حالتِ جنگ میں بھی دعوت و ہدایت کی باتیں از:ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

0
65

کلکتہ کی سرزمین پر قدم رکھے ہی تھے کہ بھائی شاداب معصوم کا فون میرے میزبان مولانا طاہر الحق (سکریٹری شعبۂ اسلامی معاشرہ جماعت اسلامی ہند بنگال) کے پاس آیا کہ مولانا کو میرے غریب خانہ پر لے کر آئیے _ عشائیہ کے بعد انہیں قیام گاہ پر پہنچائیے گا _ طاہر صاحب نے مجھ سے دریافت کیا _ میں نے کہا : ٹھیک ہے _

کلکتہ کا میرا سفر شعبۂ اسلامی معاشرہ جماعت اسلامی ہند کے تحت بنگال میں قائم فیملی کونسلنگ سینٹرس کے ذمے داروں کے ورک شاپ میں شرکت کے لیے ہوا تھا _ شاداب معصوم صاحب سرگرم رکنِ جماعت اور شعبۂ دعوت کے ذمے دار ہیں _ کلکتہ کے شیو پور محلے میں رہتے ہیں _ شاداب صاحب کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ متصل میں جماعت کا مقامی دفتر ہے ، جس میں تربیتی اجتماع چل رہا ہے _ شرکاء کو میری آمد کی اطلاع ملی تو وہ ملاقات کے خواہش مند ہیں _ تھوڑی دیر میں تمام لوگ آگئے _ انھوں نے مجھ سے کچھ سننے کی خواہش کی _ میں نے ان کے سامنے ایک حدیث اس کے پس منظر کے ساتھ پیش کی _

غزوۂ خیبر کے موقع پر کئی قلعے فتح ہوگئے ، لیکن ایک قلعہ فتح نہیں ہوپارہا تھا _ ایک دن اللہ کے رسول ﷺ نے اعلان فرمایا : ” کل میں جھنڈا ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ، اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح نصیب فرمائے گا _” تمام صحابہ جوش و جذبہ سے بھر گئے _ ہر ایک کے دل میں یہ خواہش مچلنے لگی کہ کاش قرعۂ فال اس کے حصے میں آئے _ اگلے دن وقتِ مقرر پر تمام صحابہ جمع ہوئے _ وہ دَم سادھے ہوئے تھے کہ کس کے نام کا اعلان ہوتا ہے؟ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمایا _ اس موقع پر آپ نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :
لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ ” (بخاری :3009 ، مسلم :2406)
” اللہ تمھارے ذریعے ایک آدمی کو ہدایت دے دے ، یہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے _”

یہ حدیث غور و فکر کے متعدد پہلو رکھتی ہے _ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے جنگ کے موقع پر کیا ہدایات دیں؟ اگر آپ یہ نصیحتیں کرتے تو غلط نہ ہوتا کہ خوب بے جگری سے لڑنا ، دشمن کو جتنا ہوسکے نقصان پہنچانا ، اس کی فوجی طاقت توڑ دینا ، جو ملے اسے قتل کردینا ، وغیرہ _ لیکن آپ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی _ فرمایا تو یہ کہ تمھارے پیش نظر ہر وقت یہ رہنا چاہیے کہ تمھارے ذریعے لوگوں کو ہدایت ملے ، ان تک اللہ کا پیغام پہنچے ، وہ اپنے غلط کاموں سے توبہ کریں اور اللہ کی طرف رجوع کریں _ تمھارے ذریعے کسی ایک شخص کو ہدایت مل جائے ، یہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے _ عہدِ نبوی میں اونٹ مال و دولت کی ایک شکل تھی اور سرخ اونٹ بہت قیمتی سمجھے جاتے تھے _ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ تم خوب مال و دولت کے مالک بن جاؤ ، اس سے کہیں بہتر تمھارے لیے یہ ہے کہ تمھاری ذات سے کسی کو ہدایت مل جائے اور وہ راہِ راست پر آجائے _

میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی یہ نصیحت ہم سب کے لیے بھی ہے _ ہم میں سے ہر ایک کو اسے اپنا نصب العین بنانا چاہیے اور اسے گِرہ میں باندھ لینا چاہیے _ ہماری تمام سرگرمیوں کا مرکز و محور یہ ہونا چاہیے کہ پہلے خود ہماری اصلاح ہوجائے ، پھر ہم دوسروں کی اصلاح کا ذریعہ بنیں _
یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ حاضرین میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی ، جو مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں _

Previous articleشاذ رحمانی! شاعری کا خاموش جزیرہ از: احسان قاسمی
Next articleشہرِ غزل کا روشن منارہ “ڈاکٹر مشتاق انجم” از: عظیم انصاری

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here