(موضوع گفتگو )
آج میں انقلاب سے ریٹائر ہو رہا ہوں، اس لئے یہ سرخی لگانے کی ضرورت پڑی۔ آج کے بعد آپ اس کالم کو نہیں پڑھ سکیں گے۔ مجھے یقین ہے میرے بہت سے قارئین کو میرا کالم بند ہونے کا افسوس ہوگا، لیکن کیا کیاجائے کہ زندگی کے سفر میں ایسے مقام ضرور آتے ہیں جہاں پر مسافروں کورکنا پڑتا ہے۔
ویسے یہ میری پہلی سبکدوشی نہیں، اس سے پہلے میں دور درشن سے رضاکارانہ طور پر سبکدوش ہوچکا ہوں۔اس کے بعد لوک سبھا ٹی وی میں سوا سال ملازمت کرنے کے بعد استعفیٰ دیا اور پھر روزنامہ سہارا میں چار سال کام کرنے کےبعد وہاں سے مستعفی ہوکر انقلاب میں آگیا۔ ویسے انقلاب سے میرا رشتہ کوئی نیا نہیں تھا۔ میں نے انقلاب میں ۱۹۹۱ء میں اس وقت کالم لکھنا شروع کئے تھے جب میں ممبئی میں فلمز ڈویژن آف انڈیا کے دفتر میں کمنٹری رائٹر کے عہدے پر فائزتھا۔ مگر ۱۹۹۷ء میں حج کمیٹی آف انڈیا میں چل رہی بدعنوانیوں کا بھانڈا پھوڑنے کی وجہ سے میری سرکاری
ملازمت پر آنچ آگئی اور مجھ سے پوچھا گیا کہ میں نے سرکاری عہدے پر رہتے ہوئے سعودی عرب سے ایک اخبار کے لئے رپورٹنگ کیوں کی۔ اس کے بعد میں نے انقلاب میں کالم لکھنا بند کردئے۔اتفاق دیکھئے کہ ۱۴؍ سال بعد مجھے انقلاب کی ادارت مل گئی اور پھر ایڈیٹر شپ کے ساتھ ساتھ مجھے پبلشر بھی بنایا گیا اور اس اخبار کو دہلی ، یوپی اور بہار میں شروع کرنے کی ذمہ داری بھی مجھ کو ملی۔کسی اخبار کو متعارف کروانا اور اخبار کے خریدار بنا نا بہت ہی مشکل کام ہے ۔ جوانی کے دور میں ۱۹۸۰ء کے اوائل میں جب میں لکھنؤ کے ایک ویکلی اخبار کا ایڈیٹر بنا تو اخبار کو پبلک تک پہنچانے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتےہیں اس کا علم مجھے ہوچکا تھا، لیکن انقلاب کو ان پریشانیوں کا سامنا نہیں تھا کیونکہ اس کے پیچھے جاگرن گروپ کے تجربہ کار افسروں اور کارکنان کی ٹیم موجود تھی۔ سرکولیشن کے معاملے میں دیپک پانڈے جی ، مارکٹنگ میں ایس این جیٹلی، وپن کھٹوانی اور برانڈ کے بسنت راٹھور اور ونود شریواستو کی دلچسپی اور محنت نے اور پرشانت مشرا جی اور وشنو ترپاٹھی کی ادارتی رہنمائی نے اخبار کو پھلنے پھولنے میں بہت مدد کی۔ سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ طرح طرح کے جو پروپیگنڈے اس اخبار کے خلاف کئے جا رہے تھے ان سب کو جھوٹا ثابت کرنے میں بھی میں پوری طرح کامیاب رہا، لیکن میری اس کامیابی کے پیچھے جاگرن گروپ کے ذمہ داروں بالخصوص اس گروپ کے سی ای او سنجئے گپتا صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہے، جنھوں نے مجھے اتنی آزادی دی جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔انھوں نے انقلاب کی پالیسی میں نہ کبھی مداخلت کی نہ مجھ سے کبھی سوال کیا کہ میں کیا لکھ رہا ہوں۔مجھے انقلاب میں کام کرتے ہوئے ساڑھے دس سال کیسے گزر گئے اس کا پتہ ہی نہیں چلا۔ ہر چند کہ ہفتے میں سات دن کالم لکھنا کوئی آسان کام نہ تھا اور کبھی کبھی تو موضوع تلاش کرنے میں بہت وقت لگ جاتا تھا، مگر آپ سب کی محبت نے مجھے نئے نئے موضوعات پر لکھنے کا حوصلہ بخشا۔میں نے ہر سال ۳۶۰؍ کالم لکھے، یعنی صرف چار پانچ دن ہی اخبار میں چھٹی کی وجہ سے نہیں لکھا۔میراقلم( کمپیوٹرائزڈ ٹائپنگ) صرف بیماری کے دور میں ہی کچھ دن کے لئے رکا ورنہ میں کہیں رہا اورکسی حال میں رہا ، اپنا کالم لکھتا رہا۔ انقلاب میں سب سے خاص بات یہ رہی کہ کمپنی کی دلچسپی کے باعث کام کاج پوری طرح سے کمپیوٹر پر ہونے لگا۔خدا کا شکر ہے کہ نوئیڈا، دہلی، لکھنؤ اور پٹنہ کے آفس میں ہم کو اخبار تیار کرنے کے لئے ایسے ساتھی ملے جو پیج بنانے کے ساتھ ساتھ ادارت کے نشیب و فراز سے بھی واقف تھے۔ہمارے ریزیڈنٹ ایڈیٹرس، بیورو چیفس ،نیوز ایڈیٹرس، سب ایڈیٹرس ،پیج انچارج ،رپورٹرس اور نامہ نگاروں نےجدید ٹکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اخبار کو اس قابل کیا کہ قارئین تک تازہ ترین خبریں پہنچ سکیں، یقیناً
میرے تمام ساتھی قابل فخر ہیں اور ان کا میں شکر گزار ہوں ۔ ہمارے اسٹاف کی جدید ٹکنالوجی سے واقفیت کی وجہ سے ہی انقلاب میں آپ کو وہ کالم بھی نظر آئے جو دوسرے اردو اخباروں میں ندارد تھے۔ انقلاب اردو کا پہلا ایسا اخبار بھی رہا جس نے اپنے قارئین کی رائے کو اہمیت دیتے ہوئے ان کے لئے عوامی پیغامات اور تاثرات کا کالم شروع کیا۔مگر سب سے زیادہ شکریہ تو مجھے آپ کا ادا کرنا ہے کہ آپ نے مجھ جیسے ایک چھوٹے سے صحافی کو بہت محبتوں سے نوازا، آپ کی جانب سے ملنے والے فیڈ بیک اور آپ کے ردعمل نے ہر دن مجھے ایک نیا حوصلہ دیا۔مجھے اس وقت بہت مسرت ہوتی تھی جب اخبار میں میرا کالم نہ چھپنے کے بعد بہت سے لوگ میسیج کرکے پوچھتے تھے کہ آج موضوع گفتگو کیوں نہیں چھپا، کسی بھی صحافی کے لئے اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے کہ لوگ اس کے آرٹیکل کا انتظار کریں۔ بہر کیف آج سے یہ کالم بند ہوجائے گا ، کیونکہ کوئی شخص زندگی بھر تو کسی ادارے سے وابستہ نہیں رہ سکتا ۔ آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہوتا ہوں۔ خدا حافظ۔
خدا حافظ۔
مگر ہمیں شکیل حسن شمسی صاحب ایسی بے باکانہ تحریر اب پڑھنے کو کیسے ملیں گی۔