اترپردیش اسمبلی انتخابات کی تاریخیں ابھی طے نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن برسر اقتدار حکومت ایک تو اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور دوسرے مسلمانوں کے مابین ڈر و خوف کی لہر پیدا کرنے کی مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔ کہیں وہ مسلمانوں کے ہمدرد و خیرخواہ اور سیاسی میدان میں مظبوط پکڑ رکھنے والوں پر بےبنیاد الزامات عائد کر انہیں مقدمات میں پھنسانے کا حربہ اپنا رہی ہے، تو کہیں یہ مذہبی تعصب اور سیاسی منافرت کو ہوا دے کر مذہبی قائدین اور بااثر شخصیات کو پس زندہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
جس طرح حکومتوں کا دائرہ کار محدود و متعین ہوتا ہے، ویسے ہی ان کے زمام اقتدار کا دورانیہ کوئی بہت زیادہ وسیع و کشادہ نہیں ہوتا۔ آج دنیا میں جہاں جہاں بھی جمہوری نظام رائج ہے، وہاں کی تاریخ شاہد ہے کہ اقتدار کی کرسی نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی؛ ہاں ظلم و بربریت اور ناانصافی کی بدولت کچھ نااہل سیاست دانوں کو مہلت ضرور ملی، مگر انجام کے اعتبار سے وہ سب تازیانۂ عبرت بنے آج بھی گمنامی کی زندگی گزر بسر کر رہے ہیں۔ گمنامی کی اس مثال کو تلاش نے کےلئے ہمیں بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، خود حکمراں جماعت کے کئی دگج و سینئر لیڈران اس کی واضح مثال ہیں، جن کی سیاسی سوجھ بوجھ اور شعلہ بیانی کا دور دور چرچا ہوا کرتا تھا اور ان کا بھی شمار ایسے ہی شدت پسندی اور مذہبی منافرت پھیلانے والوں میں مشہور و معروف تھا، جیسا کہ آج اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والے زبان زد عام ہیں، کہ ان کی بھی آج ہر صبح؛ صبح قیامت اور ہر شام؛ شام خوں چکا سے لبریز ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ جب کوئی حکمراں اپنی حکمرانی اور عوام کی امیدوں پر کھرا نہیں اترتا، تب وہ اپنی رعایا کو بہکانے اور اپنے ارد گرد جمع بےوقوف لوگوں کو سمجھانے کےلئے نت نئے حربے استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے، اس دوران اس کی تمام تر توجہات اور فکر و عمل کا زاویہ صرف اور صرف یہ طے کرنے اور عوام کو باور کرانے میں صرف ہونے لگتا ہے کہ: ہم پوری امانت و دیانت داری کے ساتھ کام میں منہمک ہیں اور رات و اپنے عوام کی ترقی، خوشحالی اور ان کے آگے بڑھانے کے مواقع تلاش رہے ہیں۔ اور ان سب باتوں کا مقصد کسی طرح اپنی عزت و وقار کو برقرار رکھنا اور اقتدار میں ایک مرتبہ پھر سے واپسی کی جائے؛بس اتنا ہوا کرتا ہے۔
اس وقت ریاست یوپی کا جو حال ہے اور جس طرح یہاں کے حالات بنا دئے گئے ہیں، اس نے یہاں کے عوام کے درمیان غم و غصہ کا لاوا پکا دیا ہے اور وہ آنے والے انتخابات میں اسی پکے ہوئے لاوے کا کھل کر اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ ریاست کے عوام کو ہندو مسلم کی تفریق، امیر و غریب کی تمیز اور چھوٹے بڑے کے فرق کو جھیلتے جھیلتے ساڑھے چار سال ہو گئے، یہاں ہر بڑا چھوٹے کو کچلنے، ہر امیر غریب کو دبانے کےلئے تیار ہے، شدت پسند تنظیموں اور انسان دشمن عناصر کو جب سے حکومت کی پشت پناہی حاصل ہوئی ہے، انہوں نے ہندو کو یکجا کرکے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے اور جب انہیں موقع ملتا ہے وہ انسانی خون کی ہولی کھیلنے لگتے ہیں۔ ہجوم کی شکل اختیار کر کے سرعام لوگوں کو مارنا پیٹنا اور سرراہ عورتوں و بچیوں کو اٹھاکر انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بنانا ان کا محبوب و پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔ خواتین نہ گھر آفس میں محفوظ ہیں اور نہ ہی پیٹ کی خاطر مزدوری کےلئے نکلنے والی کھیت جنگلوں میں ان کی عزت و عصمت کو تحفظ حاصل ہے، ہر طرف لوٹ کھسوٹ، افرا تفری اور بدطینت و بدقماش ٹولہ نے ہاہاکار مچایا ہے۔ معمولی معمولی سی فائلوں کو درست کرانے اور ذرا ذرا سے کام کو ٹھیک کرانے کےلئے عوام در بدر بھٹک رہے ہیں اور کوٹ کچہری کے چکر بار بار کاٹنے پر مجبور ہیں، سرکاری آفسوں میں رشوت ستانی کا بازار گرم ہے، ریاست کے بیشتر سرکاری ہسپتالوں کی حالت تشویشناک اور ناگفتہ بہ ہے، کہیں ڈاکٹر موجود نہیں تو کہیں سرکاری سہولتیں کا فقدان ہے، بجلی بل سے الگ لوگوں کا دم نکلے جا رہا ہے، جہاں پورے ملک سے مہنگی بجلی ریاست کے عوام کو برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔ ٹرانسپورٹ کی عدم سہولیات سے الگ ریاست کے عوام جوجھ رہے ہیں، جہاں سڑکوں میں گڈھے نہیں بلکہ گڈھوں میں سڑک ڈھونڈنی پڑتی ہے اور ایک شہر سے دوسری شہر کے واسطے کرایہ کی بھاری رقم الگ بھرنی پڑتی ہے۔ یہاں نہ مندر کے پجاری کی جان سلامت ہے اور نہ ہی مسجد کے امام کو اپنی جان کا تحفظ حاصل ہے، بیروزگاری نے ہر سمت ایسے پاؤں پسارے ہیں کہ اس کی وجہ قوم کا نوجوان طبقہ مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو کر خود کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔
یہ حالات ہیں ریاست یوپی کے، مگر حکومت حقیقت سے ناآشنائی برت رہی ہے، اور اپنے جھوٹے وعدوں اور ارادوں کی تشہیر میں مگن ہے، ہندو مسلم کی تفریق کو بڑھاوا دینے میں لگی ہے، سیاسی قائدین و سماجی خدمت گزاروں کو ڈرانے دھمکانے خاص کر مسلمانوں کی بااثر شخصیات کو قید سلاسل کرنے اور ان کے ساتھ دیگر ہتھکنڈے استعمال کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے۔ اسے غور کرنا چاہئے کہ جمہوریت میں یہ سب چیزیں ہاتھوں میں اقتدار کی دولت رہنے تک ہی فائدہ دیتی ہیں اور طاقت و اقتدار چھن جانے کے بعد سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ ہاتھ نہیں لگتا اور نہ ہی حکومتیں اس طرح اقتدار میں واپسی کرتی ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے جس طرح ہر سیاہ رات کے بعد صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے، ویسے ہی ظلم و ناانصافی پر قائم نظام و اقتدار کی مدت زیادہ طویل نہیں ہوتی اور ایک نہ ایک دن ایسی حکومت کو زوال و پسپائی اپنی آغوش میں لےکر ہی مانتی ہے۔ اور ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار و جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ جس کسمپرسی اور ہیبت و بربریت کے سایہ میں ریاست کے عوام نے ان پانچ سالوں کا عرصہ گزارا ہوگا؛ شاید ہی آزادی کے بعد کوئی دور ان کے اوپر ایسا آیا ہو جس میں مجموعی اعتبار سے ریاست کا ہر فرد ڈرا سہما اور بےبس و لاچاری کا سامنا کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاست کے عوام کو بہر صورت تبدیلی چاہئے اور وہ تبدیلی لاکر ہی رہیں گے۔
(mdqasimtandvi@gmail.com)