انسانی اعمال کی مختلف قسمیں ہیں؛چنانچہ کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو بعض مواقع پر مناسب اور صحیح ہوتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے مواقع پر غیر مناسب اور غیر صحیح،وہیں کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو ہمیشہ اچھائی میں شمار کئے جاتے ہیں جبکہ کچھ اعمال ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمیشہ اور ہر شکل میں برے ہوتے ہیں۔آج ہم موخر الذکر قسم میں سے ایک عمل ـ’تشدد’کو زیر ِبحث لائیں گے ۔ بلاشبہ یہی وہ عمل ہے جس نے گھر سے لے کر باہر تک ؛سماج سے لے کر سیاست تک اور عام معاملات سے لے کر مذہبی و دینی معاملات تک،ہر ایک نظام کودرہم برہم کر دیا ہے اور انسانی سماج کو بے رحمی وبے مروتی کی آخر منزل تک پہونچا دیا ہے۔حالانکہ جب ہم شریعت کا مطالعہ کرتے ہیں تو واضح طور پر یہ پیغام ملتا ہے کہ ایک ہمدرد، مہذب اور پاکیزہ سماج میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
کسی نے اگرآپ کی حق تلفی کی ہے ،آپ کو بُرا بھلا کہا ہے یا ظلم و ستم کے پہاڑ تو ڑے ہیں تو آپ کے لئے حصولِ انصاف کے مختلف نظام قائم ہیں ،جس کا سہارا لے کر آپ اپنا حق حاصل کر سکتے ہیں ؛لیکن اِس کی جگہ اگر آپ نے بھی وہی طریقہ اپنایا جو مد مقابل نے اپنایا ہے یا آپ اُس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر سختی کے ساتھ بدلہ لیتے ہیں تویہی تشدد ہے۔یہ بات تو ہے کسی کے غلط طرز عمل پر ردِ عمل کی جس میں غلط طریقہ اور تشدد درست نہیں ہے لیکن اِس سے بھی آگے بڑھ کر آج ایک بڑے طبقے کی عادت یہ ہو گئی ہے کہ وہ رد عمل کے طور پر نہیں بلکہ محض اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں اور یہیں سے مد مقابل پر تشدد کی شروعات ہوجاتی ہے۔
اِس پس منظر میں جب ہم نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ کی تعلیمات اور آپ کی عملی زندگی میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی حتیٰ کہ آپ ﷺ نے اُن لوگوں کے ساتھ بھی عفو و در گذر کا معاملہ روا رکھا جنہوں نے آپ ﷺ پر تشدد کی حد کر دی تھی اور اِس کی سب سے روشن مثال فتح مکہ کے موقع پر ظلم و بربریت کی نئی تاریخ رقم کر نے والوں کے لئے آپ ﷺ کا یہ جملہ ہے کہ ـ”تم پر کوئی ملامت نہیں ہے ،جائو تم سب آزاد ہو۔” (بیہقی)اسی طرح آپ ﷺ نے دوسروں کو بھی حد میں رہنے کی تعلیم دی ہے۔ چنانچہ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: “ایک دن کچھ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے ”السلام علیکم” کہنے کے بجائے یہ کہا کہ ”السام علیکم” (تمہیں موت آئے)آں حضرت ﷺ نے ان کے جواب میں فرمایا: ”وعلیکم”، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہودیوں کی یہ بدتمیزی مجھ سے برداشت نہ ہوئی اور میں نے ان کے جواب میں کہا کہ تمہیں موت آئے اور تم پر اللہ کی لعنت ہو اور تم پر اللہ کا غضب ٹوٹے۔آں حضرت ﷺ نے جب میری زبان سے ایسے الفاظ سنے تو فرمایا کہ عائشہ رک جاؤ! تمہیں نرمی اختیار کرنی چاہیے، نیز سخت گوئی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا لفظ کہا ہے؟ آں حضرت ﷺ نے فرمایا اور کیا تم نے نہیں سنا کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے، میں نے اس پر کیا جواب دیا ہے(علیکم یعنی تم پر بھی)۔
غور فرمائیں کہ ایک طرف یہودیوں نے اپنی دشمنی میںتشدد کی آخری حد پر پہونچ کرنبی اکرم ﷺ کو موت کی بد دعا ء دی لیکن اس پر بھی آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کو اس طرز کلام کو اپنانے سے روکا جو تشدد کا استعارہ تھا۔ دراصل نبی اکرم ﷺ نے اپنی اس طرح کی تعلیمات سے سماج میں امن کے قیام اور بقائے امن کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے کہ اکثر و بیشتر تواضع اختیار کر لینے سے مد مقابل کا نرم پڑ جانا آسان ہوجاتا ہے اور اُس کو اپنی غلطی کا احساس ہونا شروع ہوجاتا ہے۔اِس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے مد مقابل سے ہم اپنی بات چیت اور بحث و مباحثہ کا راستہ طے کر سکتے ہیں کہ مد مقابل اگر توہین آمیز رویہ بھی اپنائے تو ہمیں اپنے کلام میں حُسن پیدا کر کے اُنہیں قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارا عمومی رجحان یہ بن چکاہے کہ ہم ہمیشہ اینٹ کا جواب پتھر سے ہی دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے یقینی طور پر مسئلے کے حل کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں ۔اِس تناظر میں جب ہم ٹی وی مباحث کو دیکھتے ہیں تو وہاں صورتِ حال اور بھی دھماکہ خیز نظر آتی ہے کہ وہاں اکثر لوگ مد مقابل کو الفاظ کے تیزو تند تیروں سے ہی زیر کرنا چاہتے ہیں ؛ظاہر ہے کہ اس صورتِ حال میں بات بننے کے بجائے بگڑنا طے ہے۔
چونکہ تشدد ہر حال میں نقصان دہ ہے؛چاہے وہ لفظی ہو یا جسمانی،اس لئے ہمیں تشدد کے تمام طریقوں سے بچنا چاہئے اور اسی طرح یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ تشدد صرف وہ نہیں ہے جو مدمقابل سے معاملہ کرتے ہوئے سرزدہو بلکہ تشدد وہ بھی ہے جو کا م حد سے آگے بڑھ کر اپنے گھر،محلہ اور سماج میں انجام پائے۔چنانچہ کبھی ہم اپنے بچوں کے معاملے میں تشدد پر اُتر آتے ہیں تو کبھی اپنی عورتوں کو تختہ مشق بنادیتے ہیں اور گھر سے باہر سماج میں کمزوروں پر تشدد تو اب ایک عام بات بن کر رہ گئی ہے۔اِس تناظر میں حرف ِآخر یہ ہے کہ انسان تو دور کی بات اسلام نے جانوروں پر بھی تشدد کو سختی سے منع کیا ہے۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک دن نبی اکرم ﷺ کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اونٹ آیا اور آپ ﷺکے قدموں میں لوٹنے لگا، اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، نبی ﷺنے اس کی کمر پر اور سر کے پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ پر سکون ہوگیا، پھر نبی ﷺنے فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ تو وہ دوڑتا ہوا آیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:”اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت میں کر دیا ہے، اللہ سے ڈرتے نہیں، یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو، اور اس سے محنت ومشقت کا کام زیادہ لیتے ہو”(ابودائود)لہذا آیئے!ہم یہ عہد کریں کہ ہم اپنے قول و عمل سے تشدد کو ختم کر کے ایک پُر امن خاندان،سماج،ملت اور قوم کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ان شاء اللہ۔(یہ بھی پڑھیں!قلب و روح کی پاکیزگی ضروری ہے از : مدثر احمد قاسمی)