نظم ”اے ارضِ فلسطین” ایک تجزیاتی مطالعہ از عبدالوہاب قاسمی

0
162

ڈاکٹر ظفرؔکمالی کی عالمی تناظر میں لکھی ظریفانہ نظم ’’اے ارضِ فلسطین‘‘ مزاحمت کی ایک مؤثر آواز ہے جس میں انھوں نے ارضِ فلسطین پر ہورہے مظالم کے ان عوامل اور کرداروں پر طنزیہ نظر ڈالی ہے جن کو پڑھتے ہوئے درد و الم کی پرچھائیاں ہمارے وجود پر پھیل جاتی ہیں۔اس موضوع پر انھوں نے اجتماعی آوازوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اپنی انفرادی آواز پیدا کی ہے۔
فلسطین کے موـضوع پر لکھنے والوں کی کثیر تعداد ملتی ہے۔موـضوع کی دردناک حسّاسیت کو دیکھتے ہوئے ادیبوں اور شاعروں نے اپنے جذبات کا اظہار اثر نگیز انداز میں کیا ہے لیکن جو بات اکثر ادیبوں اور شاعروں کے یہاں قدرِ مشترک ہے وہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے ظاہری منظر ناموں کو مرتب کیا ہے۔ یتیم ہوتے بچے اور بیوہ ہوتی عورتوںکی سسکیاں سنائی ہیں، لہولہان جسموں اور تڑپتی لاشوں،اجڑتے مکانوں، لٹتی عصمتوں، دشمنوں کی بے رحمی، بم اور بارود ومیزائیل کی وحشت ناکیوں کا نقشہ کھینچا ہے جن سے ان کی شاعری میں اثر آفرینی تو پیدا ہوئی ،مگر گہرائی اور معنوی تہہ داری کا سرا ہاتھ نہیں آسکا۔موضوع کی نمناکی نے ان کے ذہن کو اس طرح متزلزل کیا کہ وہ جذبات سے مغلوب ہوکر آنکھوں کے سامنے بکھرے بھیانک مناظر پر ہی نظرکرسکے۔ تہہ تک پہنچنے کا حوصلہ نہ جٹاپائے۔رفعت سروش(اے ارضِ فلسطین)،عائشہ مسرور(لوری)، نعیم صدیقی (یروشلم)،قیصر الجعفری (حریف جاں سے کہو)یا اسی طرح دیگر شعراکے یہاں ہمیں ایک ہی درد اور ایک ہی فکر اور ایک ہی اسلوب دکھائی دیتا ہے۔ان میں فیض احمد فیض کا قدیقینا سب سے اونچا ہے کہ یہ موضوع ان کی آنکھوں سے اتر کر وجود میںتحلیل ہوگیا تھا۔ لبنان میں برسوں رسالہ’’لوٹس‘‘ کے ادارتی سلسلے سے وہ جڑے رہے اور وہاں کے حالات کا بغور مطالعہ بھی کرتے رہے۔ انھوں نے کئی ایسی علامتیں وضع کیں جن میں تہہ داری بھی ہے اور معنیٰ خیزی بھی۔ دردو کسک بھی ہیں اور پر نم آنکھیں بھی۔مزاحمت کی وہ ایسی آواز بن کر ابھرے کہ فلسطین اور فیض اردو ادب کا ایک الگ موضوع قرار پایا۔ فلسطین کا ذکر آتے ہی فیض احمد فیض ذہن کے نہاں خانے میں ابھرنے لگتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے باوجود ان کی شاعری سنجیدہ زمرے کی ہے نہ کہ ظریفانہ۔
ظفرؔ کمالی کی شخصیت میں بیدارمغزی اور حالات کے کنہہ تک پہنچنے والی نظر موجود ہے۔ وہ جس طرح دورتک دیکھتے ہیں اسی طرح دورتک اور دیر تک سوچتے بھی ہیں۔ان کے پاس شاعرانہ بصیرت بھی ہے اور دردمندانہ دل بھی۔ دل و نظر کے سہارے وہ انسانیت اور اعلا اقدار کی وکالت کرتے نظرآتے ہیں۔ انھوںنے جس طرح عالمی مسائل پر قلم اٹھایا اور ان کے المناک پہلوئوں کو اپنی شاعری میں اجاگر کیا وہ ان کے دردمندانہ دل کے آئینہ دار ہیں۔ ان کی نظموں میں ’’یواین او‘‘ ہو یا’’داداے اعظم‘‘،’’ڈنک‘‘ ہو یا’’اے ارضِ فلسطین‘‘سب کے پس منظر میں ان کی انسانی ہمدردی کے سلسلے دورتک دکھائی دیتے ہیں۔
زیرِ تجزیہ نظم ’’اے ارضِ فلسطین‘‘ ۱۲؍ بند پر مشتمل ہے۔ ترجیع بند میں لکھی یہ نظم فلسطین کی داستانِ غم سنانے کے ایک نئے تجربے،احوال اور احساس کے ساتھ سامنے آتی ہے۔یہاں درد و کسک کی تمام لہریں ان سوتوں سے حاصل کی گئی ہیں جن سے فلسطین زخمی زخمی ہے۔مگر طریقۂ کار ظریفانہ ہے جس میں مزاحمت کی ایسی آواز پیدا ہوگئی ہے جو دل و دماغ اور قلب و ذہن سب کو متاثر کرتی ہے۔اس تاثر کامضبوط سراوہ ہے جس میں شاعر نے فلسطین کو اس بات کی جیتی جاگتی مثال بنادیا کہ یہ دنیا کس طرح ظالموں کا ساتھ دیتی ہے اور مظلوموں کو کٹہرے میں کھڑاکرتی ہے۔یہاں نہ کوئی اس کا اپنا ،اپنا ہے اور نہ کوئی خلوص وجذبے کے ساتھ اس کا یارومددگار ہے۔فلسطین کے حوالے سے یہ ایسے نکات ہیں جن پر غورکرتے ہوئے شاعر نے اس نظم کو ایسی مغموم فضا سے ہم کنار کردیا ہے کہ جب جب قاری اس کو پڑھتا ہے وہ نہ صرف آہیں بھرتا ہے بلکہ افسردگی اور اضمحلال کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے۔
ظفرؔ کمالی جز سے کل کی طرف مراجعت کا فن جانتے ہیں۔ان کے یہاں قطرے میںدجلہ دیکھنے اور دکھانے کا ہنر موجود ہے۔نظمیں لکھتے ہوئے ذہن کو مسخر کرنے یا معانی اور حقیقت کی طرف قلب و نظر کو جمال و جلال کے ساتھ ملتفت کرنے کا ان کا اپنا انفرادی زاویہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی بات کو بڑے معانی کی طرح بھی پیش کرتے ہیں جس سے ذہن روشن ہوتا ہے،وہ اپنی سوچ کو ایک خاص کیفیت میں ڈھال دیتے ہیں جس کا دل پر عجیب اثر ہوتا ہے۔زیرِ بحث نظم میں فلسطین کو مرکز بناکر جس طرح جزمیں کل دکھانے کی انھوں نے سعی کی ہے اس میں قاری یقینا قطرہ میں دجلہ دیکھتا ہے۔ یہاں انھوں نے اصولی باتوں سے ذہن کومسخر اور حقیقت کی طرف قلب و نظر کو جمال و جلال کے ساتھ متوجہ کرکے ظرافت کا نیانشان تلاش کیا ہے۔ان کے اندازِ پیش کش اور باطنی خلوص کی وجہ سے یہ صرف فلسطین کا نہیں بلکہ پورے عالم کا مسئلہ بن گیا ہے۔یہ مصرعے جس تناظر میں کہے گئے ہیں ع
سب کرتے رہے تجھ کو فقط صبر کی تلقین
یا یہ کہ ع
کہنے کو بہت ہیں ترے زردار مسیحا
ان پرغور کیجیے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ وہ ایک چھوٹے منظرکو بڑے کینوس پر اس ظریفانہ خوبی سے اتارتے ہیں کہ آنکھوں میں نئی چمک اور دل میں اس کے تمام احوال جذب ہوجاتے ہیں۔ ان مصرعوں میں ’’سب‘‘ اور ’’بہت‘‘ یہ دومرکزی الفاظ نہ صرف قاری کے وجود پر بلکہ پورے عالم پر دردانگیز کیفیت کو پھیلانے کا کام دیتے ہیں۔جس میں ’’صبر کی تلقین‘‘ اور ’’زردارمسیحا‘‘ انسانی ذہن کو لامتناہی درد کی طرف بہائے لے جاتا ہے۔
اس نظم کی ابتدا فکرو نظر پریورش کرنے والے منظر سے ہوتی ہے۔ قانون سازوں کو قانون کی بالادستی قائم رکھنے کے بجاے خودہی اس کو بے دردی سے پامال کرنا ایسا اندوہناک المیہ ہے جو دل ودماغ پر ہتھوڑے کا کام کرتا ہے۔اسی طرح عادل کا عدالت کی توہین کرناذہن کو مرتعش کرنے کے مترادف ہے۔فلسطین جس کی مظلومانہ تاریخ برسوں سے قائم ہے اور ظالموں نے اس کے سینے کو داغ داغ کررکھا ہے وہ ایسی صورت میں فریاد رسی کے لیے کس کادروازہ کھٹکھٹا ئے۔ یواین او کا قیام امنِ عالم کو بحال کرنے اور ظالموں پر لگام لگانے کے لیے کیا گیا تھا، جب وہ بھی ظالموں کا ساتھ دے تو پھر ایسے مناظر چنگیز و ہلاکو کو قبر میں تسکین ہی دیں گے کہ ان کی سنت آج بھی دنیا میں زندہ ہے۔اس طرح یہ نظم ابتدا میں ہی ارضِ فلسطین کو مرکز بناکر ایک بڑے امیج کی طرف ذہن کو لے جاتی ہے جس میں حزنیہ طنز کے رنگوں کی ایسی آمیزش ہے جو دیکھنے سے زیادہ محسوس کرنے کی چیز ہے۔ پہلا بند ملاحظہ کیجیے ؎
پامال ہوئے تیرے لیے سارے قوانین
ٹھوکر میں یواین او کے ہیں شاہوں کے فرامین
عادل ہی عدالت کی یہاں کرتے ہیں توہین
چنگیز و ہلاکو کو بھی ہے قبروں میں تسکین
تاریخ کے اوراق لہو سے ترے رنگین
اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین
مذکورہ بند کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے ہمیں یواین او کے کچھ اصولی مبحث پر نظر ڈالنی ہوگی۔آزاد ویکیپڈیا (بذریعہ انٹرنیٹ)سے اخذ کی گئی یہ چند ابتدائی سطور ملاحظہ کیجیے:
اس کے چارٹر کی تمہید میں لکھا ہے کہ:
ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے۔
انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کریں گے۔
مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے۔ اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے۔
ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمے داریوں کو نبھایا جائے۔ آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔
لہٰذا:یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے رواداری اختیار کریں۔
ہمسایوں سے پر امن زندگی بسر کریں۔
بین الاقوامی امن اور تحفظ کی خاطر اپنی طاقت متحد کریں۔ نیز اصولوں اور روایتوں کو قبول کر کے اس بات کا یقین دلائیں کی مشترکہ مفاد کے سوا کبھی طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔
تمام اقوامِ عالم اقتصادی اور اجتماعی ترقی کی خاطر بین الاقوامی ذرائع اختیار کریں‘‘۔
یو این او کے اس کاغذی اور آئینی مبحث کا جو تضاد فلسطین کی سرزمین پر دیکھنے کو ملتا ہے اس سے اس بات کا اندازہ تو ہوہی جاتا ہے کہ یہ انسان اپنے قول و فعل میں کتنا کھوکھلا واقع ہوا ہے مگر ساتھ ہی شاعر کے لفظوں پر غورکیجیے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس نے ’’پامال‘‘ ، ’’ٹھوکر‘‘، ’’توہین‘‘ اور ’’چنگیزو ہلاکو ‘‘ جیسے الفاظ و کردار میں اپنے دل کا درد کس مضمحل کیفیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔اقتباس میں انسانیت اور احترامِ آدمیت کے لیے جتنے خوبصورت اور اہم قوانین وضع کیے گئے ہیں شاعر نے یہاں بالکل معکوسی اندازِ نظر اپنایا جو ایک طرف ان مباحث کے ہوتے ہوئے بھی فلسطین پر ہورہے مظالم کے عملی مظاہرے کی پرزور مذمت سے عبارت ہے تو دوسری طرف فلسطین سے اس کی دلی ہمدردی کو واضح کرتا ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ ظفرؔ کمالی نے بطورِ خاص ’’یواین او‘‘ کو محور بناکر ایک بھرپور نظم لکھی ہے۔ تفصیلی نقش گری وہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔یہاں انھوں نے جس بات کو اجمالی طورپر بیان کیا ہے اسی کی تفصیلی بحث وہاں موجود ہے۔ وہ نظم بھی خاصے کی چیز ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ فلسطین کے حوالے سے اسی نظم کا یہ شعر ملاحظہ کریں ؎
مسئلہ ہو وہ فلسطیں کا کہ ہو ملکِ عراق
اس کی نظروں میں یہ انکل سام کا ہے اک مذاق
اسی طرح قانون کی پائمالی کایہ پہلو بھی اس نظم میں دیکھتے چلیں ؎
دال مظلوموں کی اس ہانڈی میں گلتی ہی نہیں
اس شجر کی شاخ ان کے حق میں پھلتی ہی نہیں
ان دونوں اشعار کے ساتھ مذکورہ بند کے ملحقات پر غورکرتے ہوئے شاعر کے تئیں قاری ایک خوشگوار احساس کو اپنے وجود میںپاتا ہے کہ شاعر ایک ہی موضوع پر کتنے زوایوں سے اپنے فکر و تخیل کو کام میں لاتا ہے۔ ڈاکٹر ظفرؔ کمالی کے یہاں ایک اور تخئیلی پرواز دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ موـضوع کی مناسبت سے تلمیحی کرداروںکاانتخاب کرتے ہیںجس سے ان کے یہاں ایک توانا اسلوب سامنے آتا ہے۔ مذکورہ بند میں ’’چنگیز وہلاکو‘‘ ان کے اسی انتخاب کا حصہ ہیں۔ قانون کی پامالی کے ساتھ ساتھ عادل کی عدالت کی توہین اپنے سیاق و سباق میں بھرپور کراہیت رکھتی ہے جو ماضی کے ان دوکرداروں میں بڑی شدت سے متشکل ہو ئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ظالم کی داستان ان دونوں کرداروں کے ذکرکے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔اس نقطۂ نظر سے بھی دیکھیں تو مذکورہ بند اپنے موضوع اور پس منظرکے بیان میں جامعیت کا حامل ہے۔
اس نظم میں ڈاکٹر ظفرؔ کمالی نے عرب حکمرانوں پر بطورِ خاص توجہ مرکوز کی ہے۔ مسئلے کی نزاکت و اہمیت کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا شاعر کی مجبوری بھی ہے۔ فلسطین کی سرزمین سے اسلامی روایات کے جتنے تابندہ نقوش وابستہ ہیں ان کے پیشِ نظر یہ سر زمین محترم بھی ہے اور ایمانی حرارت و تابندگی کا استعارہ بھی۔ اسلامی تقدس کا ایک سلسلہ اگر قبلۂ اول کے حوالے سے جڑا ہوا ہے تو دوسرا انبیا و مرسلین کے ورودِ مسعود کے نقشِ پائے مُطَہَّرْ کی رخشندگی سے وابستہ ہے۔ یہ ایک طرف معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت گاہ ہے تو دوسری طرف بہادری، عزیمت اور مسلمانوں کی جرأت مندانہ زندگی کی علامت ہے۔ اسلامی فضائل و مناقب اور خدائی رحمت و برکت سے معمور دنیا کا یہ خطہ قلبِ عرب کی حیثیت رکھتاہے۔
اس سرزمین کے حوالے سے یہودیوں اور عیسائیوں کی مشترکہ سازش پر غور کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کامنصوبہ وسیع تناظر رکھتا ہے۔ یہ سر زمین اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ جنوب مغربی ایشیا میں واقع ہونے کی وجہ سے یہ بحرِ روم ، لبنان، اردن اور مصر کے مابین ہے۔ یہ ایک طرف ایشیا کو افریقہ سے ملاتی ہے تو دوسری طرف جزیرہ نما ئے عرب کو بحرِ روم سے منسلک کرتی ہے۔ اس عالمی اور علاقائی پس منظر کو دیکھتے ہوئے استعماری طاقتوں نے اس سرزمین پر اسرائیل کے قیام کی جدوجہد شروع کی اورسوئے قسمت کہ کامیاب بھی ہوگئیں۔ایسے خطے پر اسرائیل کی شکل میں مغربی ممالک کا قبضہ آج اپنی بھیانک شکل میں عروج پر ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کی منصوبہ بند سازشوں کے نتائج آج ہم کھلی آنکھوںسے دیکھ رہے ہیں اور مسلمانوں کی دولت ، ان کے تشخص، ان کے ایمان اور ان کے اسلامی شعار پر ناقابلِ تسخیر چوطرفہ گھیرابندی کے پروٹوکول آج آخری مرحلے میں ہیں۔ کئی خفیہ دستاویز ات اس حقیقت سے معمورہیں کہ اسرائیل کا قیام یہودیوں اور عیسائیوں کی منزل نہیں ، وسیلہ ہے۔ چنانچہ ’’صیہونیت اور عالمِ اسلام‘‘ کے مصنف طارق اسمٰعیل ساگر ایک یہودی مصنف کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
’’اس ’’عظیم تراسرائیل‘‘ میں پورا شام ، پورا لبنان، اردن وعراق کا بڑا حصہ صحرائے سینا بالائی نجد اور مدینہ منورہ تک کا علاقہ شامل ہے کیونکہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہودی مدینہ میں آباد تھے۔ یہودیوں کے لیے الگ سلطنت کا قیام صیہونیت کا واحد مقصد نہیں ہے بلکہ اسرائیل کے قیام کے بعد ہمارے لیے اپنی تحریکوں کو آگے بڑھانا ضروری ہوگیا ہے۔ اسرائیل کی حکومت صرف ایک وسیلہ ہے ، منزل نہیں ہے‘‘ (ص : ۹۔ پی ڈی ایف فائل)
اس اقتباس میںدواور دو چار کی طرح وضاحت موجود ہے کہ پوری عرب آبادی مغربی اور استعماری طاقتوں کے نرغے میں ہے لیکن فی الحال فلسطین اس کا محور ہے۔ وہ ابتدا سے ہی اس جنگ میں تنہا مبتلا ہے۔ ستمبر ۱۹۸۲ء کے قتل عام سے لے کر آج تک اس نے بے شمار جانیں عالمِ اسلام کے تحفظ کے لیے قربان کی۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین کا چپہ چپہ لہو لہو ہے۔
ان تمام پہلوئوں کو نظر میں رکھتے ہوئے غور کیجیے تو یہ مسئلہ دنیاے اسلام کے سیاسی مسائل میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ عرب حکمراں کس خوابِ خرگوش میں پڑے ہیں۔ استعماری طاقت پوری طرح متحد ہے مگر اتحاد کا نعرہ دینے والی قوم انتشار اور باہمی افتراق کی بدترین مثال پیش کررہی ہے۔ عرب حکمراں اپنے ایوانوں میں خوش ہیں اور عیش وعشرت کے مزے لے رہے ہیں اور یہ بھلا بیٹھے ہیں کہ تقدیر یں ایوانوں میں نہیں میدانِ جہاد میں بنتی ہیں اور اسلام کے تحفظ کی خاطر لڑنے والوں کی مدد دراصل اللہ کی شریعت کی مدد ہے۔
یہ وہ پس منظر ہے جس کو ظفرؔ کمالی نے نظم لکھتے وقت اپنے وجود میں جذب کیا اور دوررس نگاہوں کے ساتھ اس پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ یہ تینوں بند اسی تناظر میں کہے گئے ہیں ؎
خاموش ہیں وہ دیکھ کے ہر ظلم وستم کو
سب بھول گئے اپنے کیے قول وقسم کو
محسوس کریں کیسے ترے درد و الم کو
فرصت ہی نکاحوں سے نہیں شیخِ حرم کو
بگڑے ہوئے گھوڑے پہ کسے کیسے کوئی زین
اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین

کہنے کوبہت ہیں ترے زر دار مسیحا
ہیں باعثِ افزونیِ آزار مسیحا
گفتار کے غازی ہیں یہ لاچار مسیحا
ہوتے ہیں کہیں ایسے بھی بیمار مسیحا
حاجت ہے دوائوں کی تو وہ پڑھتے ہیں یٰسین
اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین

آئی نہ کبھی کام ترے تیری شرافت
فرعونِ زماں ڈھاتے رہے تجھ پہ قیامت
ہم ’’شاہی حکیموں‘‘ کی نہیں کرتے شکایت
اللہ رے ان جیسے طبیبوں کی طبابت
سرطان میں کہتے ہیں کہ لے کھالے اناسین
اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین
مذکورہ بندوں میں جن خیالات کااظہار کیا گیا ہے ان میں عظمت اور تہہ بہ تہہ معنویت کی کائنات آباد ہے۔ یہ کہنے کو محض تین بند ہیں لیکن دریاکو کوزے میں بندکرنے کا فن صاف دکھائی دیتا ہے۔ یہ تینوں بند پورے پورے مرقعے ہیں جن سے طنز کے کوہِ آتشیں کو سلگایا گیا ہے۔ اندازِ تخاطب کی ابتدائی معصومیت سے ہر بند شروع ہورہا ہے ،پھر آہستہ آہستہ لَے بتدریج تیز ہوتے ہوئے طنز یہ شدت کی اس گرمی تک پہنچتی ہے جو دھیرے دھیرے وجود کو پگھلاتی اور گھنٹوں قاری کو مضمحل رکھتی ہے۔
پہلے بند میں شیخِ حرم کو نکاحوں سے فرصت ہی نہیں کے خیال سے پورا بند طنزیہ مادّے سے لبریز ہوگیا ہے۔ تما م تر ظلم وستم، دردوالم اور قول وقسم کی معنویت کا انحصار اس بات پر ہے کہ ضمیر زندہ ہو لیکن شیخِ حرم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ یہاں بے ضمیری کی علامت بنے ہوئے ہیں جس کا اثر آنکھ پر بھی ہے، یادداشت پر بھی ہے اور قلب پر بھی ہے۔ پانچویں مصرعے میں اسرائیل کو ’’بگڑے ہوئے گھوڑے‘‘ سے تشبیہ دے کر اہلِ عرب کی روایتی سواری کی منظر کشی سے طنزیہ فضا پیدا کی گئی ہے۔ بگڑے ہوئے گھوڑے پر زین کسنے کے لیے جس بہادری کی ضرورت ہوتی ہے شاعر کی نظر میں ویسا کوئی بہادر اہلِ عرب میں موجود نہیں ۔اس لیے یہاں طنز کے ساتھ ساتھ بے بسی اور بے کسی کی تصویر بھی سامنے آگئی ہے۔ علامہ اقبال نے ’’ذوق و شوق‘‘ میںکہا تھا کہ ؎
کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات
قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات
علامہ کے ان اشعار کے پس منظر میں اگر پہلے بند کو پڑھیں تو شاعر کا مقصود بہت واضح طورپر حاصل ہوجاتا ہے۔کیو نکہ جس دردو الم کو حسینؓ نے محسوس کیا تھا اور باطل طاقتوں کے جس سومنات کو غزنوی نے توڑا تھا اب اہلِ عرب میں ایسے کردار کا حامل کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔
دوسرے بند کی بولتی تصویر پر توجہ کریں تو محسوس ہوگا کہ شاعرنے خارج کے واقعات کو اپنے اندرتحلیل کرکے معنیٰ آفرینی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ مسیحا کے عمومی تناظر کو جس طرح یہاں بدلا گیا اس سے نہ صرف تصویر ی پیکر میں وسعت پیدا ہوئی ہے بلکہ گہرائی وگیرائی کی خوبی بھی پیدا ہوئی ہے۔ فلسطین کے حوالے سے عرب حکمرانوں کو دنیا ایک مسیحا کی نظر سے دیکھتی ہے لیکن اس مسیحا میں قوتِ مسیحائی کا محض فقدان ہی نہیں بلکہ شاعر کے مطابق انھیں خود ایک مسیحا کی ضرورت ہے۔مغربی طاقتوں سے زیادہ وہاں کی ظاہری لذت انگیزیوں سے ان کی رگوں میں خون کی جگہ پانی بھر گیا ہے۔یہ زردار اور دولت وثروت سے لیس ضرور ہیں مگر مغربی قوتوں کی غلامی نے مسیحا ہونے کی تمام خوبیاں ان سے سلب کرلی ہے۔نہ قوتِ ارادی ان میں باقی رہی، نہ قوتِ فیصلہ کے یہ مالک رہے اور نہ ضرورتوں میں صحیح تقاضوں پر عمل کرنے کی فہم وفراست ان کے کردار کاحصہ ہیں۔اس پس منظر سے جو صورتِ حال پیدا ہورہی ہے اس بند میں طنز کا تمام سرا اسی سے منسلک ہے۔ کیونکہ مسیحا کی مسیحائی یہاں زندگیِ نو کا پیغام دینے کے بجاے مصیبت و آزار کاسبب بن رہی ہے۔اس لیے کہ یہ خود لاچار اور بیمار ہیں۔ ان کی بیماری کی علامت یہ ہے کہ جب دوائوں کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ سورہ یٰسین پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس طرح پورا منظر چلتا، بولتا اور متحرک ہوگیا ہے۔
یہ نکتہ بھی یادرہے کہ یہاں سورہ’’یٰسین‘‘ کا استعمال محض قافیہ پیمائی کے لیے نہیں ہوا ہے بلکہ اس سے طنزیہ سوز میں اضافے کا کام لیا گیا ہے۔ فلسطین کو مددکی ضرورت ہے، اس مددکو شاعر نے دوا سے تعبیر کیا ہے ،مگر اہلِ عرب کا رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کررہے ہیں کہ فلسطین ختم ہوجائے اور مٹ جائے۔کیونکہ سورہ’’یٰسین‘‘ روح نکلنے کے وقت بطورِ خاص پڑھی جاتی ہے تاکہ آسانی سے انسان اس کارگہہِ حیات کو الوداع کہہ سکے۔ گویا فلسطین کو مٹانے کی استعماری منصوبے میں اہلِ عرب بھی برابر کے شریک ہیں۔
تیسرے بند کا لب لباب بھی مذکورہ بندوں کی طرح ہی ہے۔ مگر یہاں ’’فرعونِ زماں‘‘،’’شاہی حکیموں‘‘ اور ’’سرطان(کینسر)میں سردرد کی دوا ’’اناسین‘‘ کھانے کی ہدایت سے عجب شعریت پیدا ہوئی ہے۔مرض جس قدر بڑ ا ہے اسی قدر معمولی بلکہ غیر موزوں دوا کا انتخاب ہوتا ہے۔ پھر اس کی پیش کش کے لیے مستعمل الفاظ ’’لے،کھالے‘‘ میں لہجے کی حقارت نے طنز کو دوآتشہ بنادیا ہے۔
ان تینوں بند وںمیں تضاد بیانی سے خوبصورتی اور معنیٰ خیزی پیداکی گئی ہے۔اس نظم کی پوری فضا اس تکنیک سے بھری ہوئی ہے۔ ان بندوں میں بھی دومتضاد پہلوئوں کی ایسی تشکیل کی گئی ہے کہ ایک تیسری شکل اپنی تمام تر وسعت و بلندی کے ساتھ ظاہر ہوگئی ہے۔ اچھی شاعری میں اس قسم کی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ دومتضاد پہلوئوں کے ٹکرائو سے نکلنے والی تیسری صورت اپنے تمام ابعاد کو سمیٹتے ہوئے کافی بلندی تک جا پہنچتی ہے۔ یہ نظم ہمیں اسی بلندی تک لے جاتی ہے۔
فلسطین کے ساتھ ایک طرف اس کے اپنوں کا سوتیلا رویہ رہا ہے تو دوسری طرف ’’مجلسِ اقوام‘‘ کی مجرمانہ خاموشی بھی اس کی بربادی کی پوری طر ح ذمے دار ہے۔ ہم نے پیچھے اس کے جن اصولوں کو پڑھا ہے انھی تناظر میں ذیل کے بند کو بھی ملاحظہ کریں ؎
ہے پیشِ نظر سب کے قیامت کا یہ کہرام
خاموش ہے مجرم کی طرح مجلسِ اقوام
امداد ہو ظالم کی ملے اس کو ہی انعام
کس درد کی آخر ہیں دوا تیرے چچا سام
ہم لوگ فرشتے ہیں یہ کہتے ہیں شیاطین
اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین

ہر جرم چھپا لیتے ہیں ویٹو کے سہارے
ہر پاپ پچالیتے ہیں ویٹو کے سہارے
دھاک اپنی جمالیتے ہیں ویٹو کے سہارے
مجرم کو بچا لیتے ہیں ویٹو کے سہارے
ویٹو ہے کہ ظالم کے لیے ہے یہ حیاتین
اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین
پہلے بند قیامت کے کہرام میں تباہی و بربادی کے منظرنامے کو متشکل کرتے ہوئے شاعر نے قاری کے ذہن و دل کو خاصا متاثر کیا ہے۔ فلسطین میں بم اور بارود کے ذریعے برپا کیے گئے قیامت کے کہرام کا یہ منظر محض جنگی آلات سے متعلق نہ ہوکر کرداروں کے گھنائونے رویے سے بھی مربوط ہوگیا ہے۔ گویا یہاں شاعر نے ایک قیامت میں کئی قیامتوں کے مناظر کو قید کیا ہے۔ایسے حالات کو دیکھ کر مجلسِ اقوام کی مجرمانہ خاموشی بھی قیامت معلوم ہوتی ہے،ظالم کو سزا کے بدلے انعام ملنا بھی کسی قیامت سے کم نہیں اور شیاطین کا خود کو فرشتہ متصورکرنا بھی بڑی قیامت خیزی ہے۔ جب اتنی قیامتیں فلسطین پر ٹوٹ رہی ہوں تو چچا سام(امریکی صدر)کے لیے سوالیہ لہجہ اور بھی معنیٰ خیز ہوجاتا ہے ۔ اس طرح یہ پورا بند اپنی طنزیہ رفعت کا احساس دلا تاہے۔
دوسرا بند ویٹو پاور پر طنز یہ بیانیہ ہے۔ یہاں بھی اوپر کے بند کی طرح شاعر کے زخمی احساس کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس پاور کی آڑ میں دنیا جو کچھ دیکھ رہی ہے اسی کو یہاں محض دکھانے پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ پانچویں مصرعے کو سوالیہ لہجے کے انداز میں پڑھنے پر اس پاور کی ایک الگ ہی تصویر بنتی ہے۔اس میں قافیے کا لفظ’’حیاتین‘‘ اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ پورے منظر کو اس لفظ میں جس تخلیقی قوت سے سمیٹا گیا ہے اس کا جواب نہیں ہے۔طنّاز ذہن فنکار ہی ایسے خوشگوار لفظ سے قاری کا دل خون خون کرسکتا ہے۔
اس نظم کا ایک سرا یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان باہمی تعلقات کے حیران کن پس منظر سے بھی جڑا ہوا ہے۔ یہاں ان کے کردار کی کچھ ایسی تاریخی حقیقتیں تلاش کی گئی ہیں جن میں ان کے عملی مظاہر کے تضاد سے مضحک پہلو خود بخود اجاگر ہوگئے ہیں۔ یہ بند ملاحظہ کیجیے ؎
موسم ہو کوئی گرتے رہے ظلم کے اولے
ٹھنڈے نہ ہوئے آج بھی بارود کے گولے
دیکھے گا یہاں کون ترے دل کے پھپھولے
کیا وقت کی گردش ہے کہ ہٹلر کے ممولے
انساں کا لہو پی کے بنے بیٹھے ہیں شاہین
اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین
اس بند میں تصویرِدرد کی انوکھی کہانی مرتب کی گئی ہے۔ وقت اور اس کے تضادات کی ایک منظم فنّی تشکیل یہاں دیکھنے کو ملتی ہے جس میں تخیل کی نقش گری کے سہارے المیاتی مناظر کو استعاروں میں متحرک کرنے کا ہنر آزمایا گیا ہے۔غمناکی کی ایک پرچھائیں ’’ظلم کے اولے‘‘، ’’بارود کے گولے‘‘ اور ’’دل کے پھپھولے‘‘میں پھیلتی ہے۔ مگر اس سے بھی گہری اورپراثر پرچھائیں ’’ہٹلر کے ممولے‘‘ میں ایک علامتی اشارہ بن کر سامنے آتی ہے۔یہ سب کے سب مکمل پیکر ہیںجن میں ’’ہٹلر کے ممولے‘‘ بہت نمایاں ہے۔ اس میںتہہ داری بھی ہے، طنز کا پورا سامان بھی اور ڈرامائی منظر کے ساتھ ساتھ اسلوب کی ندرت بھی ہے۔ دنیا کے ظالم ترین انسانوںکی فہرست میں ایک نمایاں نام ہٹلرکا ہے، اس نے اپنے دورِ حکومت میں جرمنی کے اندر جو قیامت برپاکی تھی وہ دنیا کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اس قتلِ عام میں یہودیوں کی بڑی تعداد تہہِ تیغ کی گئی تھی۔اس کی قیامت خیزی کو دیکھتے ہوئے پور ی دنیا میں اس کے خلاف نفرت کے جذبات پیداہوئے اور یہودیوں کو انسانی حمایت ملی اور اس کی اشک شوئی کی گئی تھی۔ یہودی تاریخ میں اس کو ’’ہولوکاسٹ‘‘(عالمی قتلِ عام)کے نام سے یاد کرکے اس سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہٹلر کی نظر میں اس قوم کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔وہ اسے گرے پڑے اور ذلیل لوگوں میں شمار کرتا تھا اسی لیے اس نے پوری شدت کے ساتھ ا س کا قلع قمع کرنے کی ٹھانی تھی۔ڈاکٹر ظفرؔ کمالی نے یہودیوں کو ہٹلر کے ممولے اسی پس منظر میں کہا ہے کہ ’’ممولے‘‘ یہاں بے حیثیت چیز یعنی یہودیوں کا استعارہ ہے۔ یہی ممولے آج فلسطینی انسانوں کا لہو پی کر شاہین بنے بیٹھے ہیں۔ یہ وقت کی کیسی گردش ہے جس نے وقت کی ساری طنابیں کھینچ دی ہیں۔جو کام اس قوم کے ساتھ ہٹلرنے کیا وہی آج یہ فلسطینیوں کے ساتھ دہرارہی ہے۔گو یا یہ قوم ہٹلر سے نفرت کرتی ہے مگر اسی کی راہ پر چل کر خودکواس کا ہمنوابھی بناتی ہے ۔ یہ کیسا تضاد ہے۔ ہٹلر کا کارنامہ جب اس کی نظر میں عالمگیر تباہی ہے تو خود یہ اپنے کارنامے کو کیا نام دیں گے۔اس منطقی انجام سے شاعر نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور تیرو نشتر کاخوب وارکیا ہے جو ٹھیک نشانے پر لگا ہے۔یہاں شاعر کی ذہنی رسائی اورظرافتی نکتہ آفرینی دیکھیے کہ اس نے ’’شاہین‘‘ کا لفظ بڑی چابک دستی سے برتا ہے۔ انسان کا لہو پی کر شاہین بننا کتنا خوبصورت طنز ہے۔شاہین تو طاقت کی علامت ہے مگر اسرائیل کی طاقت کاسارا انحصار فلسطینیوں کے لہو پرہے۔طنزیہ سوز کی اس مثال کو یقینا ظرافت میں ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔
اس نظم میں معاملات کی دوربینی اور کردار کی دروں بینی کا عجیب وغریب زاویہ اس وقت بھی دیکھنے کو ملتا ہے جب شاعر فلسطین کو عالمی سیاست کی تجربہ گاہ کے طورپر پیش کرتا ہے۔ نظم کا یہ پہلو نہ صرف کافی اہم ہے بلکہ اس کی المناکی کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں سیاست کے شجر کو انسانوں کے لہو سے سینچا جاتا ہے۔ایسی سیاست کس قدر سوہانِ روح ہے اس کی تصویر ذیل کے بندوں میں ملاحظہ کیجیے ؎
ہوتا ہی نہیں ختم یہ کھیل اب بھی ہے جاری
دن رات تماشا ہی دکھاتے ہیں مداری
دولت کے پجاری ہیں یہ دولت کے پجاری
جال اپنا بچھائے ہوئے بیٹھے ہیں شکاری
بجتی ہے سیاست کے سپیروں کی بہت بین
اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین

بھرتے ہیں دکھاوے کے لیے جتنے یہاں آہ
انجم ہے کوئی ان میں کوئی مہر کوئی ماہ
اے کاش کہ ہوتے وہ ترے سچے بہی خواہ
سب تجھ کو سیاست کی سمجھتے ہیںچراگاہ
کیوں فکر انھیں ہو کہ یہ حالات ہیں سنگین
اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین

بڑھتی ہی چلی جاتی ہے یرقانی سیاست
کیا رنگ دکھائے گی یہ سرطانی سیاست
کب تک یہ خیاباں میں بیابانی سیاست
کب تک تو ابھی جھیلے گی شیطانی سیاست
انصاف کی ہوتی ہے کہیں ایسے بھی تدفین
اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین
’’سیاست کے سپیروں کی بین‘‘،’’سیاست کی سمجھتے ہیں چراگاہ‘‘،’’یرقانی، سرطانی، بیابانی اور شیطانی سیاست‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے شاعر نے الفاظ کے اندر موجود معانی کو اپنے تخیّل کی خلّاقی سے مصوّر کردیا ہے۔ یہاں کرداروں کے ساتھ ساتھ کیفیتوں کے اظہار میں دھیمے دھیمے درد کو چھپادیاگیا ہے۔ جب قاری اس کو محسوس کرتا ہے تو سیاست کی دھیمی اور بسیط المناک کیفیت اس کے وجود پر محیط ہوجاتی ہے۔ تینوں بند وقار اور متانت سے تھمے ہوئے لہجے میں کسی چوٹ کھائے ہوئے دردمند دل کی آواز کی طرح سامنے آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان میں ’’برہنہ حرف نہ گفتن کمالِ گویائی‘‘ جیسی شان پید ا ہوگئی ہے۔
ان تینوں بندوں میں گھنائونی سیاست کے قابلِ نفریں پہلو تو مشترک ہیں۔ مگر شاعر نے اپنے شعری وجدان سے ایسی سیاست کی جو معنیاتی جہتیں تلاش کی ہیں وہ کردار سے لے کر صورتِ حال پر شدید چوٹ کرنے کے فنی رچاوکا احساس دلاتی ہیں۔’’دولت کے پجاری‘‘، ’’دکھاوے کی آہ‘‘ اور ’’کاش کے ہوتے وہ ترے سچے بہی خواہ‘‘ میں مضمر انسان کی جاہ پرستی ، ریاکاری اور مصلحت کوشی پر غورکرتے ہوئے ہم سیاست کے جس اندیکھے پہلو تک پہنچتے ہیں اس میں شاعر کے لہجے کی سرشاری ذہن و دل کو گرفتار کرلیتی ہے۔
دکھ کی سیج پر سجی یہ نظم رجاو امید کے جس ایقانی بند پر ختم ہوتی ہے وہ اس کو مجموعی حیثیت سے ایک مکمل اکائی میں تبدیل کردیتا ہے۔قاری کے قلب و جگر کوبرماکر رکھ دینے والی اس نظم میں یہ بند امید کی کرن کا وہ ہالہ ہے جو دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ زندگی کی متاعِ گرانمایہ رہا ہے۔ بجھے بجھے دل اور ڈوبی ڈوبی نبضوں میں یہ بند روح دوڑانے کا کام کرتا ہے۔ظلم کا خاتمہ یقینی ہوتا ہے اور طاغوتی طاقتوں کا انجام ہمیشہ شکست خوردگی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اسی تاریخی سچائی پر شاعر نے اس نظم کو ختم کرکے اپنی مزاحمتی آواز میں خاموش گونج پیداکی ہے۔پورے طورپر المیاتی اور دردناک فضا میں طربیہ اختتام سے قاری اپنے حوصلے کو دوبارہ مجتمع کرنے لگتا ہے اور شاعر کا ہم خیال بن کر نئی روشنی لیے نظم کو مکمل کرتا ہے۔ یہ بند ملاحظہ کیجیے ؎
سینہ جو ترے سامنے وہ تان رہے ہیں
یہ کھیل ہے کس کا یہ سبھی جان رہے ہیں
منہ سے نہ کہیں دل سے مگر مان رہے ہیں
پردے میں چھپے شخص کو پہچان رہے ہیں
اک روز یہ بدلے گی فضا بدلے گا یہ سین
اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین
فلسطین کاموضوع جس قدر اہم تھا شاعر نے اسی قدر اسلوب میں نرمی اور تحمل کا رویہ اختیار کیا ہے اس کی مرکزی جھلک پوری نظم میں باربار آنے والے اس مصرعے’’اے ارضِ فلسطین مری ارضِ فلسطین‘‘ میں دکھائی دیتی ہے۔ اس کے مخاطبانہ لہجے میں جو سوز اور درد ہے، ہمدردانہ رقت پسندی اور احساسات کی جوگداختگی ہے وہ ہربار نئے نئے تاثر میں ڈھلتی ہے۔ہر بند ایک نیا زاویہ پیش کرتا ہے جو فلسطین کی نازک حالت کا آئینہ ہوتا ہے، یہ آئینے باربار بدلتے ہیں اور قاری کو درد کی ایک نئی لہر دے جاتے ہیں،جب وہ اس نئی لہر کے ساتھ اس مصرعے کو پڑھتا ہے تو وہ خودکو متنوع کیفیات میں اسیر پاتا ہے اس لیے یہ مصرعہ نہ صرف قاری کو باربارمضمحل کرتا ہے بلکہ اس بات کا بھی احساس دلاتا ہے کہ نظم لکھتے وقت شاعر کا وجود کس قدر ٹوٹ رہا ہوگا۔
یہ پوری نظم تضاد بیانی کے خاص حربے کو ذہن میں رکھ کر لکھی گئی ہے جس میں ’’شیخ سعدی سے لے کر شیخ چلی تک‘‘ والی کیفیت نئی نئی صورتوں میں سمیٹی گئی ہے۔عادل کا عدالت کی توہین کرنا،فلسطین پر ظلم و ستم کی حالت میں شیخِ حرم کا نکاح میں مصروف رہنا اور جنگی تعاون کی جگہ صبر کی تلقین کرنا ، ہٹلر کے ممولے کا شاہین بننا ،دوائوں کی حاجت کے وقت یٰسین پڑھنا، ظالم کو انعام ملنا، شیاطین کا خودکو فرشتہ کہنا اور سرطان میں اناسین کھانے کی تلقین ، یہ سب تضادات کی انوکھی مثالیں ہیں جن سے یہ نظم لطیف طنز کا اشاریہ بن جاتی ہے۔ طنز نگار کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ کسی موضوع کو نشانہ بناتے ہوئے لطافت کے جوہر کو ہرآن ملحوظ رکھے۔ مذکورہ تضادات میں یہ جوہر ہمیں شاعر کی جذباتی گہرائی کے ساتھ دکھائی دیتا ہے اس لیے یہ بات کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ ڈاکٹر ظفرؔ کمالی کسی بھی موضوع پر نفرت کی نظر ڈالنے سے پہلے اس پر محبت کی نگاہ ڈالتے ہیں جو بڑے طنز نگار کی خصوصیات ہیںاسی لیے وہ چھوٹے سے چھوٹے پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔فلسطین پر اسرائیل کے مظالم کسی تنہا قوت کا عنوان نہیں بلکہ اس کے ابعاد میں یورپ کے ساتھ ساتھ عرب ممالک اور مجلس اقوام سب بلا واسطہ یا بالواسطہ شریک ہیں جس کی مصوّری شاعر نے لطیف استعاروںاور کنایوںمیں کی ہے جو بطورِ صنعت استعمال ہونے سے زیادہ توضیحِ مقاصد کا کام کررہے ہیں۔ لہٰذا انھیں محض آرایشِ شعر کے لیے نہیں پڑھاجاسکتا۔
فلسطین کو صبر کی تلقین کے انداز میں یہ پوری نظم لکھی گئی ہے۔صبر کی تلقین کا ایک لہجہ وہ ہوتا ہے جس میں ستم زدہ کے سامنے ظالم کے عملی تضادات کو گنواگنواکر اس کی اشک شوئی کی جاتی ہے۔ اس لہجے میں زہرناکی ایک خاص انداز میں ارتقائی مراحل طے کرتی ہے جس سے حزنیہ تصویر میں نالہ وفریاد سے زیادہ شکوہ شکایت اور مایوسی وبرہمی کامتاثر کن زاویہ ابھرتا ہے۔ یہی انداز اس نظم میں اپنایاگیا ہے اسی لیے یہاں شاعر کی حیثیت اس شخص کی طرح ہے جسے زمانے کے تیروں نے زخمی زخمی کردیا ہو اور وہ مجبور اور آزردہ خاطر دنیا کے عیبوں کو براکہتا ہو ا دوسروں کوبھی اس کے برے نتائج سے آگاہ کرتا ہو۔
نظم’’اے ارضِ فلسطین‘‘ اپنی مجموعی ساخت میں فکری بنیاد پر اپنا وحدت تاثر قائم کرتی ہے۔ موضوع کے الگ الگ ٹکڑوں کو جوڑکر پوری نظم کو عضویاتی کل کے احساس سے مملو کردیاگیا ہے جس میں ارتقا بھی ہے اور تناسب و توازن کا فنی رچاو بھی۔ عالمی موضوع پر اظہارِ خیالات کرتے ہوئے شاعر کوجس نزاکت، وسعت، گہرے مشاہدے، جرأتِ اظہار اور درد مندی و دل سوزی کامظاہرہ کرنا چاہیے ظفرؔ کمالی اس پر پورے ا ترتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظم میں انھوں نے فلسطین پر روارکھی جانے والی جارحیت، وحشت ودرندگی، سفاکی اور بہیمانہ مظالم کو اجاگر کرتے ہوئے طنز کے پورے اہتمام کے ساتھ ساتھ مزاح میں بھی ایسی زہرناکی بھردی ہے کہ قاری زہرِ خند سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ ظفرؔ کمالی کی ظرافت ہنسے ہنسانے کے بجاے کردار کے انفس و آفاق کو آئینہ دکھانے سے عبارت ہے۔
فلسطین کے موضوع پر لکھی جانے والی نظموں میں یہ نظم فکر وخیال کے ساتھ ساتھ اپنے اسلوب میں بھی نئی پہچان بناتی ہے۔ اس موضوع پر دیگر تخلیقات فلسطین کے محور پر گھومتے ہوئے فلسطین ہی تک رہتی ہیں مگر یہ نظم اسی محور پر عالمی تناظر کا بیانیہ بن جاتی ہے۔ اپنی اس انفرادی پہچان سے یہ نظم اردو ظرافت میں زندہ رہے گی۔



Previous articleاے ارضِ فلسطین از ڈاکٹر ظفرکمالی
Next articleدل دھڑکتا ہے(شعری مجموعہ) از ڈاکٹر افروز عالم

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here