کافی عرصے سے میں سوچ رہی تھی کہ بھارت کی عوام سے پوچھوں کہ اب آپ کس پارٹی پر بھروسہ کریں گے؟ ایک کے بعد ایک پارٹی کے سربراہ کا معیار گرتا جارہا ہے ۔پہلے آنکھیں بند کرکے لوگ کانگریس پارٹی پر بھروسہ کرتے تھے کیونکہ کانگریس پارٹی وہ پارٹی ہے جس نے انگریزوں سے لوہا لیا جس نے انگریزی ظلم کے خلاف آوازیں بلند کیں ،اور جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔مگر رفتہ رفتہ کانگریس پارٹی کے عروج کا سورج غروب ہوتا گیا اور محترم من موہن سنگھ کے بعد کانگریس پارٹی جیسے بالکل زوال پزیر ہوگئ۔ مسلمانوں نے بھی کانگریس پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا مگر کانگریس نے بابری مسجد پر تالا لگا کر مسلمانوں کے اعتبار کر توڑا اور پھر توڑتی ہی چلی گئ ۔کیونکہ جب بابری مسجد 6 دسمبر 1992 کو شہید کی گئ تو اس وقت اتر پردیش میں کانگریس کی حکومت تھی کلیان سنگھ وزیر اعلی تھے ۔ جب بابری مسجد پر غیر منصفانہ فیصلہ آیا تو بی جے کی حکومت ہے ۔ بی جے پی قیادت میں عوام کے ساتھ، کسانوں کے ساتھ ،خواتین کے ساتھ ،اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ کس طرح کا تعصب انگیز ،پر تشدد اور بہیمانہ سلوک کر رہی ہے پورا بھارت ہی نہی پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔
بی جے پی کی حکومت اور مرکز کی وزارت میں شامل اجے کمار مشرا کے بیٹے آشیش مشرا عرف مونو نے اپنی مہندرا تھار جیپ سے کسانوں کو سر جائیں تو کدھر جائیں ہر اور اندھیرا ہے از: ڈاکٹر کہکشاں عرفان الہ آباد کچل ڈالا قاتل کا ویڈیو بھی وائرل ہو گیا جرم آئینے کی طرح صاف ہے پھر بھی آشیش مشرا کی گرفتاری نہیں ہوئ اور مجرم اور قاتل کو اتر پردیش کے وزیر اعلی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کا بیان ” گرفتاری کے لئے صرف الزام کافی نہیں ثبوت بھی چاہئے ” دوسری طرف مولا کلیم کو اتر پردیش کی اے ٹی ایس ٹیم اغوا کاروں کی طرح نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکلنے والے مولانا اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار لیتی ہے۔بی جے پی حکومت کی پولس ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں کو گرفتار کرلیتی ہے نظر بند کر دیتی ہے جیسا کہ اپوزیشن کے رہنماؤں کے ساتھ کیا گیا ۔ پچھلی حکومتیں بھی ہمارے لئے اچھی نہیں رہیں ۔ اتر پریش کے لوگوں نے بی ایس پی پر بھروسہ کیا مگر اس پارٹی نے بھی صرف مسلمانوں کو استعمال ہی کیا تو عوام نے سماج وادی پارٹی پر اعتماد کیا کہ یہ ایک سیکولر پارٹی ہے ۔ملائم سنگھ جی کو بہت عروج نصیب ہوا دو دو مرتبہ بھارت کے سب سے بڑی اسمبلی ریاست کے وزیر اعلی بنے ۔انہوں نے اپنے سیکولرازم اور سماجواد کی لاج رکھی ۔بلکہ مسلم دوستی کی وجہ سے دوسری پارٹیوں کے لوگ ان ملا ملائم جیسی پھبتیاں بھی کستے تھے۔ عوام اور باخصوص نوجوانوں نے سماج وادی پارٹی کو سر آنکھوں پر بٹھایا اور اکھیلیش یادو ولد ملائم سنگھ یادو کو زبردست جیت دائ اور اکھیلیش یادو وزیر اعلی بنے ،مگر مسلمانوں کے حقوق کے لئے کسی نے آواز نہیں اٹھائیں سب نے اپنا الو سیدھا کیا سماج وادی پارٹی کو جو زوال نصیب ہوا وہ گھر ،خاندان اور رشتوں میں سیاسی پھوٹ پڑنے کی وجہ سے اگر اکھیلیش یادو سماج وادی پارٹی کی صدارت اپنے چچا جی کو دے دیتے تو بی جے پی جیسی انسانیت دشمن، جمہوریت کی دشمن، آئین کی دشمن اور تشدد کی حمایتی پارٹی اتر پردیش میں نہیں آتی ۔پھر جو غلط فیصلہ بابری مسجد کا ہوگیا شاید نہیں ہوتا اور مسلمانوں کا بھروسہ شاید بچا رہتا ، اس قدر بھروسہ ٹوٹا کہ لوگ اب اپنی قوم کے ، لیڈر پر بھی بھروسہ نہیں کر پارہے ہیں ۔آج تک مسلمانوں نے کبھی لالو پرساد کو ووٹ دیا کبھی کانشی رام کے نام پر مایوتی اور لوہیا جی کے نام پر ملائم سنگھ کو یا کسی باہو بلی کو مگر الیکشن جیتنے کے بعد تمام رہنما ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ، دوسری اہم بات یہ کہ ہمارے رہنما صرف ووٹ مانگتے وقت ہاتھ جوڑتے ہیں، ہاتھ بھی ملاتے ہیں مگر الیکشن جیتنے کے بعد اسمبلی یا پارلیمنٹ میں پہنچنے کے بعد ہم آپ یعنی عوام ان کا سایہ تک نہیں دیکھ پاتیے ،نہ وہ علاقے کے مسائل حل کرنے آتے ہیں نہ کوئ ان سے مل سکتا ہے اگر کوئ حق ما نگنے پہنچتا ہے تو وہی ہاتھ جوڑ نے والے ہاتھوں کو تڑوا دیتے ہیں ۔
سچ تو یہ کہ سیاست کا نام ہی برا ہے سیاست کا کوئ مذہب نہیں ہوتا سیاسی رہنماؤں کا کردار اتنا خطرناک اور دامن اتنا داغدار ہوگیا ہے کہ اب تو کسی پر بھروسہ کر پانا مشکل ہے ۔ بہار میں لوگوں نے نیتیش جی پر بھروسہ کیا وہ بی جے پی سے مل گئے ۔اتر پردیش میں پریاگ راج کے لوگ ریتا بہوگنا جوشی پر بھروسہ کرتے تھے کہ وہ پڑھی لکھی ،محترم، مہذب باشعور اور سیکولر رہنما ہیں مگر کانگریس کی نیا ڈوبتے دیکھ بی جے پی کی کشتی میں سوار ہوگئیں ۔ اب ایک چہرہ اسد دین اویسی صاحب کا ہے ۔رکن پارلیمنٹ ہیں بے خوف ہیں، نڈر ہیں، سچ بولتے ہیں کہ واقعئ آزادی کے پچہتر سالوں تک تمام سیکولر پارٹیوں نے صرف مسلمانوں کا ووٹ حاصل کیا ان کی ترقی کے کچھ نہیں کیا ان کے تحفظ کے کچھ نہیں کیا گیا وہ قوم جس نے ملک کو آزاد بھارت کا پہلا وزیر تعلیم دیا اس قوم کی تعلیم کا گراف گرتا ہی چلا گیا آج صاحب اقتدار پارٹیوں کی نظر بھارت کی مدارس ،علماؤں اور دو عظیم یونیورسٹیوں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر ہے وہاں کے طلبا سیاست کے ظلم کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ایک خوف ہے عوام میں ایک محاورہ ہے ” دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ” یہی وجہ ہے کہ مسلمان اپنی قوم کے رہنما پر بھی بھروسہ نہیں کر پارہے ہیں ۔کوئ اسدالدین صاحب کو بی جے پی کا ایجنٹ کہتا ہے کوئ ووٹ کاٹنے والا ۔ مجلس مجلس اتحاد المسلمین کو اپنا موقف بالکل صاف کرنا ہوگا اور پڑھے لکھے باشعور اور مہذب طبقے سے رہنما ئ کرائیں تو زیادہ بہتر عوام کو اسد الدین اویسی صاحب کی قابلیت ،لیاقت پر کوئ شک نہیں مگر اس وقت متحد ہوکر بی جے پی سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ تمام مسلم رہنما اپنا ذاتی مفاد بھلا کر قوم اور دین کے مفاد کے بارے میں سوچیں اور ایک پارٹی کے پرچم تلے آکر اپنے دینی بھائ کے ساتھ کھڑے ہوجا ئیں مگر افسوس عتیق کے خلاف پرویز کھڑے ہوجاتے ہیں اعظم کے مخالف عمران کھڑے ہوجا تے ہیں اور اپنے ذاتی مفاد کے لئے قوم کا بڑا نقصان کر جاتے ہی میں ہمیشہ کہتی ہوں
ایک ہوجائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوے تاروں سے کیا بات بنے؟
ہم سب اعتبار کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر بااعتبار رہنما بھی ہو ۔سب کو موقع دیا گیا ایک دفعہ مجلس اتحاد المسلمین کو موقع دینے میں کوئ قباحت تو نہیں، اگر سارے مسلمان خواہ وہ ووٹر ہوں یا رہنما ایک ہوکر اسد الدین اویسی صاحب کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو کسی بھی پارٹی کی حکومت بنے مجلس اتحاد المسلمین کی پارٹی ایک اہم رول ادا کر سکتی ہے ۔
DrKahkashanirfan@gmail .com