جلتے چراغ میں اپنے حصے کا تیل ڈالتے رہئے!از: عین الحق امینی قاسمی

0
134

یہ بات تقریبا سبھی جانتے ہیں کہ قوم کا قائد سماج کا حصہ ہوتا ہے ،یعنی سماج کا اجتماعی عمل ،سوچنے سمجھنے اور برتنے کا زاویہ جیسا ہوتا ہے ،اس کا رہبر اسی فکر وعمل کاآئینہ دار ہوتا ہے ،چوں کہ جس کو ہم رہبر مان رہے ہیں وہ اسی سماج کا حصہ ہے اور اس کو قیادت اسی اپنے سماج میں کرنی ہے ،تب ظاہر ہے کہ اس کی قیادت اسی سماجی سوچ وفکر کے دائرے میں ہوگی،اس لئے ضروری ہے کہ جیسے ”ہمارے اعمال ہوں گے ویسے ہمارے حاکم “ کے اصول کے مطابق بجائے قائدین کو کوسنے کے ،ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا اور دوسروں کی پگڑی اچھالنے سے پہلے اپنے شب وروز پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی۔آج جب کہ ہر طرف کام کے افراد کی کمی کا شدت سے احساس ہورہا ہے اور کام کے لوگ ہمارے بیچ سے یکے بعد دیگرے اٹھتے جارہے ہیں ،ایسے میں ہمیں میں سے کسی نہ کسی کو آگے آنا ہوگا ،بالخصوص جس کو اہل رائے اور علم ودانش کثرت رائے سے بحیثیت قائد ورہنما منتخب کرلیں ،اب ہماری ذمہ داری بن جاتی ہے کہ خیر کے جذبے سے ان پر بھروسہ کریں اور اللہ سے ان کے لئے بھی خیر پر ثابت قدمی کی دعا کرتے ہوئے اجتماعی کاموں میں ان کا ہاتھ بٹائیں اور گلہ شکوہ سے خود کو الگ رکھ کرجلتے چراغ کو بجھنے سے بچانے کے لئے اپنے حصے کا تیل ڈالتے رہیں ،تاکہ اللہ اور اس کی مخلوق کی نگاہ میں ملت کی شیرازہ بندی کو بھنگ کرنے کا قصور وار بننے سے ہم بچ سکیں۔

ہاں اگر ہم چاہتے ہیں کہ صدیق اکبر ؓ والی صفات کے حامل ہمارے قائد ورہبر بنیں اور بلاشبہ بننا چاہئے ،اور ہم سب کی یہ آرزو ہونی چاہئے، مگر اس کے لئے پہلے ہمیں عمر وعثمانؓ اور علی مرتضی ؓوالا مزاج اور ماحول پیدا کرنا ہوگا ،اگر یہ مزاج ہم اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتے تو حسین بن علی ؓاور یزید بن معاویہ ؓ والی سماجی قیادت کو قبول کرنے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے ،اگر ہم سنجیدہ اور سمع و اطاعت والا ذہن نہیں بنا سکتے تو ہم لاکھ اہل اور دستوری صفات کا حوالہ دیتے رہیں ،اصلاح تو ممکن نہیں ہے ،ہاں شعور سے عاری دوچار شور مچانے والے ساتھ ہولیں گے۔

امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی صاحب رحمانی رحمہ اللہ نے بڑی قیمتی بات کہی ہے ،اسے بھی دل میں جگہ دیجئے !وہ کہتے تھے کہ : “جس اقدام اور عمل ،جس جذبہ اور حسن نیت کی امید آپ اپنے رہبر اور رہنما سے کرتے ہیں ،اس کا دس فیصد خود بھی کیجئے ،اس کی امید نہ رکھیئے کہ آپ بے عمل ہوں اور آپ کے رہنما متحرک رہیں ،جو قوم نبی کی پہلی مخاطب ہوتی ہے ،اللہ تعالی نبی اسی قوم میں پیدا فرماتا ہے ،یہ نظام الہی ہے ،آپ کے رہنما اور راہبر بھی آپ میں سے ہوں گے اور جیسے آپ ہوں گے راہبر بھی اسی مزاج وانداز کے ہوں گے۔دوسروں پر انگلی اٹھا نے سے پہلے خود سوچئے کہ آپ نے ملت کے لئے کیا کیا ہے ؟ سونچئئے سونچئیے اور بار بار یکسوئی کے ساتھ سونچئیے کہ آپ ملت کے لئے کیا کرتے ہیں ،اور کیا کرسکتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ سونچئیے کہ دوسرے لوگ جنہوں نے ملت کے لئے کچھ کیا ہے انہوں نے بھی بہت کچھ سوچنے سمجھنے کے بعد ہی کیا ہے۔ملت اسلامیہ کے لئے کام کرنے والوں پر بے جا تبصرہ اور خواہ مخواہ کا شبہ نہ کیجئے ،اپنے اس طرز عمل سے آپ ملت کا کچھ بھلا تو نہیں کرسکتے ،ہاں ! کام کرنے والوں کو شکست حوصلہ کرسکتے ہیں ”

اسی طرح سے مولانا آزاد مرحوم نے بھی مسلمان قوم کی اپنے سچے رہنماو¿ں سے بدگمانی پر نثری مرثیہ لکھ کر دنیا سے جاتے جاتے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ بدگمانی نہ صرف اخروی اعتبار سے محرومی کی علامت ہے ،بل کہ دنیاوی نعمتوں سے بھی محرومی کا سبب ہے ،اپنے پیغام میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کسی سے بدگماں ہونا جس طرح بری بات ہے ،بدگمانی پھیلانے یا اس کا ذریعہ بننا بھی ہلاکت خیزی ہے۔

اجتماعیت ،معاونت ،درست واقفیت اورمنظم جد وجہد سے ہی کمیوں کو دور کیا جاسکتا ہے ،تبصرہ اور صرف ماتم کرتے رہنا ،ہماری ناکامیوں کا قطعاً حل نہیں ہے ،اس سے مایوسی ،دل شکنی ، پست حوصلگی اور صرف دوری پیدا ہو گی ،نئے امکانات ،توقعات اورروشن مستقبل کے لئے نئی راہوں کی تلاش ضروری ہے ،مگر یہ تب ممکن ہے ،جب تعلیم ،تنظیم اورتعاون کا مزاج ہوگا اور مل کر جلتے چراغ میں اپنے حصے کا تیل ڈالتے رہنے کی تڑپ اور طلب ہوگی،کردار کشی ،ہتک آمیز لہجہ اور شکست حوصلگی کا رویہ اپنا نا ، کامیاب اوراچھے لوگوں کی نہ عادت رہی ہے اورنہ اُن کامزاج۔

ملت اسلامیہ ہندیہ کے اتنے مسائل ہیں کہ خاطر خواہ حل کے لئے ہمارے پاس نہ افراد ہیں اور نہ ادارے ،جو چند ادارے ہیں یا بہ ظا ہر جو افراد ہیں،وہ ناکافی ہیں ،ہمیں اداروں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ افراد سازی اور شخصیتوں کی حفاظت کی بھی سخت ضرورت ہے ،ذہن میں اس بات کو جگہ دیجئے کہ کیا ضروری ہے کہ ایک ہی شخص کے سر ساری ذمہ داریاں ڈال دی جائیں ،کیوں نہ ہم اسے بانٹ کر کام کو آگے بڑھا نے کی کوشش کریں ،مگر مشکل یہ ہے کہ دل میں جگہ ہوگی تب ہی امور کو تقسیم کر سماج کو فیض یاب کرپائیں گے ،اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے دل میں اوروں کے لئے بھی گنجائش بنائیں ،انہیں بھی اپنا سمجھیں ،دوسرے ذات برادری ،مسلک ،مشرب ۔تنظیم وادارے کے افراد غیر نہیں ،سب اپنے ہیں ،سبھوں کی صلاحیتیں الگ الگ ہیں ،ان مختلف الخیال صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے سبھوں کا احترام کرنا بھی سیکھنا چاہئے، اجتماعی کاموں کو سرانجام دینے کے لئے بہت سی مشکلات درپیش ہوتی ہیں اور سب سے مشکل کام نظریاتی اختلافات اور الگ الگ آراؤں کے حامل افراد کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے ۔ ہماری صلاحیت وقابلیت کی حالت یہ ہے کہ ہم صرف شوسلستان پر بھڑاس نکالنے کے عادی ہوتے جارہے ہیں اور ہمیں ہر ادارے اور افراد میں کوتاہی دِکھتی ہے ،بلاشبہ کوتاہیاں ہیں اور کوتاہیاں رہیں گی بھی،کبھی بھی انسانی کمیاں ختم نہیں ہوں گی ،مگر ہمیں کام بھی لینا ہے انہیں احباب سے ،اس لئے کمیوں کو نظر انداز کر اچھائیوں کو سراہتے ہوئے آگے بڑھنے کا مزاج پیدا کرنا ہوگا ۔حوصلہ افزائی، مثبت اورسنجیدہ دعوت فکر وعمل سے دھیرے دھیرے خامیاں دور ہوتی ہیں ،اختلاف کی گنجائش بھی ہے اور کرنا بھی چاہئے مگر آداب وحدود میں رہ کر ۔مسلمانوں کی معاشی پسماندگی ، گرتی ہوئی تعلیمی صورت حال،شہریت کا مسئلہ ،مسلم پرسنل لا کا مسئلہ ،روزگار اور عدم تحفظ کے احساس کا مسئلہ ،اردو کے تھفظ وفروغ کا مسئلہ اور اِن جیسے بہت سے سماجی وملی مسائل ایسے ہیں جس پر ملکی سطح پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ،سماج کی فلاح وبہبود کے لئے باطل سے نبرد آزامائی کی ضرورت ہے ،مگر ہم اِن مواقع پر کیوں خاموش ہوجاتے ہیں ،ہم کیوں اکیلانہیں آگے بڑھ پاتے ہیں تاکہ کارواں بنے، ہمیں حکومتوں کے سامنے شکایت درج کرانے کی جرئت سیکھنی چاہئے اوراِن مذکورہ بالا معاملات پر کھل کر بات کر نی چاہئے ،مگر ہم صرف اپنے گھر میں شیر بن کر جینا چاہتے ہیں جب کہ شیر بننے کی جگہ پر بھیگی بلی کا بھیس لے لیتے ہیں ، اپنے سے بڑوں سے ایسی بد تہذیبی کے ساتھ مخاطب ہوتے ہیں جو انتہائی تکلیف دہ اور افسوس ناک ہے ،اگر تھوڑی سنجیدگی برت کر دیکھا جائے ،تو ان تمام ہفوات وبکواس کا کوئی حاصل بھی نظر نہیں آتا ،اس لئے ایسے لوگوں سے ہوشیار اور باخبر رہنے کی ضرورت ہے ،ہم خود بھی جھوٹ اور افواہ سے بچیں اور اپنے معاشرے کی نئی نسل کو بھی تخریبی عمل اور بدگمانی سے بچائیں ۔ قرآن کریم میں بہت صاف لہجے میں بتلایاگیا ہے کہ جس بات کا تجھے علم نہیں، اس کے پیچھے نہ ہولیا کرو ،کیوں کہ کان ،آنکھ اوردل اِن سب سے پوچھ ہوگی۔

خدا را آپ اپنے اندر سنجید گی لائیے ،ذمہ داریوں کو سمجھئے ،سماجی ذمہ داریوں کے حوالے سے ہم جتنا سامنے والے پر برستے اور انہیں کوستے ہیں یا ان سے جن ذمہ داریوں کی انجام دہی کے آرزو مند ہیں ،سچ پوچھئے کہ ہم بھی اتنے ہی بڑے ذمہ دارہیں اورقوم کے سامنے اسی درجے کے جواب دہ ہیں ،کچھ ذمہ داری ہماری بھی بنتی ہے جس کی طرف شاید ہماری نظر نہیں جا پاتی ہے ،جو لوگ بھی کسی درجے میں اپنی اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ذمہ داریوں کو دیکھ رہے ہیں اور بحسن وخوبی کام کرنے کی ہمت جُٹا پارہے ہیں، وہ ہمارے محسن ہیں ،ہمیں ان کا ہر طرح سے تعاون کرنا چاہئے ،انہیں مثبت مشورہ بھی دیں اور اگر وہ کام کا بیڑا اٹھاتے ہیں تو شانہ بشانہ قدم سے قدم ملا کر ان کے ساتھ چلنے اور پوری قوت کے ساتھ اپنے حصے کاکام کرتے رہنے میں اپنے اندر قوم وملت کی بھلائی کا ذہن رکھنا چاہیے۔

Previous articleامیر شریعت کے عملی اقدامات شروع!
Next articleاسسٹنٹ پروفیسرز کے لیے امید بھری خبر!

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here