استاذ : معمار قوم و معاشرہ از: علی شاہد دلکش،

0
147

(قومی یوم اساتذہ 5/ستمبر کے موقع پر ایک پیغام)

یہ فقرہ طشت از بام ہے کہ استاذ معمار قوم ہوتا ہے۔کیونکہ استاذ وہ رہبر ہے جو طالبِ علم کی محض تعلیمی تربیت ہی نہیں کرتا بلکہ جینے کا سلیقہ بھی سکھاتا ہے، رہنے کا ڈھنگ بھی بتاتا ہے مزید اخلاقی برائیوں کو دور کرکے اسے معاشرے کا ایک مثالی فرد بنانے میں کلیدی کردار بھی ادا کرتا ہے۔
وہ حقیقی استاذ ہوتا ہے جو خود کو جلاتا ، اپنے طالب علموں کو بناتا ہے۔ استاذ طالب علموں کی رہنمائی و رہبری کر کے ان میں شعور و تجسس بھی پیدا کرتا ہے۔ حقیقی معنوں میں استاد صرف کردار ساز ہی نہیں ہوتا بلکہ معمارِ قوم بھی ہوتا ہے اور محسنِ معاشرہ بھی۔ بقول شاعر:
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

وسیع کینوس میں استاد کو قومی و معاشرتی معمار کے علاوہ روحانی والدین کا درجہ بھی دیا جاتا ہے۔ استاد کا پیشہ اتنا مقدس ہے کہ اس کا تعلق پیغمبری سے ہے۔اس پیشے کا مقصد ہی انسان سازی ہے۔
استاذ کو معلم بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ ” معَلِّم ” عربی زبان میں ثلاثی مجرد کے باب سے مشتق صفت ہے، اردو میں عربی سے ماخوذ ہے اور بطور صفت استعمال ہوتا ہے۔ 1657ء کو “گلشن عشق” میں مستعمل ملتا ہے۔(فرہنگ)
معلم کے لفظی معنی سکھانے والا ، آگاہ کرنے والا ، تعلیم دینے والا اور بتانے والا ہوتے ہیں۔ دوسری جانب استاد ایک فارسی زبان کا لفظ ہے جسکے اصطلاحی معنی تو سکھانے والے کے ہیں۔ مگر ہم اتنے تخلیقی اور ہنر مند ہیں کہ ہر لفظ کو اپنا ہی تخلیق کردہ مطلب دے دیتے ہیں جیسے کہ استاد کے معنی ہمارے یہاں تعلیم دینے والے کے ہیں۔
معلم چار حرفی لفظ اپنے اندر انتہائی خوبصورت مفاہیم سمیٹے ہوئے ہے۔ مثلاً ‘م’ سے “محبت و مہربانی” ، ‘ع’ سے “علم و عمل” ، ‘ل’ سے لگاؤ اور ‘م’ سے مدد و معاون۔

معلم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے۔ نتیجتاً دنیا کے ہر دھرم میں استاذ کا مقام واجب التعظیم ہے۔ مگر اسلام نے استاذ کی قدر و منزلت کو جس قدر اجاگر کیا ہے اتنا کسی بھی دھرم نے نہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ والدین بچے کو جنم دیتے ہیں، پرورش کرتے ہیں مگر اس کے کردار مزید اس کی تعمیرِ ذات میں استاد ہی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انسان کو اس کی ذات سے آگہی بھی ایک استاد ہی کراتا ہے۔ مزید برآں خدا کی ذات کا انکشاف بھی استاذ ہی کی مرہونِ منت ہے۔ ایک بہترین استاذ وہی کہلاتا ہے جو صرف کتابوں کا علم ہی نہیں دیتا ہے بلکہ بے وقعت پتھر جیسے ذہنوں کو علم سے منور کر دیتا ہے نیز اپنی علمی ہنرمندی سے تراش خراش کر ملک و ملت کے لیے جوہر میں تبدیل کردیتا ہے۔ مثالی استاذ اپنے تجربات کی روشنی میں کردار سازی نیز شخصیت سازی کا بھی حامل ہوتا ہے۔ بقول شاعر:

سنگ بے قیمت تراشا اور جوہر کردیا
شمع علم و آگہی سے دل منور کر دیا
خاکہ تصویر تھا میں خالی از رنگ حیات
یوں سجایا آپ نے مجھ کو قیصر کر دیا

تعلیم و تدریس نہایت ہی مقدس اور معزز و شریفانہ پیشہ ہے۔ لہذا معاشرے کی بقاء و ترقی کے لیے اچھے اساتذہ ناگزیر ہیں۔ دیانت دار و صادق استاذ اپنے تدریسی پیشہ سے انصاف کرتے ہوئے کورے کاغذ کی سی صفت والے ذہنوں کی آبیاری کر سماج و معاشرے میں ایک باشعور و ذمہ دار فرد کا اضافہ کرتا ہے۔ اچھے اساتذہ خوشگوار معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں جن سے بہترین نسلیں و قومیں وجود میں آتی ہیں۔ کرہ ارض پر اساتذہ ان ستاروں کے مانند ہیں جن کی چمک سے بحروبر کے ظلمات میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ ستارے غروب ہوجائیں تو غرق ہونے کے خدشات و امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
بقول شاعر:
جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

دینِ اسلام نے استاذ کو انتہائی تعظیم و توقیر بخشی ہے۔ جب رب العالمین نے روئے زمین پر انسانیت کو بسانے اور دنیا کو سجانے کے ارادے کا اظہار کیا تو فرشتوں نے بنی نوع انسان کی خمیر کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ خاکی انسان تو روئے زمین پر فساد و بگاڑ کے اسباب بنیں گے! تب مالکِ کُل نے حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پہ برتری اور فوقیت دینے کے لیے ان کو زیورِ علم سے آراستہ کیا۔ خالقِ کائنات نے انسانیت کی رہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام کو بھیجا۔ قدرتِ الٰہی سے ہر نبی کو شریعت کا معلم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ایک فن کا ماہر بھی بنایا گیا۔

معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقام ومرتبہ کو ان الفاظ میں بیان کیا : “انما بعثت معلما․” میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں . (ابن ماجہ، ۲۲)۔
استاذ کے لیے شہرِ علم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی، اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا تھا اسی طرح لوگوں تک پہنچا دیا(ابوداد. 663)۔
معلم کائنات ؐ نے مزید فرمایا ہے :
“میرے بعد سب سے بڑا سخی وہ ہے جس نے علم حاصل کیا اور پھر اسے پھیلایا”۔
استاذ کے حوالے سے باب العلم حضرت علی ؓ فرماتے ہیں:
“جس نے مجھے ایک لفظ بھی سیکھایا اسے یہ حق ہے کہ وہ مجھے بازار میں فروخت کر دے”۔
باری تعالیٰ کے فرمان اور علم کے شہر حبیبِ خدا کی احادیث اور علم کے دروازے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی انمول و ذرین باتوں نے رہتی دنیا تک استاذ کے مقام کو اعلیٰ و ارفع کر دیا۔
خلیفۂ راشد حضرت عمرؓ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپؓ کے دل میں کوئی حسرت باقی ہے؟ آپؓ نے فرمایا: ’’کاش میں ایک معلم ہوتا۔‘‘ استاد کی ذات بنی نوع انسان کے لئے بیشک عظیم اور محسن ہے۔
‘استاذ’ کائنات کی اس ہستی کا نام ہے، جو نسلوں کو سنوارتا ہے، جس کے لہجے میں مٹھاس اور نگاہوں میں شفقت ہو، رویے میں پیار برستا ہو، جو اپنے ہاتھوں میں جگنو کی مانند اپنے شاگردوں کے لیے شمس و قمر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یوں کہہ سکے:
یہ مہر و تاباں سے جاکر کہہ دو، کہ اپنی کرنوں کو گن کے رکھیں
میں اپنے صحرا کے ذرے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ سکندر اعظم سے کسی نے پوچھا : ”وہ اپنے استاد کی بے انتہا عزت کیوں کرتا ہے؟ بادشاہ سکندر نے جواب دیا:
”میرے والدین مجھے آسمان سے زمین پر لانے کا ذریعہ بنے ہیں، جبکہ میرے استاد نے مجھ کو زمین سے آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔“
دوسرے پیرائے میں سکندر اعظم نے اپنے استاد کی شان میں وہ الفاظ کہے ہیں؛ کاش کہ آج کا شاگرد اسے سمجھ پائے ! دریا میں اترتے وقت کے “پہلے میں، پہلے میں” والے واقعے کے دوران باشاہ سکندر نے کہا تھا کہ اگر شاگرد سکندر بچا رہا تو اس دنیا میں ایک بھی ارسطو تیار نہیں ہوگا اور اگر استاذ ارسطو باقی رہے تو اس دنیا میں ہزاروں سکندر تیار ہوں گے۔ گویا قسمت کے سکندر بننے کے لیے ایک لائق و فائق استاذ کا ہونا ضروری ہے۔ بصورتِ دیگر ہم محنت کو کوسنے والے ہی رہیں گے۔
اچھوتی زبان ہندی، سنسکرت اور بھوجپوری میں استاذ کو “گرو” کہا جاتا ہے مزید زیر نظر مقولہ مقبول و عام ہے :
“بِن گرو گیان نہیں” اور “گرو ہی شِشیہ (اسٹوڈنٹ) کو مارگ درشن کرواتا ہے”۔
حصولِ علم کے بنیادی ارکان میں اہم رُکن استاذ ہے۔ تحصیلِ علم میں جس طرح درسگاہ و کتاب کی اہمیت ہے۔ ٹھیک اسی طرح حصولِ علم میں استاذ کا ادب و احترام مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ کیونکہ بقول شاعر:
دیکھا نہ کوئی کوہ کن فرہاد کے بغیر!
آتا نہیں ہے کوئی فن استاد کے بغیر

سال 1923ء میں جب برطانوی حکومت کی جانب سے ڈاکٹر علامہ اقبال کو سر (Sir) کا خطاب دیا جانے لگا تو فرمانبردار اور استاد پرست محمد اقبال نے مطالبہ کیا کہ اُن کے استاد (مولوی میر حسن) کو بھی شمس العلماء کا خطاب دیا جائے دوسری صورت وہ سر (Sir) کا خطاب قبول نہیں کریں گے۔ مگر انگریز گورنر جنرل مُصِر تھے کہ اُنہوں نے ہنوز کوئی کتاب تصنیف نہیں کی ہے، جس کے پیش نظر انہیں متذکرہ خطاب نہیں دیا جاسکتا ! تب علامہ اقبال نے کہا: “میں بذات خود اُن کی تصنیف ہوں”۔ اِس جواز پر برطانوی حکومت کو مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دینا ہی پڑا۔
استاذ کی قدر و منزلت کو مقدم جانتے ہوئے خود اعتمادی کو اساتذہ کے لیے کامیابی کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ ایک خود اعتماد استاد ہی طلبہ میں سوال کرنے کی جرأت پیدا کر سکتا ہے۔ اچھا استاد ہمیشہ اچھا طالب علم رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ نت نئے علم اور نئی روشنی کو اپنانے والا ہوتا ہے۔
سقراط، ارسطو، چانکیہ، ونووا بھاوے، جیوتیوا راؤ پھولے، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شبلی نعمانی، سرسید احمد خان، رابندر ناتھ ٹیگور، سوامی وویکا نند، ڈاکٹر ابوالکلام، ڈاکٹر رادھا کرشنن، جان ڈی۔ وی، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈےرےزیو، بابر علی، آنند کمار ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چند مثالیں ہیں، جنہوں نے اپنی محنت، لگن اور جذبے سے استاد کو مزید عظمت دلائی اور وہ متذکرہ ساری خصوصیات کی زندہ مثال تھے اور ہیں۔
یوم اساتذہ کی شکل میں مختلف ممالک میں اساتذہ کی تکریم و قدر دانی کے لیے ایک خصوصی دن مختص ہے۔ یہ دن مختلف ممالک میں مختلف دنوں کو منایا جاتا ہے۔ جیسے ہمارے وطن عزیز بھارت میں ہر سال 5 ستمبر کو پہلے نائب صدرِ جمہوریہ اور دوسرے صدرِ ہند کی یوم ولادت کو قومی “یوم اساتذہ” (تعلیمی میں میدان میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں) منایا جاتا ہے۔ جبکہ عالمی یوم اساتذہ (ورلڈ ٹیچرز ڈے) تمام دنیا میں ہر 5/ اکتوبر کو بدھ دھرم گرو “لارڈ مائتریا” کی یاد میں عالمی تعلیمی و ثقافتی ادارہ ‘یونیسکو’ کے اعلان پر سال 1994ء سے اب تک منایا جاتا رہا ہے۔ ہندوستان کے تیسرے صدرِ جمہوریہ اور پہلے مسلم صدر بھارت رتن ڈاکٹر ذاکر حسین(ماہر تعلیم) کا استاذ کی شان میں کہنا ہے:
“بچے کی طرف سے جب ساری دنیا مایوس ہوجاتی ہے تو بس دو آدمی ہیں جن کے سینے امید باقی رہتی ہے۔ ایک اس کی ماں دوسرا اچھا استاد”۔
واضح ہو کہ آج کی حدید تعلیم و تربیت کے بعد بھی ملک و ملت میں اقدار کا فقدان کے مدنظر آج ہمارے سماج و معاشرے میں حقیقی ں مثالی استاذ کی اشد ضرورت ہے۔
بقول مشتاق احمد یوسفی:
“اچھے استاد کے اندر ایک بچہ بیٹھا ہوتا ہے جو ہاتھ اٹھا اٹھا کر اور سر ہلا ہلا کر بتاتا جاتا کہ بات سمجھ میں آئی کہ نہیں۔”

سکہ کے دوسرے پہلو میں ترقی یافتہ و جدید مہذب سماج میں اساتذہ کا ادب و احترام بھی ناقص مرحلے سے گزر رہا ہے۔ جب کہ روز اول سے روشن ہے کہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جہاں استاد کا احترام ہوتا ہے۔ مغربی ممالک کی ترقی کا راز یہی کہ و ہاں استاد کو ہر پیشے سے مقدم سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ھمارے یہاں بھی نئی تعلیمی پالیسی اپنے 480 صفحات کے مسودے میں اعتراف کرتی ہے کہ اساتذہ ہی اس کے نئے نظام کے محور ہوں گے۔ جس کے چاروں طرف تعلیم کے اس نظام کو انجم دیا جا سکتا ہے۔ این۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی۔ کے سابق ڈائریکٹر جے۔ ایس۔ راجپوت کو پورا بھروسا ہے کہ اساتذہ کو ان کا حق دیا جائے تو یہ پالیسی ضرور کامیاب ہوگی۔

مقبول شاعر منیر شکوہ آبادی کے زیر نظر شعر پر اپنا قلم روک رہا ہوں:
استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج
کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات

کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج۔
alishahiddilkash@gmail.com

Previous articleیوم اساتذہ: طلباء اور اساتذہ کے فرائض از: عارفہ مسعود عنبر، مراداباد
Next articleآتا نہیں کوئی فن استاد کے بغیر! از : مجاہد عالم ندوی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here