تعارف : خورشید حیات اسمِ با مسمٰی ہیں اور ادبی دنیا میں روشنی پھیلانے کا خوبصورت کام سر انجام دے رہے ہیں ، کہتے ہیں توانا ادیب وہی بنتا ہے جس کو بچپن سے ہی ادب کی گھٹی پلائی گئی ہو ۔ اُسے ہی ادبِ عالیہ میں کلاسک مقام حاصل ہوتا ہے بلاشبہ خورشید حیات ادبِ عالیہ میں ایک مقام کے حامل ہیں ۔ تحریر کی پختگی اپنا درجہ خود متعین کرالیتی ہے ۔ان کی تحریریں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں مشکل پسندی ان کی گھٹی میں پڑی ہے الفاظ ان کے آگے ہاتھ باندھے نظر آتے ہیں ۔ افسانہ ان کے ہاتھوں وجود میں آنے کو بے تاب رہتا ہے۔ آئیے ملتے ہیں خوبصورت افسانوں کے خالق خورشید حیات سے
——
مکالمہ
——
گُل بانو ::> اگر چند جُملوں میں خُورشید حیات کو مُکمّل بیان کرنے کو کہا جائے تو کیا کہنا چاہیں گے ؟
خُورشید حیات ::> سب سے پہلے تو میں آپ کو داد دیتا ہوں کہ لُکّا چُھپّی کے کھیل میں مصروف ، ادھُورے آدمی کو مکالمہ کے لئے پکڑ ہی لیا – خُورشید + حیات کو مکمّل بیان کرنا ممکن نہیں کہ مکمّل تو صرف ” ایک ” ہے اور میرے ” میں کا تعارف ” آدھا چاول ، آدھی روٹی کی طرح !
قبل اس کے کہ میں , سوالوں کے کبھی ختم نہ ہونے والے سلسلوں کی طرف رُخ کروں – میری رُوح جو بولنا چاہتی ہے اسے نئی زبان دے دوں – یہ جانتے ہوئے کہ اپنا کچھ نہیں ہوتا – سب اُسی کا ہوتا ہے جس کے قبضے میں میری جان ہے –
گل بانو صاحبہ ! آپ کو اردو ادب تہذیب کے ساتھ ، بے تکان بتیانے پر دسترس حاصل ہے – میری روح نے کچھ ایسا ہی کہا – اب کا کروں جی ، میں جسم سے زیادہ اپنی روح کی سُنتا ہوں ، روح کی وجہ سے ہی ، داستان رنگ بدن روشن روشن !
حیات کے بحر بیکراں میں خورشید حیات کوئی اہم نام نہیں مگر خورشید کی اپنی اہمیت اور حیات سے دنیا کی رونق کا انکار کسے ہو سکتا ہے کہ خورشید ہے تو حیات ہے ، خورشید نہیں تو قیامت – ویسے جس خورشید حیات کی بات میں کر رہا ہوں وہ ابھی سفر میں ہے کہ سفر زندگی کی علامت ہے –
جانور نہیں بولنے سے تکلیف اٹھاتا ہے اور آدمی بولنے سے –
تحریریں کیوں بولتی ہیں ؟
لفظ لمبی زبان نکال کر کیوں شور کرتا ہے ؟
28 نومبر 1960 کو جب رانچی { جھارکنڈ ، انڈیا } میں پیدا ہوا تو ” پانی والی بُوا ” نے غسل کرایا – وہ میرا پہلا وضو تھا – دوسرا وضو ” گنگا ” نے کرایا جب میں بہت چھوٹا تھا ، مگر پاؤں پاؤں چلنے لگا تھا – اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ پٹنہ کے سُلطان گنج محلہ کے قریب بہنے والی گنگا ندی دیکھنے گیا – انہیں پانی سے کھیلتے دیکھ میں بھی لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھا اور گنگا کی موجوں کی گود میں چلا گیا – بھلا ہو گھاٹ پر کپڑا دھوتے ہوئے اس رامُو دھوبی کا جس نے مُجھے ڈوبتے ہوئے دیکھ لیا تھا ورنہ اپنوں کو تو میری خبر ہی نہیں تھی – آج میں جو کچھ بھی اور جیسا بھی ہوں اس میں ، ماں کی لوریوں کا ہی اک نیا آسمان آپ کو دکھائی دے جائے گا اور وہ ندی جس نے مجھے آزاد کیا تھا شاید تبھی سے ندی میرے درون میں بہتی ہے –
گُل بانو صاحبہ ! ہر ندی جانتی ہے اس کے اندر بہتا کوئی اور ہے –
میں اک ندی ہوں
مجھے بہنے دو
مچلنے دو
تھرکنے دو
مت بانٹو مجھے –
مجھے بانٹو گے تو یہ صدی روئے گی –
لہر کی ہر تھرکن میں
صرف اک ” تیرا ” ہی نام !
—
گُل بانو :: > ادیب / شاعر / نثر نگار / تخلیق کار کیا یہ سب تخلیقی جراثیم لے کر پیدا ہوتے ہیں یا ماحول سے نمو پاتے ہیں ؟ آپ کی آمد ادبی دنیا میں کیسے ہوئی ؟ کس عمر میں ہوئی ؟
خورشید حیات :: > ہر تخلیقی فنکار پیدائش کے وقت ہی , سوچ فلک کینوس کو ساتھ لے کر آتا ہے اور ماں اس کے تخّیل کو آسمان اور ہتھیلی کو زمین بناتی ہے – ایک ایسی زمین جو آسمان سے برستی ہوئی حرُوف بُوندیوں سے نمُو پاتی ہے – سچ تو یہ ہے کہ کاتب تقدیر کو سب پتا ہوتا ہے – حسّاس ذہن کب کہانی کہانی کھیلے گا اور کب نظم نظم زندگی کی زنجیری سالمیت کو ساتھ لئے ٹہلے گا – 1974 عیسوی کی ایک رات میرے اندر تخلیقی لہر کب اور کیسے داخل ہو گئی مجھے معلوم نہیں کہ گھر کے آنگن میں دُور دُور تک کوئی افسانہ نگار / شاعر نہیں تھا – ہاں , امّی نے بچپن میں جس قلم کو میری اُنگلیوں میں پھنسایا تھا وہ آج بھی میرے ساتھ ہے – ایک بات اور , والد محترم سید ابو الحیات شیدا کی ذہنی تربیت نے سرمایہء حیات { ذاتی لائبریری } میں رکھی کتابوں میں چھپے ہر لفظ سے مجھے روشناس کرایا اور پھر رانچی سے لکھے ایک طویل خط نے مجھے کہانی کار بنا دیا کہ ہر لفظ کچھ کہہ رہے تھے ، زندگی کی حقیقت سمجھا رہے تھے – اس رات میں لکھتا رہا ، کاٹتا رہا ، رد و قبول کی منزلوں سے گزرتا رہا اور پھر جو کچھ بھی قلم نے مجھ سے لکھوایا ایک لفافہ میں بند کر کے رسالہ ” نور ” میں بھیج دیا اس طرح میری پہلی کہانی 1974 میں شایع ہوئی – اس وقت میری عمر 14 برس تھی – رسالہ کا نام تھا ” نور ” جو رامپور { یو پی } سے آج بھی شایع ہو رہا ہے – 1974سے 1980 تک بچوں کے سبھی رسائل میں کہانیاں شایع ہوئیں۔
دھیرے دھیرے جب میرا مطالعہ بڑھا تو یہ احساس ہوا کہ میں جو کچھ بھی لکھتا ہوں وہ روایتی انداز کی تحریر ہے – مجھے ان سب سے الگ ہٹ کر کچھ لکھنا چاہیے پھر ہوا یہ کہ اس دن سے بچوں کے لئے کہانیاں / مضامین لکھنا چھوڑ دیا اور پھر اس طرح کی کہانیاں لکھنے لگا جسے میں آج کی کہانی کے نام سے پکارتا ہوں –
میری کہانیاں ہندوستان ، پاکستان ، امریکہ کے سبھی اہم ادبی رسائل میں شایع ہوتی رہتی ہیں – پاکستان میں میری پہلی کہانی ” اردو ادب ” راولپنڈی میں شایع ہوئی تھی زمانہ تھا 1982 کا – اب تک بیرون ملک کے جن رسائل میں کہانیاں شایع ہو چکی ہیں ان میں سے کچھ کے نام :
“اردو ادب” ، راولپنڈی ، “چہار سو” ، لاھور ، “جنگ” ، کراچی ، “دیدہ ور” ، بوسٹن ، “لائف اینڈ لیجنڈ “،امریکہ , “شعر و سخن” وغیرہ اور ہندوستان کے سبھی اہم ادبی رسائل – 1986 میں اردو کے دو ادبی رسائل نے گوشہ بھی شایع کیا تھا – یہ وہ زمانہ تھا جب کسی بھی ادبی رسالہ کا گوشہ پیسے کے بل بوتے پر نہیں نکلتا تھا – “معلم اردو” ، لکھنؤ نے نومبر 1986 میں جگن ناتھ آزاد کے ساتھ جب گوشہ نکالا تو مجھے اس کی خبر رسالہ ملنے پر ہوئی –
گل بانو::>> آپ افسانے کیوں لکھتے ہیں ؟
خورشید حیات ::> میرے نزدیک افسانہ خود کو خود سے آزاد کرنے کا ایک ایسا تخلیقی عمل ہے جہاں ہم ” لکیروں” کو مٹانے کی کوشش میں الگ الگ تخلیقی مدارج سے گزرتے ہیں جہاں شعور سے زیادہ لاشعور کا دخل ہوتا ہے – مگر کمبخت ” لکیر ” ہے کہ مٹتی نہیں – ” آنگن” میں جب تک الگ الگ ” دیواریں” کھڑی ہوتی رہیں گی – کہانیوں کا سفر جاری رہے گا – ہاں ایک بات اور نوٹ کر لیجئے اب ادب سے کوئی انقلاب نہیں آتا کہ ہمارا سماج چکنے گھڑے کی طرح ہو گیا ہے –
گل بانو صاحبہ ! ہم نے “عطا پاش” اور “خطا پوش” کی طرف پیٹھ کر لیا ہے – شاید اسی لئے ہر ” آنگن ” میں دیواریں ہیں – دیواریں الگ الگ عقیدوں کی ، الگ الگ نظریوں کی —– اففف ! اس حساس ماٹی بدن میں جب تک ٹوٹنے پھوٹنے کا عمل جاری ہے ، کہانیاں زندگی کو لکھتی رہے گی – عضاءے پیری ہماری یہ زمین –
گل بانو::> افسانہ قاری کے لئے لکھا جاتا ہے یا کہ تنقید نگار کے لئے ؟
خورشید حیات ::> افسانہ ، کہانی تہذیب پسند قاری / قبیلہ کے لئے ہی لکھا جاتا ہے ، مگر آج اردو افسانہ کا قاری ہے کہاں ؟ وہ قاری جو بیدی ، منٹو ، کرشن ، انتظار حسین ، خدیجہ اور عصمت وغیرہ کے ساتھ چلا کرتے تھے –
فکشن کی تنقید کا یہ المیہ رہا ہے کہ اسے شاعری کے ” فریم ” سے جانچا / پرکھا گیا – جب کہ آج کی کتھا – کہانی دائروں سے انحراف کرتی ہے –
۔
گل بانو ::> لوگ خود کو فلسفی اور دانشور ثابت کرنے کے لئے ایسے افسانے کیوں لکھتے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا – الجھے الجھے ، بے معنی افسانوں سے نقاد شاید متاثر ہوتا ہو لیکن عام قاری اسے لپیٹ کر رکھ دیتا ہے – کیا یہ افسانے کی ناکامی نہیں ؟؟
خورشید حیات ::> گھوڑوں کے ساتھ نال ٹھکا کر ساتویں سواروں میں شامل ہونے والوں کا قصہ تو کب کا تمام ہو چکا – گل بانو صاحبہ ! ادب دریافت اور تخلیق کا عمل ہے تقلید اور تشہیر کا نہیں – خود کو فلسفی اور دانشور ثابت کرنے کے لئے جس کسی تخلیقی فنکار نے ” کارپینٹر ” بننے کی کوشش کی ان کی زندگی اخبار کی سرخیوں کی طرح ہی تو ہوا کرتی ہے – ہاں ایک سچ یہ بھی ہے کہ موضوع از خود اسلوب کی تعمیر کرتا ہے – کہانی ایک حساس ذہن کا اظہار باطن ہے اور باطن خارجی کائنات کی دھڑکنوں کی آماجگاہ – ہر قاری کی اپنی پسند ہوتی ہے اور ہر زندہ تحریر خود کو پڑھوا بھی لیتی ہے – اسے کسی پی آر ڈی کی ضرورت نہیں پڑتی گل بانو جی ! رہ گئی لپیٹ کر رکھنے والی بات ، تو کیا کر لیں گے ہم سب ان کا جنہوں نے سب کچھ جُزدان ،یں لپیٹ کر اُونچے طاق پر رکھ دیا ہے –
گل بانو ::> ایک طویل مدت سے عورت افسانوں میں اپنے جسم اور بایولوجی سے متعلق مقتدر ادیبوں کے لغو اور بے معنی جملے پڑھتی آ رہی ہے – ادیب خاص طور سے مرد ادیب اپنی انسانی اقدار کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں – آپ کے خیال میں ادب میں اس بے ادبی کی گنجائش ہے ؟
خورشید حیات ::> بدن کی جمالیات کے بہانے افسانہ نگار اور ناقد دونوں نے عورتوں کو برہنہ کیا ہے – عہد زمینداری میں بھی ہمارے احساسات اتنا مردہ نہیں ہوئے تھے جتنا کے اس جدید دور کے سرمایہ دارانہ نظام میں – چٹخارہ لینے یا لار ٹپکانے کے لئے جو کہانیاں لکھی جاتی ہیں وہ ماورائے طبیعاتی دور میں سفر نہیں کرتیں – ادب میں شجر ممنوعہ کچھ نہیں – مگر موضوع کو برتنے کا سلیقہ ضروری ہے – کہانی وہی زندہ رہتی ہے جو ارواح سے اجسام تک کا سفر کرتی ہے – ہم تو عالمین کی عطریت کو ساتھ لے کر چلنے والے ہیں اور ادب میں اپنی تحریر سے “نیتر بھوگ” کرنے والے مجھے پسند نہیں –
گل بانو ::> محبّت کو کیسے ڈیفائن کریں گے – آپ کی نظر میں رومانیت کیا ہے ؟
خورشید حیات ::> محبّت — یہ جو چار حروف والا لفظ ہے اس پر غور کرتے ہوئے چہار سمت نظر دوڑائیے , اسے آپ ڈیفائن نہیں کر سکتیں – چار حروف – چار دشاؤں کی وسعتوں کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں – مختصر میں بس یہی کہنا چاہوں گا کہ محبّت رب سے ہو یا بندے سے اس میں کوئی شریک نہیں –
عہد جدید کے تمام حوادث کے تخلیقی اظہار کی روحانی قبا کا نام رومانیت ہے – جہاں ہم زخم کی یادوں کے ” سارنگیا ” بن جاتے ہیں – عقلیت اور مادیت کے خلاف رومانیت ، روحانیت کی بات کرتی ہے کہ روح کے بغیر ، رومان کا تصور ممکن نہیں – اپنے عصر کی روح اور تاریخی موقف کو ساتھ لئے ماضی کی از سر نو دریافت ہی روحانیت کو رومانیت کی طرف لے جاتی ہے – جہاں وسیلہ اظہار پر کلاسیکی قدرت ، لفظ لفظ ، طبق طبق سواری کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے –
گل بانو ::> کیا آپ فکشن کی تنقید سے مطمئن ہیں ؟
خورشید حیات ::> فکشن کی تنقید کو صُّم بُّکم کی کیفیت سے باہر نکلنا ہوگا – تنقید کی مسبوق روایت سے انحراف کرتے ہوئے ہمیں تخلیقی تنقید کے چراغ کو روشن کرنا ہوگا
گل بانو ::> اپنی زندگی سے کیا کھویا ، کیا پایا ؟
خورشید حیات ::> آپ نے ایک ایسا سوال پوچھ لیا ہے کہ میرے سامنے بیٹھے ہر لفظ کے لب ہل رہے ہیں – مگر میں خاموش رہنا چاہتا ہوں – اب جب آپ سوالوا پوچھیے لئے ہیں تو سنئے – یہ زندگی میری کہاں ؟ میں نے کھویا کچھ بھی نہیں وہ اس طرح کہ جسے کھونا / گم ہونا کہتے ہیں وہ ” ڈولی ” پر سوار میرے ساتھ ہر لمحہ سفر میں ہے
===
خورشید حیات سے باتیں کرتے وقت مجھے دور نیلے گگن سے ماں کی لوری سنائی دے رہی تھی – آج کی خواتین قلمکاروں کے حوالے سے ایک اہم گفتگو اگلی قسط میں –
مکالمے سے زندگی آگے بڑھتی ہے – آپ مکالمے سے مکالمے قائم کیجئے – ملتی ہوں پھر آپ سب سے !
گُل بانو ، کراچی ، پاکستان