—امتیاز وحید
صدر شعبہ اردو کلکتہ یونیور سٹی
پیروڈی اردو ادب کی ایک فکاہیہ صنف ہے،جو ناول، ہائیکو، ترائلے،ڈراما اور دوسری اصنافِ ادب کی طرح براہِ راست انگریزی ادب کی دین ہے۔ اردو کے ادبی سرمایے میں فکاہی ادب کی روایت قدیم ترین ہے، جس کا مقصد فکروفن اور حیات و کائنات پر چھائی ہوئی خوفناک سنجیدگی کا دامن چاک کرکے انھیں جمود و تعطل کی گہرائی سے نکالنا، تحریک دینا، ان کی اصلاح، ان کی خامیوں ، کمیوں اور کوتاہیوں پر چوٹ کرنا اوراسے قدرت کی عطا کردہ نعمت تبسم، ہنسی اور قہقہہ سے قریب کرنا ہوتا ہے۔ تاکہ زندگی اور فکروفن کی ناہمواریاں کھل کر سامنے آئیں اور نتیجتاً زندگی پُرلطف طور پر راہ اعتدال کا انتخاب کرسکے۔
پیروڈی، مزاح، طنز وظرافت، رمز، ہجو اور اس قبیل کے دوسرے الفاظ ہنسنے ہنسانے، مذاق اڑانے اور تفنن طبع کے ضمن میں آتے ہیں۔ ادب میں ان کی مختلف صورتیں ہیں۔
مزاح (Humour):مزاح کے لغوی معنی ظرافت اور مذاق کے ہیں۔ زندگی کی مضحک اور ظاہری کیفیت کامشاہدہ کرنا اور اس کا مذاق اڑانا ’مزاح‘ ہے۔ زندگی کی ناہمواریاں اور کمزوریاں عموماً ایک عام انسان کی نظر سے اوجھل رہتی ہیں۔ جبکہ ایک حساس طبیعت ادیب ان ناہمواریوں اور کمزوریوں کو قریب سے دیکھتا ہے اوران کا اس طرح مذاق اڑاتا ہے کہ ادیب کا مذاق تخلیقی پیرایہ اختیار کرلیتا ہے۔ مضحک پیرایۂ اظہار کی یہی کیفیت ’مزاح‘ ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ اس سے کسی کی تضحیک، دل شکنی یا تعریف نہیں ہوتی ہے اور اگر ہوتی بھی ہے تو جس کا مذاق اڑایا جاتا ہے وہ اس مذاق سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ تخلیق مزاح کے لیے بعض دفعہ مزاح نگار خود اپنی ذات کا انتخاب کرتاہے۔
ظرافت(Wit): ظرافت کے لغوی معنیٰ خوش طبعی، مذاق، دل لگی اور تمسخر کے ہیں۔ مزاح اور ظرافت ایک ہی قبیل کی چیزیں ہیں۔ ہر وہ بات یا عمل جس سے قاری و سامع یا ناظر کی حِسّ مزاح کو تحریک ملے وہ ظرافت ہے۔ ظرافت وقتی خوش طبعی اور بے ضرر دل لگی تک محدود ہے۔ ایڈیسن، گولڈ سمتھ، غالبؔ، پطرس بخاری، شوکت تھانوی اور رشید احمد صدیقی، سید غیور حسن اور موجودہ دور میں مشتاق یوسفیؔ اور مجتبیٰ حسین اردو کے ممتاز ظرافت نگاروں میں ہیں۔
طنز(Satire): طنز کے لغوی معنی طعنے، رمز کے ساتھ بات کرنے اور طعنے کے طور پر کہی جانے والی بات کے ہیں۔ ظرافت اپنے دائرے یعنی وقتی خوش طبعی اور بے ضرر دل لگی سے باہر نکلتی ہے اور جب اس کی تہہ میں زندگی اور اس کے متعلقات کی مضحک اور ناہموار صورتوں سے دل آزارانہ، نفریں اور برہمی کا اظہار ہو تو اسے طنز کہتے ہیں۔ طنز میں اصلاحی مقصد بھی پوشیدہ رہتا ہے۔ طنز کی خوبی یہ ہے کہ جس شخص کو طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ بظاہر ہنستا ہے لیکن اندرہی اندر شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ طنز میں ایک میٹھی چبھن ہوتی ہے کہ سامع کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے لیکن وہ آہ بھی نہیں کرتا۔ بلکہ مسکراتا رہتا ہے۔ طنز کو مزاح پر فوقیت حاصل ہے۔ کیونکہ مزاح کے مقابلے میں طنز کا اثر دیر پا ہوتا ہے۔ مزاح وقتی خوشی و مسرت دیتا ہے جبکہ طنز خوشی و مسرت کے ساتھ ساتھ حالات کو بدل دینے کی تحریک بھی دیتا ہے۔
رمز (Irony): رمز کے لغوی معنیٰ آنکھوں، بھوؤں یا ہونٹوں کا اشارہ ہے۔ غمزہ، عشوہ، ایما، اشارہ۔ زندگی کی ناہمواریوں کو اشارہ و کنایہ میں بیان کرنا رمز ہے۔ یہ ’مبالغے ‘ کی ضد ہے۔ اظہار مطلب کے لیے کم بیانی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ رمز کو آج ادب میں ایک مستقل مقام حاصل ہے اور اس کا طریق کار یہ ہے کہ یہ کسی شے کا نہایت سنجیدگی سے ذکر کرتی ہے اورمخالفین کے نظریات، دلائل اور طریق استدلال سے بہ ظاہر مکمل اتفاق کرتی ہے، لیکن درپردہ اس کی جڑیں بڑی تیزی سے کاٹتی چلی جاتی ہے۔
تقلیبِ خندہ آور (Burlesque): پیروڈی کی طرح یہ بھی لفظی نقالی ہے لیکن پیروڈی کے بالمقابل اس کا کینوس وسیع ہوتا ہے۔ پیروڈی کے علی الرغم اس کا دائرہ مصنف کی کسی خاص تخلیق تک محدود نہیں رہتا۔ بلکہ اس میں کسی مصنف کے عام انداز یا کسی گروہ کے مخصوص طریقۂ کار کی نقل اتاری جاتی ہے۔ محض اس لیے کہ اس سے ہنسی مذاق کو تحریک مل سکے۔ جہاں پیروڈی کے پیش نظر بالعموم اصل کی تضحیک ہوتی ہے، وہاں تقلیب خندہ آور کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ کسی ادب پارے کو دوبارہ اس انداز سے لکھا جائے کہ مزاح کی تخلیق ہوسکے۔
اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت قدیم ترین ہے۔ درباری اور ادبی محفلوں کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی اس کے نقوش ابتدا سے موجود ہیں۔ درباری زندگی میں طنز و مزاح بڑی حد تک ہجو نگاری کے تنگ دائرہ میں مقید ہوکر رہ گیا اور شعرا کی آپسی چشمکوں کی بدولت طنز و مزاح کی سنجیدہ قدریں تقریباً دب کر رہ گئیں۔ اس کے بالمقابل عوامی سطح پر خوشگوار امکانات نے سر اٹھائے۔ اچھی اور صحت مند مثالیں سامنے آئیں جن میں فنی خوبیوں اور سماجی ناہمواریوں کو بیک وقت بروئے کار لایا گیا۔ جعفر زٹّلی کی شاعری میں جنسی موضوعات و احساسات کے علاوہ باقی اجزا طنزو مزاح کے سنجیدہ نمونوں میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ نظیر اکبرآبادی کے کلام میں پہلی بار عوامی زندگی کی نمائندگی کی گئی ، سماجی برائیوں پرطنزیہ وار کیے گئے اور پہلی بار ادب نے عوامی مسائل کی طرف ایک خاص انداز سے رخ کیا۔ طنز و مزاح کے ضمن میں سوداؔ کا طنزیہ کلام بھی ایک وقیع اضافہ ہے۔ عوامی زندگی کی ناہمواریوں اور کمیوں پر ہنسنے ہنسانے اور ان کی مسیحائی کا فریضہ انجام دیتی عوامی سطح کی تخلیقات نے رفتہ رفتہ ’پیروڈی‘ کی صورت میں طنز و مزاح کی ایک نئی صنف کے لیے راہ ہموار کی۔
صنف پیروڈی کی تعریف، ادبی اہمیت اور فنی تقاضوں کی تفصیل سے قبل پیروڈی کے بعد وابعاد کا ایک مختصر جائزہ یقینا دلچسپ ہوگا ۔
لفظ پیروڈی یونانی زبان کے لفظ ’پیروڈیا‘ سے مشتق ہے جس کے معنی ’جوابی نغمہ‘ (Counter Song) کے ہیں۔ یعنی وہ نظم جو کسی نغمہ کے جواب میں مخالف گروپ کی طرف سے گایا جاتا ہے۔ اور جس میں اس نظم کے اسلوب کی نقالی کی جاتی ہے۔ قدیم یونان کے ایک گمنام شاعر نے سب سے پہلے ’ہومر‘ کے رزمیہ اسلوب کی پیروڈی یا نقل مینڈک اور چوہے کی جنگ (Batrachomyomachiya)میں کی تھی۔ رومن ادب میں پیروڈی مزاحیہ مقصد کے تحت کسی شاعر کی دوسرے شاعر کے ذریعہ کی گئی نقل کو کہتے ہیں، جبکہ فرنچ کی نوکلاسیکی ادب میں پیروڈی نظم کی ایک ایسی قسم ہے، جس میں مزاحیہ مقصد کے پیش نظر کسی فن پارے یا تخلیق کے طرز اور اسلوب کی نقل کی جاتی ہے۔
انگریزی لغات میں یہ لفظ اسم کے طور پر بھی مستعمل ہے اور فعل کے طور پر بھی۔ WorldNet نے لکھا ہے:
بطور اسم :
۱- مضحکہ خیز یا طنزیہ نقل(Humorous or Satirical Mimicry)
۲- ایسی تخلیق جو مذاق کے انداز میں کسی کے اسلوب کی نقل ہو۔
(A composition that imitates someboday’s style in a humorous way.)
بطور فعل:
(1) Make a parody of; تفریح کرنا ؍ مذاق اڑانا
(2) Make a spoof of; make fun of (۱)
آکسفورڈ ایڈوانسڈ لرنرس ڈکشنری میں ہے:
Parody (n) 1. [C.U.] ~ (of sth) (piece of) speech, writing or music that imitates the style of an author, composer, etc. in an amusing and often exaggerated way; comic imitation: a parody of a Shakespearian sonnet, an operatic aria, a well-known politician. She has a gift for parody. 2 [C] things that is done so badly that it seems to be a intentional mockery of what it should be; travesty: The trial was a parody of justice. Parody (v) (pt, pp-died) (Tn) make a parody of; imitate comically: parody an author, a style, a poem. (۲)
۱- پیروڈی تقریر و تحریر یا موسیقی کا وہ جز ہے، جو دلچسپ اور اکثر مبالغہ آمیز انداز میں کسی مصنف یا کمپوزر کے اسلوب کی نقل کرتی ہے؛ مزاحیہ نقل وغیرہ۔ ۲- کسی چیز یا عمل کا اس شدت سے واقع ہونا کہ اسے جیسا ہونا چاہیے اس کی ارادتاً تضحیک معلوم ہو؛ بگڑی ہوئی صورت۔
ان کا رٹا ولڈ انگلش ڈکشنری نے لکھا ہے:
Parody (n) (plural-dies) 1. Amusing Imitation – a piece of writing or music that deliberately copies another work in a comic or satirical way. 2. Parodies In General parodies as literary or musical style or type. 3. Poor Imitation an attempt or imitation that is so poor that it seems ridiculous.(v.t.) (-dies, -dying, -died) Imitate Comically, to write or perform a parody of sb or sth [Late 16th C. Via Late Latin from Greek parodia, from para](۳)
۱- پیر وڈی (اسم) کسی تحریر یا موسیقی کا وہ ٹکڑا جو مزاح یا طنزیہ انداز میں عمداً کسی فن پارے کی دلچسپ نقل ہے۔ ۲-پیروڈی کو عمومی طور پر ادبی یا طرز موسیقی یا اس جیسی کسی قسم؍ نوعیت کے لیے سمجھا جاتا ہے۔ ۳- کسی چیز کی حد درجہ کمزوری یا معمولی نقل جو خود مزاحیہ لگے۔
ایڈوانسڈ ٹونٹی ایٹتھ سینچری ڈکشنری (انگلش سے اردو) میں ہے:
Parody (n) comical imitation of someone’s (style of) writing مضحک نقل، مضحکہ خیز نقل،worthless imitation بھونڈی نقل(v.t.) make a parody of (poem, piece of writing, author etc.)(۴) کسی کی مضحک نقل کرنا
انگریزی کی تمام معتبر لغات میں لفظ ’پیروڈی‘ میں ایک چیز جو قدر مشترک ہے وہ ہے پیروڈی کو نقل (Imitation) کے مفہوم میں استعمال کرنا۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ نقل کسی ادبی فن پارے، موسیقی کے کسی راگ یا طرز کی کی گئی ہے، یا نقل کسی مخصوص اسلوبِ تحریر یا کلام یا پھر سرکس کے بازیگر کے کرتب کی کی گئی ہے۔ نقل کی نوعیت کیا ہے؟ کسی فن پارے کا اسلوب ہی نقل کے زمرے میں شامل ہے یا صرف فن پارے کی زمین اور اس کی روح اور فکر بھی پیروڈی کا روپ اختیار کرتا ہے۔
قدیم یونان میں پیروڈیا سے مراد وہ نغمہ یا گیت ہے، جو کسی گائے ہوئے گیت کی سنجیدگی اور نغمے کی مقدس فضا اور اس کے سحرآفریں تاثر کے جادو کو توڑنے کے لیے گایا جائے۔ ظاہر ہے کہ سحر آفریں تاثر کو توڑنے کے لیے سنجیدگی میں مزاحیہ رنگ کی آمیزش ہی سب سے کار آمد ہوسکتی ہے۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ قدیم یونان میں سنجیدہ نغموں کو مضحک پیرائے میں بدل دینے کے فن کو پیروڈیا کہا جاتا تھا۔ ایسے نغمے اکثر وہ رزمیہ گیت ہوتے تھے جو جنگوں کے دوران فوج میں جوش و جذبہ پیدا کرنے کے لیے گائے جاتے تھے۔ جنگ کے بعد اکثر ان نغموں کے الفاظ میں ردوبدل کے ساتھ مزاحیہ رنگ دے دیا جاتا تھا اور اپنی غیر معمولی سنجیدہ اور ساکت زندگی میں کیف و سرور کے چند لمحے حاصل کرلیے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ پیروڈی کی روایت عام ہوتی گئی اور اس نے ادبی حیثیت اختیار کرلی۔
اردو میں پیروڈی کے لیے تحریف نگاری، تقلید معکوس، مضحک نقالی اور ہجویہ تقلید جیسی اصطلاحیں رائج ہیںتاہم بابائے اردو مولوی عبدالحق نے جمہور علما ادب سے اختلاف کرتے ہوئے ’تضحیک ‘ کو پیروڈی کا اردو متبادل بتایا ہے۔ ڈاکٹر دائود رہبر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں ـ:
’’تمھارا خط اور مضمون پہنچا … تم نے پیروڈی کا ترجمہ ’تحریف ‘کیا ہے۔ یہ کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ میری رائے میں ’تضحیک ‘زیادہ مناسب ہوگا ۔‘‘(۵)
لیکن مولوی صاحب کی راے اس لیے درست نہیں کہی جاسکتی کیوں کہ تضحیک، تحریف یا پیروڈی سے پیدا ہونے والی کیفیت ہے نہ کہ بذات خود پیروڈی۔ البتہ یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ کیا تحریف نگاری، تقلید معکوس، مضحک نقالی اور ہجویہ تقلید ’پیروڈی‘ کا بدل ہوسکتے ہیں، جو کسی نہ کسی صورت میں پیروڈی کے تصور اور مفہوم کی نمائندگی تو ضرور کرتے ہیں مگر فی الواقع ان اصطلاحات میں اتنی جامعیت اور وزن ہے کہ انھیں لفظ پیروڈی کا متبادل مان لیا جائے؟ اس سلسلے میں مذکورہ اصطلاحات کے لغوی معنی پر غوروفکر مفید ہوسکتا ہے۔
جامع اللغات میں ہے:
تحریف: (ع، مونث) ۱-بدل دینا، تحریر میں اصل الفاظ بدل کر کچھ اور لکھ دینا۔ ۲-لفظوں کے معنی ترجمہ کرنے میں اِرادی طور پر اصل معنوں سے مختلف کرنا۔ ۳-ردوبدل، تغیر و تبدل، ادل بدل، پھیر پھار۔ ۴- تقلب حساب میں بالقصد غلط اندراج کرنا۔ ۵- قلم کو ٹیڑھا قط لگانا (کرنا، ہونا کے ساتھ) ج: تحریفات۔ (۶)
فیروز اللغات نے لکھا ہے:
تحریف (تح رِ -یف) ]ع۔ا۔مث[ ۱- بدل دینا، تحریر میں اصل الفاظ بدل کر کچھ اور لکھ دینا ۲- ترجمہ کرنے میں ارادتاً اصل معنوں سے مختلف کرنا۔ ۳- قلم کو ٹیڑھا قط لگانا۔(۷)
تقلید: (ع، مونث) پیروی، نقل، کسی کے قدم بقدم چلنا، کسی کی مطابقت کرنا (کرنا ہونا کے ساتھ) قلَّدَ دوسرے کی پیروی کرنا، تقلیدی (صفت) نقل کیا ہوا، نقلی۔ (۸)
فیروز اللغات میں ہے:
تقلید (تق ۔لید) ]ع۔ا۔مث[ نقل، پیروی، کسی کے قدم بقدم چلنا، کسی کی متابعت کرنا۔ (۹)
جامع اللغات میں ہے:
معکوس: (ع، مفعول) ۱-الٹا، اوندھا، ۲- عکس کیاگیا، ٹیڑھا ، ۳- (طالع) برا، خراب، منحوس، ۴- آسمان کی صفت میں بھی مستعمل ہے۔ (عَکَسَ، الٹنا) (۱۰)
فیروز اللغات میں ہے:
معکوس (مع ۔کوس) ]ع۔صف[ الٹا، اوندھا، ٹیڑھا۔ (۱۱)
پیروڈی کے اردو متبادلات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ’تحریف‘ کا لفظ ح رف کے مادہ سے مشتق ہے جو باب تفعیل سے ہے اور تغیرو تبدل کے مفہوم کا احاطہ کرتا ہے۔ اصل لفظ کی جگہ کوئی دوسرا لفظ فٹ کرکے صورتحال کو الٹ دینا وغیرہ، بظاہر پیروڈی کے لفظی مفہوم میں یہی کچھ ہے اور اصل فن پارہ یا کلام میں لفظی ہیر پھیر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو داں طبقے نے بڑی سہولت سے لفظ تحریف کو پیروڈی کا متبادل خیال کرلیا مگر امر واقعہ اس سے ذرا مختلف ہے۔ لفظ تحریف کے برعکس پیروڈی ایک بڑے کینوس کی چیز ہے۔ جس میں وہ تمام عوامل شامل ہیں جو پیروڈی کو ایک مکمل مزاحیہ صنف کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ لفظی الٹ پھیر توصرف پیروڈی کے تخلیقی عناصر ہیں۔
اسی طرح ’تقلید معکوس‘ کی اصطلاح میں بھی پیروڈی کا متبادل بننے کی صلاحیت مفقود ہے۔ تقلید باب تفعیل کا صیغہ ہے، جو نقل کے لیے بولا جاتا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا نہایت اہم ہے کہ پیروڈی میں صرف اصل فن پارے کی نقل ہی نہیں ہوتی۔ اسلوب یا طرز بیان اور ہیئت کی نقل پیروڈی نگار ضرور کرتا ہے مگر وہ نقل صرف لفظ ’تقلید‘ کی کورانہ نقل کے مفہوم سے مختلف ہوتی ہے۔ بادی النظر میں کسی فن پارہ کی مکمل نقل کا احساس ہوتا ہے اور ایک عام قاری صرف اسے نقل محض سمجھنے کی غلطی کرتا ہے۔ جبکہ اس نقل میں پیروڈی نگار اپنی تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لاتا ہے اور بسا اوقات پیروڈی نگار کی یہی خوبی اس کی تخلیق کو اصل فن پارے سے زیادہ وقیع اور شہرتِ جاوید عطا کرتی ہے۔یہی صورتحال مضحک نقالی اور ہجویہ تقلید کی اصطلاحوں میں ہے۔
مولانا عبدالماجد اور سید جعفری کے حوالہ سے شوکت تھانوی نے پیروڈی کے مفہوم کو اپنے مخصوص انداز میں ’ریڑھ مارنا‘ بتایا ہے، مدیر شگوفہ جناب مصطفیٰ کمال اسے ’مٹی پلید‘ سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ دور حاضر کے ممتاز طنز و مزاح نگار اسرار جامعی اسے ’چٹنی بنانا‘ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن کا خیال ہے :
’جیسے تھیٹر کو تیاتر اور کلاسیکل کو کلاسیکی بناکر اپنا لیا گیا ہے اسی طرح اگر پیروڈی کو پیرادی یا پرودی بنادیاجائے تو شاید ہم اس سے فوراً مانوس ہوجائیں۔‘‘ (۱۲)
یہاں یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ اردو زبان کی یہ خوبی ہے کہ اس کے قافلے میں عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت ہی نہیں بلکہ انگریزی کے بے شمار الفاظ و اصطلاحات شامل ہیںان کے استعمال کے پس پردہ ان مصطلحات کو ان کے پورے جامع تصور کے ساتھ جزو ادب بنانا مقصود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول، فکشن، سانیٹ، ہائیکو اور ترائلے جیسی صنفیں بعینہٖ ہمارے ادب کا حصہ ہیں۔ جبکہ پیروڈی کی صورت میں متبادل اصطلاحیں نہ صرف پیروڈی کے وقیع مفہوم اور اس کی جامعیت کی نمائندگی کرنے میں ناکام ہیں بلکہ بسا اوقات طبیعت پر بھی گراں ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں مظہر احمدکی رائے اہم ہے :
’لفظ پیروڈی ہی وہ لفظ ہے جو نہ صرف اس صنف کے لیے مشہور ہوچکا ہے بلکہ قابل قبول بھی ہے۔ یوں بھی مضحک نقالی، تقلید، ہجو یا تحریف نگاری پیروڈی کے مفہوم کو پوری طرح ادا نہیں کرتے۔‘‘(۱۳)
انگریزی ادب میں پیروڈی کی روایت بڑی قدیم ہے اور چوں کہ اردو میں یہ صنف یونانی الاصل ہونے کے باوجود انگریزی کے زیر اثر آئی ہے، اس لیے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی ادب میں پیروڈی کا مفہوم و معنیٰ اور اس کے تدریجی ارتقا کا مختصر پس منظر بھی سمجھا جائے۔
’’انگریزی ادب میں ’پیروڈی‘ کا پہلا استعمال بن جانس نے اپنی تخلیق “Every Man in his Humour” میں کیا۔ اس مخصوص اصطلاح کے استعمال کی اس نے کوئی وجہ نہیں بتائی بلکہ اس کے خیال میں یہ لفظ قارئین کے کچھ حلقے میں پہلے ہی سے جانا سمجھا جاتا تھا۔ اٹھارہ سال بعد جان ڈرائڈن (John Drydon) دوسرا ادیب ہے جس نے ادب میں ’پیروڈی‘ کا استعمال کیا۔ اپنے ’Preface to the Satires‘ میں وہ وضاحت کرتا ہے کہ ’پیروڈی کسی شاعر کے اسلوب کی کمیوں اور خامیوں کی شدت کو خفیف یا ہلکا کرنے کے مقصد سے کی جانے والی نقل ہے۔‘‘
“Parody is an imitation of one poet’s style for the purpose of making light of a fault in it.”
’’ڈرائڈن نے چونکہ لفظ طنز (Satire) کا استعمال کیا لہٰذا اس کی تعریف کی روشنی میں پیروڈی اپنے سابقہ استعمال سے قدرے مختلف ہوگئی اور اس طرح اس نے ایک خالص بدیسی (یونانی) اصطلاح پیروڈی کا استعمال بناوٹی رزمیہ (Mock-heroic) کے لیے کیا جس کے لیے جدید ادبی صنف میں کوئی اصطلاح رائج نہیں تھی۔
یہ سمجھنا اہم ہے کہ اٹھارہویں صدی سے قبل پیروڈی کو عموماً Musical Quotationکے متوازی ایک تاثر یا آرائش سمجھا جاتا تھا۔ “Mac Flecknoe” میں ڈرائڈن نے پیروڈی کی شکل میں ایک پوری نظم مذاق اڑانے کے مقصد سے کہی۔ اپنی اس نظم میں اس نے Virgil’s Aeniedکی نقل کی ہے لیکن یہ نظم Thomas Shadwellکے متعلق تھی جو ایک معمولی درجے کا ڈراما نگار تھا۔ دونوں میں واضح فرق یہ ہے کہ Virgilکے دلیرانہ کردار اور Shadwellکا کمزور اور معمولی کردار اسے اور معمولی بنادیتا ہے۔ Aeneasکے لباس میں Shadwellکی شخصیت مزید مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔ دور بحالی (Restoration) اور اٹھارہویں صدی کے اوائل کی دیگر پیروڈیاں ڈرائڈن کی پیروڈیوں ہی کی طرح ہیں۔ یہ کسی سنجیدہ چیز کی نقل کرتے ہوئے احمق انسان، یا معمولی درجہ کی خصلتوں کا مذاق اڑاتی ہے۔ اسے بناوٹی رزمیہ (Mock-heroic) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایک ایسی صنف ہے جس کا سہرا عموماً Samuel Batlerاور اس کی نظم Hudibrasکو دیا جاتا ہے۔ Alexander Popeکے Peri Bathosکے زیر اثر بعد میں حددرجہ سنجیدہ یا اعلیٰ ہونے اور اوچھے یا نا اہلی کے فرق کو Bathosکے طور پر جانا جانے لگا‘‘(۱۴)
انیسویں صدی میں شعری پیروڈی کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر قمر رئیس نے لکھا ہے:
’ ’…انیسویں صدی میں اس صنف کو بڑا فروغ حاصل ہوا۔ خاص طور سے نظم کی پیروڈی کو اس عہد کا شاید ہی کوئی صاحب طرز شاعر ہو جس کے اسلوب کا خاکہ نہ اڑایا گیا ہو یا جس نے اپنے ہم عصر شعرا کے بارے میں پیروڈی کے انداز کی نظمیں نہ لکھی ہوں۔ شیلی نے ورڈس ورتھ کی مشہور نظم Petes Bell کی پیروڈی لکھ کر فطرت کے اس پجاری کے فن اور ڈکشن کو ہلا کر رکھ دیا۔ سوئبرن نے ٹنی سن کی شاہکار نظم In Memoriumکی جو پیروڈی لکھی تھی، اسے اپنے زمانے میں ٹنی سن کی نظم سے کم شہرت حاصل نہ تھی ۔‘‘ (۱۵)
’’بیانیہ نثر کے لیے لفظ پیروڈی کا استعمال اولا جناتھن سوئفٹ (Jonathan Swift) نے کیا اور اس کی وجہ غالباً پیروڈی کی تعریف کے تعلق سے سوئفٹ کی یہ غلط فہمی ہے کہ پیروڈی کی اصطلاح صرف کسی اسلوبیاتی نقل کے لیے بولی جاتی ہے جس کا مقصد کسی چیز کی اہمیت کو گھٹا کر بیان کرنا ہو۔ “A Tale of Tub”کے پیش لفظ “The Apology for the &c.”میں سوئفٹ کہتا ہے کہ پیروڈی کسی مصنف کی قلعی کھولنے کی غرض سے کی جانے والی نقل ہے۔مختصراً پیروڈی، مزاحیہ نقل (Mockery) اور سنجیدہ تمسخر (Burlesque) سے ذرا مختلف ہے۔ اور زبان کے تئیں سوئفٹ کی توجہ کے مد نظر ایسا لگتا ہے کہ وہ اس حقیقت سے واقف تھا، درحقیقت سوئفٹ کی پیروڈی کی تعریف شاید وہی ہے جو ڈرائڈن کے واضح پہلوؤں کی توضیح کے اختیار شدہ فطرت یا مستعار الفاظ کی ہے۔
سوئفٹ کے بعد پیروڈی کی اصطلاح کا استعمال مزاحیہ نقل (Mockery) کے لیے بطور خاص بیانیہ نثر کے لیے بکثرت ہوا۔ بیسویں صدی کے آخری عرصے میں ادب کے ماہرین نے پیروڈی کو ہجو گویاں کے شعوری عمل کے بجائے صنفی ضرورت، حوالہ جاتی پن (Referentiality) اور بین المتونیت (Intertextuality) کے شرائط کے بطور متعارف کرایا ہے۔ اس طرح تمام صنفیں جدت کی فضا میں شروع ہوتی ہیں، صنفی توقعات کے ساتھ بول چال میں پروان چڑھتی ہیں اور پیروڈی میں اختتام پذیر ہوتی ہیں۔
کچھ فلمی صنف کے ماہرین پیروڈی کو کسی صنف کے ارتقاء میں بطور خاص فلم میں فطری ارتقاء کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر کلاسیکی دور کے بعد مغربی ماہرین نے پایا کہ ہرصنف کی روایت پیروڈی کے دور سے گزرتی ہے۔ جس میں ان روایات کا مضحکہ اڑایا جاتا ہے۔ چوں کہ ناظرین نے ان مغربی کلاسکیت کو پہلے ہی دیکھ رکھا ہے۔ لہٰذا وہ کسی نئے مغربی فن پارہ کی توقع رکھتے تھے اور جب یہ توقعات کے برخلاف الٹی ہوجاتی تھیں تو ناظرین قہقہہ لگاتے تھے۔ (۱۶)
انگریزی کے نثری ادب میں بھی قابل ذکر پیروڈی کی خاصی تعداد موجود ہے۔ بیانیہ نثر کے حوالہ سے ڈاکٹر قمر رئیس رقم طراز ہیں:
’’۔۔۔ اسی صدی میں جیمس جوائس نے اگرعامیانہ انداز کے صحافتی قصوں کو(جو اس زمانہ میں بے حد مقبول تھے) پیروڈی کا موضوع بنایا تو اسٹیفن لیکاک نے جاسوسی قصوں کی ہیجان خیزی، تجسس آفرینی اور خوف و ہراس کی مجرمانہ فضا کو اپنی پیروڈی کا ہدف بنایا جس میں جوائس نے انگریزی نثر کے نمائندہ اسالیب کو بھی بڑی کامیابی سے پیروڈی کے رنگ میں پیش کیاہے اور قریب سے دیکھا جائے تو ایک بڑے کینوس پر اس کا عظیم ناول یولیسِس بھی پیروڈی ہے جس میں ایک طرف اس نے حقیقت نگاری کی روایت اور دوسری طرف رزمیہ قصوں کے کرداروں کی عظمت و شوکت کامضحکہ اڑایا ہے،،۔ (۱۷)
لفظ پیروڈی پر انٹرنیٹ سروے کی یہ رپورٹ یقینا بڑی دلچسپ ہوگی جس کے مطابق یہ لفظ بطور اسم 93.87% بار استعمال ہوا ہے اور انگریزی بول چال کی زبان اور تحریر کے سوملین الفاظ میں پیروڈی کا استعمال 261مرتبہ ہوا ہے۔ (۱۸)
پیروڈی لفظ و معانی پر اس اجمالی تجزیہ کے بعد اردو ادب میں پیروڈی کے مفہوم، تصور اور بنیادی خدوخال کا خاکہ خودبخود متصور ہوجاتا ہے اور یہ نکتہ صاف ہوجاتا ہے کہ کسی سنجیدہ نظم یا نثر کی مضحک نقالی پیروڈی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کسی تصنیف کی صرف کورانہ تقلید ہی پیروڈی کا مدعا ہے بلکہ پیروڈی الفاظ و معانی کے ایسے فنکارانہ الٹ پھیر کا نام ہے، جو اَدب پارے کو مضحک اور ظریفانہ پیراہن عطا کرے۔ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق:
’’پیروڈی یا تحریف کسی تصنیف یا کلام کی ایسی لفظی نقالی کانام ہے جس سے اس تصنیف یا کلام کی تضحیک ہوسکے۔ اپنے عروج پہ اس کا منتہا ادبی یا نظریاتی خامیوں کو منظر عام پر لانا ہوتا ہے ۔‘‘ (۱۹)
ڈاکٹر وزیر آغا نے مزاح اور طنز کے ضمن میں لکھا ہے کہ مزاح نگاری اپنے نمود کے لیے جن عناصر کی رہین منت ہے ان میں بالترتیب موازنہ (Camparision)، طریق تکرار (Repetition)، مزاحیہ صورتِ واقعہ (Humorous Situation)، مزاحیہ کردار (Humorous Character) اور پیروڈی قابل ذکرہیں۔ یہ جملہ عناصر مزاح نگار کا حربہ (Trick) ہیں جن کی مدد سے طنز و مزاح کے لیے بنیادیں فراہم کی جاتی ہیں اور زیر لب تبسم، ہنسی اور قہقہہ جس کا ظاہری اظہار ہیں اور پس پشت اصلاح، جمود و تعطل اور حددرجہ سنجیدہ فضا میں ادب کی بقا کے لیے خون گرم حاصل کرنا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر موصوف کی مذکورہ بحث میں یہ امر قابل غور ہے کہ آیا پیروڈی دیگر اسباب طنز و مزاح کی طرح مزاح نگار کا صرف ایک آخری حربہ ہی ہے یا اس سے اوپر اٹھ کر اس کی کوئی اپنی انفرادی حیثیت بھی ہے؟ تو پتہ چلتا ہے:
’’… پیروڈی صرف مزاح نگار ہی کا حربہ نہیں بلکہ طنز نگار بھی اس سے بدرجۂ اتم فائدہ اٹھاتا ہے۔ تاہم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تحریف کی حیثیت محض ایک حربے کی سی نہیں بلکہ یہ تو ایک علیحدہ صنف ادب کا درجہ بھی حاصل کرچکی ہے اور نتیجتاً ایک علیحدہ مطالعے کی طالب ہے۔‘‘(۲۰)
اس کے برعکس سید احتشام حسین نے پیروڈی کو ایک ادبی صنف نہ تسلیم کرتے ہوئے اسے محض وقتی اور لمحاتی تفریح تک محدود رکھنے کی وکالت کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’انسان آلام حیات اور جان لیوا سنجیدہ مصروفیات سے لڑنے کے لیے تفریح کے سیکڑوں ذرائع اور خوش باشی کے لا تعداد پہلو پیداکرلیتا ہے، وہ ہنسنے کی بات پر تو خیر ہنستا ہی ہے( بشر طیکہ بعض لوگوں کی طرح ہنسنے سے اس کی صحت نہ خراب ہوتی ہو)سنجیدہ باتوںکو بھی توڑ مروڑ کر ان میں مضحک پہلو نکال لیتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ پیروڈی بھی اسی نوع کی ایک کوشش ہے۔ میں خود کو اس بات کے ماننے پر آمادہ نہ کرسکا ہوں کہ پیروڈی کو بھی ادبی محفلوں میں بھی جگہ دی جائے …میرا خیال ہے کہ اسے محض وقتی تفریح تک محدود رکھنا چاہیے اور ایک ادبی صنف قرار دے کر اعلی ظرافت اور مفکرانہ طنز کا مد مقابل نہیںبنانا چاہیے۔‘‘(۲۱)
اسی طرح Earnst Hemingwayنے اس کی صنفی حیثیت کو فروتر گردانتے ہوئے پیروڈی کوقلم کار کاآخری قرار دیا ہے اس کے الفاظ میں
ــ”The Parody is the last refuge of the frustrated writer . Parodies are what you write when you are associate editor of the Harvard Lampoon. The greater the work of literature, the easier the Parody. The step up from writing Parodies is writing on “W”(۲۲)
معلوم نہیں پروفیسر سید احتشام حسین نے پیروڈی کے صنفی وجود کی عدم قبولیت پر اس کی تخلیقی فنی چابکدستی ، تنقیدی اور اصلاحی افادیت کے فنی اور افادی پہلو سے کیوں کر صرف نظر کیا۔ ’سنجیدہ باتوں کو توڑ مروڑ کران میں مضحک پہلو نکال لینا‘ کوئی طفلانہ شغل یا محض شعبدہ بازی نہیں بلکہ گہری بصیرت اور خلاقانہ ذہانت چاہتی ہے۔ ’کپور ایک تحقیقی وتنقیدی مطالعہ ‘ جیسی مایہ ناز پیروڈی کیا عمیق مطالعہ کے بغیر ممکن ہے؟ اقبال کے شکوہ اور جواب شکوہ کے زمین پر رقم ہونے والی دلاور فگار اور علامہ شہباز امروہوی کی پیروڈیوں کے وجود اور اس کے اعجاز کو محض لفظی الٹ پھیر کہہ کر انکار کیا جاسکتا ہے؟ شوکت تھانوی کی پیروڈی ’مومن (دنیا میں) ،’وزیروں کی نماز‘ اور ظفر کمالی کی ’بندے ماترم‘جیسی پیروڈیوں کو عصری تقاضوں کے ضمن میںبے معنیٰ گردانا جاسکتا ہے؟ ہر گز نہیں!
E. Hemingwayکا خیال بھی انتہا پسندی پر مبنی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا قلم کار کے لیے پیروڈی سب سے آسان مشغلہ ہے جہاں سے وہ اپنا تخلیقی سفر بآسانی شروع کرسکتا ہے۔ مگر امر واقعہ ایسا نہیں ہے۔ البتہ بغض وعناد اور بد نیتی اس فن کی روح کے منافی ہے لہٰذا ذہنی تعصب اور جھنجلاہٹ کے ساتھ کسی تخلیق کی پیروڈی خود اس کے فنی دائرے سے خارج ہے یہی وجہ ہے کہ E. Hemingway کے خیال کو سنجیدگی سے نہیںلیا جاسکتا۔
وزیر آغا کی مذکورہ تعریف کی روشنی میں کسی تصنیف کی نقل جس کا نمونہ اصل تخلیق سے ملتا جلتا ہو اور صرف الفاظ کے معمولی ردوبدل سے مزاح کا پہلو نکل آئے پیروڈی ہے۔ اس نوعیت کی پیروڈی کا مقصد تفریح طبع اور وقتی طور پر ذہنی فرحت کا سامان بہم پہنچانا ہے اور اس کا بنیادی وصف ہنسی کے جذبات کو تحریک دینا ہوتا ہے۔مختصر طور پر یہ فن اصل مضمون کامضحکہ خیز چربہ اتارتا ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے پیروڈی میں جدت اور جودت کو ناگزیر جاناہے۔ ان کے بقول:
’’پیروڈی میں جدت اور جودت کا ہونا ضروری ہے۔ اصل کی نقل اس طور پر کرنا یا اس میں ظرافت کا پیوند لگانا کہ تھوڑی دیر کے لیے نقاب یا پیوند کی تفریحی حیثیت اصل کی سنجیدہ حیثیت کو دبا دے، پیروڈی کا ہنر ہے۔‘ (۲۳)
پروفیسر رشید احمد صدیقی کی یہ تعریف ڈاکٹر وزیر آغا کی تعریف میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اصل کی ظریفانہ نقل کی بات یہاں بھی کہی گئی ہے مگر ساتھ ہی جدت اور جودت کو لازمی عنصر بھی گردانا ہے۔ الفاظ کے ہیر پھیر سے نیا پن توپیدا کرنا ہے مگر پوری ذکاوت، ذہانت، شعور اور سوجھ بوجھ کے ساتھ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ کی پیروڈی کوئی طفلانہ شغل نہیں بلکہ علمی پختگی اور شعوری ہوشمندی کا متقاضی ہے۔ اس پائے کا پیروڈی نگار فطرتاً نہایت اعلیٰ مذاق کا حامل ہوگا اور وہ شعوری طور پر سنجیدہ مزاح اور لغو اور لایعنی کلام میں خطِ امتیاز کھینچنے پر قادر ہوگا۔ اس پہلو پر ڈاکٹر اعجاز حسین کی یہ رئے نہایت معقول لگتی ہے:
’’پیروڈی نگار کو موزوں طبع ہونے کے علاوہ لطافت پسند اور سنجیدہ مزاج بھی ہونا چاہیے۔ یہ نہ محسوس ہونا چاہیے کہ وہ پیروڈی محض ہنسانے کے لیے لکھ رہا ہے۔ اس کا کلام دوسروں میں گدگدی پیدا کردے گا ،مگر یہ نہ محسوس ہو کہ وہ گدگدانے کے لیے انگلیاں بڑھا رہا ہے۔‘‘(۲۴)
پیروڈی کی تخلیق کا مقصد محض ہنسی کے جذبہ کو تحریک دینا نہیں ہے بلکہ ا س فن کے ذریعہ فطری جذبۂ تفریح کو اس طور پر تحریک دینا ہے کہ انسان کی طبیعت میں خود بخود انبساط اور طرب کی کیفیت جنم لے لے یعنی جذبۂ تفریح کے فطری التزام کو جبراً ضائع نہ کیا جائے جس طرح ہنسانے کے لیے فن کا نہیں بلکہ انگلیوں کا استعمال کیا جاتا ہے بلکہ تخلیق میں بذات خود تفریح کے فطری اسباب مہیا ہوںظاہر ہے اس درجہ غایت احتیاط اور فنی رکھ رکھاؤ کے بعد جو تخلیق سامنے آئے گی وہ یقینا اعلیٰ قدروں کی حامل ہوگی اور اپنی اہمیت کے اعتبار سے اصل تخلیق کی طرح قابل اعتنا ہوگی۔ بقول رشید احمد صدیقی:
’’ اعلیٰ پائے کی پیروڈی اتنی ہی قابل قدر ہوتی ہے جتنی کہ وہ عبارت یا شعر جس کی پیروڈی کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پیروڈی کا فن کس ذہانت اور ذکاوت کا طلب گار ہے۔‘ (۲۵)
پروفیسر رشید احمد صدیقی کی مندرجہ بالا تحریر پیروڈی کے فن کو نہ صرف اعتبار بخشتی ہے بلکہ اس صنف کو اصل فن پارہ کے مساوی اساسی بنیاد بھی فراہم کرتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کبھی کبھی پیروڈی کی شہرت اس فن پارہ سے بھی زیادہ دیرپا ثابت ہوتی ہے جس سے پیروڈی کی گئی ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال ’ہنری فیلڈنگ (۱۷۴۲) کی Joseph Andrewsہے جو سموئل رچڈسن کی نہایت سنجیدہ اور غم ناک فضا میں لکھے ناول Pamela یا (۱۷۴۰)Virtue Rewarded کی پیروڈی ہے۔ لیوئس کارول کی بیشتر پیروڈیاں مثلاً:”You Are Old, Father William” اصل فن پارہ سے زیادہ بہتر طور پر جانی جاتی ہے۔‘‘(۲۶)
پیروڈی کی مذکورہ تعریفوں کی روشنی میں پیروڈی کادائرہ کار (Scope) اور اس کا حجم قدرے محدود اور مختصر نظر آتا ہے۔ لفظی الٹ پھیر ، اصل کی نقل، پیروڈی نگار کے لیے مطلوب مذاق اور ذوق لطیف وغیرہ جہات ہی پیروڈی کا مدعامعلوم ہوتا ہے جبکہ مندرجہ بالا تعریف پر صرف خاص قسم کی پیروڈیوں کا ہی اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علی الرغم پیروڈی کو ایک بڑے کینوس پر ہم اس وقت دیکھتے ہیں جب اس کا رشتہ تنقید سے جڑتا ہے۔ دراصل پیروڈی تنقید جیسے لطیف فن سے متعلق ہے جو معنوی طور پر سب سے لطیف اور موثر صنف ہے۔یہی وجہ ہے کہ کنھیا لال کپور پیروڈی کو ’مزاحیہ تنقید کی سب سے مشکل صنف‘‘خیال کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ ’اچھی پیروڈی لکھنا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے‘ (۲۷) بہر کیف عام حالات جس تنقید کے لیے موزوں نہ ہوں وہاںپیروڈی ہنسی ہنسی میں اپنا کام کرجاتی ہے۔ غالباً انھی وجوہات کو مد نظر رکھتے ہوئے ممتاز پیروڈی نگار شفیق الرحمن نے لکھا ہے :
’’پیروڈی نہ تو محض طنز ہوتی ہے اور نہ نری تضحیک، یہ ایسی خوشگوار سی تنقید ہوتی ہے جو بری معلوم نہیں ہوتی (خصوصاً اسے جس پر پیروڈی کی گئی ہو) پچھلی صدی میں لند ن کے تھیٹروں میںنامور شعرا کے کلام پر پیروڈی کی جاتی تھی۔ کئی مرتبہ شعرا بطور تماشائی وہیں تھے لیکن انھوں نے برا نہیں مانا‘‘(۲۸)
سر سید ہال کے طلبہ کی جانب سے منعقدہ پیروڈی کانفرنس (۱۹۵۷ء)میں احمد جمال پاشا نے پروفیسر رشید احمد صدیقی کے مضمون ’آشفتہ بیانی میری‘ کو ’طرز نگارش میری‘ کو پیروڈی کی قبا پہنائی جہاں رشید صاحب بھی موجود تھے۔ وہ نہ صرف اس سے محظوظ ہوے بلکہ انعام سے بھی نوازا۔
احمد جمال پاشا نے بھی تنقید سے پیروڈی کا رشتہ استوار کرتے ہوے لکھا ہے:
’’پیروڈی کو طنز و مزاح اور کارٹون کے خاندان کا فرد کہنا درست ہوگا۔ اس میں تضحیک سے تنقید کا کام لیا جاتا ہے مگر اس کا منصب تضحیک ہرگز نہیں۔ اسی وجہ سے یہ ایک مشکل فن ہے،اسے مزاحیہ تنقید میں اعتدال اور توازن کی سخت ضرورت ہوتی ہے،اس میں کسی سنجیدہ تخلیق کے کوبڑ پوری فنکاری کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں،اس کا کمال یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے کوبڑ پن کو دیکھ کر ہنس پڑتا ہے اور ہنسی ہنسی میں اصلاح کی صورت نکل آتی ہے، ہنسی ہنسی میں جو کام ہو جائے وہ بڑا مبارک کام ہوگا۔ یہ مبارک کام پیروڈی انجام دیتی ہے۔(۲۹)
چنانچہ اس نوعیت کی تنقید کا شکار ادب میں بڑھی ہوئی جذباتیت، کسی خاص اسلوب بیان یا انفرادیت ہوتی ہے۔ آل احمد سرور کے مطابق ’پیروڈی انفرادیت کو آسیب بنا کر پیش کرتی ہے ‘۔اسی طرح ڈاکٹر قمر رئیس کے نزدیک پیروڈی شعر و ادب کے کسی خاص اسلوب، رجحان یا کوئی قابل ذکر فن پارے کی کمزوریوں کو ظاہر کرتی ہے۔ معاصراہل ادب کی بے اعتدالیوں کی روک تھام اور انھیںمتوازن کرنے جیسے مقاصد پیروڈی کے محرک ہیں۔ شعرا کے اندازِ تحریر یا اسلوب کا چربہ اتارنا بھی پیروڈی کی ذمے داری ہے۔ اسی سبب تخلیق کارمیں فنی اسالیب کی سوجھ بوجھ ،پرکھ اور شعرو ادب کا اعلی مذاق جیسی صلاحیتیں ضروری خیال کی جاتی ہیں۔ ان تمام پہلوؤں کا احاطہ پروفیسر ظفر احمد صدیقی نے یوں کیا ہے:
’’پیروڈی کا اطلاق صحیح طور پر اس ادبی تقلید پر ہوگا، جس میں مصنف کسی طرز نگارش یا طرز فکر کی کمزوریوں کو یا ان پہلوؤں کو جن کو وہ کمزور سمجھتا ہے، نمایاں کرنا چاہتا ہے۔ اس لحاظ سے پیروڈی تنقید کی ایک لطیف قسم ہے۔ مگر بعض اعتبارات سے عام تنقید سے زیادہ موثر اور کارگر۔ ‘ (۳۰)
پروفیسر موصوف کی تحریر کی روشنی میں پیروڈی اپنی وسعت اور دائرہ کار میں نہ صرف پر مزاح تفریح اور ہنسنے ہنسانے کا عمل ہے بلکہ اس کے فرض منصبی میں لطیف طنز اور پُرمزاح تنقید کے توسط سے کمیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرنا شامل ہوگیا ہے۔ اس طرح پیروڈی طنز کی اعلیٰ خوبی یعنی اصلاح کافریضہ انجام دیتی ہے۔ پیروڈی کا محور زیادہ تر ادبی رجحانات اور اسلوب بیان ہے۔ اس کے علاوہ لفظی پیروڈی میں بلا استثنا سبھی شعبہ ہاے حیات پر کڑی تنقید کی جاسکتی ہے۔ سید محمد جعفری اور مجید لاہوری کی پیروڈیاں اس کی عمدہ مثالیں ہیں جبکہ فرقت کاکوروی کی پیروڈیاں ادبی رجحانات اور اسلوب نگارش کا خاکہ اڑاتی ہیں۔ پیروڈی میں ’اصلاح‘ کے درجے کو اولیت حاصل ہے۔ ڈاکٹر قمر رئیس کے خیال میں پیروڈی ہر قسم کی انتہا پسندی اور بے لگامی کو قابو میں لانے کا فن ہے اور اس کے ذریعہ ادبی کمزوریوں اور حد سے متجاوز جذباتیت کو ہدف ملامت بنایا جاسکتا ہے اور سماجی ناہمواریاں، زندگی کی خامیاں اور کمیاں پیروڈی کے پیرائے میں اجاگر کی جاسکتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد حسن کی راے میں پیروڈی ’غلط پندار، گمراہ، خودی اور حد سے بڑھی انانیت میں تناسب اور توازن پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے بہت سے گروہوں، قوموں یا ادبی نسلوں کی مسیحائی طنز و مزاح کے ہاتھوں ہوئی ہے اور پیروڈی بھی اسی کی ایک شکل ہے۔‘‘ (۳۱)
اعلیٰ اور معیاری پیروڈی کے لیے ضروری ہے کہ جس تصنیف کی پیروڈی کی جارہی ہو وہ مشہور ہو اور اعلیٰ درجہ کی ہو یا کسی مشہور تخلیق کار سے منسوب ہو۔پیروڈی دراصل نقل ہے اور نقل کی شناخت اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اصل کا خاصا شہرہ نہ ہو لہٰذا پیروڈی نگار کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ اصل تصنیف اعلیٰ اور عمدہ ہو اور پیروڈی پڑھتے وقت قاری کا ذہن خود بخود اصل فن پارے کی طرف چلا جائے وہیں یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ فن پارے کے تئیں اس کا تعلق ہمدردانہ ہو۔ سر تھیوڈور مارٹن نے ’Let no one parody a poet unless he loves him‘‘(۳۲)کے ذریعہ غالباً تخلیق پیروڈی کے اسی محرک پہلو کو زیادہ واضح طور پراجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آل احمد سرور کے نزدیک ’ پیروڈی میں بدنیتی کی گنجائش نہیں‘ (۳۳)ہے۔ بدنیتی اور ذاتی بغض و عناد کی بنا پر تخلیق شدہ پیروڈی اپنے ہدف اور مقصد میں صفر ہوگی نہ کہ عمدہ اور اعلیٰ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ پیروڈی نگار جس ادیب یا فن پارے کی پیروڈی کررہا ہے وہ اس کا پسندیدہ ادب ہو اور اس کا اسلوب اس کے ذوق و شوق کو بھائے۔
پیروڈی ایک لطیف فن ہے۔ پیروڈی نگار کا بنیادی کام اصل فن پارہ اور پیروڈی میں توازن اور اعتدال کو قائم رکھنا ہے۔ عدمِ توازن تخلیق کار کو فن کی بلندی سے اتاردیتا ہے اور پھر وہ پیروڈی لغو اور تفریحی درجے سے آگے کی چیز نہیں رہ جاتی۔ فن کی اس لطیف نزاکت کو پروفیسر رشید احمد صدیقی کے مخصوص اندازِ بیان میں دیکھیے:
’’آپ نے سرکس میں مسخرے کو دیکھا ہوگا وہ اپنے ساتھی بازی گر نمبر ایک کے کرتب کی نقل کرتاہے وہ اپنے طور پر وہی سب دکھاتا ہے جو بازی گر دکھاتا ہے۔ دونوں کے دکھانے میں صرف تکنیک کا فرق ہے۔ ایک کے کرتب پر آپ محو حیرت رہ جاتے ہیں دوسرے کی نقل پر ہنستے ہنستے لوٹ جاتے ہیں۔ آپ کو تو معلوم ہوگا کہ مسخرا فن کے اعتبار سے نہ صرف یہ کہ بازی گر کا ہمسر ہوتا ہے بلکہ بازی گر پر اس کو یہ فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ جو کرتب بازی گر جان کو خطرے میں ڈال کر دکھاتا ہے، مسخرا محض چند قلابازیوں میں دکھا دیتا ہے۔ لطف یہ ہے کہ ہم بازی گر کے کرتب کا جس شوق سے مشاہدہ کرتے ہیں اس سے کسی طرح کم شوق سے مسخرے کی قلابازیوں کا مشاہدہ نہیں کرتے۔ یہاں غالباً یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جس کرتب کو بازی گر اپنی جان خطرے میں ڈال کر دکھاتا ہے، اسی کو مسخرا اپنی آبرو خطرے میں ڈال کر دکھاتا ہے۔ مسخرے کی آبرو کسی غیر مسخرے کی آبرو سے کم نہیں ہوتی۔‘‘(۳۴)
مذکورہ اقتباس میں رشید احمد صدیقی نے پیروڈی کے فن کی نزاکت کا ادراک کیا ہے۔ سرکس کا جوکر یا مسخرہ اصل بازی گر کی تقلید میں جن حرکات و سکنات کے ذریعہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے وہ بذات خود اصل کی طرح تقلید یا نقل کا فن(Art of Immitation) ہے۔ دونوں کے فن میں صرف تکنیک کا فرق ہے۔ ایک کا کمال اس قدر سنجیدہ اور پُر خطر ہے کہ دیکھنے والے پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے جبکہ مسخرے کے عمل میں تفنن طبع اور غم غلط کرنے کے اتنے سامان موجود ہیں کہ تماشا بین ہنستے ہنستے لوٹ جاتے ہیں۔ مسخرے کی نقل میں اصل فنکار کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح پیروڈی کسی ادبی فن پارے کی زمین اور اس کی شاہراہ پر ہی چلتی ہے اور جس میں اصل فن پارے کا رچاو اور عکس پوری طرح دیکھا جاسکتا ہے۔ مسخرے کا فنی کمال تماشا بیں کے قہقہے کی زد میں آکر دب سا جاتا ہے۔ یہی صورتحال پیروڈی نگار کی ہے۔ مگر اس کے باوجود پیروڈی نگار کی شخصیت، اصل تخلیق کار سے کسی طرح کم نہیں ہوتی اور پیروڈی پڑھتے وقت گرچہ قاری کا ذہن اصل فن پارے کی طرف چلا جاتا ہے اور بادی النظر میں پیروڈی نگار کی صلاحیتیں ماند پڑتی نظر آتی ہیں مگر فی الواقع یہ اس کے فن کی خامی نہیں بلکہ پیروڈی نگار کی اصل کامیابی ہے کہ اس نے اپنے مخصوص تفریحی کارنامے سے قاری کا ذہن اصل فن پارے کی طرف موڑ دیا۔ فن کار کا یہی رویہ اسے فنی اعتبار بخشتا ہے اور یہی عمدہ پیروڈی کی علامت ہے۔
ڈاکٹر قمر رئیس پیروڈی میں مواد کے ساتھ ساتھ ایک قسم کی ’ادبی عیاری ‘کو بھی اہم گردانتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اسلوب یا فن پارے کی ہیئت اورموڈ کے ساتھ پورا پورا انصاف اور وفاداری کا معاملہ روا رکھا جائے:
’’مواد کے ساتھ ہی عیاری پیروڈی کار کے تخیل کے ساتھ ساتھ اس کے فکروشعور کو بھی آزادی دیتی ہے اور اس بہانے وہ پیروڈی میں اپنے عہد کی زندگی، بدلتی ہوئی قدروں اور معاشرتی و سیاسی حالات کو بھی طنز و تضحیک کا ہدف بناسکتا ہے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اسے اس اسلوب یا فن پارے کی ہیئت اور موڈ کے ساتھ پوری وفاداری برتنا ہوگی۔ جس کو اس نے سامنے رکھا ہے۔ اسی لیے کامیاب پیروڈی کا معیار یہ قرار دیا گیا ہے کہ اسے پڑھ کر قاری خود پتہ لگائے کہ اس آئینہ میں کس کا خاکہ اڑایا جارہا ہے۔‘‘(۳۵)
پیروڈی نگار حیات و کائنات کا ایک حساس اور باشعور واقف کار ہوتا ہے۔ شعبہ ہاے زندگی کے رموز و علائم پر اس کی گہری نظر ہوتی ہے اور یہی عوامل اسے تنقیدی بصیرت عطا کرتے ہیں۔ کسی فن پارے کو پیروڈی کا پیراہن عطا کرتے وقت اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے احساس، شعور اور وجدانی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے اور ادبی، سماجی، سیاسی اور معاشرتی کمیوں اور خامیوں پر جرأت مندانہ تبصرہ کرے۔ یہ سب کچھ فن پر پوری گرفت کے بغیر ناممکن ہے۔ زبان و بیان پر قدرت ہو توفنی توازن کا التزام ممکن ہوسکتا ہے۔ لفظوں کی ہیر پھیر، برمحل استعمال، ابہام، رعایت لفظی، صنائع بدائع اور الفاظ کے مزاج اور فضا سے شعوری ہم آہنگی پیروڈی نگار کا لازمی اثاثہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سلیمان اطہر جاوید پیروڈی نگار کے لیے ’جرأتِ رندانہ ‘کو لازمی قرار دیتے ہیں اور یہ صفات مذکورہ لوازمات سے متصف ہوے بغیر ممکن نہیں اس لیے کہ پیروڈی نگار ان قدروں پر ضرب لگاتا ہے جو عوامی جذبات سے مربوط ہوتی ہیں اور جنھیں عوام میں قبول عام حاصل ہوتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پیروڈی نگار کے لیے جرأت، بیباکی اور ہمت ایک وصفِ ناگزیر کی حیثیت رکھتی ہے مگر جرأت اور بیباکی میں اعتدال شرط ہے۔ بے اعتدالی پیروڈی کے فن کو ابتذال اور بے کیف نقالی کا شکار بناسکتی ہے۔
سائمن دی بایونایرنے پیروڈی کی تفہیم میں فلسفیانہ لب و لہجہ اپناتے ہوے اسے ’بڑھاپا‘ سے تعبیر کیا ہے جو در اصل زندگی کی پیروڈی ہے۔ اس کے الفاظ میں ’Old age is life’s “Parody (۳۶) اسی نکتہ کو شوکت تھانوی نے زیادہ مربوط طور پر آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے:
’ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں، وہ حالات ہی در اصل ان حالات کی پیروڈی ہیں جن سے ہم گزر چکے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ زندگی جتنی بسر کرنا تھی وہ تو بسر کرچکے اب زندگی کی پیروڈی کررہے ہیں ۔‘‘ (۳۷)
گویا آل احمد سرور کے الفاظ میں پیروڈی ’وہ آئینہ ہے جو محبوب کی جھریاں دکھاتا ہے۔‘‘ (۳۸) جھریاں قانون فطرت کا منطقی اظہار ناہمواری ہے جب کہ پیروڈی فن اور زندگی کی ناہمواری کو سامنے لانے کا شعوری فن ہے۔
پیروڈی کے مقصد کے تعین کے سلسلہ میں دو متضاد آرا کہ اسے صرف اصلاحی اور تعمیری ہونا چاہیے یا اس کا مقصد صرف تفریحی اور ذوق طبع کی تسکین ہو، کے مابین ڈاکٹر دائود رہبر کا یہ مسلک انتہائی معتدل اور منصفانہ معلوم ہوتا ہے کہ’’۔۔۔ ان دونوں گروہوں کو ایک طرح کا سمجھوتہ کرلینا چاہیے۔ وہ یوں کہ ایک اصلاحی تنقید کی شرط چھوڑ دے اوردوسرا تفریح محض کی۔‘ (۳۹) پیروڈی کو اسی رویے سے ترقی مل سکتی ہے۔ صرف اصلاحی تنقید ہی کی شرط سے اس میں وہ دلچسپی باقی نہیں رہے گی جو پیروڈی کا طرۂ امتیاز ہے اور صرف تفریحی مقصد سے اس کی افادیت خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اس لیے پیروڈی میں جہاں اصلاح کا مقصد پوشیدہ ہووہیں اس کی اساس تفریح کے ستون پربھی استوار ہونی چاہیے۔
پیروڈی کو مندرجہ ذیل دوخانوں میںرکھا جا سکتاہے:
(الف) لفظی پیروڈی (ب) معنوی پیروڈی
لفظی پیروڈی کا مطلب یہ ہے کہ پیروڈی نگار نے محض لفظوں کے ہیر پھیر پر اپنی قوت صرف کی ہو اور چند لفظی ردوبدل کے ذریعہ فن پارہ کو تفریح اور تفنن طبع کی طرف موڑ دیا ہو۔ ایسی پیروڈی صرف تفریح کے لیے کی جاتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ اہم ہے کہ پیروڈی کے لیے جس ادب پارے کا انتخاب کیا جائے وہ مقبول ہو اور ساتھ ہی وہ شاعر یا ادیب بھی مقبول ومشہور ہو جس کے فن پارے کی پیروڈی کی جارہی ہے۔ خالد مبشرنے غالبؔ کی ایک مشہور غزل کی پیروڈی کی ہے۔ یہ لفظی پیروڈی کی عمدہ مثال ہے:
بازیچئہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
لگتا ہے مرا باپ بھی بچہ مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
بیوی مرے پیچھے ہے تو لیلیٰ مرے آگے
میں جب بھی کروں فون اٹھائے وہی بڈھا
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
گو ہاضمہ کمزور ہے دانتوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی قیمہ و قرمہ مرے آگے
غالب کی مذکورہ غزل ہر خاص و عام میں مقبول ہے۔ پیروڈی نگار نے بڑی فنکاری سے اصل تصنیف کے ’متن‘ کو چند لفظی تبدیلیوں سے تفریح کی طرف موڑ دیا ہے۔ اور اس کا مقصد مضحک صورت حال سے فیض اٹھانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
لفظی پیروڈی کی ایک اور عمدہ مثال عاشق محمد غوری کی، اقبالؒ کی نظم ’ہمدردی‘ کی پیروڈی ہے۔ جس میں پیروڈی نگار نے محض لفظوں کی الٹ پھیر اور صرف معمولی تبدیلیوں کے ذریعہ ’ہمدردی‘‘(۴۰)کی خالص ترحم آمیز فضا کو تفریح اور انبساط سے بھر دیا ہے۔لفظی پیروڈی کے ضمن میں مجید لاہوری کی’ فرمانِ ابلیس‘(۴۱) اور شوکت تھانوی کی ’مومن‘(۴۲) بھی قابل ذکر ہے۔
معنوی پیروڈی میں ظاہر ہے الفاظ میں ترمیم تو ہوتی ہے مگر پیروڈی نگار کا زور اصل تخلیق کی معنویت پر مرکوز رہتا ہے۔ اس نوعیت کی پیروڈیاں فن پارے کے اسلوب، حد سے بڑھتی جذباتیت، مخصوص سیاسی و سماجی کمیوں اور کوتاہیوں پر ضرب لگاتی ہیں۔ یہ پیروڈیاں دراصل ادبی عدم توازن اور بے اعتدالیوں کے خلاف ایک قسم کا باندھ باندھتی ہیں اور میانہ روش اختیار کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔ سید محمد جعفری اور مجید لاہوری کی پیروڈیاں اس کی عمدہ مثال ہیں۔ نظیر اکبر آبادی کی نظم ’مفلسی‘ کی پیروڈی ’لیڈری‘‘(۴۳)کے عنوان سے کی گئی ہے جو معنوی اور موضوعاتی پیروڈی کی عمدہ مثال ہے۔اس میں قوم کے لیڈروں کی زمینی سچائی کو نظم کیا گیا ہے اور ان کے قول و عمل کے تضادات پر ضرب لگائی گئی ہے۔ یہ پیروڈی اپنے اعلیٰ فرض منصبی ’تنقید‘ سے مربوط ہے اور جس کا مقصد صورتِ حال کی ’اصلاح ‘ہے۔
موضوعاتی پیروڈی کا ہدف اسلوب نگارش ، طرز تخیل ، موضوع ، انداز فکر اور فن پارے کا بے جا ہیجان ہے۔ نثر میں اس کی عمدہ مثال رشید احمد صدیقی کا ’ارہرکا کھیت‘ ہے جو بڑی خوبصورتی سے ’لندن کے ہائیڈرو پارک‘ کی دیرینہ روایات کو ہندستانی دیہی ماحول کے سیاق میں ’ارہر کے کھیت‘ میں پیش کرتی ہے۔پیروڈی کی یہ صورت نسبتا زیادہ موزوں خیال کی جاتی ہے۔ فرقت کاکوروی نے اپنی پیروڈیوں میں ترقی پسند تحریک اور جدید نظموں میں حد سے بڑھی جذباتیت ،نظم معرّا اور ان کے نقائص کوبطور خاص نشانہ بنایا ہے۔ ن۔م۔راشد کی نظم ’ناتمام‘ کی پیروڈی ’انتقام‘ اس کی عمدہ مثال ہے جس میںفرقت کاکوروی نے نظم جدید کے ڈکشن پر بھی وار کیا ہے۔پیروڈی ملاحظہ فرمائیں:
اس کا گھر اور اس کی رہ گذر یاد آتے ہیں
ایک زمانہ جسم اب تک یاد ہے
اور پیٹی کوٹ میں لپٹابدن
لان ٹر سبزہ تھا اور سبزے پہ لان
تھی یہی جاڑوں کی رت
دیدئہ شلوار پر ہنستے ہوے!
اصطبل میں دل کے ارمانوں کاشور
اور کنواری لڑکیوں کی بے حسی پر خشمگیں
جسم کی پوشیدہ گلیاروں میں گم
ایک پرانی عاشقی کی یادگار
تالیوں کی ٹھوکنے پر جن کے ہنستا ہے جہاں
جنس میں مردوں کے ننگ
اس کا گھر اور اس رہ گذر یاد آتے ہیں
ایک پیٹی کوٹ میں لپٹا بدن
اک زنانے کا بدن
جس کو میں سمجھا تھا کچھ نکلا وہ کچھ
میرے ہونٹوں نے لیا تب رات بھر
جس سے اپنی تشنگی کی بے بسی کا انتقام
وہ زمانہ جسم اب تک یاد ہے
طنزیہ اور مزاحیہ ادب میں پیروڈیوں کا ایک بڑا ذخیرہ ’اسلوب نگارش ‘کو ہدف بناکر لکھی جانی والی پیروڈیوں پر مشتمل ہے ۔اس طرح پیروڈی کے سرمایہ میں ’طرزی پیروڈی‘ کی ایک مستقل صورت سامنے آتی ہے۔اس نوع کی پیروڈی غایت درجہ احتیاط چاہتی ہے کیوں کہ غیر معروف اسلوب نگارش کی پیروڈی جس طرح قاری کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے اسی طرح پیروڈی نگار غیر شعوری طور پر معروف ترین اسلوب کی تقلید کرتے ہوئے بھی خود اپنی انداز تحریر کے دام میں گرفتار ہو سکتاہے۔ بہر کیف اس نوع کی پیروڈی کی عمدہ روایت ہمارے نثری اور منظوم تخلیقات میں کثرت سے دستیاب ہیں۔
حوالے :
۱۔ World Net 1.7.1 Copyright 2001
۲۔ آکسفورڈ ایڈوانسڈ لرنرس ڈکشنری، ص۔ ۸۹۸
۳۔ Encarta World English Dictionary by Macmillan India Ltd. 1999. p.1375
۴۔ ایڈوانسڈ ٹونٹی ایٹتھ سینچری ڈکشنری، ص۔۴۸۵
۵۔ مکتوب بنام ڈاکٹر دائود رہبر مورخہ یکم مارچ؍۱۹۴۶ء
۶۔ جامع اللغات جلد اول، ص۔ ۶۲۳
۷۔ فیروز اللغات، ص ص۔ ۳۴۷-۳۴۸
۸۔ ایضاً ، ص۔ ۶۵۸
۹۔ ایضاً ، ص۔ ۳۷۰
۱۰۔ جامع اللغات ، ص۔۱۸۴۶
۱۱۔ فیروز اللغات، ص۔ ۱۲۶
۱۲۔ اسکالر پیروڈی نمبر، ص۔ ۱۷
۱۳۔ پیروڈی (انتخاب) مظہر احمد، ص۔ ۱۰
۱۴۔ Wikipedia فری انسائکلوپیڈیا
۱۵۔ ’پیروڈی کا فن ‘تلاش و توازن، ڈاکٹر قمر رئیس ،ص۔ ۱۵۷
۱۶۔ Wikipedia فری انسائکلوپیڈیا
۱۷۔ ’پیروڈی کا فن ‘تلاش و توازن ڈاکٹر قمر رئیس، ص۔۱۵۸
۱۸۔ Wikipedia انٹرنیٹ سروے رپورٹ
۱۹۔ اردو ادب میں طنز و مزاح ، وزیر آغا، ص ۔۵۶
۲۰۔ ایضاً، ص۔۵۶
۲۱۔ اسکالر پیروڈی نمبر، ص۔ ۱۵
۲۲۔ انٹرنیٹ
۲۳۔ ’کچھ پیروڈی کے بارے میں ‘ رشید احمد صدیقی، اسکالر پیروڈی نمبر، ص۔۱۰
۲۴۔ اردو شاعری کا فنی ارتقاء، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ص۔ ۵۲۶
۲۵۔ ’کچھ پیروڈی کے بارے میں‘ ،رشید احمد صدیقی، اسکالر پیروڈی نمبر،ص۔۱۰
۲۶۔ Wikipedia فری انسائکلوپیڈیا
۲۷۔ اسکالر پیروڈی نمبر، ص۔۱۲
۲۸۔ ایضاً، ص ص۔ ۱۶۔۱۷
۲۹۔ ایضاً، ص۔۳
۳۰۔ طنز و مزاح تاریخ و تنقید، طاہر تونسوی، مضمون: پیروڈی اردو ادب میں، پروفیسر ظفراحمد صدیقی، ص۔۱۴۵۔۱۴۶
۳۱۔ اسکالر پیروڈی نمبر، ص۔۱۷
۳۲۔ A theory of Parody: The teaching of 20th century Art form, by Linda Hitcheon University of Rllinous Press p. 30
۳۳۔ اسکالر پیروڈی نمبر، ص۔۸
۳۴۔ ’کچھ پیروڈی کے بارے میں ‘، رشید احمد صدیقی، اسکالرـ پیروڈی نمبر، ص ص۔۱۱-۱۰
۳۵۔ ’ پیروڈی کا فن‘ ، تلاش و توازن، ڈاکٹرقمر رئیس ،ص۔۵۵-۱۵۴
۳۶۔ انٹرنیٹ
۳۷۔ اسکالر پیروڈی نمبر، ص۔۳
۳۸۔ ایضاً، ص۔ ۸
۳۹۔ فارسی اور اردو میں پیروڈی کا تصور، ڈاکٹر دائود رہبر، ادبی دنیا ستمبر ، ۱۹۴۶ء
۴۰تا۴۳- ’ہمدردی‘ ’فرمانِ خدا‘ ، ’مومن‘اور مفلسی کی پیروڈی ضمیمہ میں ملاحظہ فرمائیں