کہانی سے پہلے بچوں سے مخاطب ہونے کا انداز ایک سائیکو لو جیکل attention seeking scientific technic ہے جو ان کے بکھرے ہوۓ توجہ کو کہانی کی طرف فکری مراجعت میں کارگر ہے
یہ بچوں سے rapport بنانے کی عمدہ تکنیک ہے جو الیکٹرونک میڈیا سے جڑے رہنے کی وجہ سے ان کے مخا طبانہ أہنگ میں أگیا ہے
یہ الیکٹرو نک میڈیا کی انہماکی تکنیک کا کامیاب تجربہ ہے جس پر افسانہ نگار کو کمال حاصل ہے۔
پکنک اپنے نام سے ہی نئ
نسل کو اپنی کشش سے راغب کرتا ہے۔پکنک بچوں کے لۓ کنڈر گارٹن اسکول کی طرح ہے ۔ یہاں مصنفہ نے کہانیوں کا تانا۔بانا دوستانہ محبت اور اخلاص کی بنیاد پر رکھا ہے۔ ایک listener جیسے ماحول کی عمدہ پیشکش کنڈر گارٹین کی صورت میں ہوئی ہے۔جہاں علم کے رس بانٹتے کرداروں کے درمیأن باغ علم میں مہکتے,مسکراتے ,کھیلتے کودتے ، علم کے رسیا ننھے پھولوں کی طرح سوال کرتے مل جاتے ہیں۔ اور وہ کردار بھی مل جاتا ہے جو بڑی مہارت سے بچوں کے پیاسے تجسس کو قطرہ قطرہ قلزم بناتا مل جاتا ہے۔
اسٹوری ٹیلیینگ ایک آرٹ ہے۔ٹھیک اسی طرح جس طرح آرٹ أف ٹیچنگ فن تدریس تعلیم اپنی تدریسی روایت کی دہلیز پھلانگ نئے ٹولز اور ٹیکنالوجی کے ساتھ اسمارٹ کلاس روم میں داخل ہو رہی ہے ۔بلیک بورڈ کی جگہ گرین بورڈ سکرین مونیٹر اور پروجیکٹر نئے جدید کلاس روم کا نقشہ ہے ۔بچون کے ذہن میں ایک موضوع کو اس کی تصویروں اور آواز وں کی مدد سے اتارنا نیا تجربہ ہے جو ایلیٹ کلاس تک ہی محدود ہے ۔گورنمنٹ سرکاری اسکولوں کا حال وہی پرانا ہے خستہ حال دیواریں منھ چڑھاتے بلیک بورڈ وہی پرانا خشک سلیبس، غیر معیاری تدریسی کتاب اور گھنٹی کی غلامی کرتے ہوئے اساتذہ۔
سرکای تعلیمی زندگی کی انفراسٹرکچر،تدریسی عملے، طلبہ و طالبات اور گارجین نے ایسی صورت حال سےسمجھوتہ کر لیا ہے۔
محترمہ شاہ تاج کی کہانی ابر رحمت پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ مصنفہ نےحالات سے سمجھوتا نہیں کیا بلکہ اس سے اوپر اٹھنے کی کوشش کی ۔کہانی اور تدریس کے بلینڈ سے خشک موضوع کو بھی ایک تازہ گلاب کی طرح لرنرlearner کے گلدستہ فہم میں خوشبو علم سے استفادہ کے لیے رکھا جاسکتا ہے ۔
کہانیاں سننا اور کہانیوں سے لطف اندوز ہوناہماری اجدادی گھٹی میں ہے۔راوی کلاس روم میں بیٹھا بادلوں کی کہانیاں پیش کرتا ہے۔کہانی سننے کے شوق نے تجسس کا ایک سماں باندھ دیا ہے۔
بادلوں میں کیا ہے ؟ سوال داغتے ہی بچوں کی توجہ مقناطیس کی شمالی سوئی کی نوک کہانی کار کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے ۔
کہانی کے چوپال پر بیٹھا ٹیچر مشرقی تصور سلیٹ میں تحریر ہوائی قلعے ، کوہ قاف اور اس کی پریوں کے متعلق فرسودہ خیالات کوڈسٹر علم سےصاف کرتا ہے اورکہانی کے میڈیم کے ذریعہ جدید علوم کو عقل کی کسوٹی پر گھس کر فہم کی سلیٹ کو مزین کر دیتا ہے ۔صیقل علم کا یہ افسانوی انداز بچوں کے شعور کو مانجھتا رہتا ہی۔
پانی ذخائر سے اوپر بلند ہوتا ہوا بھاپ بن کر اوپر اٹھتا ہے اور بچوں کی فکر کی انگلی تھامے بادلوں سے متعارف ہوتا ہے ۔الگ الگ رنگوں والے ،الگ الگ قسم والے الگ الگ خوبیوں والے بادلوں سے جستجو علم مصافحہ کرتا ہے ۔ بادل اپنے رنگ کام اور خوبی کا پہچان بن شعور کا حصہ بنتے ہیں اور علم کی ڈسکوریdiscovery لاشعور میں اتر یادداشت کی ریک Rack میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ۔
کہانی کے ذریعہ بنائی گئی بادل کی یہ تصویر لاشعور میں بارشی بادل بن کر محفوظ ہے ۔طلب کی زمین پر جب علم کی پیاس پکارتی ہے۔علم کا بارشی بادل شعور آسمان سے اترتا ہےاور طلب و علم کی دھرتی پر ابر رحمت بن کر برس جاتا ہے ۔
ادب برائے تعلیم کو مقصد مان کر کہانی کے پیرائے میں تدریسی مواد کوبڑے احسن طریقے سے پیش کیا گیا ہے ۔پانی کی یہ ری ساییکلینگ Re cycling بادلوں سے بوس وکنار ہوتی ہوئی تفہیم کا دائرہ بناتی عقل کی تختی پر کامیابی سے اتر جاتی ہے ۔معلم کہانی کار کا أرٹ أف ٹیچنگArt of teaching کے ذریعہ خط مستقیم پر کھینچے گئے انڈراسٹینڈنگ اسکل Understanding skill کا ۹۰ ڈگری کا زاویہ تحصیل اور ترسیل کی تثلیث بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔شاہ تاج کی سأئنسی کہانیاں شب و روز کی ریشہ دوانی سے الگ ,حالات کو پراگندہ کرنے والے عوامل کے بیان سے قطع نظر ایک مشن کے ساتھ رواں دواں ہے۔ مصنفہ کے زنبیل مقصد میں معصوم ذہنوں کی سأئنسی خطوط پر تر بیت و پرداخت ہے ۔عقل کا نور, چشم کشا افسانوی تحریر جو تہذیب کو عقلی زاویہ فراہم کرنے والے فکری منظرنامے سے مالا مال ہے۔ تقلیدی معاشرے میں تیزی سے فروغ پاتے غیر سأئنسی سوچ کو عقلی تہذیب سے أراستہ کرنے کی ایک ادبی کوشش ہے جسے مصنفہ نے افسانوی رنگ میں پیش کیا ہے ۔ ادب کے افق پر اپنی تابناکی عقل سے متاثر کرنے والی سا ئنسی تحریروں میں ایک نۓ نام کا اضافہ ہے۔
شب ورز کی زندگی میں أنے والے وہ تمام مشاہدے جسے دیکھکر نئ نسل یونہی گذر جاتی ہے۔تحصیل علم کے دوران بھی یہ ہمارے نصاب کا حصہ بنتا تو ہے لیکن شعور کا حصہ بن جانے کے بجاۓ رٹے رٹاۓ اسباق ہی ادھ کچرے کی صورت میں رہتے ہیں یا پھر اس کی علمی حیثیت کسی ایک سال کے تدریسی curriculum سے زیادہ نہیں رہتی ہے۔مخصوص جما عت کا بچہ نصا بی جوۓ کا بوجھ کاندھے پر ڈالے کولہو کے بیل کی طرح curriculum اور syllabus کے گرد چکر کاٹتا رہا۔ذوق و شوق سے کٹ کر ایک compulsive ایکشن کے وظائف کو شعار بناۓ ایک ہی دائرے میں گردش کرتا رہتا ہے۔۔ دلچسپ کہانیوں کا یہ وہ تجسس ہے جو انہیں جانی پہچانی چیزوں سے انجانی چیزوں کی طرف پھر دنیا انکی فکر کی ہتھیلی پر ذوق و شوق اور تجسس کے مدار پر کسی گلوب کی طرح متعارف ہوتی ہے۔اس دنیا کو عقل کی أنکھ سے دیکھنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔
کہانی پڑھنے کے دوران زبان پر أسانی سے چڑھ جانے والے الفاظ کا بر محل استعمال ملتا ہے۔انگریزی کے مشہور term کو اردو کا قالب عطا کرنے میں اس بات کا بھی خدثہ تھا کہ بچوں کا فہم قبول نہ کر ے اس لۓ اسے جوں کا توں رکھا گیا ہے لیکن اس کی تعریف بیانیہ اور مکالمے کی مدد سے اس طرح کیا گیا ہے وہ أسانی سے بچوں کی سمجھ دانی میں سما جاۓ ۔ مشکل لفظ کو واقعات میں اس طرح سمویا گیا ہے کہ بچوں پر اُس کے معنی بھی متن کے تناظر میں اپنے مفہوم کا پٹارہ کھول دیتے ہیں۔اس طرح معلومات کے ساتھ vocabulary میں بھی رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔کہانیاں بچپن کا ایک خوشگوار مشاہدہ ہے جو بچپن کے حافظہ کی سلیٹ پر ایک نقش کی طرح محفوظ رہتا ہے اگر کہانیوں کی روح میں وہ معلومات بھی سمو دیا جاۓ جو تحصیل علم کے دوراں اس کے تجرباتی حافظے کا حصہ بننے جارہا ہو تو تحصیل اور ترسیل کا مزہ دو أتشہ ہوجاتا ہے کہانیوں کے تناظر میں بنے گۓ وہ شب و روز کے سأئنسی معلومات جو بچپن کے RAM میں محفوظ ہے وہ حافظے کے افق کو نۓ علوم سے وسعت دینے کا کام کرتا ہے۔
ایک صحت مند معاشرے کی پہچان یہ ہے کہ تخلیق کا ر اپنی تخلیق سے بچوں اور کتابوں کے درمیاں میں ایک پل کی طرح رابطہ کا رول ادا کرتا ہے۔ معاشرے کی تعمیر میں بچوں کا ادب ایک صالح تہذیبی سرمایہ ہوتا ہے۔بچوں سے کہانی کا رشتہ ایک تسلسل کے ساتھ ادب میں جاری ہے۔کہانی کی ہنکاری میڈیم نانی، دادی اور والدین کے چوپال سے ہوتاہوا رسالوں اور بچوں کےادب تک اتا ہے۔لیکن یہ دیکھکر حیرت ہوتی ہے کہ بچوں کے ادب کے نام پر جو کتابیں أرہی ہیں اس سے بچوں کا ادب تو مالا ہورہا ہے لیکن زبان اور بیان کی سطح پرایسی بیشتر کتابیں بڑوں کی رسائی سے أگے نہیں بڑھتیں۔
بچوں اور کتابوں کے درمیان رابطے کے اس پل پر سادہ زبان سے لیس سائنس موضوع سے Rapport بناتی شاہ تاج خاں معلومات اور تفریح کے رنگا رنگا فکری غباروں کے ساتھ ملتی ہیں۔شاہ تاج کی معلومات سے پر سأئنسی اور علمی کہانیاں بچوں کو اپنے ساتھ چپکاۓ رکھنے کی مقناطیسی کشش رکھتی ہیں اُن کے کردار بھی دلچسپ ہیں جو ننھے قاری کے لۓ ایک تفریح بھرا پکنک کے ساتھ ساتھ مزے دار موضوعاتی ڈش کی طرح انکی فکری دستر خوان پر علم و اخلاق کے موتی چنتے ملتے ہیں۔
دلچسپ معلومات سے محظوظ ہوتے ہوۓ بچوں کے ذوق کی بھی تسکین ہوجا تی ہے اور دلچسپی میں اضافے کا سبب بھی۔
محترمہ شاہ تاج خان اردو ادب کو سائنسی علوم سے مالا مال کرنے اور نئ نسل کو وقت کے ساتھ نۓ علوم سےبہرہ ور کرنے کا بیڑا اٹھایا لیا ہے۔
وہ ایک بڑا کام کر رہی ہیں۔
زیر نظر فکشن دو کرداروں کے مکا لمے پر مبنی قاری کو تجسس علم سے باندھے رکھتا ہے۔
کاربن فٹ پر نٹ carbon foot print کیا ہے اسے کیلو کلیٹ calculate کس طرح کیا جاتا ہے گرین ہاوس کا کیا رول ہے۔ہم کس طرح انفراد ی عمل کے ذریعہ عالمی سطح پر بڑے ہوتے کاربن فوٹ پرنٹ کو cut to size کرسکتے ہیں۔اس میں ہمارے انفرادی عمل کے زمرے میں کون کون سے ٹاسک ہیں۔یہ نسل کو بتانے انہیں خود اگاہ بنا نے کی ضرورت ہے۔طوطا مینا, اڑن کھٹولاجیسی کہانیوں کے منظر اور پس منظر سے باہر آکر أج سے relate کرتے مسائل کی أنکھوں میں انکھیں ڈال ہمیں ادب کے عصری معیار کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسی فوری ضرورت والے موضوعات میں سے ماحولیات بھی ہے جس سے بچوں کو أشنا کرانا ایک ادیب کی سماجی ذمہ داری ہے۔
کاربن فوٹ پرنٹ عالمی سطح پر ، اوسطا 4 ٹن کے قریب ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں 2ڈگری سینٹی گریڈ اضافے سے بچنے کے لۓ ماحول سے خود اگاہی اور نئی نسل کے ذہن کی تر بیت اسی نہج پر کرنے کی ضرورت ہے جس بلو پلانیٹ Blue planet میں یہ نئ نسل سانس لے رہی ہے ۔ ہر سال اوسطا عالمی کاربن فوٹ پرنٹ کو 2 ٹن کے نیچے گرنے کی ضرورت ہے۔
کاربن کے انفرادی اشاریۓ کو Total foot print کو 16 ٹن سے کم کرکے 2 ٹن کرنا راتوں رات نہیں ہوتا! اپنے شب وروز کے عمل سے چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کر کے ، ہم ایک بڑا فرق شروع کر سکتے ہیں۔
زیر نظر سائنس فکشن اردو ادب میں خال خال ہے۔
اس طرح کے فکشن ماحولیات کے میدان میں فرق پیدا کرنے کا ایک عزم اور اردو ادب کے موضوعات کو سائنسی فہم عطا کرنے کی ایک اچھی کوشش ہے۔فطرت کی حفاظت ہم اپنی زندگی کے گرد کاربن کے عملی منفی اثرات کو کم کرکے کر سکتے ہیں۔
مصنفہ اپنی کہانیوں میں بچوں کے لۓ ایک ایسی زمینی زندگی کی تمنائی ہیں جو
A better peacefull
place for living
ہو۔اور یہ حسین خواب کرداروں کی جاگتی أنکھوں میں مچلتا رہتا ہے۔
انکی خواہش ہے کہ بچے کے یہاں کسی کام کے صرف ڈھانچے کے بجاۓ ا سکی روح کھل کر سامنے اۓ۔ کوئ عمل صرف ایک فکری ڈھانچہ نہ رہے بلکہ اس عمل کے باطن میں اس کی روح بھی ہو ۔اس کا اخلاص ہو ۔
کہانی تفریح کے لیے سب سے موثر میڈیم ہے ۔کہانی کار کا کمال یہ ہے کہ وہ تفریح کے ساتھ درس اور نصیحت کی میٹھی گولیاں بھی زندگی کی لذت میں اتار دے۔
مصنفہ کے کلاس روم میں جب کہانی کار مدرس بن کر اتا ہے تو درس و تدریس بھی دوأتشہ ہو جاتا ہے ۔
کچی عمر میں عبادت کا مفہوم بچوں کی زندگی کے فکر اور عمل میں اس طرح اتارنا کہ مسرت بھر ااحساس کا بھی تجربہ ہو۔ عبادت کے اس مفہوم کو واضح کرنے کے لئے مصنفہ نے ہاشم کے کردار سے لیا ہے ۔جو حافظ قرآن ہے ۔انگریزی میڈیم کے بچوں کے سامنے اپنے خیا لات پیش کرنے میں کمزور ہے۔
عبادت کیا ہے ؟
اس کا جواب ہاشم کی فہم و فراست میں میں موجود ہے لیکن اظہار زبان ان لفظوں کے انتخاب میں قاصر ہے ۔
ہاشم اپنی ذہانت سے اس سچی عبادت کا ایک تجربہ اپنے عمل سے بیان کرتا ہے۔ پرندےکو پنجڑے سے آزاد کرنے، پنکھے کا سوئچ بند کرنے ،کمرے کی کھڑکیاں کھولنے اور پرندے کےکمرے سے
باہر نکلنے میں آزادی کی اس خوشی کو پیش کیا گیا
پرندے کے پر جھٹکنے کی سرشاری اور پیڑپر چہچہانے
میں وہ اور کلاس کے سارے بچے اس حقیقی مسرت کے تجربے سے گذرتے ہیں۔ جو ایک چھوٹی سی ہمدردی کے عمل سے پیدا ہوا ہے ۔
ہاشم اس حقیقی تجربے کے بعد کہتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا عمل بھی عبادت کے زمرے میں آتا ہے ۔کہانیوں کی میڈیم سے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتی ہیں جو غیر علمی طریقے سے بچوں اور بڑوں کے ذہن میں ایک myth کی طرح اجتماعی لاشعور میں پڑا ہوا ہے۔
پسینہ بدبو حرارت کے تعلق سے جو باتیں عوام میں مشہور تھیں۔
اسے سائنسی تناظر میں پیش کرنے کی اچھی کوشش ہے۔
میں سمجھتا ہوں اسے طرح کے مضمون پر مشتمل نصاب تیار کر ہی ہم بچوں میں ایک سا ئنسی مزاج تیار کرسکتے ہیں تاکہ superstition کے بڑے بڑے لات ومنات جو ہمارے نظام سوچ کے کعبہ میں رکھے ہوۓ ہیں تاکہ تیشہ علم سے اس کی بت پاشی ہوسکے۔
مصنفہ اپنی کہانیوں کے ذریعہ اس پر سائنسی روشنی ڈال رہی ہیں۔