی دی ہے کیا ۔ پانچ سال سے اس کی آنکھیں پھوٹی تھیں یہ بات سارا گاؤں جانتا ہے میرا یقین نہیں کرتے تو ساب گاؤں کے ہندوؤں سے پوچھ لو ۔میری بات گلت لگے تو کہنا۔
[چھتیس ہزاری کرنٹ، صفحہ 66]
محبت خدا کی وہ نعمت ہے جس نے ہر سینے میں جگہ پائی ہے ۔ انسانی زندگی بھی قدرت کا بنایا ہوا ہوا ایسا عمل ہے کہ دن مہینوں میں اور مہنے سالوں میں گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان اپنی عمر کا سفر بھی طے کرتا رہتا ہے ۔اور بچپن سے جوانی اور جوانی بڑھاپے میں کب ڈھل جاتی ہے معلوم ہی نہیں پڑتا ۔لیکن برکاتی صاحب کے خیال میں محبت بوڑھی نہیں ہوتی ۔وہ پچاس سال بعد بھی ایک شگفتہ پھول کی مانند سینوں میں مہکتی رہتی ہے برکاتی صاحب نے محبت کے ان پاکیزہ اور خوبصورت احساسات کو افسانے “پچاس سال بعد” کی شکل میں سپرد قلم کر دیا ہے ۔ا فسانے کا ہیرو طفیل علی مستقبل کے لئے شاہین سے منگنی توڑ کر چلا جاتا ہے ۔ اور پچاس سال بعد اس سے معافی کا طالب بن کر اس کے سامنے پیش ہوتا ہے ۔لیکن عمر بھر شاہین نے اذیتیں اتھائیں ہیں ، تکلیفیں جھیلی ہیں اپنی عمر بھر کی تڑپ کو وہ اتنی آسانی سے کیسے معاف کر سکتی ہے ۔
میں تمہیں گواہ بنا کر معافی مانگتا ہوں ۔مجھے معاف کر دو شاہین !””کس بات کی معافی؟”
منگنی توڑنے کی” میری زندگی برباد ہو گئ میرے بنائے محل چکنا چور ہو گئے ،میرے ارمانوں نے اپنا گلا گھونٹ لیا ۔ اب معافی مانگنے سے کیا ہوگا ؟ کیا میرے ارمان زندہ ہو جائیں گے ۔ ؟ میرے خواب پورے ہو جائیں گے ۔ میری جوانی واپس آ جائے گی ۔کیا تمہاری معافی سے میرا رنگ روپ واپس مل جائے گا ۔ ؟ جاؤ اپنا کام کرو ” لیکن آج پچاس سال گزر جانے کے بعد بھی شاہین کتنی ہی ناراض صحیح اس کے دل میں جمال کی محبت مری نہیں ہے بلکہ آج بھی کسی گوشے میں سسک رہی ہے۔ تڑپ رہی ہے ۔اب شاہین جمال سے اس رستے ہوئے ناسور کا مرحم چاہتی ہے اور کہتی ہے “میں آپ کو ایک شرط پر معاف کر سکتی ہوں””میں تمہاری ہر شرط ماننے کے لیے تیار ہوں”” تو تھامیے میرا ہاتھ ” کیا ؟”جی یہی میری شرطہ ہے “ہم اور تم دادا دادی بن چکے ہیں ، پھر تم کسی دوسرے کی امانت ہو ” “ارشد کو گزرے تین سال ہو چکے ہیں “جمال میرا ہاتھ تھام لیجیے تاکہ میں اپ کی ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں ۔میں سچے دل سے آپ کو معاف کرتی ہوں ۔”اور میں دل کی گہرائیوں سے تمہیں اپناتا ہوں ۔او میرے سینے سے لگ جاؤ” کہ کر جمال شاہین کو گلے لگا لیتا ہے [پچاس سال بعد صفحہ 79] انسانوں میں رنگ نسل ،اور ذات برادری کی بنیاد پر تفریق اور اونچ نیچ کے تصور نے معاشرے میں زہر گھول دیا ہے ۔ لیکن اسلام کی تعلیمات انسانی مساوات پر مبنی ہیں ۔ صحابہ اکرام کے معاشرے میں ہمیں نسل ، ذات ،برادری کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق نہیں ملتی ۔موجودہ معاشرے میں موجود اسی تفریق کو یامین صاحب نے افسانہ “سلگتے ارمان ” کے ذریعے لوگوں کے سامنے لاکر قوم کو پیغام دیا ہے کہ سب انسان برابر ہیں ۔ ذات برادری کے چکر میں حمیرا کی شادی میں دیر ہو جاتی آخر کار اس کی سہیلی اپنے بھائی کا رشتہ لاتی ہے جو ذات کے فقیر ہیں جس کے لیے حمیرا کے والدین راضی نہیں ہیں ۔لیکن حمیرا اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتی ہے ” اچھا یار مجھے ایک ہفتے کی مہلت دے ۔میں ایک بار امی سے اس موضوع پر بات کر لوں ۔ تجھے معلوم ہے میں نے اس ذات برادری کے اوپر ہونی ورسٹی میں کتنے لیکچر دیے ؟وہ صرف لیکچر نہیں تھے میرے دل کی آواز تھی ۔ میں نے ہمیشہ ان فرسودہ پابندیوں کو توڑ کر سب کو ایک کرنے کی کوشش کی ہے ۔اور تونے عملی طور پر ان دیواروں کو گرانے کا موقع دیا ہے .[صفحہ نمبر 111 سلگتے ارمان ]پانی اللہ کی عطا کی ہوئی ایسی انمول نعمت ہے جس کے بنا زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ پانی قدرت کا وہ حسین تحفہ ہے جو نہ صرف انسانوں کے لیے بلکہ تمام نباتات اور حیوانات کی بقا کے لیے بھی ایک لازمی جز ہے ۔ پانی کے بغیر ر دنیا کی خوبصورتی اور رنگینی ممکن نہیں ۔ تاہم غلط استعمال کی وجہ سے پانی کی قلت کے خطرات منڈرا رہے ہیں برکاتی صاحب صاحب نے اپنے افسانے پانی کامول میں پانی کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ ” پانی لینے سے کون روکتا ہے ؟ مگر میں نے اکثر دیکھا ہے پبلکن کنکشنوں پر ٹونٹیاں نہیں ہوتیں ۔جتنی دیر سپلائی جاری رہتی ہے اتنی دیر پانی بہتا رہتا ہے ۔اگر ٹونٹیاں ہوں تو پانی بہنا بند ہو جائے اور لوگوں کو اپنی ضرورت کے لیے پانی ملتا رہے ۔پانی فضول میں بہتا رہتا ہے اور ضرورت مند ترستے رہتے ہیں “موجودہ دور میں دولت کی چمک نے رشتوں کی اہمیت کو پامال کر دیا ہے ۔ غریب رشتے دار کو رشتے دار کہنے میں شرم محسوس کرتے ہیں ۔ افسانہ ” غریبت کے تین نام ” میں رشتوں میں دم توڑتی ہوئی محبت اور مال و زر کی اہمیتِ کو پیش کیا ہے۔ امیر بھائی سراج صاحب کے گھر غریب بھائی حامد کے آنے پر سراج صاحب کس طرح بے عزتی کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ۔۔”السلام علیکم بھائ صاحب ‘ حامد نے سراج صاحب کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔اس کی آواز میں ڈر اور جھجھک کی آمیزش تھی ۔لیکن خلوص و محبت سے بھر پور لحجہ تھا۔’وعلیکم السلام” چڑھے کیوں جاتے ہو سلام تو دروازے سے بھی ہو سکتا تھا ۔ دیکھتے نہیں یہاں شریف لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ۔جاو باہر ٹین شیڈ میں بیٹھو”[غربت کے تین نام صفحہ 176]برکاتی صاحب کے مجموعے “سفید خون ” کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں عصری تقاضوں ،حقیقی زندگی اور اس کے زندہ تہزیبی مظاہرات کو نہایت خوبصورت انداز میں سمونے کی کوشش کی ہے ۔ برکاتی صاحب نے اپنے گہرے مشاہدے تخلیقی زرخیزی اور وسیع تجربے سے اپنے افسانوں کو شاہکار بنا دیا ہے ۔ زبان سادہ اور عام فہم ، تکلف اور بناوٹ سے پاک ہے ۔ لیکن کہیں کہیں قواعد کی اغلاط اور جملوں کی برجستگی کی کمی کھٹکتی ہے ۔لیکن افسانوں میں اصلاحی پہلو ابھر کر سامنے آتے اور یہی افسانوں کی کامیابی کا سبب ہے ۔موجودہ معاشرے میں ظہور پذیر ہوئے واقعات نے تاریخی دستاویز کی شکل اختیار کر لی ہے ۔جس کے لیے برکاتی صاحب حقیقی مبارک باد کے مستحق ہیں ۔خاکسار دست دعا گو ہے کہ اللہ کریم آپ کا سایہ تادیر بناے رکھے ۔اور آپ کا قلم عمر کے آخری ایام تک رواں دواں رہے ۔۔آمین ثم آمین یا رب العالمین
9639595277