ایم آئی ٹی بی ایڈ کالج
پھلواری شریف، پٹنہ
عظیم آباد کی سرزمین قدیم زمانے سے ہی علم و فن اور شعر و ادب کا گہوارہ رہی ہے۔ اس کے خمیر میں ابتدائے آفرینش سے ہی علمی، تہذیبی،ثقافتی، مذہبی، صحافتی، ادبی اور شعری وسخنوری کی دلکش فضا پائی جاتی رہی ہے ۔ اس کی خاک سے ہمیشہ ایسے ایسے انمول جیالوں نے جنم لیے جنہوں نےعلمی، دعوتی ، تبلیغی ، اصلاحی، فلاحی ، سماجی ، سیاسی، صحافتی ، تنقیدی ، تحقیقی ، تخلیقی ، ادبی اور شعری و سخنوری ودیگر مجالات و شعبے جات میں کار ہائے گراں نمایہ انجام دیے اور اس( عظیم آباد )کو نہ صرف ملکی ، بلکہ بین الاقوامی سطح پر منفرد شناخت دلائی ۔ شعر و ادب کی دنیا میں اس کو “دبستان عظیم آباد” کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ یہ دعویٰ پورے شرحِ صدر کے ساتھ کیا جا سکتا ہے کہ “دبستان دہلی” اور “دبستان لکھنؤ” سے کسی بھی طرح کم درجہ “دبستان عظیم آباد” کا نہیں ۔ دہلی اور لکھنؤ کی طرح عظیم آباد کو بھی ہمیشہ سے ہی اردو کے بنیادی، اساسی اور اہم وعظیم دبستان کا درجہ حاصل رہا ہے۔ سہیل عظیم آبادی ، پروفیسر اختر اورینوی ، علامہ جمیل مظہری ، پروفیسر کلیم الدین احمد ، شاد عظیم آبادی ، راسخ عظیم آبادی ، بسمل عظیم آبادی ، بیدل عظیم آبادی ، مبارک عظیم آبادی ، کیف عظیم آبادی ، پرویز شاہدی اور رمز عظیم آبادی جیسے قدآور ، ممتاز، شش جہت اور عظیم المرتبت شعراء و ادباء نے اسی سر زمین کی خاک سے جنم لئےاور اردو زبان و ادب نیز صحافت کے افق پر ماہتاب وآفتاب بن کر چمکے اور عظیم آباد کو پوری اردو کائنات میں شہرت دلائی، اس کی عظمت و رفعت کا سکہ جمایا اور اس کو اردو کا عظیم دبستان بنانے میں ناقابل فراموش کارنامے انجام دیٔے ۔ زیر مطالعہ مضمون میں اسی دبستان کے ایک رمز شناس شاعر” رمز عظیم آبادی” کی نظم گوئی کے حوالے سے ذیل میں خامہ فرسائی کی جارہی ہے ۔
رمز عظیم آبادی نے یوں تو شاعری کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کی تھی مثلا: نعت ، قطعہ ، نظم اور غزل ۔ اکثر ناقدین کا خیال ہے کہ انہوں نے غزلوں سے اپنی شاعری کا آغاز کیا تھا لیکن بعد میں نظموں کی طرف متوجہ ہوگئے ۔ ان کے دو مجموعہ ہائے کلام ہیں ۔ ایک “نغمہ سنگ” جو 1988 میں شائع ہوکر منصہ شہود پر جلوہ افروز ہوا جبکہ دوسرا “شاخ زیتون” ہے جو 1998 میں زیور طبع سے مزین ہو کر منظر عام پر جلوہ گر ہوا ۔ ان مجموعہ ہائے کلام میں نظمیں اور غزلیں دونوں اصناف ہیں ، مگر غزلوں کے مقابلے میں نظمیں زیادہ ہیں جس سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ رمز عظیم آبادی بنیادی طور پر نظم گو تھے ۔ چونکہ وہ شریف النفس، نیک مزاج اور دینی افتاد طبع کے حامل تھے اس لیے بھی ان کے میلانات و رجحانات نظم گو ئی کی طرف زیادہ تھے ۔ مزید برآں یہ کہ وہ صغر سنی سے ہی نامساعد حالات کے تھپیڑوں کا شکار رہے ، اقتصادی و معاشی بدحالی کی چکیوں میں پستے رہے ، غریب والدین کے آنگن میں اپنی آنکھیں کھولی تھیں اس لیے امیر زادوں جیسی عیش و نعم اور آرام والی زندگی کبھی نصیب نہیں ہوسکی ۔ مہد سے لے کر لحد تک غربت ، نکبت ، مصیبت ، فلاکت اور عسرت زدہ زندگی بسر کی ، نو عمری میں ہی ان کے ناتواں کندھے پر اقتصادی معاش کا بوجھ لد گیا ، اپنا و اہل خانہ کا پیٹ بھرنے اور دو وقت کی عزت کی روٹی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کبھی قلی کا کام کیا ، کبھی رکشہ چلایا ، کبھی ہوٹل میں کام کیا اور کبھی پتنگ سازی کی ۔ ان کےیہ اشعار پڑھیے اور ان کے حالات کا بخوبی اندازہ لگائیے :
کھیلنےکی عمر ہی میں دنیا داری سیکھ لی
جانے کب رخصت میرا معصوم ہو گیا
تخم ریزی کر رہا ہوں میں اسی امید پر
پھولتے پھلتے ہوئے کل یہ شجر دیکھیں گے
جس شخص کے ایسے نامساعد و ناگفتہ بہ حالات ہوں، مزید برآں یہ کہ جو مزاجاً متدین و باشرع ہو وہ رومانوی افکار و خیالات کا حامل نہیں ہوسکتا ہے ، نا ہی وہ ان چیزوں کو غزل کے قالب میں ڈھال سکتا ہے ۔ نیز نا ہی وہ غزل کے زلف و کاکل اور گیسوؤں کو وہ سجانے و سنوارنے پر اپنی توجہ مبذول کر سکتا ہے جیساکہ عام طور پر غزل گو شعرا کرتے ہیں ۔ اگر رمز جیسا متدین و مفلس شاعر غزل قلمبند بھی کرے گا تو مجھے یقین کامل ہے کہ وہ اس میں غزل کی اصل روح کو جگہ نہیں دے سکے گا اور ناہی اس کے معنی و تقاضا کو صد فی صد پورا کر سکے گا ۔ مجھے رمز کی غزلوں سے انکار نہیں ۔ یقیناً انہوں نے غزلیں کہی ہیں ، مگر نظموں کے مقابلے میں غزلوں کی تعداد کم ہے اور جو غزلیں کہی ہیں وہ بھی مائل بہ نظم معلوم پڑتی ہیں ۔ غزل کا اپنا ایک علیحدہ مزاج ہوتا ہے جس کو ملحوظِ خاطر رکھا جانا چاہیے ، مگر مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ اکثر غزل گو شعراء نے اس صنف کو نظم کے مشابہ بنادیا ہے جس سے نظم اور غزل کے درمیان خط امتیاز کالعدم ہوتا جارہا ہے جو قطعاً مناسب نہیں ہے ۔
رمز عظیم آبادی کے عہد میں ملکی و عالمی سطح پر کئی جنگیں ہوئیں، مثلا : دوسری عالمی جنگ، کوریا – ویت نام کے درمیان جنگ ، ہندوستان- پاکستان کے درمیان، ہندوستان – بنگلہ دیش کے درمیان اور ہندوستان – چین کے درمیان جنگیں کئی بار ہوئیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ خواہ کسی سے بھی ہو اور جہاں کہیں بھی ہو تباہی کا باعث ہوتی ہیں اور سنجیدہ طبقہ کے لوگ جنگ و بد امنی کو قطعاً پسند نہیں کرتے ۔ رمز عظیم آبادی بھی اس طرح کی جنگوں کو قطعا پسند نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ ان جنگوں سے بہت ہی زیادہ بد دل و دکھی تھے ۔ وہ پر امن بقائے باہمی پر یقین رکھتے تھے ۔ وہ ہر طرف امن وامان کا دور دورہ چاہتے تھے ۔ بد امنی سے پناہ ونجات چاہتے تھے ۔ انہوں نے جنگوں سے اپنی شدید ناراضگی کا برملا اظہار “زمین” ، مقدس فرض” ، “بوئے حنا” ، “تاریخ کا المیہ” اور “فطرت آزار” جیسی اپنی کئی نظموں میں کیا ہے اور جنگ کی تباہیوں ، ہولناکیوں ، مضرات ونقصانات سے ہر کسی کو باخبر و آگاہ کیا ہے ۔ نیز امن بقائے باہم کا درس دیا ہے ۔
رمز عظیم آبادی کے عہدمیں ہمارا پیارا وطن ہندوستان تن کے گورے و من کے کالے انگریزوں کے ظالم پنجوں میں جکڑا ہوا تھا ۔ ملک کا ہر شہری، بالخصوص علماء ، ادباء ، شعراء اور صحافیوں کی پوری جماعت ان کے ظالم پنجوں سے نجات چاہتی تھی ۔ برٹش حکومت کی غلامی سے ملک کے ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی غرض سبھی ذات اور مذہب کے لوگ گلوخلاصی کے متمنی تھے ۔ سبھی طبقہ کے لوگ انگریزوں کے خلاف برسرے پیکار اور سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے ۔ جوش ملیح آبادی ، اسماعیل میرٹھی ، علامہ حالی ، فیض احمد فیض ، علامہ اقبال اور مجاز جیسے بلند پایہ شعراء اپنی نظموں کے ذریعہ انگریزوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے ۔ رمز عظیم آبادی بھی ان شعراء کے ساتھ اپنی نظموں کے ذریعے انگریزوں کے ایوانوں میں ارتعاش پیدا کر رہے تھے ۔ رمز کے اندر چونکہ حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر پایا جاتا تھا جس کا بین ثبوت “’26جنوری “، “سفر بہار”، ” عہد وپیماں”، ” برف میں پھول کھلے ” ، ” شام وطن ” ، ” پاسدارانِ وطن ” اور ” تاریخ کی آوز ” جیسی اہم نظمیں ہیں۔ رمز چاہتے تھے کہ انگریزوں کی غلامی سے جلد ملک کو آزادی حاصل ہو ۔ وہ اس کے لیے” ماہئ بے آب ” کی طرح تڑپ رہے تھے ۔ چونکہ انہوں نے اپنی کھلی و پھٹی آنکھوں سے برٹش حکومت کے ظلم و بربریت کا مشاہدہ کیا تھا اور ہندوستانیوں کے قتل عام کو قریب سے دیکھا تھا ، اس لئے انہوں نے حب الوطنی کے جذبے سے شرسار اور ہندوستانیوں کی محبت میں گرفتار ہو کر انگریزوں کے خلاف اپنی نظموں کے توسط سے صدائے احتجاج بلند کی ، ان کے ایوانوں میں زلزلہ و ارتعاش پیدا کیا اور ان کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔ “آب حیات” ، “صبح تمنا” ، “چاند کو چھونے کا قصہ ” ، ” مسیح و صلیب” اور ” تعارف ” جیسی درجنوں نظمیں میری ان باتوں پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہیں ۔
نظم “پاسدارانِ وطن ” کے چند اشعار ملاظہ فرمائیں :
کا رواں آگے بڑھا، گرداڑی شور ہوا
راہ دشوار تھی، سامان سفر کچھ بھی نہ تھا
کانٹے چبھتے رہے، چلتے ہی رہے آبلہ پاپا
پاسدارانِ وطن، پیکر ایثار و وفا
کج کلا ہان جنوں دار ورسن تک پہنچے
زرد موسم سے یہ گزرے تو چمن تک پہنچے
ایک اور نظم ” تاریخ کی آواز” کے یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
روشنی جاگی تو زنداں کی سلاخیں چمکیں
خندہء صبح سے ظلمت کا جگر چاک ہوا
حسن لیلیٰ وطن حوصلئہ دار و رسن
عشق بے باک تھا، بےباک تھا ، بے باک ہوا
جبر سے آنکھ ملانے کا ہنر آہی گیا
آگ میں پھول کھلانے کا ہنر آہی گیا
رمز عظیم آبادی بلاشبہ عوامی شاعر تھے تھے ۔ مزدوروں ، بے کسوں ، بے بسوں، غریبوں اور مظلوموں کے شاعر تھے ۔ انہوں نے جبر و تشدد اور ظلم و ناانصافی کے خلاف شدت سے آوازیں اٹھائیں اور سرمایہ دارانہ نظام پر کاری ضربیں لگائیں ۔ ان کی نظموں میں جوش ولولہ ، عزم اور حوصلہ کی بہتات ہے ۔ زمانے سے شکایت ہے اور فرسودہ نظام کو بدلنے کی للکار بھی ہے ۔ جذبات کی جولانی ہے اور الفاظ کی روانی بھی ۔ انہوں نے اپنے عہد کے نامساعد احوال و کوائف اور ملک میں بھڑکنے والی فرقہ پرستی کی آگ کے حوالے سے بڑے شد ومد کے ساتھ اپنی نظموں میں ناراضگی کا اظہارکیا ہے اور ان سب کی پرزور مذمت کی ہے ۔ موجودہ وقت میں ملک کے جو حالات ہیں وہ بہت ہی تشویشناک ہیں ۔ گنگا جمنی تہذیب کو مٹانے ، قومی یکجہتی کو ملیا میٹ کرنے اور ایک مذہب کے لوگوں کو دوسرے مذاہب کے لوگوں سے دور کرنے ، ان کے درمیان نفرت کی آگ بھڑکانے اور گندی سیاست کرنے کی جو شطرنجی چالییں چلی جارہی ہیں ان سب کی بھی رمز نے اپنی نظموں میں عکاسی و ترجمانی کی ہے اور ان سب پر کاری ضربیں لگائی ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :
یہ فلک دیکھ کر مسکرانے لگا
بجلیوں کو چمکنا سکھانے لگا
ابر کو تازیانے لگانے لگا
شادیانے خوشی کے بجانے لگا
پھر مشن بھارت کے ٹکڑے ہوئے
بھائیوں کی محبت کے ٹکڑے ہوئے
پھول کمہلاگئے، تازگی بٹ گئی
اہل فن بٹ گئے، شاعری بٹ گئی
آستاں ایک ہے، بندگی بٹ گئی
ظلمتیں بڑھ گئیں، روشنی بٹ گئی
رام کا دیس برباد ہوکے رہا
نغمہء عیش فریاد ہوکے رہا
سارے ہندو مسلمان لڑنے لگے
یعنی انسان سے انسان لڑنے لگے
خود چمن کے نگہبان لڑنے لگے
ہند کے دھرم ایمان لڑنے لگے
اور فرنگی سیہ کار ہنستے رہے
ان کے پالے ہوئے ناگ ڈستے رہے
جنگ کے دیوتا رقص کرنے لگے
حد ہے انسان سے انسان ڈرنے لگے
قافلے بے کسوں کے گزرنے لگے
ان اشعار میں رمز نے انگریزوں کے سیاہ و گھناؤنے کارناموں کو بے نقاب کیا ہے۔ آج کچھ لوگ انگریزوں کے آلہ کار بن کر بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں اور ہمارے پیارے ملک کے پھر سے ٹکڑے کرنے کی گھناؤنی سازشیں رچ رہے ہیں ان سب پر بھی ان اشعار سے کاری ضرب پڑ رہی ہے ۔ ان اشعار کی قرأت سے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ یہ ابھی ابھی قلمبند کئے گئے ہوں۔
رمز عظیم آبادی چونکہ واضح وعیاں نقطہ نظر کے حامل شاعر تھے۔ وہ کسی بھی بات کو برملا ، نہایت برجستگی اور پوری شدت کے ساتھ کہا کرتے تھے۔ وہ اپنی نظموں کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا کرتے تھے۔ دبے کچلے محنت کشوں اور مزدوروں کے درمیان بیداری کا صور پھونکا کرتے تھے ، انہیں اپنا حق حاصل کرنے کی تر غیب دلایا کر تے تھے ۔ وہ نہایت حساس، باخبر اور باشعور شاعر تھے ۔ معاشرے اور ملک کے حالات و نشیب و فراز سے بخوبی واقف تھے ۔ انہوں نے اپنی نظموں میں انسانی زندگی کے مختلف مسائل کو اس طرح پیش کیا ہے کہ قنوطیت میں بھی رجائیت کا احساس ہوتا ہے ۔ گویا رمز کی نظمیں ادب انسانی اور معاشرتی زندگی کا مکمل ترجمان ہیں اور یہی سب کچھ ان کی نظموں کی خصوصیات و امتیازات ہیں ۔ غالباً رمز کے ان فضائل وکمالات اور امتیازات و خصوصیات کے باعث ہی پروفیسر مختار الدین احمد نے شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی صف میں انہیں صف بستہ کیا ہے ۔ وہ رقمطراز ہیں :
” رمز عظیم آبادی ایک غیر مبہم نقطۂ نظر کے مالک ہیں اور اپنے شعروں کے ذریعے ایک واضح پیغام قارئین تک پہنچانا ان کا مقصد رہا ہے ۔ ایک طرف تو وہ دبے کچلے ہوئے محنت کش کو بیدار ہونے اور اپنا حق بزور بازو حاصل کرنے کا درس دیتے ہیں تو دوسری طرف عام لوگوں کے دلوں میں اس طبقہ کے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کےلیے کوشاں نظر آتے ہیں لیکن جو بات خاص قابل ذکر ہے وہ یہ ہےکہ رمز اپنے پیغام کو پراپیگنڈا نہیں بننے دیتے ۔ اس طرح ان کا رشتہ علامہ اقبال سے جڑتا ہے ۔ اقبال کی طرح رمز بھی کبھی فکر کوفن پر حاوی نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ آداب شاعری کو ملحوظ رکھا۔ شعری وسائل سے رمز نے پوری طرح کام لیا۔”(1)
پروفیسر اعجاز علی ارشد رمز کی نظمیہ شاعری کے سلسلے میں رقمطراز ہیں :
” فرقہ پرستوں کی مخالفت، جنگ سے نفرت، روشن خیالی، امن پسندی، انسانیت سے پیار، عظمت انسانی پر اصرار، سرمایہ دارانہ طاقتوں سے بیزاری اور فنکاروں کی حرمت کا احساس ان کی نظموں کے بنیادی فکری عناصر ہیں۔۔۔۔۔۔” (2)
پروفیسر علیم اللہ حالی رمز عظیم آبادی کو نظموں کا شاعر قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
“رمز عظیم آبادی نظموں کے شاعر ہیں۔ انہوں نے کامیاب موضوعاتی نظمیں لکھی ہیں ۔ ہندوستان قکی آزادی، طبقاتی کشمکش، استحصال، اردو زبان، فرقہ وارانہ کشیدگی، انسانی معاشرے کی تخریب کاری، رجعت پرستی، عصبیت، وطن دوستی، ادیب کےذہن و قلم کی آزادی، ارتقائے حیات و تہذیب انسانی، قومی یکجہتی ، قیام امن عالم ، سرمایہ داروں کے خلاف نفرت و بیزاری ،اکابرین وطن کا احترام اور مذہبی جذبے کی سرخوشی —- یہ سارے موضوعات و احساسات رمز کی دسترس فن میں اسیر ہیں ۔ رمز نے انہیں کامیاب انداز میں برتا ہے ۔ دیکھا جائے تو ان متذکرہ موضوعات میں فکر و نظر کی ایک بسیط و عریض دنیا سمٹ آئی ہے ۔ اس لحاظ سے رمز کی شاعری کا کینوس خاصا وسیع ہے ۔ ” (3)
رمز عظیم آبادی کو بعض قلم کاروں نے اشتراکی ترقی پسند قرار دیا ہے ۔ انہیں ان کے احوال و ظروف اور دونوں مجموعہ ہائے کلام “نغمہ سنگ” اور شاخ زیتون” کےمطالعہ سے قطعا اس بات کا اندازہ نہیں لگتا کہ وہ اشتراکی ترقی پسند شاعر تھے ۔ انہوں نے کئ نعتیہ کلام بھی کہے ہیں جن سے ان کے دین پسند اور مذہب پسند ہونے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ معروف ادیب پروفیسر عبدالمغنی نے بھی انہیں غیر اشتراکی ترقی پسند قرار دیا ہے۔ جن لوگوں نے انہیں اشتراکی ترقی پسند گردانا ہے ان سب کا انہوں نے بالدلیل انکار ورد کیا ہے ۔ اس سلسلے میں وہ فرماتے ہیں :
” رمز کو لوگ اشتراکی ترقی پسند سمجھتے ہیں لیکن ان کے دوسرے مجموعہ کی جو نظمیں میرے سامنے ہیں ان میں چند موضوعات یہ ہیں : “معراج “، “‘روح اسلام” ، “رحمت” ، “جزو کل” اور “جلوہ ہی جلوہ”۔ ظاہر ہے یہ سب اسلامی موضوعات ہیں اور نعتیہ کلام کے نمونے ۔ ان سے رمز کی اسلام پسندی اور حب رسول نمایاں ہیں۔ ” ( 4)
رمز عظیم آبادی نے اگرچہ باضابطہ طور پر نہ تو مدرسہ میں تعلیم حاصل کی تھی اور نہ ہی اسکول میں پڑھا تھا۔ اپنے شوق اور اپنی انفرادی محنت سے پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا ۔ مطالعہ چونکہ پابندی سے کیا کرتے تھے اس لیے اپنے اندر علمی استعداد پیدا کرلی تھی ، البتہ شاعری میں اصلاح کے لئے منظر عظیم آبادی ، ثاقب عظیم آبادی ، پرویز شاہدی اور شاد عظیم آبادی جیسے شعراء کے سامنے ان کے زانوئے تلمذ تہ کرنے کی روایتیں ضرور ملتی ہیں ۔ انہیں استاذی کا بھی شرف حاصل ہوا تھا وہ بھی کیف عظیم آبادی جیسے عظیم المرتبت شاعر کی جو اس بات کا غماز ہے کہ وہ یقینا ایک عظیم شاعر تھے ۔ لیکن تصویر کا ایک نہایت ہی افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اتنے بڑے وعظیم شاعر کی عظمت اور قدر و منزلت کا بروقت کسی کو بھی اندازہ نہیں لگ سکا تھا ۔ کسی نے بھی ان کو یا ان کی شاعری کو قابل اعتنا نہیں سمجھا اور نا ہی ان سے ہمدردانہ رویہ اختیار کیا جس کی وجہ شاید ان کی غربت وافلاس زدہ زندگی رہی ہوگی ۔ اس بات کا احساس خود رمز کو بھی تھا ۔ ساتھ ہی انہیں یقین کامل بھی تھا کہ آج ان کے ہمعصر انہیں لائقِ اعتنا سمجھتے ہیں مگر :
آنے والی نسلیں ہم کو بھول سکیں نا ممکن ہے
نقش قدم کے مٹتے مٹتے راہ گزر بن جائنگیں
رمز نے ببانگ دہل اس بات کا بھی دعویٰ ٹھونک دیا تھا کہ:
فنکار کوئی تجھ بن
ہوگا نہیں ناکارہ
ہر نقش قدم تیرا
یادوں کا ہے فوارہ
رکھے گا تجھ کوزندہ
بس تیرا ہی فن پارہ
کر عیش کہ اب دنیا
دکھ دے گی نہ دوبارہ
رمز عظیم آبادی بلا شبہ ایک عظیم نظم گو تھے۔ اگرچہ انہوں نے بہت ساری غزلیں بھی کہیں مگر ان کی تخلیقیت کا اصل جوہر ان کی نظموں میں پنہا ہے ۔ ان کی نظموں کی روانی اور بر جستگی ان کے فطری شاعر ہونے کا پتہ دیتی ہے ۔ انہوں نے خود بھی فطری شاعر ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے:
حسین فطرت دیے ہیں جسے مقدر نے
وہ رمز شاعر فطرت سلام کہتا ہے
تجھے سماج کی پابندیاں مبارک ہوں
شکار سازش دولت سلام کہتا ہے
یقیناً رمز ایک کہنہ مشق، با کمال اور قادر الکلام شاعر تھے جنہوں نے اپنی نظموں کے توسط سے برٹش حکمرانوں کے ایوانوں میں ارتعاش پیدا کیا ، سامراجی وسرمایہ دارانہ نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، محنت کشوں اور مزدوروں کو حوصلہ بخشا، سماجی نابرابری پر حملے کئے، جنگ وجدال کو غلط گردانا، ملک کے ہر شہری کو امن بقائے باہمی کا درس دیا، قومی یکجہتی کے فروغ پر زور دیا، احترام انسانیت کا پاٹھ پڑھایا، دین پسندی اور حب الوطنی کا سبق پڑھایا ، مگر بدقسمتی سے ایسا باکمال و عظیم شاعر نا قدری ، بے قدری اور بے اعتنائی کی صلیب پر چڑھا دیا گیا تھا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب نئ نسل کو انکی اور ان کے کلام بالخصوص نظمیہ کلام کی اہمیت اور قدرو منزلت کا احساس ہو گیا ہے ۔ وہ انہیں در نایاب اور لؤلؤ و مرجان سمجھنے لگے ہیں اور انہیں اس بات کا اعتراف ہو گیا ہے کہ ان کی نظمیں فنی اور موضوعاتی میزان پر کھڑی ہیں ۔ اردو نظم گوئ کا یہ آفتاب 1916کے ماہ جون میں طلوع ہوا اور 15/جنوری 1997ء کو ہمیشہ ہمیش کے لۓ غروب ہو گیا۔
*حواشی:*
(1) رمز عظیم آبادی، شخصیت اور فن ، ص : 28، مرتب : محمد شمس الحق، ادارہ ” سلسلہ” ، پٹنہ، اپریل 2000
(2) بحوالہ ” شاخ زیتون ” پروفیسر اعجاز علی ارشد، ص: 25
(3) بحوالہ رمز عظیم آبادی، شخصیت اور فن، مضمون : پروفیسر علیم اللہ حالی، ص: 31
(4) ایضًا، مضمون : بشیر احمد، عوام کا چہرہ -رمز عظیم آبادی، ص: 40
E-mail : serajullahtaimi@gmail.com