افلاطون اور ارسطو کا نظریۂ نقل: تقابل اور تجزیہ از : ڈاکٹرابرار احمد اجراوی

0
1089

دنیا کے دو بڑے نظریہ ساز فلسفی افلاطون اور ارسطو کے مابین استادی اور شاگردی کا مقدس رشتہ ہے۔ لیکن دونوں نے اس مقدس رشتے کے تمام تر احترام کے باوجود مختلف مواقع پر ایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے۔ خاص طور سے ارسطو نے اپنے پیش رو استاد کے سامنے عقیدت و احترام میں سر نہیں جھکایا ہے، بلکہ ان کے نظریات کو اپنے عہد کی میزان نقد پر تولا ہے۔استاد اور شاگرد دونوں کے درمیان شاعری اور فنون لطیفہ سے متعلق عقائد و نظریات میں اتنا گہرا اختلاف ہے کہ ایک عام قاری کے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ کیا واقعی افلاطون ارسطو کا استاد تھا، جس نے بہت سے علمی اور منطقی مسائل کی گرہ کشائی میں ارسطو کی رہ نمائی کی ہے۔ علمی اور فلسفیاتی دنیا میں وسعت نظری پر مبنی یہی اختلاف تقدس کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ افلاطون شاعری اور آرٹ کے حوالے سے بڑا سخت گیراور متشدد واقع ہوا تھا ۔ اس نے اپنے دہنی مفروضات کی بنیاد پر شعراء کے گروہ کو مخرب اخلاق قرار دے کر نہ صرف سارے شعراء کو بلکہ سارے فن کاروں اور ڈرامہ نویسوں کو اپنی تصوراتی جمہوریت سے دیس نکالا دے دیا تھا۔ افلاطون کے فکر و خیال پر افراد انسانی کی باطنی اصلاح کا احساس اس قدر چھایا ہوا تھا کہ وہ شاعر کو صرف معلم اخلاق اور مبلغ اقدار کی شکل میں دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن جب افلاطون کے شاگرد ارسطو نے فلسفے کی دنیا میں قدم رکھا تو اس نے سمعنا واطعنا کی شکست خوردہ نفسیات کا مطاہرہ نہیں کیا،بلکہ اپنے استاد کے نظریات سے جابجااختلاف کیا اور اس نے شعراء اور دوسرے آرٹسٹوں کے خلاف افلاطون کے اس متشدددانہ نظریے کے خلاف زور دار آواز اٹھائی اور اپنے استاد کے بر عکس یہ کہا کہ شاعر کو صرف اخلاق اور اصلاح کے پہلو پرہی نہیں ، بلکہ جمالیات پروری ا ور ابنساط اندوزی پربھی توجہ دینا چاہیے۔ گر چہ ارسطو بھی انبساط و مسرت کے ساتھ اخلاقی قدروں کو یک سر نظر انداز نہیں کرتا تھا، مگر جس طرح افلاطون نے درس اخلاق کو اولیت دی ہے اس سے اختلاف کرتے ہوئے ارسطو نے اخلاق و اصلاح کے پہلو کو فن کے مقابلے میں ثانوی حیثیت دی ہے۔افلاطون کا شاعری پر سب سے بڑا اعترض یہ تھا کہ وہ نقل در نقل ہے، یعنی حقیقت سے دو قدم دور ہے۔لیکن ارسطو یہاں بھی اپنے استاد کے خلاف مورچہ بندی کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ نقالی عیب نہیں، بلکہ یہ توبنی نوع بشر کی قابل رشک خوبی اورمابہ الامتیاز انسانی صفت ہے۔ جو انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جس چیز کو ہم اصل صورت میں دیکھنا پسند نہ کریں اس کی نقل کو ہم انسان بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ ہم ظلم کو تو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے، مگر جب ڈرامے میں ظلم و ستم سے آمیز اس منظرکو پیش کیاجاتا ہے توہم انسان اس کو بخوشی دیکھ لیتے ہیں، جس سے ہماری باطن کی کتھارسس بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح فن کار صرف ہو بہو نقل کرنے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ فکر و فن کی بھٹی میں تپا کر اس کو خوب سے خوب تر بناکر پیش کرتا ہے۔ اس لیے نقالی کیوں کر ناپسندیدہ اور قابل مذمت قرار دی جاسکتی ہے۔

یہاں اس بات کا تدکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا کہ افلاطون شاعرانہ فطرت لے کر پیدا ہوا تھا۔ لیکن سقراط کی شاگردی نے اس پر ایسا سحر کیا کہ وہ شاعری سے بد دل ہوکر فلسفے پر مرتکز ہوگیا۔ اور اپنی ساری نظموں کو آگ کے حوالے کردیا۔ اس کے مکالمات میں شاعری کے حوالے سے کوئی منضبط تنقیدی کلام تو نہیں ملتا ہے، لیکن اس کی متفرق آراء سے اس کے تنقیدی نظریے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس کے تنقیدی فرمودات کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت شاعری کا مخالف بھی ہے اور حامی بھی۔ زندگی اور انسانی معاشرے کے حوالے سے اس کے دوسرے نظریات میں بھی کافی تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ شاعر کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ضرور ہے، سماج اورانسانی معاشرے میں اس کے اثرو و رسوخ کا بھی قائل ہے، مگر جب اخلاق و اقدار اور قانون و ضابطے کی بات آتی ہے تو وہ شاعر سے بد ظن اور متنفرہوجاتا ہے۔ اس نفرت اور بد ظنی کی تفصیل افلاطون کی ہی زبانی سنیے، وہ دلیل دیتے ہوئے کہتا ہے:

’’مثالی جمہوریہ کے حاکموں کی تعلیم کے لیے شاعری کی تعلیم مضر ہے۔ کیوں کہ شاعر اچھا شہری بننا نہیں سکھاتے۔ اچھے اخلاق کا درس نہیں دیتے۔ افلاطون کہتا ہے کہ جوانوں کو اپنے ملک کے لیے بہادری سے مرنا سکھایا جائے اور عاقبت میں صلے کی امید دلائی جائے۔ لیکن شاعر جو عالم ارواح کا نقشہ پیش کرتے ہیں، وہ بہادری کی نفی کرتا ہے۔ وہ موت سے خوف دلاتے ہیں، انسان کو بزدل بناتے ہیں۔ شاعری عورت اور خراب آدمیوں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ وہ ان جذبات کو ابھارتی ہے جن کا ترک کرنا بہتر ہے اور جن پر انسان کو قابو پانا چاہیے۔‘‘(۱)

افلاطون شاعری کو نقل در نقل اس لیے بتاتا ہے کہ وہ در اصل عالم مثال کو مانتا ہے، جس میں ازل سے تمام اشیاء کی اصل صورت محفوظ و موجود ہے۔ فن کار تواپنی بصارت سے کام لے کر صرف ظاہری شکل کو الفاظ میں پیش کرتا ہے اور لفظ کا حال یہ ہے کہ وہ ہر لمحہ بدلتا رہتا ہے۔ جب کہ حقیقت ہر قسم کے تغیرات سے محفوظ رہتی ہے۔اگر وہ تغیرات زمانہ کے سبب ادلتی بدلتی رہے، تو پھر وہ حقیقت کہاں رہے گی۔ جیسے حسن وجمال کا اظہار مختلف طریقوں سے اور مختلف الفاظ میں کیا جاتا ہے، مگر حسن حقیقی تو ایک ہی ہے۔ چناں چہ فن کار جو کچھ بھی پیش کرتا ہے وہ حقیقت نہیں، بلکہ نقل ہے۔موجودہ عہد کے مشہور ناقد ڈاکٹر شارب ردولوی نے اس افلاطونی نظریے کو اس طرح سمجھایا ہے:

’’ایک فن کار جو کچھ بھی تخلیق کرتا ہے، خواہ وہ مجسمہ ہو، یا خوب صورت تصویر ؛وہ حقیقت نہیں ہے، کیوں کہ حقیقت ایک سے زائد نہیں ہوسکتی۔ اس لیے مصور یا مجسمہ ساز حقیقت کی نقل کے علاوہ کچھ نہیں بناسکتے۔ اور وہ نقل بھی تیسرے درجے پر ہوتی ہے۔ یعنی اس کی مثال عالم مثال میں ہے، دنیا میں صرف اس کی نقل ہے اور فن کار جب اس نقل کو اپنے فن پارے میں پیش کرتا ہے تو وہ نقل کی نقل کرتا ہے۔‘‘(۲)

شاعری کے حوالے سے افلاطون کی تشدد پسندی کی ایک اور وجہ ہے اور وہ یہ کہ افلاطون کی نظر میں خیر اور سچائی ہی اصل حقیقت ہے اور وہی چیز نیک اور حسین ہوسکتی ہے، جس میں خیر اور سچائی کا پہلو پوشیدہ ہو۔ اس لیے وہ ہر قسم کے آرٹ کو بھی فلاح وبہبود اور خیر اور سچائی کا نمونہ دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ فنون لطیفہ کی بے راہ رویوں سے اتنا نالاںاور اس کی نت نئی قلابازیوں سے اتنا چراغ پا تھا کہ وہ نظام تعلیم کے علاوہ مذہبی افکار و عقائد پر بھی سخت پہرے بٹھادینے کا حامی تھا۔ در اصل اس وقت کے یونان میں سیاسی اور سماجی حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ جس نے افلاطون کو اتنا سخت اور متشدد بنادیا تھا اور وہ یہ قدم اٹھانے پر مجبو ر تھا۔ اور وہ ان تمام خرابیوں کے ازالے کا واحد حل فلسفے کو تصور کرتا تھا۔ بقول سجاد باقر رضوی:

’’افلاطون در اصل اپنے عہد کی خرابیوں کو دیکھ رہا تھا اور اس کا خیال تھا کہ اگر فلسلفے کو انسانی زندگی کے لیے راہ بر تسلیم کرلیا جائے تو معاشرے کی ساری خرابیاں دور ہوسکتی ہیں۔ اسی باعث اس نے شاعری کے خلاف فلسفیوں کے اعتراضات کو من و عن قبول کرلیا اور ایک وکیل کی طرح اس کے مضر اثرات کو بڑھا چڑھا کر اور اس کے فوائد کو کم کرکے پیش کیا‘‘(۳)
افلاطون شاعری کا نرا مخالف نہ تھا،اس کو شاعری ارو دوسرے فنون لطیفہ سے اتنی چڑ بھی نہ تھی، یہی وجہ ہے کہ اس نے بستر مرگ پر عظیم شاعر ہومر کی تعریف بھی کی ہے اور فنون لطیفہ کو تخلیق کا نام بھی دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دروں میںبھی شاعری اور فن کاری کے حوالے سے نرم گوشہ موجود تھا۔ اگر چہ اس نے شاعر و فنکار کو ابتداء میں نقل کی نقل کرنے والا قرار دیا ہے، مگر اخیر میں انھیں خالق و موجد کا لقب بھی عطا کیا ہے۔افلاطون شروع میں چند اخلاقی بگاڑ کی جہ سے ان فن کاروں کا مخالف تھا، مگر جب اس کے روشن اور کار آمد پہلووںسے آگاہی ہوئی تو اس کی اس شدت میں بہت حد تک کمی آگئی تھی۔
اس کے بر عکس افلاطون کے شاگرد ارسطونے اپنے استاد کے اصول اور نظریات کو من و عن قبول نہیں کیا۔ اس نے ایک سائنٹفک طرز تنقید اختیار کرتے ہوئے جہاں اپنے استاد کے نظریات کو منظم اور مربوط کیا ، وہیں ان میں ردو قدح کا اصول بھی جاری کیا۔ ارسطوکے عہد کا یونان کافی مستحکم متحد اور منظم تھا، اس لیے اس نے اپنے استاد کے معاصرانہ سیاسی اور سماجی مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور اس نے اطمینان کے ساتھ نئے سیاسی عہد کے پیدا کردہ دوسرے مسائل پر عور و خوض کرنا شروع کردیا۔ ارسطو کے ذہن پر اپنے پیش رو استاد کی فکری اور ذہنی چھاپ صرور ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ اس نہ افلاطونی نظریے پر یکسر خط تنسیخ نہیں کھینچا، مگر اس نے بغیر نام لیے اپنے استاد کی فکر و فلسلفے کی تصحیح بھی کی ہے۔

ارسطو نے بھی نقل کی اصطلاح افلاطون سے ہی لی ہے، مگر وہ افلاطون کے بر عکس اس کو ایک قدرتی اور فطری عمل قرار دیتا ہے۔ افلاطون عینیت کا حامی ہے تو ارسطو واقعیت کا ۔ بقول جمیل جالبی:
’’ارسطو کے نزدیک سارے فنون نقل کی صورتیں ضرور ہیں، لیکن ان صورتوں میں فرق تین وجوہ سے ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ سارے فنون نقل کے ایک دوسرے سے مختلف ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے اس وجہ سے کہ یہ مختلف چیزوں کی نقل کرتے ہیں۔ اور تیسرے اس وجہ سے کہ یہ نقل کے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ذرائع، اشیاء اور طریقے کے فرق سے ایک فن دوسرے فن سے، نقل کے بنیادی اشتراک کے باوجود، مختلف ہوجاتا ہے۔ شاعر کا ذریعہ زبان ہے۔ جس میں بحر کی وجہ سے موسیقیت پیدا ہوجاتی ہے۔ مگر بحر کا وجود ہی شاعری کو شاعری نہیں بناتا۔ شاعر انسان کو حالت عمل میں پیش کرتے ہیں اور ایسے انسانوں کو سامنے لاتے ہیں جو یا تو نیک ہوتے ہیں یا بد ہوتے ہیں۔‘‘(۴)
ارسطو یہ بھی کہتا ہے کہ فن کار نقل ضرور کرتا ہے، مگر وہ نقل کی نقل نہیں ہے۔ اسی طرح ارسطو عالم مثال کو بھی خاص اہمیت نہیں دیتاہے،اسی لیے وہ شاعری میں الفاظ و تشبیہات کے ذریعے انسانی جذبات کی نقل کو برا نہیں سمجھتا۔ وہ نقل کو انسان کی فطری جبلت کہتا ہے، بلکہ اس نے شاعری کی ابتداء کے لیے جو دو اسباب شمار کرائے ہیں ان میں سے ایک نغمہ اور موزونیت اور دوسرا نقل ہی ہے۔ اپنے نظریات کو مدلل کرتے ہوئے بوطیقا کے آغاز میں ہی ارسطو کہتا ہے۔
’’نقل سے صرف خوشی ہی حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اس سے تعلیم کا کام بھی لیاجاتا ہے۔شاعری کی ابتداء کا دوسرا سبب نغمہ یا موزونیت ہے۔رونے یا ہنسنے کی طرح گانا بھی قدیم انسان نے بہت جلد سیکھا ہوگا۔ ان دونوں اسباب کے ملنے سے قدیم زمانے میں شاعری کی ابتداء ہوئی ہوگی۔‘‘(۵)

افلاطون جو شاعری کو پابند سلاسل کرنے کا فتوی صادر رکرتا تھا،اس کے شاگرد ارسطو نے شاعری کا تعلق انسانی فطرت سے قرار دے کر شعراء کو آزادی دینے کی بات کہی ہے۔ افلاطون نقالی کو جھوٹ اور مکرو فریب تصور کرتا ہے، تو ارسطو اس کو انسانی جبلت قرار دیتا ہے، جس کی بدولت انسان کے لیے تکلیف دہ تصورات کو بھی انگیز کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ ارسطو کہتا ہے:
’’تجربے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ چیزیں جن کا دیکھنا ویسے تو ہمارے لیے تکلیف دہ ہے، جب فن کے ذریعے ان کی نقل پیش کی جاتی ہے تو ہم اس نقل سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جتنی صحت کے ساتھ ان کی نقل پیش کی جائے گی وہ اتنی ہی اچھی معلوم ہوں گی۔ نقل کرنے کی جبلت ہمارے لیے اسی طرح فطری ہے جس طرح موسیقی اور وزن کا احساس۔ ان فطری و جبلی رجحانات سے شروع ہوکر اور اپنی ابتدائی کوششوں سے رفتہ رفتہ ترقی کرکے انسان نے آخر کار اپنی جدت اور برجستگی سے شاعری ایجاد کرلی۔‘‘(۶)
افلاطون نے شاعری کو عکس در عکس قرار دیتے ہوئے شاعر کو جھوٹا،نقال اور مکار کہا ہے، لیکن ارسطو نے اس نظریے کی تصحیح اس طرح کی ہے کہ شاعری کے لیے صحت کا وہ پیمانہ اختیار کرنا جو زندگی کے دیگر امور کے لیے اختیار کیاجاتا ہے، انتہائی غلط ہے۔ شاعر اگر نقل کی صلاحیت میں ناکام رہے، تبھی اس کوجھوٹا قرار دیاجاسکتا ہے۔ افلاطون نے رتھ کی ڈور کی مثال دے کر کہا تھا کہ جب شاعر اس کو الفاظ وعبارت کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو وہ گرچہ اپنی بصیرت و بصارت کی حد تک صحیح ہے، مگر وہ رتھ والے کی نظر میں علط ہوجاتا ہے۔ ارسطو نے بعینہ اس مثال کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ شاعر کا وہ مقصد نہیں ، جو رتھ کی ڈور سکھانے والے کا ہے۔ شاعر صرف اشیاء کی نقل نہیں کرتا، بلکہ وہ نقل کے ذریعے اپنی فکری رسائی اور قوت تخیل سے کام لے کراس عالم مثال تک بھی پہنچ جاتا ہے جو افلاطون کے فلسفے کی بنیاد ہے۔ مابعد جدید ناقدوہاب اشرفی نے اس نکتے کو اس طرح سمجھایا ہے:
’’شاعر یا ادیب کا کام کسی شے کا چربہ اتارنا نہیں ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایک فن کار فطرت کی نقل اس معنی میں کرتا ہے کہ وہ اپنی قوت تخیل سے اسے پیکر حیات میں ڈھال دیتا ہے۔ یعنی وہ زندگی کی از سر نوتشکیل کرتا ہے۔ کسی تصویر کا کسی ادیب پر اثر پڑتا ہے تو وہ تصویر کو جوں کا توں الفاظ کے قالب میں نہیں ٹھال دیتا، بلکہ اپنے تخیل سے اس تصویر میں نئے رنگ و روغن بھرتا ہے۔ اس طرح کہ متعلقہ تصویر کی صورت بدل جاتی ہے۔‘‘(۷)
افلاطون نے اپنے نظریۂ نقل در نقل کی دلیل ایک میز سے اس طور دی تھی کہ دنیا میں کروڑوں میزیں ہیں، لیکن کیا یہ صحیح نہیں کہ ان تمام میزوں کے بارے میں کوئی ایک ہی الہیاتی شکل مبنی برحق ہو سکتی ہے۔ جب کوئی بڑھئی ایک میز بناتا ہے، تو اس کی ساری کارکردگی اور تزئین کاری کا پس منظر یا محرک وہی عالم مثال والی ایک حقیقی میز ہے۔ جس سے ماضی میں تمام میزیں بنائی گئی ہیں یا مستقبل میںبنائی جاسکتی ہیں۔ اب مصوراگر عالم غیر حقیقی کی کسی میز یا اس کی تصویر یا شبیہ کے سامنے بیٹھ کراپنے برش اور پینٹ کی مدد سے اس کی تصویر کشی کرتا ہے تو اس کا حاصل بڑھئی کی بنائی ہوئی میز کی نقل ہے۔ جو بذات خود ایک مثالی حقیقی میز کا عکس اور سایہ ہے۔ اس طرح عور کیا جائے، تو مصور کی تصویر سچائی اور حقیقت سے دو منزل دور ہے۔‘‘ارسطودلائل کی بنیاد پر اس کو رد کردیتا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ بڑھئی کی بنائی ہوئی میز مادہ اور شکل کا مرکب ہے۔ مادہ ہمارے چاروں گردمنتشر ہوتا ہے مگر انسان اس کو اپنے تخیل وتفحص سے میز کی شکل دے دیتا ہے۔ یعنی آرٹسٹ کا کام فطرت کی نقالی ضرور ہے، لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ آرٹسٹ منتشر اور بے جوڑ چیزوں کو جوڑکر ایک منظم شکل دیتا ہے، یا فطرت کے ذریعے چھوڑے گئے خالی مقامات کو پرکردیتا ہے۔ اس طرح یہ نئی شکل وصورت ماقبل کی چیز کے مقابلے میں پر کشش اور مربوط ہوجاتی ہے۔

نقل در نقل کی بحث صرف افلاطونی عہد تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ افلاطون اور رسطوکے بعد بھی نقل در نقل کی بحث ہوتی رہی ہے۔ گرچہ اس کے سابقہ معنی تبدیل ہوگئے تھے۔ مگر بنیادی مفہوم کی بو بعد میں بھی محسوس کی جاتی رہی ہے۔ ہوریس کے نزدیک نقل کے معنی زندگی کی نقل نہیں، بلکہ قدماء کی نقل مراد ہے۔ کولرج نے نقل کے بجائے تخیل کا لفظ استعمال کرکے اس پہلو پر زور دیا کہ نقل میں، نقل کرنے والے کی انفرادیت، یعنی اس کا داتی انداز فکر اور نقطۂ نظر واضح ہونا چاہیے، تبھی یہ مکمل اور بامعنی ہوسکتی ہے۔ میتھیو آرنلڈنے شاعری کو تنقید حیات بتاتے ہوئے کہا کہ صرف نقل کافی نہیں، بلکہ اس نقل میں عقل کو بھی شامل ہونا چاہیے۔ ٹالسٹائے نے اس کے لیے ابلاع کا لفظ استعمال کیا۔ جس میں کسی فن پارے کو دیکھ کر، سن کر، یا پڑھ کر پیدا ہونے والے اثر پر زور دیا گیاہے۔ کروچے نے اظہار کا لفظ استعمال کیا کہ جب نقل کے ذریعے کوئی چیز بنائی جائے تو گر چہ ہو بہو وہ چیز نہیں بن سکتی، مگر اس سے بہتر چیز ضرو رتخلیق ہوجاتی ہے۔ مابعد میں ظہور پدیر ہونے والے تمام نقلی نظریات پر ارسطو اور افلاطون کی چھاپ دکھائی پڑتی ہے۔ اسی لیے جمیل جالبی لکھتے ہیں:
’’اس قسم کی تمام اصطلاحوں پر غور کیجیے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ سب خیالات ارسطو کے لفظ’’نقل‘‘ کی پشت در پشت اولادیں ہیں۔‘‘(۸)
افلاطون اور ارسطوکے نظریۂ نقل میں مشابہت و تضاد یا اخذ واستفادے کے حوالے سے وہی بات کہی جاسکتی ہے جو ان دونوں کے فلسفے کے تضاد یا تطابق کے حوالے سے کہی جاتی اور ان دونوں کے درمیان توافق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر افلاطون نے شاعری کو نقل در نقل قرار دے کر اس کو درخور اعتناء نہیں سمجھا، تو اس کے اپنے معقول اسباب تھے۔ اور اگر اس کے شاگرد ارسطو نے ادب و شاعری کی حوصلہ افزائی کی ، تو اس کے پیچھے بھی اس وقت کے سیاسی اور معاشرتی محرکات کار فرما تھے۔کوئی نظریہ خلا میں تشکیل نہیں پاتا۔ لیکن انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو افلاطون کے بجائے، ارسطو کا نظریہ شعر زیادہ معتدل، مستحسن اور جچا تلا ہے۔ آج تک اس کے جمالیاتی نظریے سے شاعری کی کائنات آباد نظر آتی ہے۔ جس سے شاعر اور قاری کو کتھارسس اور باطنی تزکیے کا مصبوط وسیلہ ملتا ہے۔ ارسطو نے جس طرح نقل کو شاعری کے لیے مستحسن سمجھا ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس نے شاعری یا دوسرے فنون لطیفہ کو بغیر کسی تعصب کے صرف شاعری اور ادب کے زاویے سے دیکھا ہے۔ افلاطون کی طرح اس نے شاعری کے لیے صرف درس اخلاق اور اصلاح و تبلیغ کو مطمح نظر نہیں بنایا، بلکہ آرٹ میںجمالیاتی عناصر کو اس کا مقام دینے کے ساتھ اخلاقیات کو بھی اس کے مناسب درجے پر رکھا ہے۔ اعتدال و توازن کا تقاضا بھی یہی تھا۔

حوالے
(۱)جمیل جالبی،ارسطو سے ایلیٹ تک، ص:۲۵ا، یجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی ۱۹۹۲ء
(۲)شارب ردولوی،جدید اردو تنقید اصول و نظریات، ص:۲۱، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنو، ۲۰۰۲ء
(۳)سجاد باقر رضوی،مغربی تنقید کے اصول، ص:۱۴، نصرت پبلشرز لکھنو، ۱۹۸۵ء
(۴)ارسطو سے ایلیٹ تک، ص:۲۹
(۵)جدید اردو تنقید اصول و نظریات، ص:۲۶
(۶)ارسطو سے ایلیٹ تک، ص:۳۰
(۷)ابوالکلام قاسمی،نظریاتی تنقید، مسائل و مباحث، ص،:۹۲، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ ۲۰۰۶ء
(۸)ارسطو سے ایلیٹ تک، ص:۳۴
٭٭٭
ABRAR AHMAD
AT+POST IJRA
VIA RAIYAM FACTORY
DIST.MADHUBANI BIHAR
PIN:847237
email:abrarahmadijravi@gmail.com

Previous articleمولانا محمد ابصار الحق قاسمی ؒ از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
Next articleوزیر اعلی خود دورہ کرکے لیں گے جائزہ: وزیر اعلی نتیش کمار

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here