جدید مواصلاتی وسائل اور اردو :مسائل وامکانات

2
146

مفتی عین الحق امینی قاسمی
بیگوسرائے

اِس میں کوئی شک نہیں کہ جدید مواصلاتی وسائل نے حال کی دہائیوں میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے ،انٹرنیٹ آج کے دور کی ایک عظیم ، حیرت انگیز ، مفید اور کارآمد ایجاد ہے ، جس نے اگر ایک طرف فاصلوں کو سمیٹ دیا ہے تو دوسری طرف معلومات کے انبار لگا دیئے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا جدیدمواصلات کی ترقیاتی سفر سے اردو متآثر ہوئی ہے ؟جس طرح مواصلاتی انقلابات کے ساتھ تمام تر امور میں سمت ورفتار کا معیار بلند ہوا ہے ،تب جدید وسائل کا ستعمال کر اردو کے فروغ کے لئے کس طرح کام کیا جاسکتا ہے اورخدمت اردو کے لئے جدید وسائل کا استعمال موجودہ حالات میں کس درجہ اہم ہے ، ظاہر ہے کہ یہ اور اس طرح کے سوالات کے حل کے لئے آج ہم سب یہاں جمع ہیں ،اس امید پر کہ شایداس اجتماع اور سیمینار سے مسائل کی اُن کنہیات تک پہنچنے میں ہم کامیابی حاصل کرسکیں ،جہاں سے مسائل کے باوجود اردو کے تئیں روشن امکانات کا سفر جدید وسائل سے لیس ہوکر بحسن وخوبی جاری رکھا جاسکتا ہے۔ زیر نظر مقالے میں اردو کے مسائل وامکانات کے حوالے سے مالہ وماعلیہ نہ سہی ،لیکن بساط بھر ضرور ان مسائل کا پتہ لگا کر امکانات کی طرف بڑھنے کی ایک مثبت اور مخلصانہ کوشش کی گئی ہے۔ ،ذیل میں ہم فروغ اردو کی راہ میں پیش آمدہ مسائل میں سے چند کا تذکرہ کرتے ہیں ،جس پر غور وفکر کے بعد ہی ہم اردو کو اس کی اپنی شکل وصورت کے ساتھ نئی نسل تک پہنچانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

(1)….جدید مواصلات کے انقلابی سسٹم نے ” اردو خطوط نویسی “ کو متا¿ثر کیا ہے ،چاہے نجی خطوط ہوں،کار وباری ہوں یاسرکاری اور یا عمومی۔ایک زمانے تک مکتوب نگاری کا رواج رہا اور بڑی بڑی شخصیات نے اسے اعتبار ووقار بخشا ؛ بلکہ اہل ادب کی توجہ جب اس طرف ہوئی تو خطوط نویسی کا یہ سلسلہ انسانی تہذیب کا معراج سمجھا جانے لگا ۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ڈیجیٹل خطوط نویسی اور ای میل وغیرہ جیسے ترسیلی ذرائع کے باوجو آج اردو خطوط نویسی کا سلسلہ تقریبا تھم سا گیا ہے۔

(2)…. مصلح اردوکا غیرسنجیدہ ہونا : بہت سی دفعہ تحفظ اردو کا جھنڈا ُان حضرات کے ہاتھ میں بھی دیکھا ،جو خود قابل اصلاح ہیں ،اُن کی اردو سے محبت کے بجائے تکدر کا سا احساس ہونے لگتا ہے ،بہت سی مرتبہ یقینا وہ اردو کے تئیں سنجیدہ اور مخلص ہوتے ہوئے بھی ایسی ایسی فاش غلطیاں کر بیٹھتے ہیں کہ لگتا ہے “دل کو پیٹوں یا روؤں جگر کو ” ہمیں ان کے اخلاص پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا ہے،بلکہ اُن کی فکر مندی سے بعض دفعہ اردو کا بھلاہو یا نہ ہو ، صاحب اردو کا بھلا ہوتے ہوئے ضرور دیکھا گیا ہے ،مگر سوال ہے کہ مصلحین کے اس عمل سے اردو کا کتنا بھلا ہورہا ہے یہ اہم ہے ! گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مخلص ومصلح کی طرف سے محض تین ماہ کے اندر اردو سکھانے کا اعلان پڑھنے کو ملا ، فیس بک وال پرکل ڈھائی لائن کے اس اعلان میں چار طرح کی چار غلطیاں نظر آئیں ،جسے سدھارے بغیر شائع کردیا گیا ،کیا اِن جیسے مصلحین اردو سے اردو زندہ رہ پائے گی ؟ اور ایسا اخلاص کس دن کے لئے ؟

(3)…….غیر تربیت یافتہ افراد کی بالا دستی : اردو بے زبان تب نظر آنے لگتی ہے اور اس کی شیرنیت کھٹائی میں پڑ جاتی ہے ،جب بزعم خود “اردوداں” کے زیر اثر وہ فروغ پانے لگتی ہے ، اکثر وبیشتر اس کا واسطہ ایسے غیر تربیت یافتہ افراد سے رہا کرتا ہے ،جہاں اردو اپنے کو بے بس اور بے زباں محسوس کرتی ہے ،بعض انجمنوں ،اکیڈمیوں اور لائبریوں کے اعلی ذمہ داران کی طرف سے پڑھے جانے والے مقالات ،پڑھائے جانے والے “اردو گائڈ ” اور مرتب کی جانے والی تجویزات وتآثرات سے آئے دن بخوبی اندازہ ہوتا رہتاہے۔

(4)…….اردو کی ڈگریاں اوراسناد :۔ ملنے جلنے والوں میں متعدد ایسے شناساہیں ،جن کے پاس اردو کی ایک سے زائد حسب ونسب کی اسنادیں ہیں ، اردو کی بھلائی کے لئے کام کی ایک لائن لکھنا یا چند جملے بالترتیب بول لینا ان کے بس کا روگ ہو نہ ہو ،لیکن اُن اسناد کی بدولت وہ ہر بڑی مجلس کے میر کارواں یاکم ازکم شہ نشیں پر رونق افروز، ضرور دکھ جاتے ہیں ، اُن کی ” کمر توڑ “اردو سے انیکو بار اردو کے لئے خون بہانے والوں کی آنکھ سے پانی بہتے دیکھا گیا ہے ،خون دینے والے عاشقوں کا جرم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اردو کے زلف وابرو کو سنوارنے میں خاموشی کو ترجیح دیتے رہنا اور ضرورت کے وقت بھی تشہیر کو ناجائز سمجھ کر “گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے ” کی سنت پر عمل کے رسیا ہوتے ہیں ،لیکن اُن کا یہ جرم اتنا بڑا ہوتا ہے کہ وہ اسناد تو کجا عہدہ ومنصب تک سے بھی تہی دست ہوتے ہیں۔اسناد کا ہونا اچھی علامت ہے ،مگر اسناد دھاری ہوکر بہکی بہکی اردو کی ذمہ داری قبول نہ کر نا یہ بہت اچھی علامت نہیں ہے۔

(5)…….اردو اساتذہ : اردو زبان کی ترویج واشاعت کی پہچان کے ساتھ سرکاری بحالی، نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے ،یہ وہ لمحہ ہے جہاں سے اردو کے وجود کو مستحکم کیاجاسکتا ہے ،بچوں میں اردو کے معیار کی دیر پا بنیا دڈالی جاسکتی ہے ، یہ وہ موقع ہے جس کو گنوانے کے بعد شاید پھر وہ لمحہ اور حسین تر نقش وعکس قائم کرنے کا، وقت مہلت نہ دے ،ایسے میں نہ صرف اردو کی ترویج سے غفلت ،بلکہ اس کے خوبصورت تلفظ کے ساتھ بھی بے مروتی ہے۔اساتذہ کی اردو پر گرفت سے ہی طالب علموں میں اردو کے تئیں شوق پروان چڑھ سکتا ہے ،اُن کے تدریسی عمل کی خوبیوں سے طلبہ میں اردو بحیثیت زبان کی قدرت تب پیداہوگی جب اساتذہ، اردو کو زبان کی اہمیت وعظمت کے ساتھ پڑھنے پڑھانے میں دلچسپی لیں گے اوروہ دلچسپی تب لیں گے جب وہ خود اردو کے مزاج و مذاق سے ذہنی وفکری ہم آہنگی رکھتے ہوں گے اس لئے ذاتی خیال ہے کہ طلبہ کے ساتھ اُن کے اساتذہ پر بھی محنت کی ضرورت ہے۔

(6) اردواخبارات کی رپورٹنگ بعض غیر اردو داں نئے رپوٹروں سے کرائی جاتی ہے جو اپنی تمام طرح کی خبروں کو ہندی میں ایڈٹ کرتے ہیں،یہاں تک کہ ایسے لب سکھو رپوٹروں کی پوسٹ جو اردو کے صحافی کہلاتے نہیں تھکتے ، سوشل میڈیا پرخوب وائرل ہوتی ہے،اُن پوسٹوں میں وہ ہندی رسم الخط کے سہارے اردو زبان کے فروغ کی دعوت دیتے ہیں ،جو اردو کے ساتھ ایک بھدا مزاح ہے ۔اسی طرح اردو اخبارات میں ھندی زبان کے اندر پورے پورے پیج کا اشتہار سوائے تجارت کے اور کیا کہا جاسکتا ہے ،یہ اور اس طرح کی تجارت جو اردو ادب کی خدمت کے نام پر ہورہی ہے ،قابل غور ہی نہیں ،بلکہ تحریک چلا کر اس پر بند باندھنے کی بھی ضرورت ہے۔

(7)…….سوشل میڈیا اور
عجلت پسندی :
سوشل میڈیا کی مقبولیت سے انکار اور نہ انکار کی گنجائش ! انٹر نیٹ کی مدد سے پلکوں میں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کی بے جا لت نے بھی اردو تلفظ کو نقصان پہچایا ہے ،پہلے کبھی دوچند سطریں لکھنے کے بعد ،لکھنے والا اس کے بال وپر کو کئی کئی بار سنوارتا تھا ،لکھنے اور لکھ کر مٹادینے کا مزاج برا نہیں سمجھا جاتا تھا ،مکمل اطمینان کرلینے کے بعدہی کہیں وہ اشاعت کے لئے اس احساس کے ساتھ بھیجی جاتی تھی کہ پڑھنے والا یہ نہیں دیکھتا کہ کتنے دنوں کی محنت سے یہ تحریر لکھی گئی ہے ،بلکہ قاری پڑھ کر اپنی پسند وناپسند کی مہر لگاتا ہے،اس لئے معذرت نامہ کی سطریں بھی ساتھ ہوتی تھیں ،مگراب تو کچھ عجلت پسندی اور لکھ جانے والی ہر تحریر پتھر کی لکیر کے خیال سے اس قابل کہاں کہ لفظوں کی ترتیب ،تلفظ وادائے گی ،تذکیر وتانیث وغیرہ کے تعلق سے کم از کم بار ایک نظر ثانی میں وقت لگا یا جائے۔ اس زود نویسی نے جہاں اردو کو متآثر کیا ہے ،وہیں کمنٹ بوکس میں ہندی رسم لخط کے اہتمام اور اس کے عام مزاج وچلن نے بھی اردو تلفظ کو زبر دست نقصان پہنچایا ہے۔کل ملا کر اردو کی خدمت کم اور شور زیادہ کیا جارہا ہے۔

(8)…..ماہرین اردو کی روپوشی : کام تو جوہونا ہے وہ ہوگا چاہے ماہرین کے ذریعے ہو یا غیر ماہرین سے ،مگر یہ بھی سچائی ہے کہ سالار قافلہ جب سبک گامی سے چلنے کا مزاج رکھیں گے تو قافلہ کے افراد آگے نکل کر سالار نما ضرور دکھائی دینے لگیں گے۔ یہی صورت حال تقریباً یہاں بھی ہے ، جب تجربہ کا رافراد رونمائی کے بجائے روپوشی کو ترجیح دیں گے ،پھر کمان تو کسی کو سنبھالنا ہی پڑے گا ،وہ چاہے ناتجربہ کا ر ہی کیوں نہ ہو۔اردوداں کو اس کے لئے آگے آنے کی ضرورت ہے ،زندگی میں بعض دفعہ نقاب پوشی سے زیادہ نقاب کشائی کی اہمیت ہوتی ہے ،اگر اردو کے خاموش خدمت گار زمام اردو کو نہیں تھا میں گے تو ہمیں نکیل ہاتھ سے جانے پر افسوس نہیں ہونا چاہئے۔

(9)…….اردو سے افادہ واستفادہ: اردو کے تعلق سے ایک بات تو اکثر ماہرین لسانیات کہتے رہے ہیں کہ اردو تلفظ میں جو لفظ بھی عادت کی حدتک بولی اور سمجھی جاتی ہو ،افہام وتفہیم کی غرض سے لکھنے پڑھنے میں اسی لفظ کو استعمال کرنا چاہئے ، ایسی تحریریں ہی زود فہم بھی ہوتی ہیں اور قابل اثر بھی ، آسان اور عام فہم لفظوں کو نظر انداز کربے وجہ عربی الفاظ کو جڑ نے کی چاہت سے بسا اوقات ناقابل فہم تحریریں وجود میں آجایا کرتی ہیں ،جسے نہ اہل زبان پسند کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ناہی سامع پر اس کا کوئی واقعی اثر جھلکتا ہے ،بلکہ وہ زبان کی لذت سے محروم جبرا خواندگی پر مجبور ہوتے ہیں۔اسی طرح یہ چلن بھی عام کرنے ضرورت ہے کہ اردو میں جو لفظ صوتی اعتبار سے مستعمل ہو ،لکھنے میں بھی اس کو بعینہ استعمال کیا جانا چاہئے ، حالاں کہ اردو میں بہت سے ایسے الفاظ مستعمل ہیں جو بولنے میں کچھ اور لکھنے میں کچھ اور آتے ہیں مثلاً: خواہش کو خواہش ،دستر خان کو دستر خوان وغیرہ یا اسی طرح خد بہ خد کو خود بخود ،پہنچا کو پہونچا وغیرہ ، بہت سے الفاظ جو بولنے میں الف کے ساتھ ،مگر لکھنے میں” ہ” کے ساتھ لکھے جاتے ہیں ،اس طرح کے الفاظ کو بھی الف کے ساتھ ہی لکھے جانے کی چلن عام ہوتو اردو ،سیکھنے سے برتنے تک کے مرحلوں میں نمایاں فروغ پائے گی۔ایسا اس لئے بھی ممکن ہے کہ اردو تحریروں میں ایسی ہی کئی بڑی تبدیلیاں ماضی میں ہوئی ہیں جن کو بروئے استعمال لایا گیا ہے۔

امکانات کا سفر :
گذشتہ سطور میں فروغ اردو کے تئیں جن رکاوٹ ومسائل کواختصاراًذکر کیا گیا ہے ،اگر اردو کی راہ سے ان رکاوٹوں کو دور کرنے میں اہل اردو کامیاب ہوجاتے ہیں ،تو اس بات کے امکانات قوی ہیں کہ اردو بحیثیت زبان ہر جہت سے ہر شعبے میں نہ صرف فروغ پائے گی، بلکہ ملک کی ضرورت بن کر سرکاری ونجی شعبوں میں بھی جگہ پانے میں کامیاب ہوگی۔جدید مواصلاتی وسائل کے اس ماحول میں جہاں بہت سی چیزوں کی سہولت ہوگئی ہے ،وہیںاردو کے فروغ کے لئے بھی جدید وسائل کا بھر پور استعمال کر اردو آبادی کو اردو سے جوڑا جا سکتا ہے ،جدید آلات و مواصلات کی مدد سے اردو میں درس وتدریس ،افہام وتفہیم اور اس کی ترویج واشاعت کا کام بخوبی لیا جاسکتا ہے ،بلکہ یوں کہیں کہ ارسال وترسیل کے اس دور میں نِت نئے آلات کی مدد سے سمٹتی دنیا کو ہم اردو کے لئے حسین مواقع فراہم کرسکتے ہیں ،ایک طرح سے جدید آلات وسائل نے اردو کے فروغ کے لئے ہمارے کام کو مزید آسان بنا دیا ہے ،اس زاوےئے سے اگر ہم دیکھیں تو جدید مواصلاتی وسائل کی موجودگی میں اردو کی ترویج واشاعت کا امکان کافی بڑھ گیا ہے۔

اردو کی تعلیم وتدریس کے لئے اب ہمیں نہ صرف کثرت سے مواد فراہم ہورہے ہیں ،بلکہ مواد و نصاب کے لحاط سے دنیا بھر میں جاری طریقہ تدریس سے بھی ہم فائدہ اٹھا کر جدیدمواصلاتی وسائل سے اپنے طلبا کو کم وقت میں کافی با صلاحیت بنا سکتے ہیں۔آج کا دور اب تصور ذہنی کا محتاج نہیں رہ گیا ،بلکہ اب تو ساری چیزیں جدید وسائل کی درآمد گی کی وجہ سے بدیہی طور پرسامنے ہیں ،جنہیں دو دوچار کی طرح گنا بھی جا سکتا ہے اور سمجھا بھی ۔ تدریس کے لئے پہلے آپ کے پاس صرف بلیک بورڈ ہوتا تھا ،مگراب انٹر نیٹ اور پروجیکٹر جیسے نئے وسائل نے افہام وتفہیم کی مشکل راہوں کو باتصویر بنا کر رکھ دیا ہے۔اس لئے جدید مواصلاتی وسائل کی موجود گی میں اب اہل اردو کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ بنیادی اردو تعلیم کی خدمت کے حوالے سے امیر شریعت سابع مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی ؒنے کاروان اردو کے اجلاس سے اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ ” اردو کو دودھ پلانے والے نہیں خون دینے والے مجنوں کی ضرورت ہے “ یقیناًضرورت ہے کہ جدید مواصلاتی وسائل کا بھر پور استعمال کیا جائے اور خدمت اردو کے بند دریچوں سے قریب ہوکرانٹر نیٹ ، کمپیوٹر اور مفید سائٹس وغیرہ کی مدد سے اردو کی ترویج واشاعت کے لئے جنونی سطح پر کام کو پھیلا یا جائے ، ضرورت پڑنے پردور بیٹھ کر بھی اردو طلبا کو آن لائن کلاسیس کے ذریعے اردو سے قریب کیا جا سکتا ہے، بلکہ یوں سمجھیں کہ ترسیل کے جدید وسائل نے امکانات کی جو شمعیں روشن کی ہیں ،ان سے بھر پور فائدہ اٹھا یا کر خدمت اردو کے لئے اسے خاطر خواہ استعمال کیا جائے۔

نائب صدر جمعیة علماء بیگوسرائے
ainulhaqueamini@gmail.com/9931644462

Previous articleوقار کی حفاظت
Next articleقدیم اور جدید دھاروں کو ملانے کی ایک باوقار کوشش

2 COMMENTS

  1. آج ابھی اس عاجز کا تازہ مضمون بلاغ18 اردو پورٹل میں شائع ہوا ،پڑھ کر اور دیکھ کر خوشی ملی ،اکثر گروپ پر بلاغ18 کی زمینی خبروں اور اچھوتے مضامین کو پڑھتا رہتا ہوں ،بلاغ 18 کے مدیر محترم اور اس کے بانی کا نفیس ذوق چھن چھن کر سائٹ پر جلوہ بکھیرتا رہتا ہے ،کم وقت میں بلاغت 18 ڈاٹ کام نے اپنی پکڑ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے ،خاص کر ایسے ماحول میں جب اردو پورٹلز نے اپنی انفرادیت پھودی ہو ،تب بلاغ 18ڈاٹ کام کا اس تیزی سے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کامیاب ہوا ،یقینا اس کے ایڈیٹر کا کمال ہے کہ انہوں اپنے قارئین تک درست مواد کی رسائی میں صحافتی اصولوں کو پامال ہونے سے بچایا ۔
    ہم دعا کرتے ہیں کہ مولانا عبدالوہاب قاسمی صاحب زید مجدہ کے قلم و قرطاس کا سفر سدا جاری رہے۔

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here