ایم آئی ٹی بی ایڈ کالج
پھلواری شریف، پٹنہ
موبائل:9199726661
معاصر اردو ادب میں پروفیسر ابنِ کنول استاد و سابق صدر شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی،دہلی کی کئی حیثیت ہے۔ وہ ممتاز ناقد، محقق، افسانہ نگار، فکشن نگار، انشاپرداز اور شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں معروف ومقبول اور میری چند پسندیدہ ادبی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ تقریباً پانچ دہائیوں سے وہ اردو زبان وادب کے فروغ میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ مختلف اصناف میں سینکڑوں تحقیقی، تنقیدی، علمی وادبی مضامین قلمبند کرچکے ہیں۔ ان کے درجنوں افسانے قارئین کو حظ بہم پہنچارہے ہیں ۔ اب تک اپنی بیش قیمتی 28 کتابیں اردو دنیا کو عطا کر چکے ہیں جن میں ” تیسری دنیا کے لوگ ” (افسانے)1984، ” بند راستے ” (افسانے) 2000، ” ہندستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں” 1988، ” ریاض دلربا” (تحقیق) 1990، ” آؤ اردو سیکھیں ” (قاعدہ) 1993، ” داستان سے ناول تک ” (تنقید) 2001 ، ” انتخاب سخن” (اردو شاعری کا انتخاب) 2005، ” منتخب غزلیات ” 2005، ” اصناف پارینہ ” (قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ )2005، ” منتخب نظمیں ” 2005، ” تنقید و تحسین ” (تنقیدی مضامین کا مجموعہ) 2006، ” تحقیق وتدوین” (ترتیب) 2007، ” میر امن ” (مونوگراف) 2007 ، ” باغ و بہار ” (مقدمہ ومتن) 2008، ” پہلے آپ ” (ڈرامہ) 2008 ، ” نظیر اکبر آبادی کی شاعری ” 2008 ، ” مضراب ” (کنول ڈبائیوی کا کلیات مع مقدمہ) 2010، ” اردو افسانہ ” (افسانوی تنقید) 2011، ” پچاس افسانے” (افسانوی مجموعہ) 2014 ” تنقیدی اظہار ” (تنقید) 2015،” فسانہ عجائب ” (مرتبہ) 2016، ” اردو لوک ناٹک روایت اور اسالیب” ( ڈبائیوی ) مرتبہ, 2014 ،” اھل الکھف ” (افسانے) عربی مترجم:احمد قاضی، مصر، 2018، ” اردو شاعری ” ( تنقید) 2019 اور ” داستان کی جمالیات” 2020 شامل ہیں۔ ان تالیفات و تصنیفات کی فہرست میں اب ایک نئی تصنیف “کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی ” کا اضافہ ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ کتاب نہ صرف ان کی تالیفات و تصنیفات میں قابلِ قدر اضافہ ہے، بلکہ اردو میں صنف خاکہ و فن خاکہ نگاری کی کتب میں بھی ایک اہم و بیش قیمتی اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
زیر مطالعہ کتاب میں 24 خاکے شامل ہیں جو ان کے بعض مربین ، معلمین، مشفقین ، محبین اور منسلکین کے علاوہ چند ادبی و علمی شخصیات سے متعلق ہیں، مثلاً ماسٹر منشی چھٹن ، پروفیسر قاضی عبد الستار، پروفیسر قمر رئیس، پروفیسر تنویر احمد علوی، پروفیسر گوپی چند نارنگ، عنوان چشتی، حیات اللہ انصاری، عصمت چغتائی، قرت العین حیدر، علی احمد فاطمی، پیغام آفاقی،پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین اور پروفیسر محمد کاظم وغیرہم۔
فاضل خاکہ نگار نے کتاب کے آغاز میں اپنے حلفیہ جملوں سے بڑی بے باکی اور نہایت خوبصورتی کے ساتھ قارئین کی توجہ اپنی اور کتاب کی جانب مرتکز کرنے کی سعی کی ہے جو ان کا خاصہ بھی ہے، ملاخطہ فرمائیں اور اندازہ لگا ئیں:
” جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔ یقین کریں یا نہ کریں، آپ کو اختیار ہے”۔ (ص:4)
صفحہ پانچ اور چھ پر ” کون کہاں ہے؟ ” کے زیر عنوان فہرست ہے۔اس کے معا بعد ” انتساب” ہے جو بایں سطور ہے :
” اپنے ہم وطن اور معروف فکشن نگار انتظار حسین کے نام
جب بھی آتا ہوں میں ڈبائی میں
آنکھ نم ہوتی ہے جدائی میں ”
فاضل مصنف نے اس انتساب میں معروف ادیب، فکشن نگار انتظار حسین کی شخصیت، عظمت، قدر ومنزلت اور ان کی ادبی خدمات کا ( اشارے اشاروں میں ) اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی اپنے ایک شعر کے ذریعہ اپنے آبائی گاؤں سے بے پناہ عقیدت و محبت اور والہانہ لگاؤ کا اظہار بھی کیا ہے۔ دراصل فطری طور پر ہر انسان اپنے مولد ومسکن اور آبائی وطن سے ٹوٹ کر محبت کرتا ہے، خواہ اس کا وطن شہری علاقہ ہو یا دیہاتی۔ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مکہ مکرمہ میں ہوئی تھی جس سے آپ کو بڑی محبت تھی، مگر وہاں ابتدا میں حالات نامساعد ہونے کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن عدی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے ایک بازار میں کھڑے ہوکر (مکہ مکرمہ کو مخاطب کرکے) یہ کہتے ہوئے سنا کہ والله إنك لخير ارض الله واحب ارض الله الى الله ولولا انى ٱخرجت منك ماخرجت( مسند احمد، ابن ماجہ، ترمذی شریف) یعنی اے مکہ! اللہ کے نزدیک سب سے بہتر و پسندیدہ سرزمین تو ہے۔ اگر مجھے یہاں سے نکالا نہیں جاتا تو میں ہرگز ہرگز کبھی بھی یہاں سے نہیں نکلتا۔ پروفیسر ابن کنول کو تو گاؤں سے کسی نے نہیں نکالا تھا ، البتہ حصول تعلیم کے لیے 1962 میں وہ علی گڑھ گئے جہاں 1978 تک قیام کیا۔ اس دوران وہاں سے انہوں نے چھٹی کلاس سے ایم اے تک کی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد 1979 میں وہ دہلی کوچ کرگئے۔ وہیں دہلی یونیورسٹی سے ایم فل نیز پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ دہلی یونیورسٹی میں ہی بحیثیت استاد ملازمت بھی مل گئی اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے دہلی کا ہوکر رہ گئے۔ اب جب بھی وہ دہلی سے اپنے آبائی گاؤں تشریف لے جاتے ہیں تو فطری طور پر فرط مسرت کے آنسو ان کی آنکھوں سے چھلک پڑتے ہیں۔ گویا پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وہ بھی حب الوطنی کے جذبہ سے مکمل طور پر سرشار ہیں جس کا اظہار انتساب کے مذکورہ بالا شعر سے ہوتا ہے۔
خاکہ نگار پروفیسر ابنِ کنول کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے عالمی وباء کورونا وائرس اور ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران اس کتاب کو 2020 میں زیور طباعت سے آراستہ کیا تھا اور قارئین کے درمیان پیش کیا تھا۔ قارئین نے بھی اس کی اہمیت، معنویت اور ادبیت کے سبب اس کی خوب خوب پذیرائی کی تھی ۔ پذیرائی کا یہ سلسلہ جاری ہے اور امید ہے مستقبل بعید تک جاری رہے گا۔ انہوں نے لاک ڈاؤن کا منظر، پس منظر، پیش منظر، لاک ڈاؤن کے سبب ملک کے بدلتے حالات اور لوگوں کی مشکلات کا تذکرہ “معذرت نامہ” عنوان کے ضمن میں جس طرح داستانوی اور افسانوی، مگر حقیقت پر مبنی پیرا یئہ اسلوب میں کیا ہے ، اس سے ان کا منفرد لب ولہجہ مترشح ہوتا ہے جو قارئین کے دلوں کو چھو جاتا ہے اور اس کی قرأت پر انہیں مجبور کر دیتا ہے، دعویٰ بلا دلیل کا میں قائل نہیں، اس لیے تمہید بعنوان ” معذرت نامہ ” کی ابتدائی چند سطور ملاحظہ فرمائیں اور اندازہ لگا ئیں کہ اس کا آغاز کس دلکش پیرایئہ اسلوب میں کیا ہے :
” اور پھر حاکم وقت نے اعلان کیا :
اے لوگو! ہم سب ایک آسمانی آفت میں گرفتار ہیں اور اس سے نجات کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے فاصلہ بناکر رکھیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ سر دست جو شخص بھی جس مقام پر ہے ٹھہر جائے، خود کو گھروں میں قید کرلے، تاکہ ہم اس آفت ناگہانی سے محفوظ رہ سکیں۔ ”
اور اس اعلان کے ساتھ پورے ملک میں سناٹا چھا گیا، تمام بازار اور گھر کے دروازے بند ہوگئے، سڑکوں پر ویرانی چھاگئ، محلوں میں وحشت برسنے لگی، ہر شخص حیران و پریشان تھا کہ اب کیا ہوگا؟ کیوں پوری دنیا عذاب میں مبتلا ہوگئ ہے؟ کیوں ہم اپنے عزیز و اقرباء سے بھی دور ہوگئے ہیں؟ کیوں موت ہم سب کے سروں پر منڈلا رہی ہے؟ کیا قیامت کی آمد ہے؟ کیا خدا کی طرف سے ہم سب کو محتاط کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟ کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ گھروں میں قید افراد بھی اپنوں کو ہی شک کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ ایک دوسرے سے بات کرنے اور قریب آنے سے کترا رہے تھے۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ان قیدیوں پر کیا گزرتی ہوگی جو قید خانوں میں بند ہیں۔ ان کے پاس تو نہ کوئی اپنا ہوتا ہے، نہ روشنی ہوتی ہے اور نہ ہوا۔ میں سوچ رہا تھا ان پرندوں کے بارے میں جو پنجروں میں قید ہیں، سب کچھ ہے، آزادی نہیں ہے۔ مجھے اقبال کی” پرندے کی فریاد ” یاد آئی جس پر پرندہ کہتا ہے :
آزاد مجھ کو کردے او قید کرنے والے
میں بے زبان ہوں قیدی تو چھوڑ کر دعا لے
لیکن یہ نظر بندی یا قید ہماری اپنی اور اپنے عزیزوں کی حفاظت کے لیے تھی” (ص:8 -7)
کتاب کا پہلا خاکہ منشی چھٹن کا ہے جو ابنِ کنول کی ابتدائی تعلیم کے استاد ہیں ۔انہوں نے اس کے ضمن میں اسکول کے کئی اساتذہ مثلا منشی حاجی صفدر علی، منشی ہادی علی اور ماسٹر منشی چھٹن کی خوبیوں اور خامیوں کو اس طرح اچھوتے انداز میں بیان کیا ہے کہ قارئین کو پڑھتے وقت بڑا لطف آتا ہے اور ان سبھی کے خاکے ان کے اذہان وقلوب پر منقش ہوجاتے ہیں۔ اس خاکہ میں انہوں نے اترپردیش کے قصبہ “گنور” کا جغرافیہ، اس کی تاریخی حیثیت اور وہاں اردو میڈیم اسکول میں اپنےداخلے کی دلچسپ داستان بھی بیان کی ہے ۔ ساتھ ہی ایک سطر میں اس اسکول سے نکل کر دہلی یونیورسٹی میں پروفیسر بننے تک کی پلاننگ کا انکشاف بھی بڑی چابکدستی سے کیا ہے :
” 1962 میں یہ سوچ کر ہمیں اس اردو میڈیم اسلامیہ اسکول میں داخلہ کرایا کہ بڑے ہو کر انہیں دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر ہونا ہے۔”(ص:13)
انہوں نے اس میں اپنی شادی کا تذکرہ بھی بڑی خوبصورتی سے کیا ہے:
” پہلی کلاس میں ہمارے کلاس ٹیچر منشی حاجی صفدر علی تھے بعد میں جن کی پوتی ہماری شریک حیات بن گئ”۔ ( ص15)
انہوں نے اس عنوان کے تحت اپنے کئی اسکولی ساتھیوں مثلاً عبد المقیت، وکیع الدین، انور خورشید، انیس احمد وغیرہم سے وابستہ یادوں کو بھی الفاظ کا جامہ پہنایا ہے، ان کے خاکے کھینچے ہیں اور اخیر میں اپنے استاد منشی چھٹن کو بہت ہی جذباتی انداز میں یاد کیا ہے۔ رقم طراز ہیں:
” دہلی آئے ہوئے چار دہائیوں سے زیادہ وقت گزر گیا لیکن چھٹن منشی جی کا چہرہ اور ان کی باتیں اب بھی یاد ہیں۔ سنا ہے بہت بوڑھے ہوگئے ہیں۔ میرے ذہن میں وہ اب بھی بوڑھے نہیں ہوئے ہیں۔ ان کی وہی صورت اور وہی مشفقانہ باتیں مجھے یاد دلاتی رہتی ہیں۔ انسان بچھڑ جاتا ہے لیکن اس کا کردار اسے زندہ رکھتا ہے۔ چھٹن منشی ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گے۔” ( ص:16)
کتاب میں دوسرا خاکہ بعنوان “منٹو سرکل ” ہے ۔ اس میں انہوں نے سرسید احمد خان کے ذریعہ 1875 میں اس اسکول کے قیام، وہاں سے جنرل ایوب خان، لیاقت علی، طلعت محمود، حامد انصاری، عرفان حبیب، سعید جعفری، جاوید اختر، مشیر الحسن، منصور علی خان پٹودی، احمد علی، ظفر اقبال اور عبد الرحیم قدوائی جیسی نامور و مقتدر شخصیات کی اسکولنگ اور حصول علم کا تذکرہ کیا ہے ۔ان مقتدر شخصیات کی فہرست میں اپنا نام نامی اسم گرامی بھی شمار کیا ہے۔ اپنے حوالے سے کئی انکشافات بھی کئے ہیں، مثلاً:
” ہم پہلے دن بہت بن سنور کر خالی پیٹ سفید قمیص پہن کر اسکول پہنچے۔ ہم نے اپنی کتابیں پلاسٹک کے ایک خوبصورت سے تھیلے میں رکھی تھی جسے دیکھ کر کچھ سنیئر طالب علموں نے طنز کیا: کیوں پاٹنر! کیا سبزی لینے بازار جارہے ہو؟ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے دن ہم نے اسے بدل دیا۔ “(ص:19) اس میں انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں سینئروں اور جونیئروں کے درمیان حد فاصل کا بھی تذکرہ کیا ہے اور ایک دوسرے کی عزت و احترام ملحوظِ رکھتے ہوئے سنیئرٹی کو مجروح نہیں ہونے دینے پر بھی مہر ثبت کی ہے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں :
” علی گڑھ میں سینئر جونئیر کی تفریق بہت ہے۔ ہر سینئر جونئیر پر برتری حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے اور جونئیر سینئر کا ادب کرتا ہے۔ وہ دنیا کے کسی ملک میں ہوں اپنی سنئیرٹی کے احساس کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔ “(ص19 )
اس خاکے میں ابنِ کنول نے اپنے کئی احباب اور اساتذہ کا ذکر جمیل کیا ہے، مثلاً صغیر احمد صدیقی، افضال احمد صدیقی، مولانا عبد القیوم، ظہیر احمد، خالدہ میڈم، قدسیہ میڈم وغیرہم، ان سب کے بھی خد و خال پیش کئے ہیں۔ انہوں نے اے ایم یو کی خوشگوار فضا، علمی ماحول، طلباء و اساتذہ کے درمیان پائیدار تعلقات کا بہترین نقشہ کھینچا ہے۔ ساتھ ” منٹو سرکل ” میں گزارے اپنے پانچ سالوں کو اپنے لیے بے حد عزیز قرار دیا ہے۔ اس خاکے کا تتمہ مندرجہ ذیل یادگار و تاریخی پیراگراف پر کیا ہے :
” اب میری شناخت ناصر محمود کے بجائے پروفیسر ابنِ کنول کے طور پر ہونے لگی ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ میں اب بھی اپنے آپ کو ناصر محمود کی شکل میں منٹو سرکل کی گھاس کے میدانوں میں دوڑتا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ اسی کا نام اسکول ہے جہاں بچپن بچپن ہوتا ہے۔ جس طرح بچپن میں یاد کی ہوئی نماز ہمیشہ یاد رہتی ہے اسی طرح اسکول میں گزرا وقت کبھی دل سے محو نہیں ہوتا اور پھر منٹو سرکل جیسا اسکول جو ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں ایک تہذیبی مرکز ہے جو سرسید کا خواب ہے اور ہم اس کی تعبیر ہیں۔ ” (ص20)
کتاب میں ایک خاکہ ” داستان گو قاضی عبد الستار ” کے عنوان سے ہے۔ اس میں ابنِ کنول نے قاضی صاحب کی علمی جلالت، رعب و دبدبہ، اردو زبان وادب ، بالخصوص افسانہ نگاری کے میدان میں ان کی عظمت ورفعت، بلند قد وقَامت، ملک وبیرون ممالک میں منعقد سمیناروں و کانفرنسوں میں ان کی شرکت اور ان سے اپنے گہرے مراسم پر نہایت شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ ان کی شخصیت اور کارناموں کے مختلف گوشوں کو اس طرح وا کیا ہے کہ وہ قارئین کو کھلی کتاب معلوم پڑتے ہیں۔ اس میں ایک خاکہ پروفیسر قمر رئیس کے حوالے سے بھی شامل ہے جس میں ان سے پہلی ملاقات کا واقعہ بہت دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ پہلی ملاقات میں ہی وہ کس طرح ان کا گرویدہ ہوگئے اور پھر دونوں کے درمیان استادی و شاگردی کا رشتہ کیسے ہمیشہ کے لیے قائم و استوار ہوگیا اس کو بھی طشت ازبام کیا ہے۔ اس ضمن میں دہلی یونیورسٹی کے اپنے بعض ساتھیوں اور اساتذہ کا بھی ذکر خیر کیا ہے، جن میں پروفیسر ظہیر احمد صدیقی، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی، فضل الحق، شمیم نکہت، تنویر احمد علوی ، پروفیسرعبد الحق اور پروفیسر عتیق اللہ وغیرہم شامل ہیں۔ اس کے تحت دہلی کی آب وہوا ، تہذیب وثقافت، وہاں کے ٹریفک نظام، بسوں میں سفر کی مشکلات، بٹلہ ہاؤس میں قیام، کالندی کنج پارک میں پروفیسر قمر رئیس کے ساتھ مارننگ اینڈ ایویننگ واکنگ، قمر رئیس کے حسن وجمال، اخلاق و کردار، ان کی ادبی حیثیت، بلند قد و قامت،ان کی تالیفی، تصنیفی اور ادبی خدمات وغیرہ سے متعلق بھی خوب خامہ فرسائی کی ہے۔ ساتھ ہی اپنی ترقی کا سہرا ان ہی کے سر باندھ کر ایک فرماں بردار شاگرد ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے :
” میرے دل میں ان کے لیے آج تک عزت و احترام ہے۔ میرے اس مقام تک پہنچنے کا وہی ذریعہ بنے تھے۔ دہلی اور دہلی سے باہر اردو ادب اور ادیبوں میں قمر صاحب کی وجہ سے بھی بہت عزت ملی۔ بڑے آدمی کے ساتھ رہنے والے کو بھی لوگ بڑا سمجھ لیتے ہیں۔ “(ص53)۔(یہ بھی ملاحظہ کریں!رمز عظیم آبادی کی نظم گوئی از: ڈاکٹر محمد سراج اللہ تیمی)
۔۔۔۔۔۔۔بقیہ آئندہ