سیفی سرونجی کا تعلق مدھیہ پردیش کی زرخیز سرزمین سرونج سے ہے ۔سرزمین سرونج کی مناسبت سے ہی انھوں نے اپنا نام سرونجی اختیار کیا۔ سیفی سرونجی نے مختلف اصناف پر طبع آمائی کی ہے،سرونجی صاحب نے تقریباً ۶۸ کتابیں تحریر کی ہیں۔ عرصۂ طویل سے رسالہ’ انتساب‘ کی ادارت کر رہے ہیں۔ سرونجی صاحب بچپن سے ہی علم و ادب کے شیدائی رہے ہیں۔ ان کی تحریریں مختلف رسائل میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ سرونجی صاحب کا ناول ’’ہاں!میں دیش بھکت ہوں‘‘ کافی متاثر کرنے والا ہے ،یہ ناول 2014میں منظر عام پر آیاتھا۔
اس ناول میں وہ فضا دیکھنے کو ملتی جو پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے یعنی فرقہ وارانہ فسادات ۔ ناول کی کہانی جاوید نام کے ایک کردار سے شروع ہوتی ہے جو وطن سے محبت کرنے والاہے، اسے وطن کے معاملوں سے دلچسپی 6سال کی عمر سے ہی شروع ہوگئی تھی، جب اس کی ماں کو پتہ چلا تو وہ بے حد خوش ہوئی کہ میرا بچہ اس عمر میں وطن سے محبت کرتاہے شاید آگے جاکر یہ کوئی بڑا کارنامہ انجام دے۔ جاوید کے والد عبدالغفار، جنھوں نے جنگ آزادی میں انگریزوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کی تھی۔ اس کے دادا 1857کی تحریک میں بہادر شاہ ظفر کی فوج میں اعلی عہدے پر فائز تھے، کیوں کہ دنیا کے ہرماں باپ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد اُن کے نقش قدم پر چلے۔ جب جاوید کی ماں کو یہ پتا چلتا ہے کہ جاوید نے مدرسے میں وطن پر نظم پڑھی تو وہ پھولی نہ سمائیں اور وہ ماضی میں کھو گئیں اور اپنے شوہر کے کارناموں کو یاد کرنے لگیں۔ جاوید خود بھی ذہین تھا ،وہ شعر کہتا تھا ۔ہندوستان کے مختلف رسائل میں اس کی غزلیں شائع ہوتی تھیں۔ کالج کی لڑکیاں ان پر جان نچھاور کرتی تھیں۔ زیبا جو اس کی شاعری کی عاشق تھی، وہ اندر ہی اندر جاوید کو چاہتی تھی، لیکن عشق کا اظہار نہیں کرسکتی تھی۔ جاوید کے دل و دماغ پر زیبا کا جادو چل گیا ۔وہ بھی زیبا کے عشق میں مبتلاہوگیا، وہ جاوید جودیش بھگتی کے سوا کوئی شعر نہ کہتا تھا اب وہ عشقیہ شعر کہنے لگا۔ اس ناول کا ایک اقتباس دیکھئے:
’’حضرت! یوں تو میری پوری شاعری اپنے ملک اپنے وطن سے متعلق ہے، کسی اور موضوع کو جی زیادہ پسند نہیں کرتا ،لیکن زندگی میں کبھی ایسے موڑ بھی آتے ہیں جب انسان کا دل اپنے اختیار میں نہیں رہتا ۔آج میں جو نظم سنانے جارہاہوں اس میں میرے دل کی بات جو میں اسکے سامنے نہیں کہہ سکا جس کیلئے یہ نظم کہی‘‘۔
آخر کار زیبا ،جاوید کوخط لکھتی ہے کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ لکھنٔو چھوڑ کر دہلی آگئی ہوں ۔زیبا خط میں یہ بھی لکھتی ہے کہ گھر والے میری شادی کروارہے ہیں۔ اپنے گھروالوں کو میرے گھر بھیجوجاوید۔۔۔جاوید ماں سے بات کرتاہے اور جاوید کی والدہ مان جاتی ہیں۔ زیبا کی ماں اپنی بیٹی سے کہتی ہیںکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جاوید مشہور شاعر و ادیب ہیں، لیکن ابھی تک بے روز گار ہیں ۔شاعری سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔زیبا اپنی ماں کو یقین دلاتی ہے کہ وہ بہت جلد اچھے عہدہ پر فائز ہوجائے گا۔
جاوید کی شادی زیبا سے ہوجاتی ہے اور ایک سال بعد اس کے گھر بچی پیدا ہوتی ہے، گھر کے اخراجات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں اور چار سال ہوگئے جاوید کو نوکری نہیں ملتی ہے۔ ایک دن اس کی ماں کی طبعیت اچانک خراب ہوجاتی ہے ،وہ جاوید کو اپنے پاس بلاتی ہے اور کہتی ہے ۔’’ تونے میرے خواب پورے نہیں کئے‘‘۔ جاوید یقین دلاتا ہے کہ آپ کے خوابوں کو بہت جلد پورا کروں گا ۔اب جاوید بے بس ہوجاتاہے، آخر کاروہ سوچتاہے کہ شاعری کے ذریعے ملک کی خدمت کی جاسکتی ہے، تحریک آزادی میں اردو صحافت اور اردو شاعری نے ملک کی خدمت کی ہے۔
اِس ناول میں سیفی سرونجی نے جاوید کی تنگدستی کو پیش کیا ہے، دوسری طرف سیاسی ،معاشی اور معاشرتی حالات کو بھی مدنظر رکھا ہے جو آج کا مسئلہ ہے وہ بے روز گاری ہے۔
آخر کا ر ایک لمبے عرصے کے بعد جاوید کو فوج میں نوکری مل جاتی ہے۔ اس کی ماں کی خواہش پوری ہوتی ہے اور وہ نوکری پر چلا جاتاہے۔ واپس گھر میںآتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ جاوید کو واپس بلایا جاتاہے، جاوید کے سرحد پر جانے سے پہلے تمام دوست ملنے آتے ہیں اس ناول کا ایک اقتباس دیکھئے:
’’خدا تمہیں سرحد پر کامیاب کرے اور ہمارے دیش کا سر بلند کرے،مگر جاوید یہ مسلمانوں کی بدنصیبی نہیں تو کیا ہے؟ کہ انھیں قدم قدم پر امتحان دینا پڑتا ہے ۔یہاں اپنی وفاداری کاا ور سرحد پر جانے کا۔ پورے ہندوستان میں ایک بار پھر مسلمانوں کو اس بڑے امتحان سے گزرنا پڑے گا۔ اگر خدانخواستہ پاکستان کے بارے میں کوئی ایک لفظ بھی زبان سے نکل گیا تو حوالات۔۔۔ میں تم ہی بتائو یہ؟ کس طرح کی زندگی ہم جی رہے ہیں یا جینے پر مجبور ہیں آخر کیوں؟ ہم نے کیا گناہ کیا ہے؟ ہم کس پاداش میں یہ سزا بھگت رہے ہیں ؟اور کب تک یہ سزا بھگتتے رہیں گے؟ بولو جاوید،چپ کیوں ہو؟‘‘
اب ملک میں جب فسادات ہوئے انکل کمار جیسے بہت ہی کم لوگ تھے جو دوسروں کی جان بچاتے تھے۔ اب طرح طرح کے الزامات مسلمانوں پر لگائے گئے اور یہ بھی کہا گیا کہ مسلمانوں کو پاکستان چلے جانا چاہئے اور ہزاروں مسلمانوں کے گھر برباد ہوگئے ۔ایسے موقعہ پر سیاست عروج پر تھی، الیکشن کادور نزدیک تھا ہر نیتانے، جھوٹے وعدے کئے کہ معاوضہ دلائیں گے، لیکن یہ فسادات کم نہیںہوئے۔ ایک شہر میں روک تھام ہوئی تو کسی دوسرے شہر میں فساد ہو جاتاتھا ۔ جاوید کی ماں ہمیشہ سوچتی تھی کہ جس دیش کے لئے ہمارا پورا خاندان شہید ہوگیا ان کاگھر بھی محفوظ نہیں رہا ۔آخر کار دشمنوں کی گولیوں سے جاوید کا جسم چھلنی ہوگیا ماں کا پہلے ہی انتقال ہوگیا، جاوید کی بیوی جوانی میں بیوہ ہو گئی۔
مختصراً یہ کہ یہ ناول بہت متاثر کرنے والا ہے۔ یہ ناول عشق کی داستان کے ساتھ شروع ہوتاہے ،جاوید نام کا جو کردار ہے وہ باشعور ہے ۔درمیان میں ڈپریشن کا شکاربھی ہوتاہے ۔نوکری نہ ملنے کی وجہ سے عرصہ دراز کے بعد اس کو نوکری ملتی ہے،لیکن جاوید کا پوراخاندان ملک کی آزادی کیلئے اپنی جان وقف کر چکا تھا۔ لیکن پھر بھی مسلمان ہونے کے ناطے اس کا گھر محفوظ نہیں رہا اور جب فساد بر پا ہوئے تو مسلمانوں پر ظلم و تشددکیا اس لئے کہ وہ صرف مسلمان تھے۔ یہ ناول قارئین کوسوچنے پر مجبور کرتاہے ۔
یہ ناول تخیل سے زیادہ حقیقت پسندی کی طرف زور دیتاہے۔ ’ہاں! میں دیش بھکت ہوں‘ میںسیفی سرونجی نے جو کہانی پیش کی ہے وہ قاری کے ذہن پر کئی سوال کھڑے کرتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ناول اکیسویں صدی کے چند نمایاں ناولوں میں شمار ہوتاہے تو غلط نہیں ہوگا۔سیفی سرونجی کا نام ہمیشہ اس ناول کی وجہ سے زندہ رہے گا۔
٭٭٭
Mob:- 9682378366