Meerut : ایک ہی سیٹ پر ایک سے زیادہ مسلم اُمیدوار ، BJP کو مل سکتا ہے ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ
میرٹھ : اترپردیش کے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں مغربی یو پی کی اٹھاون سیٹوں میں سے نبے فیصد سیٹوں پر بی جے پی نے اپنی جیت کا پرچم لہرایا تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ مسلم ووٹوں کا بکھراؤ تھا۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بھی مسلم اکثریت والی سیٹوں پر سماجوادی ، بی ایس پی ، آر ایل ڈی اور کانگریس کے علاوہ دِیگر چھوٹی پارٹیوں نے بھی اپنے مسلم اُمیدوار اُتارے تھے اور ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے شکست کھائی تھی اور اس مرتبہ بھی یہی تصویر نظر آ رہی ہے ۔ میرٹھ کی سات اسمبلی سیٹوں میں سے صرف کینٹ سیٹ کو چھوڑ کر باقی چھ سیٹوں پر ایک سے زیادہ مسلم اُمیدوار مختلف سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پر اپنی قسمت آزما رہے ہیں اور سبھی اپنی جیت کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں ۔
سال 2017 یو پی اسمبلی انتخابات میں مغربی یو پی کی مسلم اکثریت والی سیٹوں پر سماجوادی ، آر ایل ڈی اور بی ایس پی کئی پارٹیوں کے مسلم اُمیدوار اتارنے کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو حاصل ہوا تھا ۔ مغربی یوپی کی میرا پور سے لیکر میرٹھ ساؤتھ سوال خاص لونی جیسی کئی سیٹوں پر ایک سے زیادہ مسلم اُمیدواروں کے ایک دوسرے کے سامنے میدان میں اترنے سے ووٹ تقسیم کے سبب ایک بھی اُمیدوار جیت حاصل نہیں کر سکا ۔ میرٹھ کی ساؤتھ اسمبلی سیٹ پر بھی مسلمانوں کی ووٹ تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ملا اس سیٹ پر ایک لاکھ تیرہ ہزار ووٹ حاصل کرکے بی جے پی کے سومندر تومر نے فتح حاصل کر لی ۔ جبکہ بی ایس پی کے حاجی یعقوب 77 ہزار اور کانگریس کے آزاد سیفی 70 ہزار ووٹ حاصل کرکے دوسرے اور تیسرے مقام پر رہے ۔
میرٹھ کی سول خاص سیٹ بھی ووٹ تقسیم کا یہی نتیجہ سامنے آیا ، جہاں سماجوادی پارٹی اُمیدوارغلام محمد اور بی ایس پی کے ندیم احمد ووٹ تقسیم کا شکار ہوکر الیکشن ہار گئے اور یہ سیٹ بھی بہت کم مارجن سے بی جے پی نے اپنے کھاتے میں ڈال لی ۔ وہیں یو پی اسمبلی انتخابات 2022 کی بات کی جائے تو تصویر اس مرتبہ بھی بہت الگ نظر نہیں آتی ۔ میرٹھ کی سات اسمبلی سیٹوں میں مسلم ووٹروں کی اکثریت والی شہر ساؤتھ کٹھور اور سوال خاص سیٹ پر اس مرتبہ بھی ایک سے زیادہ مسلم اُمیدوار مختلف سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر اپنی قسمت آزما رہے ہیں اور سبھی بیس ووٹ بینک کے دم پر اپنی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔
وہیں سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یو پی میں ریاستی سطح کی سیاسی جماعتوں کا وجود ان کی ذات برادری کے بیس ووٹ بینک سے ہے ، لیکن یہ ووٹ بینک بغیر مسلم ووٹروں کے ان سیاسی جماعتوں کو جیت دلانے میں ناکافی ہے ، ایسے میں سبھی سیاسی جماعتیں مسلم ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان سیٹوں پر زیادہ تر مسلم اُمیدوار اتارتی ہیں اور مسلم ووٹروں کی ایک طرفہ ووٹنگ میں انہیں فائدہ بھی ہوتا ہے اور ووٹوں کے بکھراؤ میں نقصان بھی کسان آندولن کے بعد مغربی یو پی میں بدلے حالات کا آر ایل ڈی اور سماجوادی پارٹی نے آپسی اتحاد کے ذریعہ سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ۔
جاٹ اور مسلم ووٹوں کے بکھراؤ کو روکنے کیلئے مغربی یو پی کی سو سے زیادہ سیٹوں پر متحد ہوکر اُمیدوار اُتارے ہے ، لیکن بی ایس پی کانگریس اور ایم آی ایم کے مسلم امیدواروں کے علاوہ دِیگر مسلم اُمیدوار سماجوادی آر ایل ڈی کا کھیل بگاڑ سکتے ہیں ۔