شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
تعلیمی زندگی میں میرے والد ایک زندہ کتاب کی طرح خاموشی سے ہمیں علمی میدان کے لیے تیار کرتے رہے۔ وقت کی پابندی، زیادہ سے زیادہ کام کے گھنٹوں کا استعمال، متنوع میدانوں کی سیر، ہمہ وقت مشغولیت اور کاروباری، ادبی اور سماجی کاموں میں توازن بٹھانا؛ ایسے اوصاف تھے جنھیں مجھے اپنے آپ ان سے سیکھ لینا چاہیے تھا۔ ان کی زندگی میں فرصت کے اوقات نہیں تھے۔ علی الصباح آنکھ کھلنے سے لے کر دیر رات سونے کے وقت تک ان کے سب کام متعین تھے۔ کمال یہ کہ امارتِ شرعیہ کے رئیس النُّقباء، بیت المال کے محافظ، یتیم خانہ اور مدرسۂ اسلامیہ کے سرگرم کارکُن، ادبی اداروں کے سرپرست اور رکن، کانگریس کے ورکر، شاعر، محقق، افسانہ نگار، ناول نگار، تنقید نگار، مورخ، تذکرہ نگار اور نعت گو جیسی حیثیات ان کے حقیقی پیشۂ وکالت سے الگ تھیں۔ ان چیزوں سے جتنا سیکھ پایا، وہ میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔ اسکول میں جب سالانہ امتحانات کے نتائج سامنے آتے تو کلاس میں اوّل آنے کے فخر سے سرشار ہم گھر آتے مگر ہمارے والد پنسل لے کر ڈائری میں آئے نمبروں کو دیکھتے ہوئے بڑی ملائمیت سے بتاتے کہ حساب میں جو ۹۵؍نمبر آئے ہیں، ان میں ۵؍نمبر کا اضافہ ممکن تھا۔ وہ پنسل سے اس کے سامنے ۵+ لکھ دیتے۔ انگریزی میں ۷۰ نمبر ہے تو وہاں ۱۰+ لکھ کر اگلا ہدف مقرر کردیا جاتا۔ فرسٹ کرنے کا غرور پھٹ جاتا اور بیلون سے ہوا نکل جاتی۔ سالانہ امتحانات کے بعد ہر بچے کو اگلے کلاس میں جانے سے پہلے تھوڑی فراغت حاصل ہوتی ہے کہ کچھ دن پڑھائی سے نجات مل جائے اور موج مستی کی گنجایش پیدا ہو۔ مگر ہمارے والد آخری امتحان کا انتظار کرتے۔ اسکول سے واپسی میں دل میں یہ خیال ہوتا کہ آج سے مستی شروع ہوگی لیکن ان کا حکم ہوتا کہ بڑے بھائی کو ساتھ لے کر فلاں ماسٹر صاحب کے یہاں جائیے، وہاں سے اگلے سال کی کتابوں کی فہرست حاصل کرکے بازار جائیے اور کتابیں خرید کر جلد بندی کے کاغذات کے ساتھ گھر واپس آجائیے۔ اب جب نئی کتابیں خریدلی گئی ہیں تو یہ گنجایش ہی کہاں ہے کہ بغیر پڑھے عافیت ملے گی۔ سیکھنے کا ایسا خوشگوار اور بالواسطہ اسلوب ہم نے آسانی سے کہیں اور نہیں دیکھا۔ تعلیمی اور تدریسی دونوں زندگی میں ان راستوں پر چلتے ہوئے ہم نے اتنا پایا جس کا کوئی حساب نہیں۔
اساتذہ اور اپنے گھریلو ماحول سے جو حاصل ہوا، اسی کی برکت اور فیض سے یہ ممکن ہوا کہ دس روپے کے پوسٹل آرڈر کے ساتھ یونی ورسٹی سروس کمیشن میںجو درخواست جمع کی، اسی سے خدا نے اعلا تعلیم گاہوں میں تدریس کے لیے دروازہ کھول دیا۔ درخواست یوں ہی رواروی میں دے دی گئی تھی۔ انٹرویو دینے کے لیے جاتے وقت کسی سے کوئی صلاح ومشورہ کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی مگر اتنا ضرور سوچتے ہوئے وہاں پہنچا تھا کہ جیسے سوالات بھی پوچھے جائیں گے، ان کے جواب میں بہر طور دے سکتا ہوں۔ ایک خاصی مدت کے بعد بہار میں صرف سات آسامیوں کی گنجایش پیدا ہوئی تھی۔ اللہ نے یہ موقع اولین مرحلے میں ہی ہمیں عطا کیا۔ تقرّری کا پروانہ چھٹّیوں میں حاصل ہوا تھا اور جوائننگ کا انتظار تھا۔ میں نے اپنے دوست ظفر کمالی کی مدد سے پروفیسر شکیب ایاز کے درِ دولت پر حاضری دی اور ان سے مگدھ یونی ورسٹی کا نصابِ تعلیم طلب کیا۔ ان کے گھر بیٹھ کر میں نے انٹرمیڈیٹ اور بی۔اے۔ کا پورا نصاب اپنے ہاتھوں سے نوٹ کیا۔ ان سے دعائیں لیں، پھر اپنے وطن پہنچا۔ اردو کے اپنے اولین استاد مولانا علی الیاس عاجز، انگریزی کے کالج کے استاد پروفیسر روندرناتھ اوجھا اور ہندی کے استاد نظام الدین انصاری سے فرداً فرداً دعائیں لیں اور تدریسی زندگی کے آغاز سے پہلے ان سے پوچھا کہ کون کون سے کام مجھے اس نئے شعبۂ حیات میں کرنے چاہئیں اور کون سے کام نہیں کرنے چاہئیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ۱۹۹۲ء سے اب تک ۲۵؍برس بیت گئے ، ان کی بتائی راہ اب بھی بھٹکنے اور بکھرنے سے بچالیتی ہے۔
اس دوران میں نے مگدھ یونی ورسٹی کے نصاب تعلیم سے متعلق اپنے پاس کتابیں جمع کیں۔ چند کتابیں خریدیں اور کچھ لائبریریوں سے استفادہ کرکے خود کو اس لائق بنایا تاکہ تدریس کا کام شروع کرسکوں۔ اسی بیچ ایک المیہ پہلے ہی سامنے آچکا تھا یعنی اچھے کالجوں میں آسامیاں ہونے کے باوجود ایک سب ڈویزن کے کالج میں ہماری پوسٹنگ ہوگئی تھی۔ بعد میں لوگوں نے بتایا کہ اردو کے ایک استاد جو انتظامیہ کے بے حد قریب تھے، انھوںنے وائس چانسلر اور ان کے مشیر کار کو یہ مشورہ دیا کہ صفدر امام قادری اور منظر اعجاز کو کسی مرکزی جگہ پر نہ رکھا جائے کیوںکہ ان کا خیال تھا کہ ہماری وجہ سے بزرگ اساتذہ بے آبرو ہوجائیں گے۔ شہری زندگی سے تو سابقہ پڑا تھا لیکن قصباتی ماحول میں پہنچتے ہی پانی، بجلی، اخبار اور نہ جانے کتنی بنیادی ضرورتوں سے پیدا شدہ مسائل سامنے آگئے۔ یہی زمانہ ہے کہ بہار میں بعض سیاسی وجوہات سے امتحانات میں چوری کی عام فضا پیدا ہوگئی۔ نقل نویسی کے فیوض حاصل کرنے والی قوم کلاسوں میں کیوں کر آئے؟ میں چوںکہ پٹنہ سے دائودنگر پہنچا تھا، اس لیے طلبہ میں ایک خاص توجہ تھی مگر جیسے ہی ان کی بنیادی کتابوں کے بہ تفصیل پڑھنے کا معاملہ آتا، وہ نوٹس کی طلب کرتے اور مواد حاصل ہوتے ہی رفو چکّر ہوجاتے۔
ایسے ماحول میں اچانک محسوس ہوا کہ خوابوں کی تعبیر کے ساتھ ہی شکستِ خواب کا سلسلہ شروع ہونے لگا۔ جو کچھ اساتذہ نے پڑھایا تھا اور ہم نے بچا کر رکھا تھا، اس پہ اضافے کی کون کہے، اب تو اس علم کی حفاظت کا ہی مسئلہ درپیش تھا۔ جب پڑھائی کا ماحول بگاڑ پر ہو تو اساتذہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہی ہوتا ہے کہ اپنے علم کو کھونے سے وہ کیسے بچالے جائیں۔ بڑے ارمان سے اس ملازمت میں آئے تھے، مگر اب آپ کسے سکھائیں گے اور وہ نقل نویسی کے کھلے کھیل میں شرکت کے بجاے آپ کے سامنے کیوں کر زانوے ادب تہہ کرے گا؟
اس زمانے تک میرے لیے ٹیوشن یا کوچنگ سب سے معیوب کام تھے۔ اسکول کے زمانے میں ہی یہ بات دماغ میں بھر چکی تھی کہ کمزور طالبِ علم ٹیوشن پڑھتے ہیں یا گیس پیپر یا پاسپورٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ابتدائی زندگی اور میٹرک کے امتحان کے ٹھیک پہلے دو ہی مہینے کے لیے اساتذہ کے حکم پر مجھے ٹیوشن پڑھنے کا موقع ہاتھ آیا تھا۔ پٹنہ میں رہتے ہوئے اکثر آنرس اور ایم۔اے۔ کے طلبا مجھ سے باضابطہ طور پر ٹیوشن پڑھنے کے لیے کہتے رہتے تھے۔ میں چوںکہ خود پڑھنے پڑھانے کے اس عمل کو معیوب سمجھتا تھا، اس لیے ہمیشہ میرا انکار میں جواب ہوتا مگر اب کی بار مجھے محسوس ہوا کہ اپنی تعلیم کو بچائے رکھنے کے لیے باضابطہ طَور پر یونی ورسٹی کے طلبا کو ٹیوشن پڑھانے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ اس پڑھنے پڑھانے کے نئے راستے نے باضابطگی اختیار کرلی اور اپنے ناپسندیدہ عمل اور مشغلے کو میں نے ادارہ جاتی شکل عطا کرکے ایک مشکل گھڑی میں اپنا تعلیمی مصرف لینے لگا۔ اب جو پیچھے پلٹ کر اپنے اس ناپسندیدہ شغل کو اپنانے کی کہانی پر غور کرتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے اس وقت معقول فیصلہ لیا تھا اور اپنے دوست، احباب اور اساتذہ کے مقابلے زیادہ بچوں کو پڑھا کر کچھ نہ کچھ لیاقت پیدا کرکے انھیں ملازمت اور اہلیتی امتحانات میں کامیابی تک پہنچاتا رہا۔ سول انتظامیہ، یونی ورسٹی اور کالج، اسکول کے اساتذہ سے لے کر پولیس انسپکٹر تک کے امتحانات میں ہزاروں بچے کامیاب ہوئے۔ یہ صرف ہمارے کالج یا یونی ورسٹی کے کلاس روم تک محدود ہونے سے ممکن نہیں تھا۔ بعد میں یونی ورسٹی میں نقل نویسی بھی رک گئی اور بہت سارے کام معمول پر آگئے لیکن زندگی میں یونی ورسٹی سے الگ بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ کچھ ایسا قائم ہوا جو اب تک زندگی کا مستقل حصّہ ہے۔ نہ جانے کتنے رضاکار اداروں نے میری معاونت کی اور یہ کام اب تک کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
درس و تدریس کے عمومی اور روز مرہ کے کاموں کے علاوہ کئی اور کام ہیںجنھیں اساتذہ کو اپنی تدریسی زندگی میں حصّہ بنانا ہوتا ہے۔ یہ خوشی کی بات رہی کہ مجھے درسیات، نصابِ تعلیم اور درسی کتابوں کی تدوین کے بہت سارے مواقع حاصل ہوئے۔ اسکول کے نظامِ تعلیم کے سلسلے سے متعدد طرح کی سر گرمیوں سے متعلق رہا۔این۔ سی ۔ای ۔آر۔ٹی کے لیے متعدد جماعتوں کی کتابوں کی تر تیب میں میں نے مقدور بھر حصّہ لیا۔ارجن سنگھ جب وزیرِ تعلیم، حکومتِ ہند ہوا کرتے تھے، اس زمانے میں تعلیمی مشاورت کے دوران میری تجویزات کو بنیاد بنا کرمدارس کی جدید کاری کے لیے فیصلہ لیا گیا۔اور سائنس اورکمپیوٹر کے مدرس کی ذمّہ داری حکومتِ ہند نے قبول کی 2004سے بہار کی سطح پرنئے نصابِ تعلیم اور درسی کتابوں کی تدوین کا سلسلہ شروع ہوا۔ مجھے حکومتِ بہار نے اورینٹل لینگویجز گروپ کا چیر مین بنا یا جس کے ذمّے اردو، فارسی اور عربی زبانوں کی درجہ اوّل سے بارھویں جماعت تک کی درسی کتابیں تیار کرنے کا کام سپرد ہوا۔ قومی درسیات کے خاکے کوسامنے رکھتے ہوئے صوبائی سطح کی درسیات کا تصوّر سامنے آیا۔ ملک بھر میں اردو کے رائج نصابِ تعلیم، این۔ سی۔ ای ۔ آر۔ٹی کے نصابِ تعلیم سے موازنہ کرتے ہوئے صوبۂ بہار کے لیے نیا نصابِ تعلیم تیار کرنے کا کام میری نگرانی میں مکمّل ہوا۔حکومت کے اہل کاروں اور متعدد تعلیمی ماہرین کی اس تجویز پر میں ہمیشہ اپنی برہمی کا اظہار کرتا رہا کہ صوبۂ بہار میں بھی این۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی کے نصابِ تعلیم اور اس کی درسی کتابوں کوقبول کر لیا جائے۔ میں نے ہر بار یہ تجویز رکھی کہ این۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی کی اردو کتابیںتین ہزارکی تعداد میں شائع ہوتی ہیں مگر بہار میں ہر جماعت میں لاکھوں کی تعداد میں پڑھنے والے ہوتے ہیں۔ یہ بھی اہمیت کی بات تھی کہ بہار میں پہلی زبان کے طور پر اردو کو منتخب کر نے والے بچّوں کی تعداد بھی ہر درجے میں75 ہزار سالانہ سے کم نہیں ہوتی۔اس وجہ سے بہار کے لیے زبان وادب کی علاحدہ کتاب تیار کرنے کا فیصلہ ہوا۔
محکمۂ تعلیم کے افسروں سے میں نے پہلے ہی دن یہ بات طے کرا لی کہ اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں کتاب تیار کرانے کے لیے جو کمیٹی بنائی جائے گی، اس میں محکمۂ تعلیم کا کوئی دخل نہیں ہوگا۔اور مجھے آزادانہ طور پر کتابیں مکمّل کرنے کی سہولت حاصل ہوگئی۔ نصاب تیار ہونے کے بعدحکومتِ بہار نے یہ فیصلہ لیا کہ سب سے پہلے گیارہویں اور بارھویں جماعت کی درسی کتابیں تیار کی جائیں گی۔ ہماری تجویز پر یہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا کہ تمام زبان وادب کے مضامین میں قواعد اور زبان وادب کی مختصر تاریخیں بھی معاون درسی کتاب کے طور پر شامل ہوں گی۔’ کہکشاں‘ نام سے ہماری تیار شدہ دوجلدیں شائع ہوئیں۔اردو زبان وادب کی تاریخ کے لیے میری لکھی اوراردو قواعد کے لیے علی الیاس عاجز اور ولی اﷲصاحبان کی مشترکہ کاوشوں سے تیار کتابیں شائع ہوئی ۔ان کتابوں کی تدوین میں میرے ساتھ ظفرکمالی، واحد نظیر، جمشیدقمر،مشتاق احمد،سید حسن عباس، محمد قمرالدّین، حبیب الرّحمٰن علیگ، انوار محمد عظیم آبادی وغیرہ کی بے انتہا مشقّت شامل رہی مگر جیسے ہی درسی کتاب کی کمیٹی میں حکومت کی جانب سے مداخلت شروع ہوئی، میں نے معافی مانگ لی اور آگے کی جماعت کی کتابیں تیار کرنے سے خود کو علاحدہ کر لیا۔ مجھے افسوس ہے کہ نصابِ تعلیم اور درسی کتابوں کے ابتدائی ڈرافٹ میری طرف سے تیار ہونے کے باوجودبعد کے لوگوں نے اس معیار کا کام شاید ہی انجام دیا ہومگر مجھے اتنا ضرور اطمینان ہے کہ اردو فارسی اور عربی کی جو بارہ کتابیںہم نے تیار کرائیں، وہ بہار کے تدریسی معیار کو قومی اور بین الاقومی سطح پر لے آنے کا ذریعہ بنیں گی ان کتابوں میں کوشش کی گئی کہ باسی پن نہ رہے، تازگی کے احساس کے ساتھ ہمارے بچے اگلی تعلیم کا زینہ بنیں ۔ شاعری اور افسانے کی نئی کونپلوں کو بھی اس میں جگہ دی گئی تھی۔
درسی کتابوں کی تدوین کے لیے مجھے سب سے پہلے اردوٹیچنگ اینڈ ریسرچ سنٹر، لکھنؤ میںکام کرنے کا موقع حاصل ہواس زمانے میں غضنفر وہاں پرنسپل ہوتے تھے۔ اب سے دو دہائی پہلے کی بات ہے۔ لکھنؤکشامیں ورکشاپ میں انتخابِ مضامین کا سلسلہ تھا ۔میں نے ’غبارِ خاطر‘،’ یادوں کی برات‘، فر حت اﷲبیگ کے خاکے’ نذیر احمد کی کہانی‘ کو منتخب کیا۔ مختصر سا موزوں اقتباس بہ طورِ نمونۂ متن رکھا گیا۔مشکل الفاظ کے معانی، قواعد کی مشقیں اور سوال وجواب کے ساتھ مصنف کے احوال وکوائف سب تیار کر دیے۔ پروفیسر علی رفاد فتیحی بھی ورکشاپ میں شریک تھے۔ انھوں نے میرے سارے کاموںکو بہت سنجیدگی سے دیکھا اور یہ مشورہ دیا کہ مصنف کے تعارف کے بھی مشکل الفاظ کے معانی لکھ دیے جائیں متن منتخب کرتے ہو ئے ہم سب نے آسان زبان کا حصہ چنا تھا ’غبارِ خاطر‘ سے میں نے چائے نوشی کی تفصیل والا سادہ زبان میں لکھا حصہ منتخب کیا تھا۔ اب جو میں نے سوانحی کوائف کے لفظ ومعنی منتخب کیے تو میرے ہوش ٹھکانے لگ گئے۔ معلوم ہوا کہ’ غبارِ خاطر‘ سے مشکل متن تو میرا لکھا تعارف ہی ہے۔ پروفیسر فتیحی نے حقیقت میں مجھے کیا بتانا چاہاتھا یہ بات سمجھ میں آگئی اور درسی کتابیں تیار کرنے کا پہلا سبق سمجھ میں آگیا کہ زبان کی سطح کس قدر سادہ ہونی چاہیے۔یہ سبق میرے لیے پوری زندگی میں کام آنے والا اصول بن گیا۔
اردو ٹیچنگ اینڈریسرچ سنٹر، لکھنؤ کے درجنوں ورک شاپ میں ناول نگار غضنفر سے معاملہ رہا۔انھیں دوسرے انتظام کاروں کی طرح غیرعلمی کاموں کا خود کو پابند بنا لینے کا کبھی مجرم نہیں پایا۔ وہ ورک شاپ میں ایک سے زیادہ ممبرکے برابر کام کرتے۔ اپنے ہاتھ سے تحریر کو صاف کرتے اور اپنے حصّے سے بڑھ کر ہمیشہ خدمت انجام دیتے ملے۔ورک شاپ کے باہر ہوٹل، گیسٹ ہاؤس یا اپنی رہائش میں رات اور صبح کے اوقات میں ورک شاپ کے باقی کاموں کو کرتے ہو ئے پائے گئے۔ انھوں نے درجنوں موضوعات پر لوگوں کی معاونت سے کس انداز سے کتابیں تیار کی جا سکتی ہیں، اس کی تربیت دی ۔ ان کی نگرانی میں میں نے ایسے بہت سارے کام کیے اور محنت ومشقت سے اجتماعی علمی کاموں کی انجام دہی کا ہنر سیکھا۔ افسوس کہ ان کا بڑا حصّہ اب بھی غیر مطبوعہ ہے مگر میرا یہ فائدہ ہوا کہ ایسے کام کرنے اور دوسروں سے کام کرانے کا شوق پیدا ہوگیا۔ ان کی نگرانی میں یہ تجربہ نہ ہوتا تو بے شک بہار میں درسی کتابوں کی تیاری کا کام کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا تھا۔ خاص طور سے ایک ایسے ماحول میں جہاں ایک بھی ممبر ایسا نہیں جس کو کسی بھی سطح پر درسی کتاب کی تدوین کا تجربہ ہو ۔(یہ بھی ملائظہ فرمائیں!درس و تدریس کی راہوں میں [حصّہ اوّل]از: صفدر امام قادری)
Safdar Imam Quadri
Department of Urdu,
College of Commerce, Arts & Science, Patna: 800020, Bihar India
Email: safdarimamquadri@gmail.com
Mob: +91 -9430466321
نہایت عمدہ تحریر۔مگر یہ تو واضح نہیں ہو سکا کہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کی تحریک کیسے حاصل ہوئی؟