بزمِ تکمیلِ ادب جھاجھا کے زیرِ اہتمام فی البدیہہ طرحی تضمینی مشاعرہ کامیابی کے ساتھ ہمکنار : از:سعید اللہ شاذ –

0
111

جھا جھا: ۱۸ اگست ٢٠٢١ (پریس ریلیز) بزمِ تکمیلِ ادب جھاجھا کی جانب سے گزشتہ ۱۸ اگست سے ۲۰ اگست ۲۰۲۱ تک براہ راست برقی سہ روزہ فی البدیہہ طرحی تضمینی مشاعرہ انتہائی دلکش اورادبی ماحول میں کامیابی کے ساتھ ہمکنار ہوا-

بزم مشاعرہ کی صدارت جھاجھا کے مشہور و معروف ادیب وشاعر جناب محمد یعقوب انشاء نے بڑے ہی پر اثر انداز میں کی، مشاعره کا افتتاح کرتے ہوئے انھونے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ نئے ذہنوں کی ظلمت کو شمع اُردو کی روشنی سے ہی دور کی جا سکتی ہے-

بزم میں مہمانِ خصوصی کے حیثیت سے جناب محمد ارشد فیروز صاحب (نائب سیکرٹری محکمۂ تعلیم صوبہ بہار) نے فروغ اردو پر زور دیتے ہوئے اپنے اصلاحی خطبہ میں کہا کہ تبدیلی قدرت کا مزاج ہے جس قوم نے بھی وقت کے ساتھ خود کو نہیں بدلا وہ قوم زوال کی شکار ہو گئی،اُردو بولیں،اُردو پڑھیں، اُردو لکھیں اور اُردو میں کچھ کر گزر جانے کا جذبہ پیدا کریں۔

جناب سعید اللہ شاذ نے بزمِ مشاعرہ کی نظامت کرتے ہوئے بڑا موثر اور تفصیلی خطبہ دیا، انھونے نظامتی خطبہ کا آغاز اپنے اس شعرسے کیا~
سیکھی نہیں ہے ہم نےزباں اپنےنبی کی
اردو رہےگی زندہ تو باقی رہے گا دین۔
شاعرِموصوف نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ دورِ حاضر میں زبان اردو سے قوم کی بے رغبتی و بیگانگی بیحد افسوسناک ہے،خصوصاً نئی نسلوں کی زبانِ اردو سے بےرخی قوم کے زوال کی علامت ہے- چونکہ ہماری مادری زبان ‘اردو’ ہے اس لئے ہمیں دین و دنیا اور ہمارے آباو اجداد کی تہذیبی و ثقافتی کارنامے و روایات کو بخوبی سمجھنے کے لئے زبان اردو سے بہتر وافیت کی اشد ضرورت ہے کیونکہ یہ زبان قوم کی شناخت و ترقی کی ضامن ہے۔
جس قوم کے اندراسکی زبان کی قدر و منزلت ختم ہو جاتی ہے اس قوم کے وجود پر خطرات کے بادل چھا جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ اس قوم کی ساری شناخت صفحہ ہستی سے فنا ہو جاتی ہے۔ اس پُر فتن دور میں قوم کی اُردو سے کج نگاہی کے سبب کئی طرح کی مُشکلات رونما ہو گئی ہیں، ہماری وجودو شناخت زمانے کی رفتار میں کہیں گم ہوتی چلی جا رہی ہے- صد افسوس کہ ہم نے اسلاف کی تعلیمات کو بھلا کر زوال کو اپنامقدر بنا لیا ہے-
جس طرح سے قوم کی مسلسل اُردو زبان سے دوریاں دیکھی جا رہی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
شاید وہ دین دور نہیں کہ زبانِ اردو بھی عربی اور فارسی کی طرح محض مدارس و مکاتب کے نصاب کی زینت بنکر رہ جائے اور یہ قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے –

زبان اردو کا فروغ فریضۂ اولین میں سے ہے اور اُردو کے فروغ و اشاعت میں ہمہ وقت کوشاں رہنا حقوق العباد ہے-ہماری کوشش ہے کہ شاعری اور ادبی محفلوں کے ذریعے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور ادبی روایات کو نئی نسلوں تک پہنچائی جائے ۔‘‘

منعقدہ مشاعرہ کا مصرع طرح
“جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں”
وزن: مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
(مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف) منتخب کیا گیا-
تمہیدی کلمات کے بعد باضابطہ مشاعرہ کا آغاز کرنے کے لئے سب سے پہلےجانِ مشاعرہ و گلستانِ ادب کی روحِ رواں قادر الکلام شاعر جناب امان ذخیروی صاحب کو آواز دی گئی، انھونے بڑے خوش اسلوب انداز میں اپنا تضمینی کلام پیش کیا-
ارض و سما میں آج ہے سبط نبی کی دھوم
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں-
دنیا نہ ڈھونڈ پائیگی اُسکی کوئی مثال
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں-
کلام سنتے ہی اراکین بزم جھوم اٹھے اور
انکے کلام کی پُرزور پذیرائی ہوئی –
اب باری تھی ناظم بزم جناب سعید اللہ شاذ ،جھاجھا کی،شاعر موصوف نے بڑے سلیقے سے اپنا کلام پیش کیا-
عکسِ نبی سراپا ہے حق کا منیر ہے
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں-
کربل کے ایک سجدہ پہ قبلہ ہے سر بخم
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
ان کے کلام کی رعنائی نے بزم کو حسنِ جمال کا مرکز میں تبدیل کر دیا،خوب دادوتحسین سے نوازے گئے۔
اب آواز دی گئی گلستانِ ادب کے پر وقار شاعر جناب محمد تسلیم رضا کو،کلام ملاحظہ کریں
جنگل کو کربلاء معلی بنا دیا
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
تیروں سے جسم چھلنی تھا پھر بھی پڑھی نماز
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں-
کلام سنتے ہی کربل کا نقشہ سامنے آگیا اور سامعین نے داد و تحسین کی بارش کر دی۔
جناب حفظ الرحمن صاحب کے کلام کی سحر اندازی بھی کچھ کم نہ تھی، ملاحظہ ہو-
یوں تو صفيں طویل ہیں شہداؤں کی مگر
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
وہ تو ستون دین ہے دیں کا چراغ ہے
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
سامعین نے انکے کلام کو خوب پسند کیا اور بزم کا سما نور نور ہو گیا-
صدرِ بزم جناب محمد یعقوب انشاء صاحب کے کلام نے تو بزم میں نیا سما باندھ دیا، کلام زیرِ نظر ہے
دنیا رہےگی جب تلک کہتے رہینگے سب
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
جنابِ صدر کو اراکین بزم نے بےشمار مبارکباد پیش کی-
اب جناب شمس الدین شمس صاحب جھا جھا کے معنی خیز کلام کی شگفتگی دیکھیں
قربانی ہے مثال ہے کربل کی زمیں کی
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
انکے کلام کی بھی ہر طرف سے بے انتہا پذیرائی ہوئی –
جناب مولانا محمد ایوب صاحب جموئی کے کلام کی نفاست بھی بڑی مثالی رہی، ملاحظہ ہو
سر دیکے دیں بچا لیا حضرت حسین نے
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
قرآن کہ رہا ہے کہ زندہ ہیں سب شہید
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
انکے کلام نے بزم کو مسحور کر دیا اور بےشمار دعاؤں سے نوازے گئے –
جموئی سے اُردو اخبار انقلاب کے مشہور صحافی جناب محمد غلام سرور نے بھی خوب داد و تحسین سے مکرم ہوئے، کلام حاضر ہے
وہ مرد مجاہد ہے سپاہی ہے دین کا
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
باطل سے لڑے دین کے حق کے لیے حسین
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
سامعین نے انکے حسنِ کلام کی خوب ستائش کی۔
بزم میں اگلی خوبصورت اور مترنم صدا حیدرآباد سے جناب حافظ شمس الضحیٰ صاحب کی گونجی ۔
کاندھے پہ اُنکو اپنے بٹھایا حضور نے
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
انکے کلام نے بھی بےشمار داد اپنے نام کیے-

اسی طرح بزم مشاعرہ میں یک بعد دیگرے شعراء کرام باری باری سے آتے رہے اور اپنے حسنِ کلام کے جلوے بکھیر تے رہے، پیش خدمت ہے مشاعرہ میں پیش کیے گئے کچھ متنخب شعراء کرام کے اشعار۔۔

بھوکا و پیاسا اُس نے عدو کو شکست دی
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
یعقوب انصاری، چکائی
جنت تو کربلا میں خریدا حسین نے
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
محمد زیارت جھاجھا
ٹھوکر میں رکھا تاج یزیدی حسین نے
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
محمد ضیاء الدین جھاجھا
سینچا ہے اس نے خون سے اسلام کا شجر
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
تفضل کریم
اسلام کی کے لیے تو وہ گردن کٹا دیے
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
ظفر علی
صبر حسین دیکھ کہ کربل بھی رو پڑا
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
محمد مزمل جھاجھا
نیزے پہ چھڑکے اس نے سنایا قرآن کو
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
مزمل رضا سبطینی پٹنہ
دل میں ہے اسکے درد بس اُمت کے واسطے
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
محمد مجاہد سونو
کربل سا سجدہ اور ہے کس کے نصیب میں
جیسا مرا حسین ہے ویسا کوئی نہیں
محمد عمران –

بزمِ مشاعرہ کو اور بھی کئی دیگر شعراء کرام مسلسل اپنے کلام کے حُسن و جمال سے مزین کرتے رہے، اس بزم میں کئی معزز شخصیات و علماءکرام اخیر تک موجود رہے اور بزم کو جیلانی بخشتے رہیں اُن سبھی کے نام پیش کرنا تو محال ہے البتہ کچھ نام قابلِ ذکر ہے جناب محمد معصوم رضاامرتوی سینیر ایڈووکیٹ جموئی، جناب محمد عتیق الرحمن صاحب سابق ہیڈ ماسٹر ریلوے ہائی اسکول جھاجھا،جناب محمد معصوم صاحب جھاجھا، جناب ارشاد زخیرروی صاحب،جناب امام غزالی صاحب جموئی، ڈاکٹر سید شہاب الدین صاحب، ڈاکٹر نظر امام صاحب، وغیرہ وغیرہ-

آخر میں جناب محمد یعقوب انشاء صاحب نے اپنے پر خلوص دعائیہ کلمات کے ساتھ سبھی شرکاء کا بصدق دل شکریہ ادا کیا، جناب سعید اللہ شاذ کی نظامت الحمدللہ کامیاب رہی،
مشاعرہ بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنے انجام تک پہنچا آخر میں صدرِ بزم کی اجازت سے ۲۰ اگست رات ۱۰ بجے مشاعرہ کی ملتی کا اعلان کیا گیا-

Previous articleبہار میں اردو تحریک: چند باتیں از: کامران غنی صبا
Next article“روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی” پروین شاکر ۔انتخاب از : محمد عثمان

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here