افسانہ ”ٹوٹتے ارماں” از: قمر اعظم صدیقی

0
214

جب آرزو ضیاء صاحب کے مکان کی چھت پر پہنچا تو اس وقت سورج کی آخری کرنیں دم توڑ رہی تھیں۔ عنقریب تاریکی اپنے پورے دم خم کے ساتھ شہروں میں آنے کے لئے بے قرار تھی۔ تبھی آرزو کی نظر صدف پہ پڑی جو چھت کے دوسرے کنارے پر کھڑی تھی۔ صدف کے چہرے کو پڑھ کر صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی سورج کی آخری کرنوں کی طرح اپنی زندگی سے مایوس ہو کر اس دار فانی کو الوداع کہنا چاہتی ہے۔آرزو اس کے قریب پہنچا اور مایوسی کی وجہ پوچھی۔ صدف نے جھلا کر کہا آپ وجہ جان کر بھی کیا کریں گے؟ صدف نے اس سے قبل کبھی بھی آرزو سے ناراضگی کا اظہار نہیں کیا تھا اور نہ ہی بے رخی کا مظاہرہ۔ آرزو خاموش ہو کر حیرت زدہ سوچنے لگا کہ آخر صدف کی ناراضگی اور بے رخی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ صدف تو کافی اخلاق مند اور خوش مزاج لڑکی ہے ۔آرزو نے گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے پوچھا ضیاء انکل کہاں ہیں ؟ صدف زار و قطار رونے لگی۔ آرزو نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔ صدف اپنے آنسو پوچھتے ہوۓ بولی پاپا دو دونوں سے شہر چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے گئےہیں۔

صدف کے والد جو ایک معمولی تاجر تھے ان کے پاس دو لڑکیاں تھیں اور ایک لڑکا تھا۔ دو سال قبل ضیاء صاحب نے اپنی بڑی لڑکی غزل کی شادی کی تھی۔ کم اوقات ہونے اور لڑکے والوں کی لمبی فرمائش کی وجہ سے انہیں غزل کی شادی میں کافی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مدد کے لیے ضیاء صاحب نے شاید ہی کسی رشتہ دار یا احباب کے دروازے پر دستک نہ دی ہو جن لوگوں نے ضیاء صاحب کی مدد کی بھی تو ان کی توقع سےکم ۔ آخر میں جب ضیاء صاحب اپنے بہت ہی قریبی دوست دانش صاحب کے پاس تشریف لے گئے جو نوکری پیشہ تھے انہیں سارا واقعہ سنایا ۔ دانش صاحب نوکری پیشہ تو ضرور تھے لیکن ان کی فیملی کافی بڑی تھی اس لیے آمدنی کا ایک بڑا حصہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور گھر کے روزانہ کے اخراجات میں صرف ہوتا تھا ۔تھوڑے بہت پیسے انھوں نے جمع کرکے رکھے بھی تھے تو اس سے اپنی بچی کی شادی کے خیال سے جسے سال چھ ماہ میں انجام دینا تھا ۔ پھر بھی دانش صاحب نے اپنے دوست ضیاء صاحب کی مصیبت کو دیکھتے ہوئے طلب کیے گئے رقم‌کا آدھا حصہ دے دیا لیکن اسکے باوجود ضیاء صاحب اپنے دوست سے ناراض ہی تھے۔ کسی طرح غزل کی شادی ہوگئی ۔

غزل کے سسرال والے کافی خوش حال تھے ۔ غزل کو اللہ کے فضل سے کافی خوبصورت چاند سا شوہر بھی ملا تھا لیکن غزل اپنے والد کی پریشانی کو دیکھ کر مایوس رہتی تھی اور شاید صدف کی پریشانی کی بھی وجہ یہی تھی کیوں کہ صدف بھی شادی کے لائق ہو چکی تھی اور غزل کے شادی کے دو سال گزر جانے کے بعد بھی قرض کا آدھا حصہ بھی ادا نہ ہوسکا تھا ۔ احبابوں اور رشتہ داروں کا تقاضہ کے لیے ضیاء صاحب کے یہاں آمد و رفت کا سلسلہ لگا رہتا تھا۔ ضیاء صاحب قرض کی ادائیگی میں پریشان تھے ہی یہی وجہ تھی کہ انہوں نے دو دن قبل اپنا شہر چھوڑ کر کسی دوسرے شہر چلے گئے تھے۔ (یہ بھی پڑھیں! افسانہ ”گرہ کشائی” از: پروفیسرصالحہ رشید)
دانش صاحب کے صاحبزادے آرزو کبھی صدف کی نم آنکھوں کو دیکھتا تو کبھی سڈول بھرا جسم اورلمبی زلفیں جو سرخ پوشاک اور سبز دوپٹے میں اپنے بہت سے ارمانوں اور خوابوں کا ارمان لیے رات کی تاریکیوں کے ساتھ اپنے آپ کو بھی تاریکیوں میں ہمیشہ کے لئے ملانا چاہتی تھی۔ آرزو نے اس سے کہا اپنی زندگی سے مایوس مت ہو۔ صبر سے کام لو۔ صدف نے کہا صبر سے تو موت ہی بہتر ہے کیونکہ جس زندگی میں آرام و آسائش نہ ہو۔ مجھ بدنصیب لڑکیوں کی وجہ سے ماں باپ کی رات کی نیند حرام ہو جاتی ہو، سکھ چین چھن جاتا ہو والدین لڑکے والوں کے سامنے ہر وقت بھیگی بلی بنے رہتے ہوں لڑکے والوں کے ناز نخرے اور خوشامدیں کرنے سے بہتر تو یہ تھا کہ لڑکی کو پیدائش کے وقت ہی مار دینا چاہیے یاپھر کسی دولت مند کے گھر میں ہی لڑکی پیدا ہونی چاہیے۔ابھی تو غزل آپا کی شادی کا قرض ادا بھی نہ ہو پایا ہے امی پاپا رات رات بھر میرے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ امی پاپا کی پریشانی اب مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔ ساری باتیں سن کر آرزو کا انسانی جذبہ موجیں مارنے لگا اور بولا صدف تم گھبراو مت تمہارے والدین کی ساری پریشانیوں کو دور کرکے میں تجھ سے شادی کروں گا ۔ صدف نے برجستہ جواب دیا جب دا نش انکل پاپا کی مالی مدد نہیں کر سکتے ہیں تو کیا وہ اتنی بڑی قربانی دے سکتے ہیں؟ صدف کا یہ سوال ہی نہیں تھا بلکہ ہمارے سماج کے بہت سے مالداروں اور دولت مندوں کے منھ پر زور دار طمانچہ تھا۔۔۔۔۔!!

بھیرو پور ، حاجی پور، ویشالی ، بہار 844102
9167679924

Previous articleصبا نوشاد کی’اردو کی چند اہم داستانیں : ایک مطالعہ‘ مقابلاتی امتحان کے لئے آب حیات از: ذوالفقار خان زلفی
Next articleڈاکٹر فریدی وچار منچ کے عمیق جامعی کو کنوینر منتخب

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here