جنگ آزادی میں اردو شاعری کا قابل فخرکردار

0
112

رازد اں شا ہد

ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کے زمانے میں یوں تو یہاں کی تمام زبانوں کی شاعری نے اس ملک کے لوگوں کو اس جدوجہد کے لئے ذہنی اور جذباتی طور پر آمادہ کرنے میں اپنے اپنے طور پر اہم کردار ادا کیا ، لیکن اس سلسلے میں اردو زبان کی شاعری کا کردار سب سے نمایاں رہا ہے۔ اہل ہند کے دلوں میں خواہشِ حصول آزادی کے جذبے کی آنچ کو تیز کرکے آزادی ہندکی جدوجہد کو حرارت و توانائی بخشنے کا کام اردو شاعری نے جس بھر پور اندازمیںاور جس وسیع پیمانے پر انجام دیا ہے وہ ہمارے ادب اور ہمارے ملک ، دونوں کی تاریخ کا زریں باب ہے۔

ادب کسی قسم کے انقلاب کو لانے میں معاون اور مددگار ہوتا ہے، ہندوستان میں آزادی کے عظیم انقلاب کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ہمارے ملک کے نمائندہ زبان اردو کے ادب کا بڑا اہم حصہ ہے۔خصوصاً اردو شاعری کا رول نعمتِ آزادی کے حصول کے سلسلے میں بڑا تاریخی اور قابل فخر رہا ہے،چونکہ شاعر عام فنکاروں کے مقابلے میں زیادہ حساس اور جذباتی ہوتا ہے۔اس لئے وہ اپنے گردوپیش رونما ہونے والے واقعات و حادثات سے متاثر بھی زیادہ ہوتا ہے۔وہ جو کچھ محسوس کرتا ہے اسے اپنی تخلیقات میں منعکس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔و ہ اپنے عہد کی تصویر کشی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اردو شاعروں نے ہر دور میں اپنے عہد کی ترجمانی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہم وطنوں کے رہنمائی کے فرائض بھی انجام دیئے۔ انہوں نے ہمیشہ فضائے وطن میں ایسے نغمے بکھیرے جنہوں نے اہل وطن کو سرزمین وطن سے پیار کرنے کا جذبہ دیا۔ اس زمانے میں جب ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہواتھا اردو شعراء نے غیرملکی حکمرانوں کے پنجہ استبداد سے رہائی دلانے کے لئے اپنی فکری صلاحیتوں سے کام لے کر ہندوستانیوں کے احساس غلامی کو ابھارا اور جذبہ آزادی کو پروان چڑھایا ، ان کی آنکھوں سے غفلت اور بے حسی کے پردے ہٹاکر ان میں بیداری اور جوش عمل کے جذبات کو فروغ دیا، ان کے دلوں میں بیرونی تسلط سے بغاوت کا وہ جذبہ بیدار کیا جس نے ان کو حصول آزادی کے مقصد کے لئے ہر خطرے کا مقابلہ کرنے اور ہر قسم کے مصائب و تکلیف کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیا۔اور انھیں اتحاد و یک جہتی کا وہ سبق پڑھایا جس سے وہ ظلم وتشدد کے خلات متحد ومتفق ہوکر آواز بلند کر سکیں اور مل جل کر آزادی وطن کے لیے غیرملکی حکمرانوں سے نبردآزما ہوسکیں تحریکات آزادی کو پروان چڑھانے کے لئے اردوشعراء نے نہ صرف قلمی طور پر اہل ملک کی رہنمائی کی بلکہ عملاً بھی ان میں شرکت کر کے ان کی رفتار کو فزوں تر کیا۔ انھوں نے اس کی پروا ہ نہ کی کہ اس جرم کی پاداش میں ان کا انجام کیا ہوگا۔ چنانچہ اردو کے کئی شعراء کو جنگ آزادی میں قلمی اورعملی تعاون دینے کے صلے میں قانون کے پنجہ غضب کا شکار ہوکر جام شہادت نوش کرنا پڑا اور جلاوطنی اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑی۔ لیکن اس کے باوجود جدوجہد آزادی کے ابتدائی دوری سے اردو کے شعراء نے تحریکات آزادی کو مقبولیت اور وسعت دینے کے لئے اپنی تخلیقات میں ملک کے سیاسی مسائل کو سمو کر سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا اور حصول آزادی تک وہ مسلسل ہی براہ راست اور بھی بالواسطہ اہل وطن کے قومیت اور وطنیت کے شور کو فروغ دینے اور ان میں ذہنی انقلاب پیدا کرنے اور سیاسی تحریکوں کو تیز و تند کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوئے ۔

۱۸۵۷؁ء سے۱۹۴۷؁ء تک کا زمانہ ہندوستان کی تاریخ میں اس لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس زمانے میں ہماری آزادی کی جدوجہدحقیقی معنوں میں پروان چڑھی،عروج کو پہنچی اور بالآخر اپنی منزل سے ہمکنار ہوئی۔ وطن عزیز کو بیرونی تسلط سے چھٹکارا دلانے اور انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے لئے پہلی باقاعدہ جدوجہد۱۸۵۷؁ء میں ہوئی، جسے انگریز حکمرانوں نے اپنی پوری طاقت اور قوت کا استعمال کر کے کچل دیا۔ اس عظیم جدوجہد کی ناکامی کے بعد ہندوستان پر انگریزوں کا اقتدارمکمل اور مستحکم ہوگیا اور ان کے قدم سیاسی حیثیت سے ملک میں اور زیادہ مضبوطی سے جم گئے لیکن ان کے اس غاصبانہ تسلط کو ہندوستانیوں نے کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ احتجاج کے اس پہلے دور میں اردو کے جن اکابر شعرا نے اپنی تخلیقات کے ذریعے آزادی کی اس لڑائی میں صور پھونکا ان میں مرزا غالبؔ، بہادر شاہ ظفرؔ، مصحفیؔ، مرزا قادر بخش صابرؔ، واجد علی شاہ اختر جراتؔ، راجا رام نرائن موزوںؔ، سرور جہاں آبادی، حکیم آغا جان عیشؔ، بسمل آلہ آبادی، داغؔ دہلوی، پنڈت برج نرائن چکبستؔ وغیرہ کے نام آتے ہیں جنہوں نے ۱۸۵۷؁ء کی غدر کی لڑائی میں ہوئی تباہ کاریوں کو نہایت جرات مندی کے ذریعہ پیش کیا۔تحریک آزادی کے مطالعہ سے تقریباً 375 اہم شعراء کا ذکر ملتا ہے جنھوں نے آزادی کے لئے اپنا تن، من دھن سب کچھ داؤ پر لگادیا تھا۔ ان میںسے کچھ ایسے شعرائبھی تھے جو ان واقعات کے آسودہ ٔ حال تماشائی نہیں رہے بلکہ اس دریا خوں کے شنادر بن گئے۔ انھوں نے قلم سے تلوار کا کام لیا اور انگریزوں کے خلاف بہترین غزلیں اور نظمیں لکھیں۔تحریک آزادی میں اردو شعراء کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے اپنے وطن کی بربادی سے متعلق اپنے شدید غم کا اظہار اپنی غزلوں کے ذریعہ نہایت ہی موثر ڈھنگ سے کیا ہے۔ ان شعراء میں شہاب الدین ثاقب، داغ، مرزا حسین علی خاں ، قربان علی بیگ سالک، مصطفی خاں شیفتہ، قادر بخت صابر، ظہیر الدین ظہیر، باقر علی خاں کامل اور میر مہدی مجروع کے نام شامل ہیں۔ یہ سارے ہی شعراء اپنے کلام کے ذریعہ ملک کی عوام کو آزادی کا پیام دیتے ہوئے ان سے دردمندانہ اپیل کر رہے تھے کہ وہ آزادی کی شمع کو اپنے دل میں جلائے رکھیں اور تب تلک چین سے نہ بیٹھیں جب تک ہمارا ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد نہیں ہو جاتا۔ اردو شاعروں میں مومن اس آزادی کی تحریک سے بے حد متاثر تھے۔ مومن شاہ اسمعیل شہید کے ہم سبق اور مولوی سید احمد بریلوی کے مرید تھے۔ ان بزرگوں کے خیالات کا اثر مومن پر اس قدر ہوا کہ بقول خواجہ احمد فاروقی ” مومن غیر ملکی حکومت کے خلاف جہاد کو اصل ایمان اور اپنی جان کو ملک کی آزادی کے راہ میں قربان کر دینے کو سب سے بڑی عبادت سمجھتے تھے۔ تحریک آزادی کے حالات سے ایسا کونسا شاعر تھا جو متاصر نہ تھا ہر شاعر آزادی کی اس تحریک میں حصہ لینا اپنا اولین فرض سمجھتا تھا۔ہر شاعر کی یہی خواہش ہوتی تھی کہ وہ اس تحریک کا حصہ بنے ۔حسرت کی غزلوں میں تحریک آزادی اور انقلاب کے جو عناصر ملتے ہیں ان میں بہت زیادہ درشتگی کے بجائے ایک طرح کی دھیمی لے ملتی ہے، اس لیے اس میں سوز و گداز کی کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے انھوں نے تحریکِ آزادی کے ساتھ ساتھ ایک امید کی کرن بھی دیکھی اور دکھائی۔

بے شمار اردو شعراء تحریک آزادی سے جڑے اور ان کا نام تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا تحریک آزادی کی اس مہم میں حصہ لینے والے شعراء میں دو خاص نام کامریڈ مخدوم محی الدین اور فیض احمد فیض کا بھی ہے۔ فیض اور مخدوم بھی انگریزی بربریت اور ظلم سے شدید ناراض تھے۔ دونوں نے تحریک آزادی سے متعلق دو خوبصورت اور اثر انگیزنظمیں لکھی تھیں مخدوم کی نظم ” چاند تاروں کا بن‘‘ اور فیض احمد فیض کی نظم “صبح آزادی‘‘ نے اس وقت کے آزادی کے پروانوں میں ایک جوش اور ولولہ بھر دیا تھا۔ دونوں کی نظموں میں آزادی کے متوالوں کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ آزادی کی یہ جنگ اسوقت تک لڑتے رہیں جب تک کہ آزادی نہیں مل جاتی۔ اس موقع پر فیض کی نظم صبح آزادی کے اشعار ملاحظہ کریں…

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رکے گا سفینہء غم دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے

چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے

پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن

بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن

حبیب جالب کی نظم “ماں” علی سردار جعفری کی نظم “اٹھوں ہند کے باغبانوں اٹھوں “جوش ملیح آبادی کی” کیوں ہند کا زندہ کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں “اسرار الحق مجاز کی نظم ” جلال آتش برق و سحاب پیدا کر ” لال چند فلک کی نظم “خوف آفت سے کہاں دل میں ریا آئے گی۔عرش ؔملسیانی کی نظم ” میرے وطن پیارے وطن ” جوش ملیح آبادی کی “اے وطن پاک وطن روح رواں احرار ” اسی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کے فرزندوں سے خطاب “اور” پھر حصول آزادی کی دقتیں”یہ سب کے سب اردو شاعری کی وہ نظمیں ہیں جن میں حب الوطنی اور مادر وطن سے عقیدت و محبت کے جذبات وافر طور پر پائے جاتے ہیں اور ان نظموں کے پڑھنے سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ کس طرح ان نظموں نے آزادی کے متوالوں کے دلوں کو گرمائے رکھا ہوگا ۔بسمل عظیم آبادی کے شعر۔۔۔

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

کو لے لیجیے۔ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادی کی جوت جلا دی۔ اردو ادب نے لوگوں کو وہ سلیقہ دیا جس سے سوئے ہوئے اور مایوس لوگوں میں امید کی شمع روشن ہو گئی۔ اقبال کے ذریعہ حب الوطنی سے لبریز اور انگریز مخالف جذبات سے پْر شاعری پڑھ کر بھی لوگوں میں ایک جنون پیدا ہوا۔ انھوں نے غلامی پر جھنجھوڑ دینے والی اور خون کے آنسو رلانے والی نظمیں لکھیں۔میر کا درد کچھ اس طرح کا ہے جس میں ماضی کی سنہری یادوں کے ساتھ غلام ہندوستان کا رنج بھی ظاہر ہوا ہے۔

ہندوستان اپنی آزادی کے پچھتر سال پورا کرنے کو ہے۔ حکومت اس آزادی کی پچھترویں سالگرہ کو امرت مہوتسو کی صورت منا رہا ہے۔جس کا مقصد۱۸۵۷؁ء کی جنگ آزادی کے ان جانبازوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے جن کے لہو سے لفظ آزادی لکھا جا سکا۔بیشک آزادی ہمارے لئے سب سے بڑی نعمت ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ہمیں آزادی کا تحفہ دیا۔ اور ہمارے لئے ترقی کے وہ سارے دروازے جو کہ غلامی کی صورت میں بند تھے کھول دیئے۔ اور ہر طبقے کے لوگوں نے اپنے جان و مال کو قربان کر کے جنگ آزادی میں فتح حاصل کی،آ پ کو بتادیں کہ دہلی کی انڈیا گیٹ پر تقریباً 95,300 مجاہدین آزادی کے نام تحریر کئے گئے ہیں جن میں سے 61,945 مسلمان ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے انگریزوں کے خلاف اْٹھ کھڑے ہونے، لڑنے اور قربانیاں پیش کرنے والوں میں 65 فیصد مسلم مجاہدین آزادی تھے۔

جب پڑاوقت گلستاں پہ توخوں ہم نے دیا
جب بہارآئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں۔

آبگلہ، گیا ،بہار۔
موبائل نمبر۔7583990 850

Previous articleیہ کیسی آزادی؟
Next articleکیا ۱۸۵۷/ کی جدوجہد ”پہلی “جنگ آزادی تھی ؟

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here