ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی
پرسا، پریہار، سیتامڑھی، بہار
رابطہ نمبر:9199726661
شعبان المعظم کا مہینہ اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے اور رمضان المبارک کا مہینہ سایہ فگن ہونے ہی والا ہے۔ ہر طرف روحانی ماحول بنتا جارہا ہے۔ پوری دنیا کے نیک و صالح مسلمانوں کو شدت سے رمضان المبارک کی آمد کا انتظار رہتاہے، بلکہ یہ کہا جائے کہ رجب اور شعبان سے ہی وہ اس کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ جیسے جیسے یہ مقدس مہینہ قریب آتا جاتا ہے ویسے ویسے دیندار مسلمانوں، ان کے گھروں اور محلوں میں روحانیت اور خوشی کا ماحول بننے لگتا ہے۔ ہر کوئی روزہ رکھنے، قرآن کریم کی تلاوت کرنے، نیکی اور بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لیے اپنی اپنی کمر کسنی شروع کر دیتا ہے۔ بسا اوقات بچوں کا شوق تو بڑوں پر غالب محسوس ہوتا ہے۔ وہ رمضان کی آمد پر خوشیوں سے جھومنے لگتے ہیں کہ وہ بھی روزہ رکھیں گے۔ وہ اپنی ماؤں سے سحری کے لیے بیدار کرنے کی ضد پہلے سے ہی شروع کردیتے ہیں۔ میری چھوٹی بیٹی فاطمہ زہرا نے بھی اپنی والدہ سے ابھی سے ضد کرنی شروع کردی ہے کہ وہ اس بار رمضان المبارک کے پورے روزے رکھے گی۔ سحری کے لیے ضرور جگایا کیجیے گا۔ اس نے مزید کہا اس سال پورے مہینے کے روزے رکھنے سے اسے کوئی منع نہیں کر سکتا ۔ نہیں جگانے پر بھی میں روزے رکھا کروں گی۔ فاطمہ کی امی نے یقین دلایا کہ وہ اسے ضرور سحری کے لیے جگایا کرے گی۔ مجھے لگتا ہے میری بیٹی فاطمہ زہرا کی طرح ان تمام گھروں کے بچے اور بچیوں نے بھی روزہ رکھنے کا عزم مصمم کر لیا ہوگا اور والدین سے اس کا برملا اظہار بھی کررہے ہوں گے جن کے گھروں میں دینی و اسلامی ماحول ہوگا۔ عورتیں بھی اس کے استقبال میں اپنے اپنے گھروں کی صفائیاں کرنے میں مصروف نظر آرہی ہیں۔ سامانوں کو بھی صاف ستھرا کررہی ہیں۔ کچن و روز مرہ کے ضروری لوازمات اور سحری و افطار کے سامانوں، مثلاً کھجور اور روح افزا وغیرہ کی خریداری بھی ابھی سے ہی جم کی جانے لگی ہے۔ کل صبح میں میری اہلیہ نے کہا کہ ہر کوئی رمضان کے لیے ضروری سامان خرید رہا ہے۔ آپ بھی خرید لائیے۔ میں نے فوراََ حکم کی تعمیل کی۔ظاہر سی بات ہے جب ہمارے گھر کسی مہمان کی آمد ہوتی ہے تو ان کے والہانہ استقبال کے لیے بہت ساری تیاریاں کی جاتی ہیں۔گھر کی صفائی کی جاتی ہے، اس کو سجایا جاتا ہے، اہلِ خانہ خود بھی زینت اختیار کرتے ہیں اور بچوں کو بھی اچھے کپڑے زیب تن کرتےہیں،پورے گھر میں خوشی کا ماحول ہوتاہے،بچے خوشی سے اچھل کودکرتے ہیں۔ مہمان کی خاطرتواضع کیلئے انواع اقسام کے پکوان تیار کئے جاتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے شایان شان ان کا استقبال کیا جائے۔ جب اپنے جیسے ایک انسان کے استقبال کے لیے خود کو نچھاور کردہتے ہیں تو رمضان المبارک جو نہایت مہتم بالشان مہینہ ہے اور بطور مہمان ہمارے درمیان سال میں ایک ہی بار آتا ہے تو اس کے استقبال میں ہم کیوں نہ اپنی آنکھیں فرش راہ کریں اور کیوں نہ تن من سے اس کا استقبال اس کے شایانِ شان کریں۔
ہمارے پیارے رسول ﷺ بھی اس کا زوردار استقبال کرتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔ شعبان کے اخیر میں رمضان المبارک کی اہمیت، فضیلت اور عظمت پر پر مغز خطاب کیا کرتے تھے تاکہ صحابہ کرام کو اس کی قدر ومنزلت کاعلم ہوسکے اور وہ رمضان کے اعمال کو کما حقہ اداکرسکیں۔ ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطاب فرمایا : اے لوگو تم پر ایک ایسامہینہ سایہ فگن ہونے والاہے جوبہت ہی عظمت اور برکت والاہے۔ اس میں ایک ایسی رات ہے جس کی عبادت ہزارمہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دنوں میں روزوں کو فرض اور راتوں میں تراویح کو سنت قراردیا۔ ہمارے پیارے نبی ﷺنے اس مہینہ کو گنہ گاروں کے لئے غنیمت والا مہینہ بتایا ہے۔ پیارے نبی کا ارشاد ہے کہ اس مہینہ میں ایک فرض کاثواب ستر فرض کے برابر ملتاہے اور نفل کاثواب فرض کے برابر ہو جاتاہے۔
رمضان المبارک کامہینہ دراصل تربیت کا مہینہ ہے جس میں بھوکارہنے اور دوسروں کی بھوک اور تکلیف کو سمجھنے کی تربیت ہوتی ہے۔سخت سے سخت حالات کا سامنا کرنے کی تربیت ہوتی ہے۔اللہ کی عبادت، اللہ کے ذکر کے ذریعہ اس کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس کے روزے اورتراویح اس تربیتی مہینہ کانصاب ہے،اسی کو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ اےلوگو تم پر رمضان کےروزےفرض کئے گئے ہیں، جیساکہ تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیداہو۔یعنی روزہ کامقصد نفس کی تربیت ہے کہ آدمی کے اندر ضبط کی صلاحیت پیداہو، تقویٰ ہو اور وہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچاسکے۔ اس کورس پر اگر کوئی عمل کرلیتاہے تو بقیہ گیارہ مہینوں میں اس کے لئے عبادت کرنااورگناہوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔
ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت کرتے تھے کہ اکثر اس کے پانے کی دُعا فرماتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ شروع کردیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے :
مَاذَا يَسْتَقْبِلُکُمْ وَتَسْتَقْبِلُوْنَ؟
کہ کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا : نہیں۔ عرض کیا : کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں۔ عرض کیا : پھر کیا بات ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اِنَّ اﷲَ يَغْفِرُ فِی أَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ لِکُلِّ أَهْلِ الْقِبْلَةِ کہ بے شک اﷲ تعالیٰ ماہ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جیسے ہی ماہ رجب کا چاند طلوع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا فرماتے :
اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَارِکْ لَنَا فِی رَمَضَانَ کہ اے اللہ! ہمارے لئے رجب، شعبان اور ماہ رمضان کو بابرکت بنا دے۔ اے اللہ ! ہمیں رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان نصیب فرما۔شعبان کے دنوں میں رمضان کو پالینے کی تڑپ کا اظہار اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے انتظار میں شعبان کے دن گن گن کر گزرنے کی تحریک فرمائی ہے ۔ روایت اس طرح ہے:
عن ابي هريرة، قال: قال رسول اللّٰه: احصوا هلال شعبان لرمضان یعنی شعبان کے چاند رمضان کے انتظار میں گن گن کر گزارو۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شعبان کی آخر ی تاریخ کو وعظ فرمایا اور رمضان کی آمد کی خبر دیتے ہوئے آ پ نے فرمایاکہ سنو! تم پر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والاہے جو بہت بڑا اوربہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے روزے رکھنافرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کو ثواب ٹھہرایاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی نفلی نیکی بجا لائے گا تو وہ ایسے ہی ہے جیسا کہ عام دنوں میں فرض کا ثواب ہوور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے۔
مختصر یہ کہ عنقریب ہی ہم لوگوں پر رمضان المبارک نہایت آب وتاب کے ساتھ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس کی آمد سے قبل جس طرح ہم مسلمان اس کے والہانہ استقبال کی تیاریاں کررہے ہیں اسی جذبے اور ایمانی حرارت کے ساتھ پورے مہینہ اس کے عظمت اور تقدس کا ہمیں مکمل خیال رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک جیسا عظیم الشان مہینہ نصیب کرے اور ہمیں یہ توفیق ارزانی کرے کہ اس کو پاکر ہم سب اس کا مکمل احترام کریں، اس کے فیوض وبرکات سے اپنے دامن کو بھرلیں، اس میں پورے ماہ کے روزے رکھیں، جان بوجھ کر ایک بھی روزہ نہ چھوڑیں، قیام اللیل اور کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کریں، ذکر و اذکار میں ہمہ وقت مشغول رہیں، سرکش شیطانوں سے اللہ کی پناہ طلب کریں، جہنم سے گلو خلاصی اور بخشش کی دعا کریں، کسی کے ساتھ ظلم،نا انصافی، بھید بھاؤ نہ کریں، ہر طرح کی برائیوں سے بچیں، صدقہ وخیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، غریبوں، محتاجوں، ضرورت مندوں کا مکمل خیال رکھیں، اس مہینہ کے ایک ایک لمحہ کو غنیمت سمجھیں کہ یہی اس عظیم الشان مہینہ کی اہمیت، فضیلت، عظمت اور اس کے تقدس کا تقاضا بھی ہے۔