کچھ دنوں پہلے گرامی قدر جناب مولانا احمد بیگ ندوی کے ہمراہ بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر اور بلند پایہ ادیب و نثر نگار جناب تابش مہدی کے دولت خانہ پر جانے کا شرف حاصل ہوا _ملاقات کا دورانیہ تین چار گھنٹہ کو محیط رہا _اس درمیان مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور تابش مہدی صاحب کے وسیع مشاھدات و تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا _لاریب وہ ایک نستعلیق اور پرکشش شخصیت کے مالک ہیں _نفاست و ظرافت کا حسین سنگم ہیں _ان کی آنکھوں سے ذہانت مترشح ہوتی ہے _بولتے ہیں تو منھ سے پھول جھڑتے ہیں _وہ اگلے وقت کے انسان ہیں _پرانے لوگوں کے صحبت یافتہ ہیں _بڑوں کی مجالس کے حاضر باش رہے ہیں _عنفوان شباب میں مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادی قدس سرہ کی روحانی مجالس میں شریک ہوچکے ہیں _پرتاب گڑھ کی روحانی شخصیت مولانا محمد احمد پرتابگڑھی نور اللہ مرقدہ کے مرید خاص ہیں – ان دنوں میخانہ قمر کے بادہ خواروں میں سے ہیں _اردو و فارسی کا بہترین ذوق رکھتے ہیں – فن تجوید اختصاصی فن رہا ہے _اس فن پر کامل دستگاہ رکھتے ہیں _سخن فہمی اور سخن شناسی میں معروف ہیں _سادہ زبان میں گہری باتیں کہہ جاتے ہیں – کئی دہائیوں سے مشق سخن جاری ہے _اب اس سلسلہ میں مرتبہ استادی پر فائز ہیں – ملک و بیرون ملک کی درجنوں ادبی محفلوں اور مشاعروں میں شریک ہوکر اپنا کلام سنا چکے ہیں اور اہل علم و ادب سے داد و تحسین کے نذرانے وصول کرچکے ہیں _غزل گوئی سے خاص مناسبت ہے – اب تک ہزاروں غزلیں تخلیق کرچکے ہیں _آپ کی غزل گوئی کے مختلف نمونے کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں _تعبیر، کنکر بولتے ہیں، غزل نامہ آپ کی غزلوں کے بہترین مجموعے ہیں _(یہ بھی پڑھیں!علم کے موتی “کتاب کائنات “از عبدالمالک بلندشہری)
اسی طرح آپ کو ذات نبوی سے والہانہ عشق ہے _اہل دل کی صحبت میں رہ کر دل سراپا محبت ہوچکا ہے _مولانا احمد پرتابگڑھی ایسی شخصیت کی صحبت میں رہ کر کسی کے دل کی دنیا نہ بدلے یہ ناممکن ہے _تابش مہدی کا دل بھی معرفت حقیقی سے سرشار ہے _عشق نبوی آپ کے کلام سے خوب مترشح ہوتا ہے _اسی عشق و محبت کے جذبہ بے پناہ سے مجبور ہو کر آپ نے نعت گوئی و منقبت نویسی کی راہ میں قدم رکھا اور الفاظ کا سہارا لے کر اپنے دل کی کیفیت بیان کی -غزل گوئی کی طرح نعت گوئی میں بھی آپ مشہور ہیں _اس صنف میں بھی آپ نے خوب لکھا اور خوب کہا _آپ کی نعت گوئی کے مجموعے آپ کی مہارت نعت خوانی کے گواہ ہیں _ لمعات حرم، سلسبیل، صبح صادق طوبی وغیرہ عمدہ نعتیہ مجموعے ہیں _
غرض راقم کی ان سے یہ پہلی ملاقات تھی – انھوں نے بڑی اپنائیت اور محبت کا مظاہرہ کیا اور اپنے علم و ہنر سے زیادہ اخلاق و کردار سے متاثر کیا _وہ واقعی ایک دلچسپ اور ملنسار انسان ہیں – پرانی قدروں پر یقین رکھتے ہیں اور خوشبو کا کاروبار کرکے چمن انسانیت کو معطر کرنے کا گراں قدر فریضہ انجام دے رہے ہیں _انھوں نے وقت رخصت اپنی دو تصانیف عنایت فرماکر بڑی عزت افزائی فرمائی _
(١) شعر و نثر کی جمالیات
تابش مہدی ایک پختہ قلم کار،صاحب اسلوب ادیب اور بصیرت مند تنقید نگار ہیں _وہ عرصہ سے ادبی و تنقیدی مضامین لکھ رہے ہیں اور اردو ادب کے سرمایہ میں بیش قیمت اضافہ کررہے ہیں :انھوں نے اب تک درجنوں علمی مذاکروں اور ادبی پروگراموں اور سیمیناروں میں شرکت کرکے اپنے تنقیدی و ادبی مقالات پڑھتے ہیں_پیش نظر کتاب انہی جیسے چند مقالات کا مجموعہ ہے _اس مجموعہ میں ادبی و تنقیدی مضامین شامل ہیں، کلام غالب میں قومی یک جہتی کے تصورات، ادب اطفال اور شرافت حسین رحیم آبادی، سید ابوالاعلیٰ مودودی کا اسلوب نگارش، مولانا احمد پرتابگڑھی کی عارفانہ شاعری، ساحل فریدی کی شاعری، عظمت انسانیت کا فن کار منشی پریم چند سمیت متعدد بیش قیمت مقالات شامل ہیں – یہ کتاب ٢٠١٩ء میں منظر عام پر آئی جسے ادبیات عالیہ نے شائع کی _اس کی قیمت تین سو روپے ہے جو متوسط طلبہ کے لیے بہت زیادہ ہے کاش اس کی قیمت دو سو روپے ہوتی _
(٢)مشک غزالاں
تابش مہدی ایک بہترین غزل گو شاعر ہیں _ان کے اب تک درجنوں مجموعہ ہائے غزل شائع ہوچکے ہیں زیر نظر کتاب بھی ان کی غزل گوئی کا شاہکار ہے _کتاب کا آغاز تابش مہدی کے علم ریز مضمون میرا نظریہ شعر و ادب سے ہوتاہے انھوں نے اس میں تفصیل سے شعر و ادب کے تعلق سے مختلف مباحث بیان کئے ہیں ان کانظریہ ادب کے تعلق سے بڑا واضح ہے وہ ادب میں کسی گروہ بندی یا تعصب کے قائل نہیں، ادب کسی مخصوص مذھب و نظریہ کا ترجمان نہیں ہوتا _اس مضمون میں انھوں نے بڑے شرح و بسط کے ساتھ اپنی آپ بیتی بیان کی ہے اور ادب سے تعلق کب ہوا، کن. وجوہات کی بناء پر انھوں نے اس کوچہ میں قدم رکھا ان تمام مباحث کو سمیٹا ہے _تابش مہدی پرانی قدروں کو دل سے عزیز رکھتے ہیں اور ان کے فروغ و ترسیل کو اہم مانتے ہیں _اسی لیے وہ مختلف حیلوں اور تدبیروں سے انسان کو رذائل سے بچنے کی تلقین رکھتے ہیں _رذائل میں سب سے بڑا رذیلہ کبرہے جسے ام الامراض کہا گیا ہے اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں
جس میں کبر و حسد ہے نخوت ہے
وہ حریف سکون و راحت ہے
غرض ان کی غزلیں غمزہ و عشوہ، گل و بلبل اور حسن و عشق کے مضامین سے زیادہ اہم موضوعات پر مشتمل ہیں