پروین شاکر سول سرونٹ تھیں، سی ایس ایس کر کے کسٹم کے محمکہ میں ملازمت کی۔کم عمری میں ہی سخن فہمی کی وہ منازل طے کر چکی تھیں کہ عمر رسیدہ اور کہنہ مشق شعرإ بھی معترف نظر اتے تھے دوران ملازمت کراچی میں تھیں کہ فیصل آباد سے انہیں ایک سزاے موت کے قیدی کا خط موصول ہوا کہ وہ مرنے سے پہلے پروین شاکر کی کتاب پڑھنا چاہتا ہے،پروین شاکر نے اسے خط لکھا اور کتاب مہیا کر دی گئی۔کچھ دن بعد وہ قیدی ملک عدم کا سدھارا۔
ادب کی دنیا کا یہ درخشندہ ستارہ عمر کی چند بہاریں دیکھ کر ایک کار حادثے میں دنیا سے چل بسا۔۔۔۔۔۔۔
کلام ۔۔۔۔پروین شاکر
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی
جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
میں تو اس دن سے ہراساں ہوں کہ جب حکم ملے
خشک پھولوں کو کتابوں میں نہ رکھے کوئی
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ کوئی آواز کوئی چاپ نہیں
دل کی گلیاں بڑی سنسان ہیں آئے کوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی