بھکتی کے لغوی معنی عشق یا محبت کے ہیں ۔ بھکتی در اصل خدا سے حد درجہ عشق ہے اور یہ تصوف کی ہندوستانی شکل ہے۔بھکتی تحریک کے مبلغین نے مختلف مذاہب کی یکسانیت ، خدا کی وحدانیت ، انسانی بھائی چارے کے علاوہ طبقاتی فضیلت کے بجائے انسانی اعمال کی اہمیت کی تعلیم کو عام کیا۔
بھکتی تحریک نے گیارہویں صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی کے دوران لوگوں کے عقائد اور رسومات کی اصلاح کرنے کی کوشش کی ۔ بھکتی تحریک کی ابتدا گیارھویں صدی عیسوی میں جنوبی ہند سے ہوئی اور اس کے بانی سوامی رامانج (1016 .. 1137 ء ) تھے ۔ بھکتی تحریک کا جنوبی ہند میں شروع ہونے کا سبب یہ تھا کہ ہندوؤں کو مسلمانوں ملنے جلنے اور اسلامی تعلیمات سے روشناس ہونے کا موقع پہلے پہل جنوبی ہند میں ہی ملا تھا۔
بھکتی تحریک کے اثرات
بھکتی تحریک کے اثرات آہستہ آہستہ ہندو دھرم پر مرتب ہوئے لیکن بھکتی تحریک کے دیر پا اثرات بعض شعبۂ حیات پرمحسوس کیے گئےجن میں زبان وادب اور موسیقی کے شعبے خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ بھکتی مصلحین کی کوششوں کا پہلا نتیجہ تو یہ نکلا کہ ہندو مذہب میں کچھ وسیع الخیالی پیدا ہوئی اور ذاتی گیان دھیان (عبادت ) کے ذریعے پر ماتما ( خدا ) تک رسائی کو مکن سمجھا جانےلگا ۔ صوفیوں کے فلسفہ وحدت الوجود اور بھکتی تحریک نے انسانی روح کو خدا کی روح کا جز و قرار دیا ۔ محبت اور نیک کاموں کے ذریعے خدا تک رسائی کو ممکن سمجھا گیا ۔ بھکتی تحریک کے رہنماؤں نے جہاں ذات پات کے نظام کی مخالفت کی وہاں وہ اسلامی شریعت کے بھی مخالف رہے اور ایک ایسے معاشرے کے قیام کے متمنی رہے جس میں مروجہ ہندو اور مسلم عقائد کو کوئی اہمیت حاصل نہ ہو اور بھکتی پیشواؤں اور مصلحین نے جس عام فہم زبان میں اپنے عقائد کا پرچار کیا وہ سنکرت سے دور فارسی کے نزدیک تھی ۔ یہی عام فہم زبان صوفیائے کرام نے بھی استعمال کی تھی اور اس طرح فارسی ، بر بھی اور ترکی زبانوں کے اشتراک سے آہستہ آہستہ ایک زبان وجود میں آگئی جسے 1647ء میں اردو زبان کہا گیا ۔ بھکتی تحریک میں رادھا اور کرشن کے تصور کو خصوصی اہمیت حاصل ہوگئی تھی ، جس میں حسن و عشق اور موسیقی کا امتزاج شامل تھا ۔ اس طرح بھکتی تحریک کے ذریعے ہندوستانی موسیقی کو بھی بڑا فروغ حاصل ہوا اور نئے نئے راگ اور راگنیاں ایجاد ہونے لگیں ۔ بعض صوفیاء کے نزدیک محفل سماع ( موسیقی کے ساتھ خدا سے محبت کا اظہار کو جائز سمجھا گیا تھا ۔ اس لیے برصغیر کے مورنین کی متفقہ راۓ ہے کہ چشتی صوفیاء ، بھکتی شعراء اور گویوں نے برصغیر میں موسیقی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا اور ہندوستانی موسیقی کو مندروں سے نکال کر گلی کوچوں میں عام کیا۔
بھکتی تحریک کا ایک مقصد ہند و مسلم معاشرے کاانضمام یا متحد وقومیت کی تشکیل بھی تھا ۔ اس مقصد کے لیے پہلی شعوری کوشش سولہویں صدی عیسوی میں اکبر بادشاہ نے دین الہی ( 1581 ء ) کے ذریعے کی لیکن یہ کوشش اس لیے نا کام رہی کہ ہندو اور مسلمان دونوں اس کے خلاف تھے ۔ مسلمانوں میں شیخ احمد سر ہندی مجددالف ثانی نے اس تحریک کی شدید مخالفت کی اور ہندوؤں میں راجہ مان سنگھ نے اکبر بادشاہ کو صاف صاف بتادیا تھا کہ ہندومت اور اسلام کا پیغام کسی صورت میں بھی ممکن نہیں ہے ۔ بھکتی تعلیمات کا اثر قبول کرتے ہوئے سترہویں صدی عیسوی اکبر بادشاہ ہی کے خطوط پر متحد ہ قومیت کو وجود میں لانے کی دوسری شعوری کوشش داراشکوہ نے کی جسے اورنگزیب عالمگیر نے ناکام بنادیا ۔ ( 1658ء ) بھکتی تحریک نے اپنے زمانہ عروج میں دلت جاتیوں ( اچھوتوں ) کا سابی مقام بلند کرنے کے لیے اہم کردارادا کیا اور ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ ذات پات کی اورپیچ بیچ ہندوستان سے ختم ہو جاۓ گی ۔ مگر جلد ہی برہمنوں نے اپنا روایتی کردار ادا کر کے بھکتی تحریک کو ہندو دھرم کا ہی جزو بنادیا ۔ زبان وادب اور موسیقی میں جو تبدیلیاں اس تحریک کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئی تھیں انہیں ہندومت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ سنسکرت، اردو اور ہندی کے علاوہ گجراتی ، بنگالی اور پنجابی کے فروغ اور اشاعت کا بھی ذریعہ بنی اور اس کا یہی اثر دیر پا ثابت ہوا۔