جنگ آزادی میں اردو زبان کاا ہم اور نمایاں کردار از: رازدان شاہد،(گیا بہار)

0
306

آج وطن عزیز آزادی کا جشن منا رہا ہے،آج ہی کے دن اگست 1947 ؁ء کو ہندوستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا اور دنیا کے جغرافیے میں ہندوستان کو ایک آزاد ملک کے طور پر جگہ ملی،لیکن اہل ہند کو اس آزادی کی بھاری قیمت چکانی پڑی تھی ہندوستان کو طویل جدوجہد کے بعد آزادی کی نعمت حاصل ہوئی ،جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبر دست قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تخت دار پر چڑھے ،پھانسی کے پھندے کو بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا قید بندکی صوبتیں جھیلیں اور حصول آزادی کے خاطر میدان جنگ میں نکل پڑے ،انگریزوں نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلیں تدابیریں کیں رشوتیں دیں لالچ دئیے پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کا اصول بڑے پیمانے پر اختیار کیا فرقہ وارانہ اختلافات پیدا کیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا آپس میں غلط فہمیاں پھیلائی تاریخ کو مسخ کیا انگریزوں نے ہندوستان کے معصوم باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور نا حق لوگوں کو تختہ دار پر لٹکایا ہندوستانیوں پر ناحق گولیاں چلائیں چلتی ریلوں پرسے اٹھا کر کر با ہر پھیکا مگر ان کے ظلم و ستم کو روکنے اور طوق غلامی کو گردن سے نکالنے کے لئے بہادری سے مقابلہ کیا اور ملک کو آزاد کراکے ہی سانس لیا ۔

آزادی کی تحریک میں اردو کا نہایت ہی اہم لاثانی رول رہا ہے۔تحریک آزادی اور اردو زبان کو مختلف عناصر کرار کہنادونوں سے نا انصافی ہوگی تحریک آزادی کی تاریخ کے ساتھ نا انصافی کا پہلو ہوگا یہ قول اس بات پر مبنی ہے کہ اگر برطانوی حکومت نے فارسی زبان کو منسوخ کرکے اردو زبان کو فروغ دینے اور ایک طور پر سرکاری زبان بنانے کا ارادہ کیا تو اس سے فارسی زبان کا مستقبل تو ضرور ہندوستان میں تاریک ہو گیا مگر اردو زبان کو جو ترقی ایک صدی سے بھی کم عرصے میںحاصل ہوئی وہ شاید دنیا کی کسی اورزبان کو اتنے کم عرصے میں ہوئی ہو گی ۔آزادی سے قبل1830؁ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اردو کو ہندستان کی سرکاری زبان بنایا جبکہ اس سے قبل فارسی سرکاری زبان تھی اور عوام میں اردو پہلے سے ہی رائج تھی۔اگر یہ کہا جائے کہ اردو زبان خود تحریک آزادی تھی توغلط نہیں ہوگا ، تحریک آزادی کے علمبرداروں نے اگر یورپ میں تعلیم حاصل کر کے انگریزی زبان سیکھ کر ملک کو ایک راہ پر گامزن کیا تو اس قوم اور ملت کو یکجا کرنے کا سہرا اردو زبان کو ہی حاصل ہوتا ہے کیونکہ اردو زبان ہندوستان کے تمام لوگوں کی مشترکہ زبان رہی ہے تحریک آزادی کی اگر کوئی زبان تھی تو وہ اردو ہی تھی جس نے آزادی ء وطن میں اہم اور نمایاں کردار اداکیا ہے ،کوئی بھی زبان سماج میں ہو رہی تبدیلیوں سے کبھی الگ ہو کر نہیں رہ پاتی اردو زبان میں بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی ہر دور میں ملتی رہی ہے اور نگ زیب کی وفات کے بعد جو حالات ہندوستان میں رونما ہوئے اور انہوں نے غیر ملکی قوموں کو یہاں ترقی پانے میں فروغ بخشا وہ اردو زبان کی نظم اور نثروں میں ملتے ہیںہندوستان کی قومی زبانوں میں اردو کی ایک نمایاں انفرادیت ہے کہ اس ملک کی جنگ آزادی میں قابل فخر کردار نبھایا ہے یہی وہ زبان ہے جس نے وطن پرستی کے جذبات کو روح عطا کی ہے اور سرفروشان وطن کو’’ انقلاب زندہ باد‘‘ جیسا نعرہ دیااگر ہم یہ کہیں کہ اردو ایک زبان نہیں بلکہ خود مجاہد آزادی ہے تو بالکل غلط نہیں ہوگا اسی زبان نے محبان وطن کو ـــــ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ــ‘‘جیسا قومی ترانہ دیا۔

ہندستان کی تحریک آزادی میں اردو صحافت کا بھی قابل تعریف کردار رہا ے1857؁ء کی جنگ آزادی سے 1947؁ء کے حصول آزادی تک اردو اخبارات نے تحریک آزادی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور حکومت کی زیادتیوں کے خلاف مضامین کے ذریہ حکومت کی مخالفت کی۔اس وقت کے نامور دانشوران‘صحافی‘ادباء اورشعراء نے اس میں اپنے قلم کی تلواریں چلا کر انگریزی حکومت کی ناک میں دم کئے رکھا۔اور اپنی تحریرو ں کے ذریعے کمپنی کی نگرانی اور برطانوی حکومت کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کردیاتھا، اردو صحافت کے پروانوں پر یہ حقیقت پوری طرح عیاں ہو چکی تھی کہ صحافت ہی وہ طاقت ہے جو عوام کو ہر راز سے اورہرحقیقت سے وابستہ کرا سکتی ہے۔اس کے ذریعہ ہی اپنے احساسات وتا ثرات کو ظاہر کیا جا سکتا ہے اور مقاصد کو راہ تقویت حاصل ہو سکتی ہے۔ اس دور کے بعد اخباروں کا ایک سنہرا اور جو شیلا دور شروع ہوا۔یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں ظلم وستم کی انتہاہوچکی تھی اور عوام کے صبر کا باندھ ٹوٹ چکا تھا۔اخباروں میں صاف گوئی اور بغاوت کا تیز رنگ نظر آنے لگا ان اخباروں نے برطانوی حکومت پرسخت وار کیا جس کے نتیجے میں ان پر پابندیاں بھی عائد کردی گئیںمگر اس قدم سے اردو صحافت کے شعلوں کو اور ہوا ملی اور آگے چل کر اندازہ بغاوت اور انقلاب سے اخباروں کی جھڑی لگ گئی ادیبوں کی بے باک بیانی اور شاعروں کے جو شعلے نغمیں اسے تقویت پہنچا رہے تھے۔

اُردو کے سینکڑوں شعرانے بھی اِ س تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور اپنی شاعری کے ذریعہ اِ ن شعراء نے قوم کے اندر آزادی کی جوت کو جلائے رکھا۔ جس کے عوض انہیں جیل کی صعوبتیں،تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ اُردو کے اِن جیالے حوصلہ مند شعراء نے اِن کی تکالیف کی پرواہ کئے بغیر اپنے آزادی کے مشن کو برقرار رکھا۔ اور جیل کی چہار دیواری کے اند ربھی اپنی شاعری کی مشق کو جاری رکھا، حسرت موہانی جنہوں نے آزادی کے متوالوں کو سب سے پہلے انقلاب کا نعرہ دیا تھا۔اُردو کے بہت سارے شعراء1857؁ء کی تحریک آزادی میں بُری طرح پھنس گئے تھے اس کے باوجود اُنھوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور عملی طو رپر اُنھوں نے اس جنگ آزادی میں اپنا بھر پور رول ادا کیا۔تحریک آزادی میں اُردو شعرا ء کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے اپنے وطن کی بربادی سے متعلق اپنے شدید غم کا اظہار اپنی غزلوں کے ذریعہ نہایت ہی موثر ڈھنگ سے کیا ہے۔ تحریک آزاد میں تقریباً سبھی شعراء نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے۔ تحریک آزادی کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ تقریباً 375 اہم شعراء کا ذکر ملتا ہے جنھوں نے آزادی کے لئے اپنا تن، من دھن سب کچھ داؤ پر لگادیا تھا۔ ان میںسے کچھ ایسے شعرائبھی تھے جو ان واقعات کے آسودہ ٔ حال تماشائی نہیں رہے بلکہ اس دریا خوں کے شنادر بن گئے۔ انھوں نے قلم سے تلوار کا کام لیا اور انگریزوں کے خلاف بہترین غزلیں اور نظمیں لکھیں۔

؁؁ 1857 ؁ء کی جنگ آزادی کے ِنا کام ہونے کے بعد ہندوستان میں مکمل طور پر انگریزوں کا تسلط ہو گیا اردو ناول نگاروں میں بھی حب الو طنی کا جذبہ اور آزادی کی تڑپ تھی۔انہوںنے اپنے فن کی حدود میں رہتے ہوئے اس جذبے اور ٹرپ کا اظہار کیا ہے اور اپنے ناولوں کے وسیلے سے قومی شعور کی بیداری میں جو رول ادا کیا وہ نمایاں نہ ہوتے ہوئے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے اردوداں طبقے کا انقلاب ناولوں کی شکل میں نمایاں ہوا اور نئی نئی تحریکون کا قیام عمل میں آیا ان کے ناولون میں یہ تمام مسائل کو موضوع بنایا اردو ناول نگاری میں نزیر احمد سے لیکر پریم چند اور تر قی پسند ناول نگاروں نے اپنے ناولوںکے ذریعے براہ راست عوام میں آزادی کی تحریکوں کے تئیں گرمی پیدا کی قومی سعورکو بیدار کیاجسے ہندوستانیوں کے عزم اور حوصلوں میں پختگی پیدا ہو گئی ،اسی طرح اردو کے افسانوں نے بھی آزادی کی تحریک میں حصہ لیا اردو کے تقریباً تمام افسانہ نگاروں نے عصری سیاسی مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا پریم چند، سعادت حسن منٹو، علی عباس حسینی، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی وغیرہ ایسے نام ہیں جنھوں نے اُردو میں اپنی لازوال تحریروں سے ملک کی آزادی کا پرچم بلند کیا۔ انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ انگریزوں کی سازشوں کو بے نقاب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پریم چند کے پہلے افسانوی مجموعہ ’سوزِ وطن‘ کو انگریزوں نے ضبط کر کے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ کئی دوسرے مصنّفین اور صحافیوں کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا تھا۔ منٹو کی کہانیوں ’تماشہ‘، ’نیا قانون‘ وغیرہ میں بھی انگریزوں کے تشدد اور عام آدمی کی تکلیف کو دکھایا گیا جس نے لوگوں میں بیداری پیدا کی۔ڈرامے بھی اس دور کے آئینہ دار ہیں چند ڈرامہ نگاروں نے بھی حب الو طنی کا ثبوت دیا اور ڈراموں میں واضح طور پر پر آزادی کا مطالبہ پیش کیا اسی طرح اردو نثر میں میں طنز و مزاح تحریک اور فکر کا جو سلسلہ غالب کے خطوط سے شروع ہوا تھا اسے فن کی حیثیت دی صاحب قلم فنکاروں نے گانے اردو طنز و مزاح کے ذریعے عوام کو غلامی کا احساس دلایااور آزادی ہند کی تحریک اورقوم کے فروغ میں بھرپور حصہ لیا۔مولانا محمد علی جوہر، مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کی تقریروں نے تحریک آزادی میں جو کردار ادا کیااسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اُردو زبان میں ہونے والے اس طرح کے کام سے انگریزوں کی پریشانیاں بڑھ رہی تھیں تو دوسری طرف آزادی کے متوالوں میں جوش بھر رہا تھا، تحریک آزادی زور پکڑرہی تھی۔ بڑی تعداد میں صحافیوں، مصنّفین اور لیڈروں کو گرفتار بھی کیا جا رہا تھا۔ لیکن چاروں طرف سے ’انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے گونجنے لگے اور ’سرفروشی کی تمنا‘ کی آواز ہر دل سے نکلنے لگی تھی۔
ملک کی آزادی کے بعد نئے ہندوستان پرنظر ڈالیں تومعلوم ہوتا ہے کہ زبان اردو ہمارے گھروں سے رخصت ہورہی ہے اردو کے لئے ایک بڑا مسئلہ خود اردو بولنے والے لوگ ہیں،ان کی بے اعتنائی سے بھی اردو کے فروغ میں رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں،وہ اردو کے اخبار کے بجائے انگریزی کے اخبار پڑھنا پسند کرتے ہیں،اپنے بچوں کو انگلش میڈیم میں پڑھواتے ہیں، مسلمانوں کی دکانوں پر بھی انگریزی،ہندی کے بورڈ لگے نظر آئیں گے،مکانوں پر‘‘نیم پلیٹ’’بھی انگریزی ہندی میں لگے نظر آئیںگے،شادی کارڈ انگریزی میں چھپے گا،میں نہیں کہتا کہ انگریزی میں نہ ہو،میرا کہنا صرف یہ ہے کہ اردو کو ان مواقع سے فراموش نہ کیا جائے، اس کے علاوہ اردو میں انگریزی الفاظ کی ملاوٹ کرنا آج کل نیا چلن سا ہو گیا ہے۔آج کل گھر میں بھی بچوں کو اردو کی تعلیم نہیں دی جاتی ہے اور دیگر زبانوں پر ہی توجہ دی جاتی ہے ،کہا جاتا ہے کے گھر ہی بچوں کا پہلا مدرسا ہوتا ہے اس لئے ماںباپ کو چاہیے کے گھر میں ہی بچوں کو اردو کی تعلیم دیں، تعلیمی عدا روں میں بھی صرف انگریزی ز بان کو ہی رائج کیا جاتا ہے اور انگریزی سیکھنے اور بولنے پر توجہ دی جاتی ہے جسکی وجہ سے بھی آج اردو زوال پزیری کا شکار ہوتی جا رہی ہے،اور اسے وہ مقام حاصل نہیں ہو پا رہا ہے جسکی وہ مستحق ہے۔ میں یے بلکل نہیں کہ رہا کہ انگرزی زبان بولنی یا سیکھنی ہی نہیں چاہیئے ضرور سیکھئے اور بولیئے کینکہ انگریزی بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے، مگر اسکے ساتھ ساتھ اردو کو بھی اپنی زندگی میں جگہ دیجیے۔آج اردو زبان پر تنقید کرنے والے تو بہت ہیں لیکن اس کے تحفظ اور ترویج کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھ رہا اس کا بڑا ثبوت اردو ادب میں نئے لوگوں کی کمی ہے۔اردو زبان اپنے اندرکتنی خصوصیات رکھتی ہے،اگر ہم تھوڑا سابھی اس کا خیال رکھیں تو یہ ترقی کے میدان میںبڑی تیزی سے پروان چڑھے گی۔ہمیں اردو کے فروغ کے لئے فوراًسنجیدہ ہونا پڑے گا۔
آخر میں آل احمد سرور اپنی کتاب اردو تحریک میںکہتے ہیں ’’اگرآپ واقعی میں اُردو زبان محبوب ہے اور ہم اس کو پوری آن بان کے ساتھ زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو دوسروں کا بھروسہ چھوڑ کر صرف یہ سوچئے کہ آپ اپنے حدود کے اندر اُردو کے لئے کیا کرسکتے ہیں۔ اگر آپ ادیب ہیں تو ہر فن اور ہرمعیار کی اچھی کتابیں شائع کیجئے۔ اگر آپ مدرس ہیں تو طریقہ ہائے تعلیم کی ساری خوبیاں اپناکر اُردو کو دوسری زبانوں کے مقابلے میں درسی طور پر آسان سے آسان تر بنائیے… اگر آپ کسان ہیں تو اپنے گاوں کے ہربچے کو مقامی سرکاری اسکولوں میں اُردو پڑھائیے…اور اگر آپ کو اُردو کی خدمت کرنے کا کچھ بھی موقع نہیں ہے تو کم از کم ایک دو اخبار اور چند اُردو کتابیں ہی خرید کر اُردو طباعت کی ہمت افزائی کیجئے‘‘۔
اپنی اردوکامحافظ ہمیںخود بنناہے
اب کوئی میرؔنہ غالبؔ کبھی آنے والا۔

آبگلہ، گیا ،بہار
Email-sarim.jamil@gmail.com

Previous articleیوم آزادی کے موقع سے چند قطعات۔ از: امان ذخیروی
Next article“ادارہ علوم اسلامیہ “میں یوم جشن آزادی کا انعقاد

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here