سید محمد اشرف کا افسانہ ”دوسرا کنارہ”:ایک تجزیہ از : امتیاز سرمد

0
377

سید محمد اشرف کا تعلق افسانہ نگاروں کی اس نسل سے ہے،جس نے ‘اینٹی اسٹوری’ کے زمانے میں کہانی پر اپنی پوری توجہ مرتکز کی اور اپنی فکر کو جدید فنّی پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ یہ نسل کسی طرح کے دباو یا مصلحت کی شکار نہیں ہوئی، بلکہ رائج رویوں سے کسبِ فیض کرتے ہوئے ایک ایسی تخلیقی کائنات آباد کی، جس نے اردو افسانے کے وقار میں اضافہ کیا۔
اس’اینٹی اسٹوری’ کے زمانے میں اْردو ادب کے جہاں دیگر نقصانات ہوئے وہیں ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ عشق، جو انسانی فطرت کا جزوِ لاینفک ہے اور شعروادب کا اٹوٹ حصہ بھی، اس کا وجود شعروادب کے منظر نامے سے غائب ہونے لگا۔ اس عشق و محبت کو دوبارہ اردو شاعری میں متعارف کرانے کا سہرا عرفان صدیقی کے سر اور اردو فکشن میں سید محمد اشرف کے سر جاتا ہے۔ اس افراتفری کے ماحول میں کہانی سے کہانی پن بھی ختم ہوگیا، یا ہوں کہیے کہ کہانی بے گھر ہو گئی۔ اس کہانی کو دوبارہ اس کے گھر میں آباد کرنے والوں میں سید محمد اشرف کا نام نمایاں اور اہم ہے۔ قدروں کا زوال، تہذیبی بکھراو اور رشتوں کا ٹوٹنا، بکھرنا سید محمد اشرف کے اہم موضوعات ہیں۔ انھوں نے مختلف النّوع موضوعات کو اپنے عمیق مشاہدے سے آمیز کر کے اردو فکشن کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان کی کہانیاں علامتی، استعاراتی اور تمثیلی رنگ لیے ہوتی ہیں۔ جانوروں کی نفسیات کو موضوع بناکر انھوں نے انسانی اعمال و افعال پر خوب صورت طنز اور تبصرہ بھی کیا ہے۔

زیر نظر افسانہ ‘دوسرا کنارہ’ سید محمد اشرف کا معروف افسانہ ہے، جو ان کے افسانوی مجموعے ‘ڈار سے بچھڑے’ میں شامل ہے. یہ افسانہ ہجرت کے موضوع پر ہے، لیکن اس میں ہجرت کی سائیکی اور اور تقسیم کا واقعہ بیان نہیں ہوا ہے. اس افسانے میں ایک ایسے انسان کی کہانی پیش کی گئی ہے، جس کی پہچان یقین اور گمان کی سرحدوں سے نکل کر ایک ایسے بیانیے کی تشکیل کرتی ہے، جس کو ہم سچائی کی ایک مختلف صورت میں ملاحظہ کرتے ہیں. اس افسانے کا مرکزی کردار ایک ہندوستانی ہے جو پاکستان اپنے عزیزوں سے ملنے گیا ہے. ایک طرح سے یہ عام سی بات ہے؛ چونکہ تقسیم کے بعد ایک خاندان کے لوگ دو کناروں پر آباد ہو گئے. لیکن ان کا ماضی ان سے الگ نہیں ہو سکا. اس افسانے میں ایک کردار عظمیٰ ہے جو کراچی میں رہتی ہے. یہ کردار نئی نسل کی نمایندہ ہے، جس نے ہجرت کا کرب محسوس نہیں کیا ہے. دوسرے کنارے پر آباد یہ کردار ‘آج’ (حال) میں زندہ ہے. اس کی وابستگی اس بزرگ نسل کی وابستگی سے بالکل الگ ہے، جو اپنوں سے الگ کر دیے گئے. ہندوستان سے کراچی جانے والا کردار اس نئی نسل کی سوچ سے بالکل انجان ہے؛ اس لیے اس کی وابستگی میں دوسری کیفیت ہے:
“جب میں ہندوستان سے چلا تو اپنے عزیزوں کے بارے میں خصوصاً نوجوانوں اور بچوں کے بارے میں کوئی واضح تصور ذہن میں نہیں تھا.بس یہ اندازہ تھا کہ جب میں اپنے عزیزوں کے بیچ پہنچوں گا تو سارے بچے مجھے گھیر کے بیٹھ جائیں گے، سارے نوجوان میرے قریب آ کے کھڑے ہو جائیں گے اور سارے بزرگ مجھے گلے لگا کے پوچھیں گے کہ جنھیں ہم اب سے بہت برس پہلے چھوڑ آئے تھے وہ اب کیسے ہیں اور ہیں بھی یا ماضی کے کھنڈر میں کہیں دب گئے. اور وہ جو اس محلے میں… اور نوجوان مجھ سے دریافت کریں گے کہ وہاں آپ کے ہاں لوگ لڑائی جھگڑا کیوں کرتے ہیں اور کیا آپ لوگوں کو یونیورسٹیوں میں آسانی کے ساتھ داخلے مل جاتے ہیں اور کیا آپ لوگوں کو نوکری حاصل کرنے میں بہت پریشانی اٹھانی پڑتی ہے…” (ڈار سے بچھڑے،ص:80)
لیکن کراچی آنے کے بعد اس کے ساتھ اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آتا. وہ ایک نئے تجربے سے گزرتا ہے. اس لیے اس کے اندر حیرت کی دنیا آباد ہوتی ہے:
”ہمارے یہاں سب ایسے ہی ہوتے ہیں، ہم آپ کو سب سے ملوائیں گے. آپ نے ہمارے پاپا کو نہیں دیکھا، ان کے ماتھے پر تو لگتا ہیجیسے روشنی پھوٹ رہی ہو.
میں نے پوچھا.
ہمارے یہاں تو دیوتاؤں کے ماتھے سے روشنی پھوٹتی ہے، کیا تمھارے پاپا دیوتا ہیں؟
نہیں ہمارے یہاں دیوتا لوگ نہیں ہوتے، یہ تو آپ کی طرف ہوتے ہیں.” (ڈار سے بچھڑے،ص:81)
شعوری یا لا شعوری طور پر اب وہ جس تجربے سے گزرتا ہے، اس میں ماضی کہیں نہیں ہے. اس کو محسوس ہوتا ہے کہ واقعی وہ دوسرے کے کنارے پر کھڑا ہوا ہے. نئی نسل اس طرح سوچتی ہے کہ ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے اور ایسا آپ کی طرف ہوتا ہے. اس طور پر یہ افسانہ ایک نئی Irony میں سفر کرتا ہے. یہاں سب کچھ ہندوستانی کردار کی سوچ کے خلاف ہوتا ہے. نئی نسل کی نمایندگی میں جس کردار کو پیش کیا گیا ہے، اس کا مشاہدہ بہت وسیع نہیں ہے، لیکن اپنی نو عمری کے باوجود وہ(عظمیٰ) اس طرح پیش آتی ہے کہ دوسرے کنارے کی منطق کھل جاتی ہے:
“اس نے ہولے سے رازداری لہجے میں بہت اپنائیت کے ساتھ مجھ سے پوچھا-
اب آپ ہمیشہ کے لیے آگئے ہیں. واپس تو نہیں جانا ہے نا؟ اس سوال پر مجھے تعجب ہوا.” (ڈار سے بچھڑے،ص:81)
اس لڑکی کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہندوستان سے آنے والا یہ آدمی ہمیشہ کے لیے نہیں آیا ہے. افسانہ نگار نے حیرت کے اس رنگ میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ دوسرے کنارے پر رہنے والی یہ لڑکی ہندوستان کے بارے میں کیا سوچتی ہے. اس کی سوچ کو اور نمایاں کرتے ہوئے افسانہ نگار نے اس کے یقین و اعتماد کو اپنے بیانیے میں انگیز کیا ہے:
“ہم نے اس دن ریڈیو پر سنا تھا کہ وہاں بہت سے… ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ… اور منگل کے روز ٹی وی پر بتایا تھا کہ… کیا نام ہے اس شہر کا۔اسے چھوڑیے خود پاپا اخبار پڑھ کر بتا رہے تھے کہ… اورسب کو چھوڑیے ہم نے خود گانا سننے کے لیے آل انڈیا ریڈیو لگایا تو خبریں آرہی تھیں کہ کہیں پھر…
میں نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔
اس نے میرا ہاتھ ہٹا کر کہا-
کیاآپ کے علاوہ سبھی لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔” (ڈار سے بچھڑے،ص:81)

اس لڑکی کا یقین اتنا خوف ناک ہے کہ ہندوستانی کردار خود کو کم زور محسوس کرتا ہے اور خاموش رہتا ہے۔لیکن وہ لڑکی اپنی دنیا میں اس قدر کھوئی ہے کہ اس کی وابستگی پر حیرانی ہوتی ہے۔ یہ لڑکی ہر جگہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنے یقین سے بیان کرتی ہے کہ وہ بھرم میں رہنے کے باوجود سچی معلوم ہوتی ہے:
“بھائی ہندوستان جا کرسب کو بتائیے گا کہ یہاں آپ نے کتنی طرح کی کاریں دیکھیں۔ ہم لوگ کلفٹن جس کار سے آئے ہیں، یہ مزڈا ہے اور دوسری ہوتی ہے ٹوئیٹا۔ لمبی والی ہوتی ہے امپالا،اور سب سے مہنگی ہوتی ہے مرسی ڈیز۔ مرسی ڈیز کئی سائز میں ہوتی ہے۔ اس میں چھے دروازے تک ہوتے ہیں۔ ہم آپ کو ساری کاریں دکھائیں گے۔ ہمارییہاں سارے رشتے داروں کے پاس ہیں۔ پاپاکے سب دوستوں کے پاس دو دو موٹریں ہیں خوب بڑی بڑی۔ آپ کے ہاں تو ایسی کاریں بھی نہیں ہوتی ہوں گی، ہے نا؟” (ڈار سے بچھڑے،ص:82)

اس لڑکی کے سْوالات اس نوع کے ہیں۔ اس کو لگتا ہے کہ سب کچھ اِسی کنارے پر موجود ہے۔ دوسرے کنارے یعنی ہندوستان میں صرف وہی موجود ہے، جو اس نے ریڈیو،ٹیلی ویڑن اور اخبارات میں دیکھا ہے۔ افسانہ نگار نے اپنے بیانیے میں ایک معصوم کردار کو اس طرح سوال بنا کر پیش کیا ہے کہ ہندوستانی کردار اپنی خاموشی سے باہر نکلنے پر مجبور نظر آتا ہے؛ حالانکہ اس کے اندر سوچ کی ایک لہر موجود ہے:
“میں نے یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ ریڈیو سن کر،اخباراور ٹیلی ویڑن دیکھ کر اور درسی کتابیں پڑھ پڑھ کراب بچے بھی یہ تفریق کرنے لگے ہیں کہ آپ کے یہاں ایسا ہوتا ہے اور ہمارے یہاں ویسا ہوتا ہے۔ لیکن ابھی ایک چیز بچی ہے۔ ہماری خوشیاں اور غم تو ایک ہی جیسے ہیں،ہمارے تہوار اور تقریبات تو یکساں ہیں۔ خوش ہونے کے ڈھنگ تو وہی ہیں یا کم ازکم یہ احساس ہے ہی کہ ہمارے ریت رواج سب مشترک ہیں۔” (ڈار سے بچھڑے،ص:83)
سوچ کی اس لہر میں اس کردار کی وابستگی ایک طرح سے اپنی پہچان کو مکمل کرنے کے عمل میں ہے۔ کئی معنوں میں یہ کردار اس بات کو justify کرنا چاہتا ہے کہ ہمارے احساسات و جذبات اور ریت رواج سب ایک ہیں، لیکن یہ اس سوچ کی کیفیت ہے، جس کا ماضی ابھی اس کردار کے اندر زندہ ہے۔ نئی نسل اپنی دنیا میں مگن ہے۔ اس طرح یہ افسانہ ہجرت اور تقسیم کی سائیکی انگیز کرتا ہے۔ لیکن ایک قدم آگے بڑھ کر یہ احساس بھی دلاتا ہے کہ ماضی کسی کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہندوستانی کردار جس طرح اپنے اندر ایک مشترکہ پہچان کو تلاش کرتا ہے،اس سے کہیں نہ کہیں اس کے کرب کا احساس ہوتا ہے، لیکن یہ لڑکی ایک بار پھر سوال بن کر سامنے آتی ہے اور اس کی سوچ پر مہر لگاتی ہے:
“جمعے کے دن روزہ کْشائی میں آپ آئیے گا ضرور ورنہ جب آپ اپنے گھر واپس جائیں گے تو کسی کو یہ بھی نہیں بتا پائیں گے کہ…
تیز ہوا کا بھیگا ہوا جھونکا ہمارے پاس سے گزرا، اس کے بال اڑنے لگے، وہ بال سنبھالنے لگی اور جملہ پورا نہیں کر سکی۔
میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
ہاں ہاں بولو کیا نہیں بتا پاؤں گا سبز پری؟
تب اس نے بیحد اعتماد اور یقین کے ساتھ کہا۔
آپ کسی کو یہ نہیں بتا پائیں گے کہ روزہ کْشائی کیا ہوتی ہے۔” (ڈار سے بچھڑے،ص:85)

در اصل یہ لڑکی سمجھتی ہے کہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان ان سے بالکل الگ ہیں۔ انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ روزہ کشائی کیا ہوتی ہے۔ افسانہ نگار نے اس بھرم کو اس طرح صیقل کیا ہے کہ ہندوستانی کردار کی نفسیات سامنے آ گئی ہے:
“میں نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کی نیلی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔وہ سب کچھ سچ سمجھ کر کہ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کہیں جھوٹ نہیں تھا۔ یقین ہی یقین تھا۔” (ڈار سے بچھڑے،ص:85)
یقین کی اس دنیا میں ہندوستانی کردار کی خاموشی بہت با معنی ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ کردار اب اپنے اندر سے نکل آیا ہے اور وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ اس لڑکی کا بھرم قائم رہے:
“اور میں صرف ایک ہی کام کر سکتا تھا، جو میں نے کیا۔
میں نے اس کے اڑتے ہوئے بالوں کو برابر کیا اور اس کے روشن چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی پیشانی کو ہولے سے چوما اور چپ چاپ اْداس ہو گیا۔
اس بار مجھے حیرت نہیں ہوئی تھی، حیرت سے اتنے بڑے زخم کا علاج بھی ممکن نہیں تھا۔” (ڈار سے بچھڑے،ص:86)
اس طرح یہ افسانہ دو نسلوں کی سوچ میں حیرت اور تعجب سے زیادہ اس بات کا بیان ہے کہ جس زخم کو اپنے اندر ایک نسل محسوس کرتی ہے، اس کا علاج ممکن نہیں ہے۔ ہندوستانی کردار کامشفق رویہ بھی اس بیانیے کو انگیز کرتا ہے۔ اس طرح یہ کردار اپنے اندر کے کرب کو چھپانا چاہتا ہے؛ اس لیے نئی نسل کے ساتھ اس کا مشفق رویہ کئی معنوں میں علامتی بھی ہے۔ یہاں افسانہ نگار نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ دوسرا کنارہ واقعی پہلے کنارے سے الگ ہو چکا ہے۔ اس صورتِ حال میں نئی نسل کی خوش فہمی لمحۂ فکریہ ضرور ہے، لیکن یہی سچائی ہے!

اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو، راجا سنگھ کالج، جے پی یونیورسٹی، چھپرہ
رابطہ:9891985658

Previous articleڈاکٹرمولانا ابوالکلام قاسمی شمسی: “تسہیل القرآن” کے حوالہ سے از:ڈاکٹرمولانا محمد عالم قاسمی
Next articleجاوید دانش کا ڈاکٹر ظفر کمالی سے ادبی مکالمہ از “بلاغ 18 ڈاٹ کام “

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here