اپنوں کی غربت و فرقت کا قصہ سناتی ’عمارت‘ از: پروفیسر صالحہ رشید

0
217

صدر شعبہ عربی و فارسی
الہ آباد یونیورسٹی

’عمارت ‘محترمہ نگار عظیم کاایک پر اثر افسانہ ہے جس کے ذریعہ انھوں نے معاشرے میں در آئے ایک سنگین مسئلہ کی بخوبی عکاسی کی ہے اور اس کے لئے انھوں نے سیدھا سادہ بیانیہ اختیار کیا ہے۔ کرنل قیصر بیگ اس افسانے کا مرکزی کردار ہیں۔ ان کے افراد خانہ میں ان کی اہلیہ فردوس جہان ،ان کے پرانے خانساماں کا بیٹا خان بہادر اور اس کی بیوی زرینہ شامل ہیں ۔ ساتھ ہی افسانہ نگار خود واحد متکلم کی صورت پورے افسانے میںبکلی موجود ہے۔ پورا افسانہ اس واحد متکلم کے ذریعہ ایک نشست میں کچھ اس طرح بیان کیا گیاہے ؎
راوی کو علاقے کی مردم شماری کا کام سونپا گیا ہے اور وہ مختلف گھروں سے ہوتے ہوئے کرنل قیصر بیگ کی کوٹھی C-11پر پہونچتی ہے۔ ایک پچاس پچپن سال کا شخص اسے کوٹھی کے اندر لے جاتا ہے اور بتاتا ہے کہ کرنل صاحب بس تھوڑی دیر میںتشریف لے آئیں گے۔ اسی اثناء راوی اس لان پر نگاہ ڈالتی ہے جو اس کوٹھی کے مکینوں کے با سلیقہ اور با ذوق ہونے کا پتہ دے رہا تھا ۔ لان میں مختلف قسم کے موسمی پھولوں اور پودوں کے ساتھ کیاریاں بھی سلیقے سے آراستہ تھیں اور ایک مالی پودوں پر گیلی مٹی چڑھا رہا تھا۔دوسری جانب دیوار پر ایک جال نصب تھا۔

نگار عظیم کے افسانوں کے عنوان، موضوع اور ان کے برتنے کا ایک مخصوص انداز ہے۔مثلاً زیر غورافسانے کے عنوان ’عمارت ‘پر نگاہ پڑتے ہی قاری کے ذہن میں ایک خیال جا گزین ہو گیا کہ کسی عمارت کے درونی و بیرونی حالات کو افسانے کا موضوع بنایا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی وہ پورے تجسس کے ساتھ ان کی فکر کے ہمرکاب ہو جاتا ہے۔افسانے کی ابتدا میں وہ کوٹھی نمبرC-11کی تصویر کشی کچھ اس طرح کرتی ہیں ؎
’’کوٹھی پرانے طرز کی تھی۔خاص دروازے کے دونوں طرف نقشین قمقمے نصب تھے ۔ بائونڈری کی دیوار پہ یکساں فاصلے سے تقریباً تین فٹ اونچی محرابیں بنی تھیں اور ان کے سرے پر قندیلیں نصب تھیں۔میں سوچنے لگی سب ایک ساتھ جلتی ہوں گی تو کتنا چراغاں ہوتا ہوگا۔‘‘
یہاں کوٹھی کی بیرونی ساخت اس طرح بیان کی گئی کہ اس کے رعب و جلال کے ساتھ روشن قمقمے قاری کی نگاہوں میں جھل مل کرنے لگے مگر پھر’سب ایک ساتھ‘ کہہ کر راوی نے اس افسانے کے موضوع کو قاری کی فکر کا محور بنا دیا۔گویا عنوان کے ساتھ موضوع اس طرح منسلک ہو گیاکہ قاری کو اس کے لئے ذہن پر بار نہیں ڈالنا پڑا۔یہ عمل بالکل فطری طور پر سادہ اور رواں بیانیہ کے توسط سے انجام دیا گیا۔’سب ایک ساتھ ‘ یعنی ایک خاندان کے تمام افراد کا ایک ساتھ بڑی سی کوٹھی میں زندگی گذارنا، اپنوں کی قربت میں پلنا بڑھنا، زندگی کے نشیب و فراز کا ایک ساتھ سامنا کرنا، ایک ساتھ خوشیاں منانا اور غم کے سمندر کو ایک ساتھ مل کر پار کر لینا، کوٹھی کے در ودیوار کو زندگی کی رمق سے آباد اور اپنے قہقہوں سے گلزار رکھنا اس طرح کہ سارے قمقمے ساری قندیلیں ایک ساتھ جلیں اور چراغاں ہو جائے۔

کوٹھی کے داخلی دروازے پر راوی کا استقبال پچاس پچپن سال کا ایک دبلا پتلا درمیانے قد کا شخص کرتا ہے جس کے بالوں میں سفیدی در آئی تھی۔اس نے سوچا ’یہی کرنل صاحب نہ ہوں‘۔راوی کے ذہن میں اٹھنے والے اس خیال نے ماضی کی شاندار روایت کے نا جانے کتنے در وا کر دئے۔شان و شوکت میں گذارے گئے دن، دولت و ثروت، عیش و عشرت کی فراوانی، حزن و ملال کا خیال جہاں شاذ و نادرہی آتا ہو ، کیا پتہ ظالم زمانہ ایسی چال چل گیا ہو کہ کرنل صاحب اس حال کو پہنچ گئے ہوں۔زمانے کے تغیرات ہیں ،کچھ بھی ممکن ہے۔راوی نے اب تک بیس بائیس گھر جا کر سنسس کا فارم بھروایا تھامگر ’یہ پہلا گھر ایسا ملا تھا جہاں کوئی اتنی شائستہ گفتگو کر رہا تھا۔حالانکہ یہ علاقہ پڑھے لکھے مہذب لوگوں کا ہی تھا۔‘محترمہ نگار عظیم تو یہ جملہ ادا کر آگے بڑھ گئیں مگر قاری کو سوچ کے سمندر میں غلطاں و پیچاں چھوڑ گئیں۔اسے اپنی اخلاقی قدروں کی پامالی پر غور و فکر کی دعوت دے گئیں۔در اصل مہذب ہونا ، مشرف بہ تعلیم ہونا ، ہمیں نیکی کی تلقین کرتا ہے اور نیکی کا دارو مدار حسن اخلاق پر ہے۔کیا پوری بستی کی بستی اخلاقی درس فراموش کر بیٹھی؟ہماری تنزلی و بدحالی کے کئی اسباب اس ایک جملے میں نہاںہیں۔چونکہ کرنل صاحب موجود نہیں تھے اور تھوڑی دیر میں ان کی آمد متوقع تھی لہٰذا راوی نے انتظار کا وہ وقفہ اس کوٹھی کے خوبصورت لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے گذاراجس کی منظر کشی وہ اس طرح کرتی ہے ؎
’’اچانک میری نظر دیوار میں لگے ایک جال پر ٹک گئی جو دیوار کے سہارے لٹکا تھا یا پھر نصب تھا۔ قریب جا کر میں نے دیکھا رنگ برنگی دیسی بدیسی کئی قسم کی چڑیاں اور طوطے ادھر سے ادھر اس سنہرے جال میں پھدک رہے تھے۔ کئی مختلف سائز کی ہانڈیوں میں ان کے گھونسلے بھی بنے تھے۔ نہانے کے لئے پانی سے بھری ناند بھی رکھی تھی۔ جال کچھ اس طرح سے فٹ کیا گیا تھا یا ہو گیا تھا کہ پیڑوں کی کئی شاخیں جال کے اندر سے ہو کر گزر رہی تھیں ۔ جال کی لمبائی چوڑائی تقریباً چار فٹ بائی چھ فٹ رہی ہوگی ۔ اتنے لمبے چوڑے جال میں اپنے عیش وآرام کی مکمل رہائشی سہولیات سے شاید ان پرندوں کو اپنے قید ہونے کا احساس مٹ چکا تھا۔ وہ اپنی دنیا میں مست تھے۔ ‘‘

راوی بڑی دلچسپی سے اس جال کا مشاہدہ کر رہی ہوتی ہے کہ تبھی کرنل قیصر بیگ کی آمد ہوتی ہے جو انتہائی پر وقار شخصیت کے مالک ہیں ۔ وہ اسے اپنے ایر کنڈیشنڈ ڈرائنگ روم میں لے جاتے ہیں۔ یہاں ان کے خاندان کے فوٹوگراف اور دیگر قیمتی اشیاء سجی ہوتی ہیں ۔ کرنل صاحب فوٹو گراف کے ذریعہ اپنی فیملی کا تعارف کراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کے والد فوج میں کیپٹین تھے اور تایا لفٹیننٹ اور وہ خود کرنل ہیں ساتھ ہی انھوں نے اپنی فوجی زندگی کے مختلف واقعات سنا ڈالے۔ اس پر راوی کہتی ہے ’ ’ما شاء اللہ بہت با رعب خاندان ہے آپ کا ۔کیا کوئی آپ کی اولاد میں سے بھی ؟؟‘‘
’’نہیں بس میرے بعد ۔۔۔یہ سلسلہ ختم‘‘
’یہ سلسلہ ختم ‘ اسے پڑھ کر قاری خود کوکسی گہری دلدل میںدھنستا محسوس کرتا ہے۔در اصل یہ رد عمل اس سانحہ فاجعہ کی یاد دہانی کرا رہا ہے جس نے معاشرے کے تار و پود کو نوچ کر پھینک دیا۔بے فکری کے سامان نہ رہے۔شاہانہ تاج کی جگہ شاہزادوں کے سر ہی قلم ہو گئے ۔اس کے بعد عوام کے دار ورسن کے قصے عام ہوئے،در بدری کی داستان لکھی گئی جس نے آج یہ شکل اختیار کر لی ہے۔زندگی کے اسباب مہیا کرنے کی غرض سے باہر نکالا گیا قدم گھر کی دہلیز پر واپس نہیں لوٹ رہا۔اس نسل کے والدین بڑی شش و پنج کی زندگی گذار رہے ہیں۔انھیں اپنی اولاد کی خوشحالی کی خاطر اپنے جگر پاروں کی غربت بھی منظور ہے جب کہ ان کی عمر کا سورج خود ڈھلان کی طرف بڑھتا جا رہا ہے۔انھوں نے اپنے سینے پر پتھر رکھ لیا ہے۔گو کہ انھیں بھی ہے انتظار پھاٹک پر کسی اپنے کی دستک کا ، گرم جوشی سے سینے سے لپٹنے کا ، دوا کی خوراک ان کے ہاتھوں پینے کااور ان کے کاندھوں پہ آخری سفر کرنے کا۔
راوی کی مزید تفتیش پر کرنل صاحب نے دوسرے فوٹوگراف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ۔۔
’’ہاں یہ میرا بڑا بیٹا ہے ۔ یہ چھوٹا ۔ یہ امریکہ میں سٹلڈ ہے۔ میڈیسن کمپنی میں ملازم ہے۔ بڑا بیٹا ہالینڈ میں ہے ۔ بیٹی آسٹریلیا میں ہے۔ یہ ان کے بچوں کی تصویریں ہیں ۔ اب تو یہ بھی بڑے ہو گئے ہوں گے۔‘‘

راوی کرنل صاحب کی پہلودار شخصیت سے بہت متائثر ہوتی ہے اور اپنا مردم شماری کا کام پورا کر کاغذ سمیٹ لیتی ہے۔
اس طرح یہ ایک ایسی عمارت کی داستان ہے جس میں دل شکستہ والدین مکین ہیں۔ انھوں نے مدت دراز سے اپنے بچوں اور ان کی اولاد کو دیکھا نہیں ہے۔ راوی نے کوٹھی کا نقشہ بہت عمدگی سے کھینچا ہے ۔ لان کا ذکر گرمی کے موسم کے اعتبار سے اس طرح پیش کیا کہ نظروں کے سامنے تپتی گرمی میں لان کا طمانیت بخش منظر ہو بہو کھنچ جاتا ہے۔ اسی منظر کشی کے دوران پرندوں کے جال کا ذکر کہانی کی معنویت میں اضافہ کرتا ہے ۔ سنہری جال جس میں پرندے قید ہیں لیکن انھیں اس کا احساس ہی نہیں ، وہ تو بس اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ یہ مغربی ممالک میں جا بسے لوگوں کا عمدہ تمثیلی بیان ہے ۔ ان چند جملوں میں افسانہ نگار کا فنی کمال پوری شدت سے الفاظ میں اتر آیا ہے۔ کرنل قیصر بیگ کے تینوں بچے بیرون ملک جا بسے ہیں ۔ اس سنہری جال میں وہ اس طرح محبوس ہوئے کہ بھول ہی گئے کہ جن والدین نے انھیں اس دنیا سے روشناس کرایا وہ ہندوستان کے کسی گوشے میں آج بھی سانس لے رہے ہیں ۔ وہ کس حال میں ہیں یہ جاننے کی ان تینوں کو قطعی ضرورت نہیں ۔ کرنل صاحب کی عمر ۷۰برس ہے ۔ ان کی بیوی زرینہ بیگم فالج زدہ اور صاحب فراش ہیں ۔ ان کا پرسان حال اگر کوئی ہے تو وہ پرائے خانساماں کا بیٹا اور بہو۔ وہ والدین جن کے اپنے تین بچے ہیں ، ایسی صورت میں ان کا ہونا یا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس کوٹھی میں چند آوازیں ابھرتی ہیں تو پچاس پچپن برس کے ملازم کی ۔ بیٹے، بہو، بیٹی ، داماد، پوتی، پوتے، ناتی ، نواسے، یہ تمام رشتے تو اس سنہری جال میں مقید ہو کر رہ گئے جہاں حقیقی رشتوں کی تپش محسوس ہی نہیں ہو رہی۔ کتنا بے مروت ہے یہ جال ۔ یہاں لفظ ’ جال ‘ بہت معنی خیز ہے۔ یہ نگار عظیم کی عصری حسیت اور وسیع تفکر کا بھی مظہر ہے۔ یہاں وہ نئی نسل کے وطن سے ہجرت کرنے،عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے پر صرف اپنی ذات تک محدود ہو جانے ،والدین سے روگردانی کرنے پر فکر مند نظر آتی ہیں۔ اس افسانے میں ایک طرف جہاں انھیں پرانی نسل سے ہمدردی ہے وہیں وہ پرانی اقدار کی پاسبان بھی بن کر ابھری ہیں۔ ان چند جملوں نے قاری کویہ باور کرا دیا ہے کہ انھیںاپنی اقدار اور سماج کے مثبت رویوں سے بے انتہا لگائو ہے۔
کرنل صاحب اپنے بچوں کی تصویر دکھاتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔’’یہ ان کے بچوں کی تصویریں ہیں ۔ اب تو یہ بھی بڑے ہوگئے ہوںگے۔ ‘‘
’’ہو گئے ہوں گے۔۔۔مطلب۔۔۔آپ نے انھیں کب سے نہیںدیکھا؟
کئی برس ہو گئے۔ سب کی اپنی اپنی مصروفیات ہیں ۔ وقت بدلتا جا رہا ہے۔۔۔اب معمولات پہلے جیسے کہاں ہیں۔ سب اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہیںاور یہ ٹھیک بھی ہے۔ ‘‘
یہاں والدین کی بے بسی پوری شدت کے ساتھ ابھر آئی ہے۔ کرنل صاحب کا جملہ اس بات کا شاہد ہے کہ انھوں نے اس بے بسی کے باوجود صورت حال کو کسی طرح قبول کر لیا ہے۔ فقط ایک جملے میں ’’اب تو وہ بھی بڑے ہو گئے ہوں گے ‘‘ سارے جہاں کا درد سمٹ آیا ہے اور آج کی نسل پر بہت گہرا طنز ہے۔ یہاں راوی کے ساتھ ساتھ قاری خود کو انھیں حالات میں موجود اور ان سے جوجھتا پاتا ہے ۔ اس طرح یہ کہانی اب صرف کرنل قیصر بیگ کی نہ ہو کر ، ایک فرد کی نہ ہوکرپورے معاشرے کی داستان بن جاتی ہے اور کہانی کا کینوس بہت وسیع ہو جاتا ہے۔
دیوار پر آویزاں تصویروں کو دکھانے کے بعد کرنل صاحب ڈرائنگ روم میں سجی دیگر قیمتی اشیاء کو دکھانے لگے جن میں سے ہر چیز چالیس پچاس برس پرانی تھی اور ہر ایک کے ساتھ کوئی نہ کوئی یاد وابستہ تھی۔ انھوں نے اپنے خاندانی انمول ذخیرے کو تاریخی بنا دیا تھا۔
’’میں سوچنے لگی یہ کمرہ تو ایک بہت بڑا عجائب گھر ہے اور کرنل صاحب اس عجائب گھر کی ایک بے چین آتما۔‘‘
ظاہر ہے کرنل صاحب زندہ ضرور تھے لیکن زندہ رہنے کا کوئی مقصد نہ تھا ۔ اس گھر میں ادھر ادھر بھٹکتی ایک آتما ہی تو تھے وہ اور اس ڈرائنگ روم کے سامان کسی جیتے جاگتے شخص کے استعمال کے نہیں تھے بلکہ اب تاریخ بن چکے تھے ۔ جن کا وجود اپنی قدامت کی چغلی کھا رہا تھا ۔ ایک کرنل صاحب کا وجود تھا جو ان کے گرد بے چین ہو کر گھومتا تھا ۔ ان کا وجود ۔۔۔ایک بے چین آتما، کچھ تلاشتی ہوئی ، کسی اپنے کی صورت کو دیکھ لینے کو ترستی ہوئی، کسی فالج زدہ کے صحتیاب ہونے کے خواب دیکھتی ہوئی۔
اس کے بعد راوی نے مردم شماری کے کاغذات پر کئے۔ انھیں سمیٹا اور رخصت ہوتے ہوئے کرنل صاحب سے کہا ۔
’’کرنل صاحب بہت اچھا لگا آپ سے ملاقات کر کے ۔ واقعی طبیعت خوش ہوئی۔ آپ کا گھر بھی بہت اچھا ہے۔ بہت خوبصورتی سے سجایا ہے آپ نے ۔ بہت ،بہت خوبصورت ہے آپ کا گھر ۔ آپ تشریف رکھیں میں چلتی ہوں۔ یکایک ان کے جملے نے میرے قدم جامد کر دئے۔ ۔۔
’’گھر۔۔۔؟؟گھر کہاں۔۔۔یہ تو بس ایک عمارت ہے۔ ‘‘
ابھی تک قاری تو کوٹھی کے ہی چکر لگا رہا تھا ۔ وہاں بسنے والے چار افراداور تصویروں میں سجے لوگوں سے متعارف ہوا۔ راوی کی غرض وغایت یعنی مردم شماری کے کام سے واقف ہوا ۔ وہ تو کہانی کا ایک کردار بن کر ماں باپ کی تنہائی اور دکھوں کا ہمسفر بن چکا تھا کہ کہانی کے اختتام نے اس کے کرب میں مزید اضافہ کر دیا۔ ’’گھر۔۔۔؟؟گھر کہاں ۔۔۔یہ تو بس ایک عمارت ہے۔‘‘
کہانی کا عنوان ’عمارت ‘ہے ۔ جو پوری کہانی کے دوران ایک سوالیہ نشان بنا رہا ۔ کہانی شروع ہوئی تو کوٹھی کالفظ استعمال کیا گیا۔ کہیں بھی قاری کا سابقہ عمارت سے نہیں پڑا ۔ اس کے دل میں عنوان کو لے کر آخر تک تجسس برقرار رہتا ہے کہ دفعتاً کہانی کے اختتام پر کہانی کا عنوان اپنی پوری معنویت کے ساتھ آ موجود ہوا۔ قاری عمارت سے پہلی مرتبہ روبرو ہوا اور آخری مرتبہ بھی۔ ایک جھٹکے میں وہ گھر اور عمارت کے فرق سے روشناس ہو گیا ۔ گھر! گھر تو وہ ٹھکانا ہے جہاں گھر کا مکین لوٹ لوٹ کر آتا ہے ، سکون پاتا ہے ، چین کی سانس لیتا ہے ۔ گھر کے افراد اس کے اپنے ہوتے ہیں۔ گھر کا سامان اس کی آسائش کا ذریعہ ہوتے ہیں عجائب خانے کے نوادرات نہیں۔ گھرمیں جیتے جاگتے انسان سانس لیتے ہیں بے چین آتمائیں نہیں۔ مردم شماری میں اپنے گھر کے افراد کی تفصیلات درج کرائی جاتی ہیں غیروں کی نہیں۔
راوی جب واپسی کے لئے کوٹھی کے گیٹ پر آتی ہے تو دیکھتی ہے کہ مالی جو ابھی کچھ دیر پہلے گلاب کے پودوں کی اچھی طرح پرداخت کر رہا تھا ، انھیں گلابوں کی پنکھڑیاں پانی کی زیادتی سے جھڑ کر گر گئی تھیں اور ان پر گیلی مٹی چڑھ چکی تھی۔ یعنی مالی کے ہاتھوں ایک دن عمارت کے مالکین کا بھی کم و بیش یہی حشر ہونا ہے۔ اسی کے ہاتھوں ان کی مرقد پر گیلی مٹی چڑھادی جائے گی۔صورت حال یہ ہے کہ اپنے پرائے قریبی نزدیکی سب کا رول اب وفادار مالی اور خانساماں جیسے خدمت گاروں کے مرہون منت ہے۔
منجملہ یہ افسانہ قاری کو پوری طرح دعوت غورو فکر دیتا ہے ۔ وہ اس کے عنوان ’عمارت ‘ کا پوری کہانی سے ربط قائم کرتا ہے اور اس کی
روح کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ محترمہ نگار عظیم نے شروع سے آخر تک حساس زبان اور دھیمے لہجے کا استعمال کیا ہے ۔ سیدھے سادے جملے اور خوشگوار منظر نگاری کے ساتھ قاری افسانے کے کرداروں میں اپنی خوشیاں اور اپنے غم تلاشنے لگتا ہے۔ یہی وصف اس افسانے کی کامیابی کا ضامن ہے۔(یہ بھی پڑھیں!مسلم خواتین میں تعلیمی شرح کا تناسب ، مسائل اور ان کا حل از:پروفیسر صالحہ رشید)

Previous articleبجھ گئے کتنے شبستانِ محبّت کے چراغ از: خورشید عالم داؤد قاسمی
Next articleدرس و تدریس کی راہوں میں [حصّہ سوم] از:صفدر امام قادری

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here