اُتر پردیش میں کانگریس کی حد سے بڑھی ہوئی سرگرمیوں کے حقیقی معنیٰ کچھ اور تو نہیں ؟ از : صفدرا مام قادری

0
128

عرض داشت

(پرینکا گاندھی ہر چھوٹے بڑے واقعے کے پیچھے جمِ غفیر کی شکل میں اُتر پردیش کی حکومت سے مقابلہ آرائی کرتے ہوئے نظر آرہی ہیں مگر ان کے حقیقی مقاصِد شایدالگ ہیں۔)

جب سے اُتر پردیش میں اسمبلی انتخاب کے لیے سیاسی ہل چل تیز ہوئی ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ پرینکاگاندھی کی قیادت میں کانگریس بھی بڑھ چڑھ کر میدانِ عمل میں نظر آ رہی ہے۔اُتر پردیش میں دوسری سیاسی جماعتیں بالخصوص سماج وادی پارٹی اوربہوجن سماج پارٹی کی زور آور سر گرمیاں بالکل ہی نظر نہیں آ رہی ہیں۔ایسے میں میڈیا میں ایک طرف یوگی آدتیہ ناتھ اور ان کی پشت پر وزیرِ اعظم سے لے کر تمام افراد دورے کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، اس کے بر خلاف ہر چھوٹے بڑے حادثے کو مرکز میں رکھ کر پرینکا گاندھی ان اضلاع کا دورہ کرتی ہیں اور یہ بار بار نظر آتا ہے کہ انتظامیہ انھیں ان خاص مقامات کا دورہ کرنے سے روک دیتی ہے۔وہ وہیں مجمع لگا لیتی ہیں اور ملک کو انھیں جو سیاسی پیغام دینا ہوتا ہے، وہیں سے جاری ہو جاتا ہے ۔یہ کام بار بار اِسی انداز سے دکھائی دیتا ہے جیسے محسوس ہو کہ کوئی باضابطہ تحریر شدہ مسودے کے مطابق یہ اعمال وقوع پذیر ہو رہے ہوں ۔

گذشتہ پارلیمنٹ کے انتخاب میں لوگوں نے اُتر پردیش میں پرینکا گاندھی کی قیادت میں کانگریس کی سرگرمیاں ملاحظہ کی ہیں۔اوّلاً انھوں نے وزیرِ اعظم کے پارلیمانی حلقے بنارس سے اپنی تشہیر کا آغاز کیاتھا۔بنارس سے الہٰ باد تک وہ گنگا کے کس کس گھاٹ تک نہ پہنچیں اور کون سا مندر تھا جہاں وہ پوجا پاٹ میں نہ شریک ہوئیں۔کانگریس نے ماحول یہ بنایا کہ اُتر پردیش میں پرینکا گاندھی نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو خلاف طوفان مچا رکھا ہے۔بعض سیاسی حلقوں سے یہ بھی موضوع زیرِ بحث رہا کہ پرینکا گاندھی نریندر مودی کے خلاف بہ نفسِ نفیس میدان میں اتر آئیں گی مگر جو نتایج سامنے آئے، اس کے مطابق صورتِ حال دوسری تھی۔ خود راہل گاندھی محفوظ جگہ تلاش کرتے ہوئے جنوبی ہندستان پہنچ گئے اور پرینکا گاندھی نے ساری مذہبی بنیادوں پر جو تشہیر شروع کی تھی، اس کا بہ راہِ راست فائدہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہوا۔راہل گاندھی بھی اپنے خاندانی اور روایتی حلقۂ انتخاب میں ہارنے کے لیے مجبور ہوئے۔

اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ انڈین نیشنل کانگریس ہندستان کی سب سے پُرانی سیاسی جماعت ہے اور حکومت سازی کا بھی اُسے سب سے زیادہ تجربہ رہا ہے مگر اس کی موجودہ قیادت نے چوں کہ زمینی سیاست کا زیادہ مزہ نہ چکھا ہے اور نہ گذشتہ تین دہائیوں سے راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کو قومی لیڈر کی شکل میں اُبھارنے کی بڑی مشقّتیں کی ہیں ؛ اس لیے اس پارٹی کو مخصوص ہدایت کاروں کی تربیت اورنگرانی میں اقدام کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔کبھی کوئی سیاسی ماہر کوئی مشورہ دیتا ہے، راہل گاندھی کا کوئی بیان آ جاتا ہے۔کبھی کوئی اچانک نیا موضوع چھڑتا ہے اور کانگریس کے قائد اس پر گفتگو کرنے لگتے ہیں ۔اگلے روز وہ خود ہی بھول جاتے ہیں کہ انھوں نے ملک کا کون سا نیا سوال عوام کے پیشِ نظر رکھاتھا۔جب قیادت ہدایت کاروں کی نگرانی میں پرورش پائے گی تب اس سے یہی نتیجہ نکلا کرے گا ۔ایک سلسلے وار طریقے سے ملک و قوم کی ترقّی کے لیے کوششیں کرنا ،حزبِ اختلاف کی سلجھی ہوئی فکر سے متبادل قیادت کا ماحول تیّار کرنا کانگریس کو شاید آتا ہی نہیں ہے یا کم از کم راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کو اس بات کا شعور ہی نہیں ہے۔نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ ان کی مٹھی میں پھول کم اور کانٹے زیادہ حاصل ہوتے ہیں۔حقائق سے مقابلہ کرنا اور کھلے بندوںبساطِ سیاست بچھانا اگر کانگریس لائحۂ عمل رہتا تو کرناٹک اور مدھیہ پردیش کی ان کی سرکاریں ان کے ہاتھ سے نکل نہ پاتیں۔

کانگریس کا مسئلہ یہ ہے کہ دھیرے دھیرے اس کے ہاتھ سے سب کچھ چھنتا گیا مگر اسے پتا ہی نہیں چلا کہ اس کا زوال اسے کہاں تک لے جا چکا ہے۔ کہنے کو وہ قومی سیاسی جماعت ہے مگر بہت مشکل سے ملک کے ایک تہائی حصے سے آزادنہ طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی سے مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتر پاتی ہے۔بنگال ، بہار اور اُتر پردیش میں اس کے اراکینِ اسمبلی کی گنتی کر لیجیے تو یہ بات آپ کی سمجھ میں آ جائے گی کہ یہ کتنی بڑی سیاسی جماعت ہے مگر المیہ یہ ہے کہ انتخاب کے پہلے وہ قومی سیاسی جماعت کی طرح میدان میں اترتی ہے اور ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہی بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دے سکتی ہے۔مغربی بنگال میں کانگریس نے اپنا حشر تازہ تازہ ملاحظہ کیا ،اس سے پہلے بہار کے انتخاب میں زبردستی کانگریس نے ۷۰ سیٹیں حاصل کر لیںجن میں سے صرف ۲۲ مقامات پر دوسری سیکولر جماعتوں کے تعاون سے اسے کامیابی مل سکی۔سیاسی مشاہدین نے انتخاب کے نتایج کے بعد یہ بات واضح لفظوں میں کہی تھی کہ کانگریس کو جو سیٹیں دی گئی تھیں ، ان میں سے بیس پچیس سیٹیں اگر خود راشٹریہ جنتا دل اور سی۔پی۔ائی۔ایم ۔ایل کو دے دی گئی ہوتیں تو آج بہار میں ایک سیکولر حکومت کا قیام ممکن ہو جاتا۔
اتُر پردیش میں کانگریس کی سیاسی طاقت گذشتہ دس پندرہ برسوں میں اس کی حاصل شدہ سیٹوں کے مطابق نہایت ابتر ہے۔اس کے مقابلے سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی ہر اعتبار سے آگے ہیں۔جب سیٹوں کے بٹوارے کامعاملہ سامنے آتا ہے، اس وقت عام طور پر ایک ہی فارمولا آزمایا جاتا ہے کہ اگر آپ نے وہ جگہ جیت رکھی ہے، آپ دوسرے یا تیسرے مقام پر رہے ہیں تو آپ کا دعوا درست ہے۔یہی منصفانہ بنیاد بھی ہو سکتی ہے جس کے عِوض آپ میدانِ عمل میں اُترتے ہیں اور جیت کے خواہاں ہوتے ہیں۔اس فارمولے میں اُتر پردیش میں کانگریس کا جو واجب حق ہے، وہ معمولی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ جس محاذ میں بھی رہے، اسے چالس پچاس سیٹیں بھی مل جائیں تو یہ بہت ہے ۔بہار کے تجربے سے یہ ثابت بھی ہوتا ہے کہ کانگریس کو غیر ضروری طور پر زیادہ سیٹیں دے کر سکولر محاذ کو اقتدار سے دور کرنے کی روِش درست نہیں ہوگی۔

گانگریس اپنے آپ کو بڑی سیاسی جماعت کو طور پر پیش کرنے سے کبھی جھجکتی نہیں ہے۔دوسری چھوٹی بڑی سیکولر سیاسی جماعتیں بھی کانگریس کو چھتنار درخت ہی سمجھتی ہیں مگر کانگریس کو ہمیشہ یہ بات یاد نہیں رہتی کہ اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کا بڑا حصّہ نکل چکا ہے۔اس کے پاس جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی جیسی مضبوط قیادت بھی نہیں ہے۔موجودہ قیادت کا تو یہ حال ہے کہ پارلیمنٹ میں شکست کے بعد راہل گاندھی نے پارٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔ابتدائی دور میں لوگوں نے انھیں راضی کرنا چاہا مگر انھوں نے اپنا استعفیٰ واپس نہیں لیا ۔ اب ان کی والدہ کارگزار صدر بن گئیں۔ ڈیڑھ برس کے بعد کانگریس میں پارٹی کے صدر کے انتخاب کاپروگرام مرتَّب ہوا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ ستمبر تک یقینی طور پر راہل گاندھی پھر سے پارٹی کے صدر چن لیے جائیں گے۔ اگر یہی ہونا تھا تو اس نوٹنکی کی ضرورت ہی کیا تھی؟

پرینکا گاندھی کی حد سے بڑھی ہوئی سرگرمیوں بالخصوص اتر پردیش کے گانو دیہاتوں میں جان کی بازی لگا دینے کا جو انداز ہے، یہ ان کی سوچی سمجھی سیاسی سودے بازی کی بنیاد قایم کرنے کا ایک انداز ہے۔کانگریس ہی نہیں سماج وادی پارٹی اور مایاوتی سب پہلے اُتر پردیش میں تمام سیٹیوں پر انتخاب کا اعلان کرتی ہوئی ملیں گی۔عام آدمی پارٹی اور اسدالدین اویسی کھلے طور پر میدان میں اتریں گے۔کانگریس نے زیادہ زور شور سے آغاز اس لیے کیا ہے کہ ابھی سے اس کی مقبولیت کا ایک مصنوعی ماحول پیدا ہو جائے۔بے شک وہ پہلے تمام سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا اعلان کرے گی جس سے دوسری جماعتوں کو نفسیاتی طور پر دباؤ میں مبتلا کیا جا سکے۔مشکل یہ ہے کہ مایاوتی اور اکھیلش یادو دونوں کو اس انداز کی سیاست کا ان کے مقابلے میں زیادہ تجربہ ہے اور انھیں انتخاب جیت کر اُتر پردیش میں حکومت سازی کے بھی مواقع حاصل ہوئے ہیں جسے موجودہ کانگریس کے لیے ایک خواب ہی کہنا چاہیے۔کانگریس نے پرینکا گاندھی کو اسی کام کے لیے میدان میں اتارا ہے۔ عورتوں کی ہم دردی اور بدلتی ہوئی سیاست کی حکمت بھی ان کے پیشِ نظر ہے۔ چالیس فیصد خواتین کو وہ امّید وار بنانے کا اعلان بھی کر چکی ہیں۔ان کی پارٹی میں ماں بیٹی کے علاوہ صفِ اوّل میں کوئی خاتون اب تک نظر بھی نہیں آئیں۔سارا کھیل دباؤ کی سیاست کا ہے اور دس بیس سیٹیں زیادہ حاصل کر لینے کے لیے مخصوص ہے۔گانگریس کو معلوم ہے کہ آخر آخر سیکولر محاذ قایم ہوگا اور موجودہ ماحول سازی کے مطابق ہمارا دعویٰ پیش ہوگا۔مشکل یہ ہے کہ کانگریس کتنی سیٹوں پر جیت سکتی ہے اور اپنی مجموعی طاقت کی بنیاد پر سیکولر محاذکے امّیدواروں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں فتح یابی سے ہمکنار کر کے بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کوکس طرح اکھاڑ پھینکے گی ،اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی واضح نظریہ نہیں ہے۔کانگریس کا یہ المیہ اکثر جگہوں پر سیکولر محاذ کی لٹیا ڈبو دیتا ہے۔بہار میں یہ ہو چکا ہے ،اتر پردیش میں سب کو ہوشیارہنے کی ضرورت ہے۔

safdarimamquadri@gmail.com

شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس ،آرٹس اینڈ سائنس ،پٹنہ

Previous articleبہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیرمین عبدالقیوم انصاری کا اہم قدم!
Next articleہندوستان کے خلاف پاکستان نے پہلی بار دس 10وکٹوں سے جیت درج کر تاریخ رقم کی!

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here