ملک آج اپنا پچھترواں یوم آزادی منا رہا ہے. آج کے دن مجاہدین آزادی کی خدمات کو یاد کیا جاتا ہے. افسوس کہ ان پچھتر برسوں میں ہم نے بے شمار مجاہدین آزادی کی خدمات کو یکسر فراموش کر دیا. ان فراموش کردہ مجاہدین آزادی میں ایک اہم نام حضرت عثمان غنی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی ہے. آپ کی پیدائش یکم جنوری 1896ء کو دیورہ مجودہ گیا ضلع، بہار کے ایک معزز اور خوشحال خاندان میں ہوئی. آپ نے دارالعلوم دیوبند سے اعلی تعلیم حاصل کی. طلب علمی کے زمانے میں ہی آپ کی قربت اپنے وقت کے مشہور انقلابی عالم دین حضرت مولانا عبیداللہ سندھی رحمتہ اللہ علیہ سے ہو گئی. مولانا کی قربت نے حضرت عثمان غنی رحمتہ اللہ علیہ کی انقلابی فکر کو وسعت عطا کی. 1918 کو تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا عثمان غنی اپنے وطن واپس آ گئے. یہاں آنے کے بعد آپ کی ملاقات اس وقت کے انقلابی رہنما مفکر اسلام حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمتہ اللہ علیہ سے ہوئی. مولانا سجاد رحمتہ اللہ کی مردم شناس نظروں نے حضرت عثمان غنی رحمتہ اللہ علیہ کا کچھ یوں انتخاب کیا کہ آپ تاعمر سجاد صاحب علیہ الرحمتہ کے ہی ہو کر رہ گئے. ابو المحاسن محمد سجاد رحمتہ اللہ علیہ کی قیادت میں امارت شرعیہ کا قیام عمل میں آیا تو مولانا عثمان غنی رحمتہ اللہ علیہ اس ادارہ کے پہلے ناظم مقرر ہوئے. اس وقت آپ کی عمر محض 26 سال تھی. امارت شرعیہ سے “امارت” کی اشاعت شروع ہوئی تو ادارتی ذمہ داری مولانا عثمان عنی رحمتہ اللہ علیہ کے ہی سپرد کی گئی. اس وقت بطور صحافی مولانا عثمان غنی ملک گیر سطح پر اپنی منفرد شناخت رکھتے تھے. امارت کے لیے لکھے ہوئے ان کے اداریے اتنے انقلابی ہوتے تھے کہ ایوان حکومت پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا. چنانچہ اس وقت کی انگریز حکومت کے خلاف اداریہ لکھنے کے جرم کی پاداش میں مولانا کو متعدد بار جیل جانے کے ساتھ ساتھ جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا. نوبت یہاں تک آ گئی کہ “امارت” پر پابندی لگا دی گئی.
“امارت” پر پابندی لگنے کے بعد امارت شرعیہ سے “نقیب” کی اشاعت شروع ہوئی. اس کے مدیر مولوی صغیر الحق ناصری مقرر ہوئے لیکن عملی طور پر ادارت کی ذمہ داری مولانا عثمان غنی رحمتہ اللہ علیہ نے ہی سنبھال رکھی تھی. ملک آزاد ہوا تو “نقیب” میں بحیثیت مدیر آپ کا نام پھر سے شامل کر لیا گیا.
مولانا عثمان غنی رحمتہ اللہ علیہ کی علمی، قومی و ملی، سیاسی و سماجی اور صحافتی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ محض ایک چھوٹے سے مضمون میں سب کا احاطہ کر پانا ممکن نہیں ہے. افسوس کہ غیر تو غیر اپنوں یہاں تک کہ امارت شرعیہ والوں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مجھے کہنے دیجیے کہ خود ان کے افراد خانہ نے بھی انہیں فراموش کر دیا اور ان کی خدمات کو عام کرنے کی جیسی کوششیں ہونی چاہیے تھیں نہیں ہوئیں. ایک زمانے بعد ہی سہی آنکھیں کھلی ہیں. مولانا مرحوم کے اداریے اور مضامین کو یکجا کر کے انہیں کتابی صورت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے. ان میں وہ اداریے بھی ہیں جن پر انگریزی حکومت نے پابندی لگائی تھی.
پہلی تصویر: بالکل بائیں جانب لال دائرہ میں مولانا عثمان غنی رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا جا سکتا ہے
دوسری تصویر: لال قلعہ، دہلی کے میوزیم میں آویزاں “امارت” کا تاریخی نسخہ.
………………………..