احسان آوارہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں، وہ نہ صرف باندہ بلکہ پورے بندیل کھنڈ میں ایک معتبر شاعراور حساس ادیب کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔احسان آوارہ کا پورا نام احسان الحق قریشی ہے۔ ۲۶؍مارچ ۱۹۳۰ء کو فتح پور میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام انوار الحق قریشی تھا۔جو ضلع فتح پور کے رہنے والے تھے۔اپنی پہلی بیوی کی موت کے بعددوسری شادی ضلع باندہ میں کی اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی۔محکمہ پولس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر رہتے ہوئے مرحوم انوار الحق صوبہ اترپردیش کے مختلف اضلاع میں تعینات رہے اور اہل خانہ ضلع باندہ میں بس گیا۔ حصول تعلیم کےلئے والد محترم نے احسان صاحب کوعلی گڑھ بھیجا۔یوں تو آوارہ صاحب اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکے مگر انھیں ادیب کامل کی ڈگری تفویض ہوئی۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ محکمہ ڈاک میں ملازم ہو گئے۔طویل مدت کے بعد آفیسر کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔باندہ میں ہی ملازمت کے دوران شیو پرساد چورسیا عرف برگ باندوی و بابو کیدار ناتھ اگروال جیسے شہرت یافتہ شاعروں کے تربیت میں رہتے ہوئے اپنی شاعری کا سفر شروع کیا۔شاعر ہونے کے ساتھ ہی ساتھ وہ مشہور فکشن نگار بھی تھے۔احسان صاحب برگ اکادمی باندہ کے صدر رہتے ہوئے اردو اور ہندی ادب کے فروغ میں خصوصاً بندیل کھنڈ میں کارہائے نمایاں انجام دئے۔ ان کے مشہور شائع مجموعے ‘برگ آوارہ’ ‘شہر جنوں’ ‘ شب زلف’ ‘روش احساس’ ‘قابل نامہ’اور‘حرص خوشبو’ ہیں۔ انھیں‘‘ سویرا تو سب کے لئے ہے’’ نامی روسی کتاب کو اردو زبان میں ترجمہ کرنے پر ۱۹۸۶ء میں سویت لینڈ نہرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔
احسان آوارہ کو آوارہ تخلص کیسے ملا،اس بارے میں انھوں نے ہندی ادیب و شاعر شیو بلی سنگھ بشؔرکودئے گئے انٹر ویو میں بتایا کہ انھیں زمانہ طالب علمی سے ہی شاعری و افسانہ نویسی کا شوق تھا مگر ان کے والد محترم کو یہ پسند نہیں تھا۔وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کر اچھا عہدہ حاصل کرے۔ اپنے والد محترم کا آوارہ صاحب بہت عزت کرتے تھے اور ان سے خوف بھی کھاتے تھے۔والد محترم کی ناراضگی سے بچنے کے لئے وہ اپنی نگارشات کو مختلف رسالوں میں ‘ آوارہ’ نام سے چھپوانے لگے۔آخر یہ راز کھل ہی گیا اور انھیں خوب ڈانٹ کھانی پڑی۔ بعد ازاں اسی نام سے انھیں شہرت ملی۔ان کے اس نام پر آوارہ کے ہم خیال ہندی شاعر کیدار ناتھ اگروال نے بھی اپنی رضا مندی ظاہر کر دی۔ ہر انسان اپنا ہم خیال انسان کھوجتا ہے کیونکہ ہم خیال و ہم مزاج شخص کے ساتھ انسان کی زندگی اچھی گزرتی ہے۔اس لئے احسان آوارہ صاحب نے ہندی شاعر کیدار ناتھ اگروال کو اپنا ہم خیال بنایا ہے۔اور ہر جگہ اس کا سچے دل سے اقرار کیا ہے۔ خود آوارہ صاحب ایک جگہ رقم طراز ہیں۔‘‘ آوارہ کہہ کر جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میرے اندر کا سارا غرور ختم ہو جاتا ہے ’’۔ مگر شاعری میں انھوں نے اپنا تخلص احساؔن استعمال کیا ہے۔
کسی شاعر،ادیب یا نقاد کی عظمت اس بات میں مضمر نہیں ہوتی کہ وہ کسی بڑے شاعر و ادیب یا نقاد کے انداز اور روایات کا تتبع کرتا ہے یا اس کے اسلوب زبان و بیان یا فکر کی پیروی کو اپنامطمح نظر بناتا ہے بلکہ کسی فن پارے کی عظمت اور اس کے خالق کی پہچان اس کی اپنی تخلیقی روش سے قائم ہوتی ہے۔ ایک سچا شاعر اپنے دور کا رہنما و قائد ہوتا ہے۔ اچھائی و برائی کو پیش کرنا اس کا فرض عین ہے۔ اس کا کام عوام کو باخبر کرنا ،ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنا ،اچھائیوں کی طرف عوام کو دعوت دینا اور برائیوں سے رکنے کی صلاح دینا ہے۔آوارہ صاحب اسی قبیل کے شاعر ہیں۔ ان کی ہمدردی، انسان دوستی اور خلوص کا مظاہرہ ان کی تمام تخلیقات سے ہوتاہے۔
احسان آوارہ کا رجحان غزل گوئی کی طرف تھا۔انھوں نے زیادہ تر غزلیں ہی کہی ہیں ان کے کلام کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان کے کلام میں سادگی اور بے باکی پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار میں شکایت زمانہ بھی ہے اور محبوب کی تعریف بھی ہے۔ ہجر وصال کے تذکرے بھی ہیں۔ایک خاص نقطہ یہ ہے کہ احسان آوارہ کے مزاج میں عاجزی اور انکساری کی کیفیت ہے جسے انھوں نےجستہ جستہ اشعار میں نظم کیا ہے ؎
عجیب وقت کا تیور ہے کیا کیا جائے
ہرایک ہاتھ میں خنجرہے کیا کیا جائے
بنام دہشت ونفرت یہ ظلم کیوں ہم پر
عتاب ہم پہ برابر ہے کیا کیا جائے
کٹھن ہے راہ سفر اور منزلیں گم ہیں
جنون شوق کی رہبر ہے کیا کیا جائے
تراشتہ ہے ہمیشہ وہ بت خیالوں کے
یہ ذہن خود بڑا آذر ہے کیا کیا جائے
یہ روز بم کے دھماکے یہ قتل انساں کا
لہو لہو سا یہ منظر ہے کیا کیا جائے
اڑان بھرنے کو احساؔن چاہتا ہے یہ دل
کٹا ہوا مرا شہ پر ہے کیا کیا جائے
آوارہ کے اندر ایک ہندوستانی کا دل دھڑکتا تھا۔ان کے دل و دماغ میں یہاں کے تہذیب کے رنگارنگ تہوار اور یہاں کے رسوم و رواج کی یادیں تازہ تھیں۔وہ اپنے ماضی کو کبھی فراموش نہیں کر سکے اور بلآخرماضی کی بازیافت ہی ان کا فن ٹھہرا۔انھوں نے اس بات کو سچ ثابت کیا ہےکہ شاعر و ادیب خواہ کسی ملک اور خطے کا باشندہ ہو۔کوئی بھی زبان بولتا ہو اس کے تخلیق کردہ ادب کا تعلق صرف اور صرف انسانیت سے ہوتا ہے۔
احسان آوارہ نے جا بہ جا ہندی الفاظ کا بھی استعمال کیاہے بلکہ مجھے یہ کہنےمیں کوئی تامل نہیں کہ انھیں ہندی لفظ برتنے پر عبور حاصل تھا۔شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
وہ کیوں کر ڈھائی اکچھر بولتا ہے
نئے یُگ کا قلندر بولتا ہے
ترے ظلموں کا منظر بولتا ہے
زباں چپ ہے تو خنجر بولتا ہے
ہے باہر چپ تو اندر بولتا ہے
غم دنیا نرنتر بولتا ہے
ترے پیروں کی آہٹ سن کے ہمدم
مری گلیوں کا پتھر بولتا ہے
شب فرقت کی تنہائی میں اکثر
مرے خوابوں کا پیکر بولتا ہے
مرے اشعار کا ہر لفظ احساؔں
ترے ہونٹوں کو چھوکر بولتا ہے
بہترین شاعری نے احسان صاحب کو شعر و ادب کی دنیا میں لا فانی بنا دیا۔اردو غزل میں انھوں نے نئی غزل کی پیروی بہترین انداز میں کی۔ان کا یہ انداز ملاحظہ ہو ؎
خرد جہاں بھی گئی کوئی گل کھلا آئی
جنوں کی راہ میں کانٹے نئے بچھا آئی
پلٹ کے رکھ دیا اس نے نظام دنیا کا
جبین وقت پہ جب بھی شکن ذرا آئی
حیات ہم نے ہمیشہ ہی تیرا ساتھ دیا
ہمارے کام مگر تو نہ بے وفا آئی
لحن میں ڈوب کے ابھرا نہ دل مرا احساؔں
کبھی جو کانوں میں آواز دلرُبا آئی
احساؔن آوارہ صاحب اعلیٰ تعلیم تو حاصل نہیں کر سکے تھے مگر ان کی شاعری نے انھیں بام عروج پر پہنچا دیا۔دنیا کی مختلف زبانوں کی تاریخ میں ایسے عظیم المرتبت شاعر ہوئے ہیں جنھوں نے کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں کسی بھی سطح کی تعلیم حاصل نہیں کی مگر ان کا کلام آفاقی ہوا ہے اور آج دانشورانِ ادب ان کی ورق گردانی کرکے نئے نئے گوشے تلاش کر رہے ہیں۔اس ضمن میں تلسؔی، کبیؔر، سورداؔس وغیرہ کے نام اور کلام بطور مثال پیش کئے جا سکتے ہیں۔چونکہ شعر گوئی انسان کی فطرت میں ہوا کرتی ہے نیز شعر گوئی کے لئے تعلیم کوئی لازمی شے نہیں ہے۔کم تعلیم یافتہ انسان بھی اچھی شاعری کر سکتا ہے بشرطیکہ اس کے اندر قوت ادراک ہو۔
ڈاکٹر اودھ بہاری گپتا جو ۲۰۰۰ء میں صدر جمہوریہ انعام سے نوازے جا چکے ہیں۔احسان آوارہ صاحب کےبارے میں لکھتے ہیں ‘‘آوارہ صاحب کو ہندی، اردو اور انگریزی تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ان کے یہاں ذات پات کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔وہ ایک سچے انسان دوست تھے۔مارکسی نظریہ کے حامل تھے۔ان کی شاعری، افسانے،ناول و دیگر نگارشات میں یہی دیکھنے کو ملتا ہے۔’’احسان آوارہ صاحب برگ اکادمی باندہ کے صدر اور اودھ بہاری گپتا اکادمی کے سکریٹری تھے۔ دونوں نے ملکر ادبی کارواں کو آگے بڑھایا اور تقریباً پچاس کتابیں شائع کرائیں۔ ۱۸۵۷ء کے مجاہد جنگ آزادی علی بہادر ثانی (نواب باندہ ریاست ) پر احسان آوارہ صاحب نے بہت کام کیا تاکہ باندہ شہر کی تاریخ کو نمایاں مقام حاصل ہو۔
احسان آوارہ صاحب نے مہاراجہ چھترسال کے زمانے کی مشہور خاتون ‘‘مستانی بی بی ’’ پر اپنا تحقیقی کام پورا کر کتاب لکھی جو گزشتہ سال 2016 میں ان کی بیٹی صالحہ بیگم نے بعد از مرگ شائع کرائی جو ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہوئی۔ان کی ہندی تصنیف ‘‘سورج اور سترنگی تتلی’’ ہے ، جسے انھوں نے ہندی کے مشہور شاعر کیدار ناتھ اگروال کے لئے بیادگار لکھا تھا۔
شاعروں میں خودنمائی کا پایا جانا عام بات ہے جن کوفن وغیرہ آجاتا ہے ان کے کلام میں تعلی کا ہونا کوئی تعجب نہیں۔ احسان آوارہ کے یہاں تعلی بالکل بھی نہیں ملتی بلکہ عاجزی و انکساری نظر آتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں ؎
یہ عنایت ہے آپ کی ورنہ
میں کہاں اور مرا کلام کہاں
آوارہ صاحب باندہ کے آفتاب و ماہتاب تھے۔جیسے سورج سارے عالم کو روشن و منور کر شام کو غروب ہو جاتا ہے، پھول باغیچے میں خوشبو بکھیر کر مرجھا جاتا ہے اسی طرح وہ ہم سب کے درمیان سر زمین باندہ آئے یہاں مقیم رہے اور اپنی ہمہ جہت خصوصیات کی روشنی پھیلا کر انسانیت کا درس دیا۔ بلآخر ۱۷؍اکتوبر ۲۰۰۸ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔
احسان آوارہ صاحب کے لئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ
ہوگا کسی فلک پہ وہ خورشید جلوہ گر
کہتے ہیں آفتاب کبھی ڈوبتا نہیں
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو
فخرالدین علی احمد گورنمنٹ پی جی کالج محموداۤباد،سیتا پور (یو۔پی)
سر آپ سے بات کرنی ہے ۔ نمبر دے دیجیے