’’گلنار!….ہمیں ہچکی بھی لگتی ہے تو ہم ڈاٹا آن کر لیتے ہیں، لیکن تم آن لائن ہو کر بھی بات نہیں کرتی۔ میں یہاں تمہارے انتظار میں دن رات فیس بک آن کیے بیٹھا ہوں۔ پہلے تو تم ایسی نہیں تھی، رات رات بھر باتیں کیا کرتی تھی، پیار بھری باتیں، محبت بھری باتیں، دل کو سکون دینے والی باتیں اور ہاں بہت جلد ہم ملنے بھی والے تھے جیسا کہ تم نے وعدہ کیا تھا۔ تمھاری یہ بے رخی میری جان لے لے گی۔ میں بہت پریشان رہنے لگا ہوں۔ اب کہیں بھی من نہیں لگتا۔ میں تمھارے بغیر نہیں رہ سکتا گلنار۔ تم میری کسی پوسٹ پر کمنٹ بھی نہیں کر رہی ہو، نہ ہی میری کسی پوسٹ کو لائک کر رہی ہو۔ مجھے بتاؤ بات کیا ہے؟ پچھلے تین چار مہینوں سے مسلسل میں تمھیں میسیج پر میسیج کررہا ہوں۔ آخر تم میرے میسیج کا جواب کیوں نہیں دیتی؟ کیا مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ بتاؤ نا پلیز! پلیز….پلیز بتاؤ، تم کو میری قسم ہے۔
دیکھو کل یوں ہوا کہ میں تین گھنٹے تمھا رے انتظار میں فیس بک پر بیٹھا رہا، اور تم آن لائن آئی ہی نہیں۔ پھر نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی، رات بھر کی نیند باقی تھی نا اس لیے۔ جب ایک گھنٹے بعد میں نیند سے جاگا تو پتا چلا کہ ابھی پانچ منٹ پہلے تک تم آن لائن تھی۔ تب مجھے اپنی نیند پر بہت غصہ آیا، کمبخت اسی وقت آنی تھی۔ میں تمھاری ڈیسک ٹاپ فوٹو کو گھنٹوں دیکھتا رہتا ہوں۔ پھر کیا کروں جب تم بات نہیں کرتی تو تمھاری فوٹو سے ہی دل بہلا لیتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں، سب سمجھتا ہوں، تم مجھے تڑپانا چاہتی ہو تاکہ جب تم شادی کرنے کے لیے کہو تو میں انکار نہ کر سکوں۔ لیکن تمھیں معلوم نہیں، اگر کوئی مجھے گہری نیند سے اٹھائے اور پوچھے کہ تم سے شادی کرو گے؟ تو میں کہوں گا ’’ہاں، چلو ابھی۔‘‘ لیکن تم پہلے بات تو کرو، تب بات آگے بڑھے گی۔ جو کچھ بھی ناراضگی ہے اسے چھوڑدو، غصہ تھوک دو اور معاف کردو۔
میں تو نہیں جانتا کہ مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے، لیکن اللہ کے واسطے مجھے معاف کردو پلیز… اور میرے میسیج کا جواب دو۔ میں تمھارے جواب کا منتظر ہوں۔ ایک ایک لمحہ مجھ پر ایک پہاڑ کی مانند گزر رہا ہے۔ گلنارتم ایسا کرو اپنا موبائل نمبر مجھے دو میں ابھی تم سے بات کرتا ہوں…میرے دوست بھی شکایت کرنے لگے ہیں کہ اب میں ان سے کم مل رہا ہوں۔ میں تو پہلے ان کے بغیر رہتا بھی نہیں تھا، لیکن اب من نہیں کرتا کہ باہر جاؤں اور دوستوں میں ہنسی مذاق کروں۔ میرے گھر کے سبھی افراد میرے لیے فکرمند ہوگئے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں مجھ سے…بیٹامتین!تو اتنا گم صم کیوں رہنے لگا ہے، نہ ٹھیک سے کھانا کھاتا ہے، نہ پہلے جیسا ہنستا ہے، نہ بولتا ہے، کونسی فکر نے تجھے گھیر رکھا ہے….ہر وقت تمھارا خیال ستاتا ہے کہ آخر تم اب بات کیوں نہیں کرتی؟ کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ ہاں قسم سے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ میں کیا کروں؟‘‘
پھر ایک دن اس کا میسج آیا۔ ’’معاف کرنا بھائی، میں بھی ایک لڑکا ہی ہوں ۔ ‘ ‘
٭٭٭٭٭
حالیہ پوسٹ
مشہور پوسٹ
- Advertisement -