حملہ آورکون؟ از : مولاناخالدسیف اللہ رحمانی

0
87

شمع فروزاں:

آرایس ایس کے موجودہ سربراہ جناب موہن بھاگوت اکثراپنے عجیب وغریب اور نفرت انگیزبیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے ہیں،وہ کبھی میٹھی اورکبھی کڑوی دواکھلانے کاخاص سلیقہ رکھتے ہیں،کبھی اقلیتوں کے حق میں بہ تکلف ایک آدھ اچھے فقرے بھی بھی کہہ جاتے ہیں اورکبھی ایسی خودساختہ تاریخ بیان کرتے ہیں کہ گویاصرف ہندوہی اس ملک کے باشندے ہیں،باقی لوگوں کو اس سرزمین سے چلاجاناچاہیے،اوراس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہاجاتاہے کہ ہندوتو یہیں پیداہوئے،کسی دوسرے ملک سے نہیں آئے؛البتہ مسلمان اورعیسائی وغیرہ دوسرے ملکوں سے آئے ہیں؛اس لیے وطن عزیزپران کاحق کم ہے،اگروہ اسی ملک میں رہناچاہتے ہیں تب بھی ان کودوسرے درجہ کاشہری بن کررہناہوگا،اسی پس منظرمیں ابھی انہوں نے دعوی کیاہے کہ مسلمان حملہ آورہیں،حملہ آورکے اس لفظ سے وہ دوباتیں کہناچاہتے ہیں۔

ایک:یہ کہ مسلمان اس ملک کے اصل شہری نہیں ہیں،وہ باہرسے آئے ہیں۔
دوسرے:انھوں نے زورزبردستی کے ذریعہ اپنامذہب پھیلایاہے،اوراسی طرح حکومتیں کی ہیں۔
اس دعویٰ کی حقیقت کوسمجھنے کے لئے چندنکات کوپیش نظررکھناچاہیے،اول یہ کہ کس کے آباؤاجدادباہرسے آئے،اورکن کے آباؤاجداداسی زمین میں پیداہوئے؟یہ ایسی بات نہیں ہے کہ جس کووطنی یاغیر وطنی اوردیشی اوربدیشی ہونے کامعیار بنایاجائے،اگراس کواصول کے طورپر درست مان لیاجائے توآج پوری دنیامیں نقل آبادی کاایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع کرناپڑے گا،پوری دنیاایک انتشاراورابتری کے ماحول سے دوچارہوجائے گی؛کیوں کہ اگرنقل مکانی کی تاریخ پڑھی جائے تو کوئی علاقہ ایسانہیں،جہاں دوسرے علاقہ کےلوگ آکرنہیں بسے ہوں،اگرایسانہ ہوتاتو یہ دنیاآج اس قدرآباد نہ ہوتی اورویرانے کا منظرپیش کرتی،امریکہ میں ریڈانڈین ایشیاء سے اورسیاہ فام لوگ افریقہ سے پہنچے،اس کے بعدیوروپ کے سفیدفام پہنچے،اوروہ پہلے سے آبادباشندوں کودور درازعلاقوں میں بھگاکرقابض ہوگئے،کیا اب وہاں اس فلسفہ پرعمل کیاجاسکتاہے کہ جن کے آباؤاجدادیہاں پیداہوئے ہیں، وہی اس ملک کے شہری سمجھے جائیں گے،اگراس اصول کومان لیاجائے توخود ہمارے دیش کوکتنانقصان پہنچے گا،آج دنیا کے بہت سے ملکوں میں برصغیر کے تارکین وطن موجودہیں،ان میں وہ لوگ بھی ہیں،جومزدوربن کراس حال میں پہنچے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں ہل جوتنے والے بیلوں کی رسی تھی،اورآج وہ وہاں کے تخت وتاج کے مالک ہیں،اوراقتدار کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے،حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ جس علاقہ میں آبادہوگئے،وہ اس علاقہ کے وطنی ہیں۔
دوسراقابل غورنکتہ یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں کوئی ایسا بین الاقوامی معاہدہ نہیں تھا،جس میں دنیاکی سبھی حکومتیں بندھی ہوئی ہوں،زیادہ ترقبائلی نظام تھا، جوقبیلہ جس علاقہ پرحاوی ہوگیا،وہ اس علاقہ کواپنی ملکیت بنالیتاتھا،چراگاہوں اورکھیتوں پرقبضہ کرلیتاتھا،یاتودوسرے قبیلہ کوماربھگاتاتھایاانہیں اپناغلام اور خادم بنالیتاتھا،بڑی حکومتیں ہوں یا چھوٹی،ملک گیری ہی ان کے معاش کااور اپنے اقتدارکووسعت دینے کاذریعہ تھا، ہمارے ملک میں بھی قبائلی سرداروں اور راجاؤں کی یہی صورت حال تھی،اسی اصول کے تحت سلطنتیں بنتی،پھیلتی اور سکڑتی تھیں،اب ان پرانی تاریخوں کو نکالنااوراس کی بناپرلوگوں کی شہریت کے فیصلے کرناایک بے معنیٰ بات ہوگی،دنیا بھرکے ممالک اسی طرح وجودمیں آئے اور آج تک وہاں نسل درنسل لوگ آبادہیں،نیز پوری دنیانے ان کواس ملک کاباشندہ تسلیم کرلیاہے۔

تیسراقابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ کیاہندواور خاص کربرہمن حملہ آورنہیں ہیں،اورکیایہ باہرسے نہیں آئے ہیں؟اس کاجواب یہ ہے کہ یہ بھی حملہ آورہیں اوریہ بھی باہرسے آئے ہیں؛کیوں کہ یہ آرین نسل سے ہیں،جیسے مغل اورپٹھان وسط ایشیاء سے تعلق رکھتے تھے،اسی طرح آریہ بھی وسط ایشیاء کے خانہ بدوش تھے اوراچھی چراگاہ کی تلاش میں یہاں وہاں گھومتے رہتے تھے،وہ دوہزارسے پندروہ سوقبل مسیح کے درمیان ہندوستان میں داخل ہوئے اوربرصغیرکے پورے مغربی اور وسطی علاقہ پردوردورتک قابض ہوگئے، اوریہاں کے اصل باشندے دراوردیوں کو اس طرح ماربھگایاکہ وہ ہٹتے ہٹتے مشرقی اورجنوبی علاقہ میں پناہ لینے پر مجبورہوگئے،اس بات کوہندوستان کے تمام معتراورقدیم مؤرخین نے لکھاہے،لالہ لاجپت رائے جوایک قوم پرست لیڈرتھے، نے بھی کہاہے:’’ہمیں اس بات کوتسلیم کر لیناچاہئے کہ ہندوآریہ بھارت کے مول نواسی نہیں ہیں(بھارت کااتہاس،صفحہ: ۲۱-۲۲)‘‘
پی ایچ گپتانے لکھا ہے:’’رامائن کوئی مذہبی کتاب نہیں؛بلکہ بدیسی آریوں کے ذریعہ بھارتیہ مول نواسیوں کے درمیان جنگ پرآدھارت(مبنی)کتاب ہے۔(رامائن میں میری کھوج،صفحہ: ۱)‘‘

نمودری پال کاکہناہے:’’ہندووادکی پیدائش بھارت میں نہیں ہوئی؛بلکہ دوسرے مذاہب کی طرح یہ بھی باہرسے آیا؛لیکن بھارت کی دھرتی پرپلابڑھا،پھولاپھلااوراب یہ ہندوستانی سرزمین کاہی حصہ ہے۔(دیش کااتہاس: ۲؍۵۲۱)‘‘
خوشونت سنگھ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہندووادآریوں کے ذریعہ،اوراسلام مسلمانوں کے ذریعہ ہندوستان میں داخل ہوا،(ٹائمس آف انڈیا، نئی دہلی،۱۷؍اکتوبر۱۹۸۷)خودآرایس ایس کے بانی گروگوالکر۱۹۲۰ء تک اس بات کو تسلیم کرتے رہے کہ آریہ ہندوستان میں باہر سے آئے ہیں۔(ہندوتوا،صفحہ:۱۰۷، ۱۴)

بعدکوچل کرگرو گوالکرنے کہناشروع کردیا کہ آریہ باہرسے نہیں آئے تھے اوراس کے لئے نہایت مضحکہ خیزدعویٰ کیاکہ گویاوسط ایشیاء کے لوگ یہاں منتقل نہیں ہوئے؛بلکہ خودوہ علاقہ ہندوستان سے کھسک کردور چلاگیا،اوراس وقت سنگھ پریوارکے لوگ بڑی قوت کے ساتھ اس بات کاپروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ آرین کہیں باہرسے نہیں آئے؛ حالاں کہ اب تووامن میشرام وغیرہ کا دعویٰ ہے کہ ڈی این اے ٹیسٹ سے بھی معلوم ہوتاہے کہ برہمنوں کاتعلق یہودی نسل سے ہے،اورہندوستان کے دوسرے لوگوں بشمول مسلمان اوردلت کاڈی این اے یکساں ہے؛اس لئے حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں بسنے والی موجودہ قوموں میں پہلے ودیشی اورحملہ آوربرہمن تھے، اوربرہمن ہی اصل ہندوہیں۔

چوتھانکتہ یہ ہے کہ ہندوستان میں جو دوسری قومیں آئیں،انھوں نے مقامی باشندوں کواپنادوست بنایا،ان سے رشتہ داریاں قائم کیں،ان کی لڑکیوں سے خود شادی کی،اپنی لڑکیوں کوان کے نکاح میں دیااوران کے ذریعہ ایک ملی جلی نسل وجودمیں آئی،جورنگ وروپ میں،مزاج میں اورطوروطریق میں یکسانیت کی حامل ہے؛اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ سندھ میں جوعرب فوجی آئے یاملک کے دوسرے علاقوں میں غزنی،غوراوردوسرے علاقوں سے جوقبائل آئے،ان کی تعدادچندہزارسے زیادہ نہیں تھی؛لیکن یہاں جن حکمرانوں سے ان کامقابلہ ہوااوراس کے لئے انھوں نے جوفوج بنائی،ان کی تعدادکہیں زیادہ تھی، بیرون ملک سے آنے والے لوگوں کی تعداد اس میں دس پندرہ فیصدبھی مشکل سے رہی ہوگی،یہاں تک کہ اکثرسپہ سالاربھی مقامی ہی متعین کیاجاتاتھا؛اس لئے یہ کہنادرست نہیں ہے کہ بیرونی حملہ آوروں نے فتح حاصل کی؛بلکہ واقعہ یہ ہے کہ رعایااپنے حکمرانوں کے ظلم سے عاجز آچکی تھی،وہ اس قدراحساس کمتری میں مبتلااورمرعوب تھے کہ علَم بغاوت اٹھانے کی ہمت نہیں کرپاتے تھے،ان حالات میں باہرسے آنے والے ان کے لئے سہارابنے اوران کے ساتھ مل کرانھوں نے ظالم حکمرانوں سے نجات حاصل کی، یہ ستم رسیدہ عوام کی اپنے حکمرانوں سے لڑائی تھی نہ کہ بیرونی حملہ آوروں کی ملکی لوگوں سے؛ مگر آریوں کامعاملہ اس سے بالکل مختلف تھا، آریوں نے مقامی باشندوں کے درمیان اور اپنے درمیان نسلی تفریق و امتیاز کی ایک دبیز دیوار کھڑی کر دی، اور ویسا ہی نسلی امتیاز قائم کیا جو قدیم دور میں یہودیوں نے اختیار کیا تھا اور جو بعد کے دور میں سفید فاموں نے امریکہ میں آباد ریڈ انڈین اور سیاہ فام لوگوں کے ساتھ اختیار کیا تھا، یہ امتیاز اس درجہ کا تھا جنہیں سن کر بھی انسانیت سرمشار ہو جاتی ہے، وہ صرف حملہ آور ہی نہیں تھے؛ بلکہ ایک سنگدل آقا اور مالک کا روپ رکھتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہندو مذہب طبقاتی تقسیم کی جیسی واضح تصویر پیش کرتا ہے، شاید ہی کسی اور مذہب میں ایسی طبقہ واریت پائی جاتی ہو، اگر انسانوں کے درمیان نسلی بنیاد پر تفریق کوئی قابل تعریف بات ہوتی تو یقیناََ ہندو ازم سے بڑھ کر کوئی مذہب قابل تعریف نہ ہوتا، ہندو مذہب کے مطابق انسان پیدائشی طور پرچار گروہوں میں منقسم ہے: برہمن، چھتری، ویش اور شودر، برہما سے مراد خدا کی ذات ہے؛ اسی لئے برہمن کا لفظ ہی اس طبقہ کی خدا سے قربت کو بتلاتا ہے، برہمن بنیادی طور پر مذہبی نمائندہ ہوتا ہے ، وید کی تعلیم حاصل کرنا اور نذرونیاز لینا صرف برہمن کا حق ہے، برہمن پیدائشی طور پر مخلوق میں اعلیٰ درجہ کا حامل ہے، جو کچھ اس دنیا میں ہے، اصل میں برہمن کا ہے، جن جرائم پر دوسرے لوگ سزائے موت کے مستحق ہیں، برہمن کا اس جرم میں صرف سر مونڈا جا سکتا ہے، دس سال کا براہمن سو سال کے چھتری کے لئے بھی باپ کا درجہ رکھتا ہے، وہ ہر طبقہ کی عورت سے شادی کر سکتا ہے، کسی دوسرے طبقہ کا آدمی برہمن عورت سے نکاح نہیں کر سکتا؛ تاہم اگر برہمن کسی شودر عورت سے نکاح کرتا ہے تو گویا اپنے آپ کو نرک (دوزخ) کا مستحق بناتا ہے، برہمن خواہ کتنا بھی برا عمل کرے وہ تعظیم واحترام کا مستحق ہے، چھتری کا کام دان دینا، چڑھاوے چڑھانا اور حفاظت وصیانت کا کام انجام دینا ہے، ویش تجارت وزراعت اور مویشیوں کی پرورش کا کام کریں گے اور دان دیں گے، یہ سب گویا برہمن کی خدمت کے لئے ہیں؛ لیکن ان میں سب سے بدقسمت طبقہ ’شودروں‘‘ کا ہے، یہ وید کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، برہمن کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے، ان کا سب سے اہم کام پورے اخلاص سے برہمنوں کی خدمت کرناہے،برہمن،شودرکا مال بہ جبر لے سکتا ہے، اگر وہ اپنے سے اونچی ذات پر لکڑی اٹھائے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالاجائے اورغصہ میں لات مارے تو پیرکاٹ ڈالاجائے، اگر کسی شودر نے برہمن کوگالی دی تواس کی زبان تالوسے کھینچ لی جائے اوراگر کوئی شودر مدعی ہو کہ وہ برہمن کو تعلیم دے سکتا ہے تو اس کو کھولتاہواتیل پلایاجائے،یہاں تک کہ کتے،بلی،مینڈک،چھپکلی،کوے،اُلوکے اور شودرکے مارنے کاکفارہ برابرہے۔

پانچویں بات یہ ہے کہ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام اس ملک میں محمد بن قاسم ، یا غزنوی یا غوری یا مغلوں کے ساتھ نہیں آیا،اسلام تواس ملک میں اس سے بہت پہلے خلیفہ ٔ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک عہد میں آچکا تھا، ہندوستان کا جنوبی ساحلی علاقہ جو مالا بار کہلاتا ہے، وہاں سری لنکا سے گزرتے ہوئے عرب تجار پہنچے، انھوں نے اپنی خوش اخلاقی، دیانتداری،راست گوئی،عہدکی پختگی، مقامی باشندوں کے ساتھ حُسن سلوک اور ہمدردی وغمخواری کے ذریعہ لوگوں کے دل جیتے، وہ حملہ آورنہیں تھے،وہ محبت کے سوداگر تھے، انھوں نے فولاد کی تلوار سے نہیں؛ بلکہ اخلاق کی تلوار سے لوگوں کے دل ودماغ کو فتح کیا،اورجولوگ برہمنوں کے ظلم وستم سے عاجز تھے،انھوں نے ان کواپنے لئے اللہ تعالیٰ کاانعام سمجھ کران کااستقبال کیا،بڑی تعدا میں لوگ اپنی رضاء ورغبت سے مسلمان ہوئے،یہاں تک کہ عوام کے ساتھ ساتھ بعض حکمرانوں نے بھی اسلام قبول کیا،یہ صرف زبانی دعویٰ نہیں ہے؛ بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے، اور تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ مسلمان اسی ملک میں پیدا ہوئے، ان کے آباو واجداد نے ملک کی بہترین خدمت کی، وہ مختلف علوم وفنون کو اپنے ساتھ لائے اور اس ملک کو اتنا دولت مند بنایا کہ لوگ اسے ’’ سونے کی چڑیا‘‘ کہنے لگے، اس کیGDPپوری دنیا سے آگے بڑھ گئی،دنیاکی بڑی طاقتوں میں اس کاشمارہونے لگااورانھوں نے ایک ایسے وسیع بھارت کووجودبخشا،جوموجودہ افغانستان سے شروع ہوکربرماکی آخری سرحدوں تک پہنچتاتھا،ان کی شکل وصورت،مزاج ومذاق،طرززندگی اورتہذیب وتمدن صاف طورپربتاتاہے کہ وہ اس ملک کے اصل باشندوں میں شامل ہیں،ان کو حملہ آورکہناغلط ہے،حملہ آورتوآریہ ہیں،جنھوں نے اس ملک کے قدیم باشندوں کوذلیل ورسواکیااورغلام بنایا۔

۰ ۰ ۰

Previous articleوزیر اعلی خود دورہ کرکے لیں گے جائزہ: وزیر اعلی نتیش کمار
Next articleترجیحات طے کر لیں وقت کے پابند بن جائیں گے از :مدثر احمد قاسمی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here