افسانہ”مردہ پرستی” از محمد علیم اسماعیل

0
79

آج عارف کا مضمون شائع ہو گیا، لیکن مضمون شائع ہونے سے پہلے وہ جتنا بے قرار تھا، آج اتنا خوش نہیں۔ وہ ساکت و جامد بیٹھا سوچتا رہا، ایسی پذیرائی کا کیا کرے کوئی، جسے دیکھنے کے لیے انسان زندہ ہی نہ رہے۔ مرنے کے بعد تو لوگ گناہ گار کو بھی اچھا کہتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی بھی زندگی بھر سر سید احمد خان کی مخالفت کرتے رہے اور جب سر سید اس دار فانی سے کوچ کر گئے تو کہنے لگے کہ اپنی تو باتیں ہی باتیں ہیں، سید کام کرتا تھا۔
عارف اپنے ریسرچ ورک کے لیے ISSN والے رسالے میں اپنا تحقیقی و تنقیدی مضمون شائع کرانا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے کڑی محنت سے ایک اچھا مضمون قلم بند کیا تھا۔ تقریباً ایک مہینہ پہلے اس نے ایک سرکاری رسالے کو اپنا وہ مضمون ارسال کیا۔ مضمون میں ملک کے ایک مشہور و معروف شاعر کی ادبی خدمات کا احاطہ کیا گیا تھا، وہ شاعر کافی بزرگ ہو چکے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کے اہم ایّام ادبی خدمات میں گزارے تھے۔
عارف کورسالے سے جواب ملا:’’آپ نے بہت اچھا مضمون قلم بند کیا ہے لیکن ہمارے یہاں زندہ شخصیات پر مضامین شائع نہیں ہوتے۔‘‘
جواب پڑھ کر وہ دیر تک سوچتا رہا،عجیب اصول ہے۔اس دنیا میں حقیقی فنکاروں کی قدر نہیں ہوتی بلکہ ناکارہ اور چاپلوس لوگوں کی جئے جئے کار ہوتی ہے۔ لیکن چاپلوسی اور سفارش سے حاصل کیے گئے مقامات اور رتبے، چاپلوس انسان کے مرنے کے ساتھ ہی مر جاتے ہیں، جبکہ اصل فن کار تو مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں۔
یہ بات اس نے اپنے والد کو بتائی کہ فلاں رسالے سے اس طرح کا جواب ملا ہے۔ تب انھوں نے کہا:’’بیٹا، ایک سچّے فن کار کی خدمات کا اعتراف اس کی زندگی میں ہی ہونا چاہیے۔ تخلیق کار خونِ جگر سے ادب کی خدمت کرتا ہے اور اپنی زندگی کا اہم حصہ قربان کر دیتا ہے۔ لیکن کیا کریں، یہ دنیا مردہ پرست ہے۔ دیکھنا مرنے کے بعد کئی ادارے انھیں ایوارڈز سے نوازیں گے۔ دنیا کا رواج بھی عجیب ہے۔ یہاں زندہ انسانوں کی اتنی قدر نہیں ہوتی جتنی مردوں کی ہوتی ہے۔ زندہ انسانوں کو یہ دنیا رلاتی ہے اور مردوں کے لیے رونے بیٹھ جاتی ہے۔ کسی کے مرنے کے بعد لوگ روتے ہیں اور اس کی موت کا ماتم کرتے ہیں جبکہ مردہ تو دنیا کے ظلم و ستم کا رونا پہلے ہی رو لیتا ہے۔‘‘ پھر انھوں نے ڈاکٹر خالد علیگ اور علی مزمل خان کے ایک ایک شعر پڑھے:
یہ قوم مردہ پرستی کے فن میں ماہر ہے
یہ مجھ کو روئیں گے کل، ان کو آج میں رو لوں

سب دلدر زندگی کے دور فرما گئے
بعد مرنے کے ہوئی اتنی پذیرائی کہ بس
ایک دن عارف ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اچانک اس کی نظریں اخبار پر جم گئیں۔ اخبار میں موصوف شاعر کی موت کی خبر چھپی تھی۔ خبر پڑھ کر اس کی زبان سے بیساختہ یہ جملہ نکلا: ’’چلو اب مضمون بھیج دیتا ہوں۔‘‘
بحوالہ ” رنجش”
٭٭٭

Previous article“نیند” از شاہ تاج(پونے)
Next articleنظم “کتابیں پڑھیں” از ڈاکٹر ظفرکمالی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here