اردو ادب اور سائبر اسپیس کے تناظر میں ڈاکٹر خورشید اقبال از: عظیم انصاری

0
164

تحقیق کا کام ایک دقت طلب کام ہے ۔ اس کام میں کڑی محنت و لگن کے ساتھ بیدار ذہن کا ہونا بھی ضروری ہے ورنہ ساری محنت رائیگاں ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ جن کی فکر و نظر بالغ ہوتی ہے وہ تحقیقی اصولوں کو بروئے کار لاکر اپنے بیدار ذہن سے کچھ ایسا کام کرجاتے ہیں کہ دنیائے ادب انھیں داد و تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے۔ تحقیق کا مطلب یہ ہے کہ کسی موضوع کے متعلق چھان بین کرنا اور کھرے کھوٹے اور اصلی و نقلی مواد میں امتیاز کرنا ۔ کسی موضوع پر اگر کوئی کام پہلے سے ہوا ہو اور آپ کو اس کام کو مزید آگے بڑھانا ہے اور کچھ الگ راہ متعین کرنا ہے تو اس میں کچھ آسانیاں ممکن ہیں لیکن موضوع ایک دم نیا ہو تو اسے خارزار سے گزرنا پڑتا ہے۔ جو محقق ان دشوار راستوں سے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں وہ یقیناً کامیاب ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ تحقیق کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ خورشید اقبال ایسے ہی ایک کامیاب محقق ہیں جنھوں نے سائبر اسپیس جیسے نئے موضوع پر اپنا تحقیقی مقالہ قلمبند کیا جو اردو ادب کے لیے ایک قیمتی دستاویز ہے- شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی بنگال کے معروف شاعر و ادیب ممتاز انور نے اپنی حالیہ کتاب ” چشم بہ چشم ” (خاکے کا مجموعہ) میں ڈاکٹر خورشید اقبال کو فن و ادب کا مہذب نباض کہا ہے۔
سائبر اسپیس سے مراد کمپیوٹر کی وہ دنیا ہے جو بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ آن لائن مواصلات کی سہولت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ شرکا کے ایک بڑے حلقے کی شمولیت کو ممکن بناتی ہے۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر خورشید اقبال کہتے ہیں:
’’زیادہ تر لوگ انٹرنیٹ کو ہی سائبر اسپیس سمجھتے ہیں۔ شروع شروع میں ‘ میں بھی خود یہی سمجھتا تھا لیکن جیسے جیسے اس دشت کی سیاحی کرتا گیا بہت سارے راز افشاں ہوتے گئے ۔ اب کہیں جاکے یہ پتہ چلا کہ انٹرنیٹ سائبر اسپیس کا متبادل نہیں ہے بلکہ اس کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔سائبر اسپیس تو لامحدود ہے۔سائبر اسپیس کے دائرے میں ہر وہ مشین آجاتی ہے جو کسی طرح کے نیٹ ورک کے ذریعہ دوسری مشین یا مشینوں سے منسلک ہو خواہ وہ وائرلیس نیٹ ورک ہو یا کیبل نیٹ ورک ‘ خواہ یہ نیٹ ورک روئے زمین پر پھیلا ہوا ہویا زمین سے باہر سیاروں یا کہکشاں کے درمیان پھیلا ہو۔ جہاں بھی برقی ترسیل ہورہی ہو وہ سائبر اسپیس کا حصہ ہے۔ اس لحاظ سے ٹیلیفون، ٹیلی گراف، ریڈیو ،ٹیلی ویڑن،انٹرنیٹ ،فیکس ،ٹیلیکس اور اے ٹی ایم مشین وغیرہ سائبر اسپیس کا حصہ ہیں ۔‘‘

ڈاکٹر خورشید اقبال ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے۔ وہ خاموشی اور سنجیدگی سے درسی و ادبی کام کرتے رہتے ہیں۔ ان کے اندر ہمیشہ کچھ نیا کر گزرنے کی دھن سوار رہتی ہے اور وہ دھن کے پکے بھی ہیں ۔ وہ اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس حال میں کامیابی ملی ہی ہے۔مذکورہ کتاب اور ڈاکٹر خورشید اقبال کے تعلق سے ڈاکٹر معید رشیدی نے تقریظ میں جو کچھ لکھا ہے میں اس سے حرف بہ حرف متفق ہوں۔ دیکھئے ڈاکٹر خورشید اقبال کے بارے میں کیا کہتے ہیں:
’’خورشید اقبال کو سائبر اسپیس کے مسائل سے گہرا لگاؤ ہے۔جب ہندوستان میں بہت کم لوگ جانتے تھے کہ انٹرنیٹ کیا معجزہ ہے۔ اس وقت خورشید اقبال نے اردو کی ویب سائٹ ’اردو دوست ‘ڈاٹ کام’ بنا ڈالی ۔ اس پر ایک آن لائن رسالے کا اجرا کردیا ۔ سائبر اسپیس کی نسبت سے رسالے کا نام ’کائنات‘رکھا ۔ ماہنامے کی صورت میں جاری کیا ۔ رسالے کو مقبولیت ملی ۔ خورشید اقبال نے شاعری کی ۔ ترجمے کئے ۔ سائینسی موضوعات پر کتابیں تحریر کیں۔سائینس فکشن پر کام کیا ۔ پھر مصمم ارادہ کرلیا کہ سائبر اسپیس میں اردو کے مسائل پر پی۔ ایچ ۔ ڈی کا مقالہ سپرد قلم کریں گے – وہ جو ٹھان لیتے ہیں ،کر دکھاتے ہیں۔ ‘‘

ڈاکٹر خورشید اقبال نے اپنا یہ تحقیقی مقالہ تین برسوں کی کڑی محنت کے بعد مکمل کیا۔ ادب کی ترسیل و ترویج میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ موصوف نے اس اہمیت کو سمجھتے ہوئے جو تحقیقی کام کیا ہے وہ اردو ادب میں آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ رہے گی۔
ڈاکٹر خورشید اقبال نے اپنے اس تحقیقی مقالے کو چار ابواب میں تقسیم کیا ہے اور آخر میں حاصل مطالعہ کے عنوان سے ادب کی ترسیل و ترویج کا عہد بہ عہد جائزہ لیا ہے –
مقالے کے پہلے باب میں ” ادب کے مختلف وسائل ” کا ذکر ہے۔ اپنی بات کو مزید واضح کرنے کے لیے اس باب کو ڈاکٹر خورشید اقبال نے تین ذیلی ابواب میں تقسیم کردیا ہے۔
۱۔ دورِ قدیم میں ادبی اظہار کے وسائل
۲۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد اور اس کے اثرات
۳۔ ایک انقلاب : ڈیجیٹل پبلشنگ
پہلے باب میں ‘ دورِ قدیم میں ادبی ترسیل’ کے تحت زبان اور تحریر کی ایجاد اور کتاب کے عہد بہ عہد ارتقاء کا جائزہ لیا گیا ہے بلکہ ذیلی عنوانات کے سہارے تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد اور اس کے اثرات کے تحت چھپائی کے مختلف طریقوں کا عہد بہ عہد ارتقاء کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے اثرات کے بارے میں ذیلی عنوانات کے زیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔ اس باب کے آخری حصے میں ” ایک انقلاب : ڈیجیٹل پبلشنگ ” میں برقی طریقوں اور ان کے اثرات کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے ڈیجیٹل پبلشنگ کیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کی دو قسمیں ہیں آف لائن اور آن لائن – پھر E.book’ اس کے فارمیٹ’ دستیابی’ CD/DVD اور موبائل ایپس کے بارے میں بتایا گیا ہے۔اس کے بعد اس کی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کرنے ہوئے اس کے مستقبل کی بات کہی گئی ہے۔ مذکورہ کتاب کے پہلے باب کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر خورشید اقبال کے تحقیقی مقالہ کی اہمیت کیا ہے۔

ڈاکٹر خورشید اقبال نے مقالے کے دوسرے باب ” سائبر اسپیس کا مفہوم ‘ آغاز و ارتقا ” کو پانچ ذیلی ابواب میں بانٹ دیا ہے اور اس میں انھوں نے انٹرنیٹ ‘ ورلڈ وائڈ ویب (www) اور سائبر اسپیس کے فرق کو سمجھایا ہے اور مختلف تعریفوں کا ذکر کیا ہے۔ اس بات میں سائبر اسپیس سے متعلق اپنی آراء کو نہایت سلیقے سے پیش کیا ہے تاکہ قاری اس کے بارے میں مکمل طور سے واقف ہوسکے۔
مقالے کا تیسرا باب ” اردو میں سائبر اسپیس کی روایت” ہے۔ اس باب میں ڈاکٹر خورشید اقبال نے اردو ادب و سائبر اسپیس کے رشتے کی بات کی ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ اردو ادب کی ترسیل و ترویج میں کس حد تک معاون ہے۔ اس باب کو اپنی بات کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر موصوف نے تین ذیلی ابواب میں تقسیم کردیا ہے۔ ’’الیکٹرانک میڈیا اور اردو‘‘ کے تحت ” ریڈیو اور ٹیلیویڑن کی مدد سے اردو ادب کی ترسیل و ترویج کے تاریخی پس منظر اور موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے اپنی بات کہی ہے۔ دوسرے ذیلی عنوان ’’ اردو کمپیوٹنگ کا آغاز و ارتقا ‘‘کے تحت اردو میں کمپیوٹنگ کی ابتدا ‘ ارتقاء اور اردو کمپیوٹنگ کے مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ تیسرے ذیلی عنوان ’’ سائبر اسپیس میں اردو کے قدم ‘‘کے تحت اردو انٹرنیٹ کی شروعات اور اس سے در پیش مسائل پر مدلل بحث کی گئی ہے۔
مقالے کے چوتھے باب میں ڈاکٹر خورشید اقبال نے بڑی خوبصورتی سے ’’ اردو سائبر اسپیس کی موجودہ صورتحال‘‘ کا نقشہ کھینچا ہے ۔ انھوں نے بہت تفصیل سے اردو کی موجودہ ویب سائٹسـ، اردو کے بلاگز،اردو کے آن لائن رسائل و اخبارات اور اردو کی آن لائن لائبریریوں کا جائزہ پیش کیا ہے اور ساتھ ہی یو ٹیوب اور سوشل نیٹ ورکنگ کے ادبی پہلو اور اردو ادبی تحقیق میں سائبر اسپیس کی استعمال کی اہمیت اور افادیت کا بھی ذکر ہے ۔ اس باب کے آخر میں ڈاکٹر خورشید اقبال نے سوشل میڈیا اور لائیو تنقید (Live criticism) کی بات کی ہے جو ادبی دنیا کے ایک بالکل نیا تصور ہے ۔
متذکرہ تحقیقی کتاب کے آخر میں ’حاصل مطالعہ‘ کے تحت ڈاکٹر خورشید اقبال نے شاندار ڈھنگ سے اس تحقیق سے ہونے والے تمام نتائج کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس میں انھوں نے بتایا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ زبان و ادب کی ترسیل کے وسائل بھی بدلتے رہے ہیں اور ان میں ارتقاء کا عمل بھی جاری و ساری رہتا ہے۔ ان کے مطابق ادبی ترسیل کے سلسلے میں پہلا بڑا انقلاب پندرہویں صدی کے وسط میں آیاجب پرنٹنگ پریس وجود میں آئی لیکن اردو ذبان کو یہ سہولت تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد میسر ہوئی ۔ اس سلسلے میں فورٹ ولیم کالج کا کردار نمایاں رہا ۔ ادبی ترسیل کی رفتار بیسویں صدی میں تیز ترین ہوگئی ۔ریڈیو ‘ ٹیلی ویڑن نے ادب کی ترسیل کو گویا پنکھ لگادئے۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے ادب کا مادی جسم چھین لیا اور اسے غیر مادی وجود عطا کردیا ۔ ادب کی ترسیل میں برقی کتابوں کی اہمیت بڑھ گئی ۔ جو کام گھنٹوں میں ہوتا تھا وہ منٹوں میں ہونے لگا ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اردو ادب کو بھی اس رفتار کے ساتھ چلنا ہے۔ اب تو سائبر اسپیس میں اردو ادب کا اچھا خاصا خزانہ جمع ہوچکا ہے – المختصر یہ کہ ادب کی ترسیل ہو یا تحقیق و تنقید ہر شعبے میں سائبر اسپیس کا استعمال زوروں پر ہے –

ڈاکٹر خورشید اقبال کی اس کتاب کے بارے میں یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اردو ادب کے لیے یہ گراں قدر تحفہ ہے اور آنے والی نسلیں اس کی بنیاد پر اپنے تحقیقی کام کو آگے بڑھائیں گی – اس کتاب کے مطالعہ سے ڈاکٹر خورشید اقبال کی محنت’ لگن ‘ ریاضت اور ذہانت کا اندازہ ہوتا ہے – سائبر اسپیس کی اصطلاح اردو ادب کے لئے بالکل نئی ہے اور اس کے ساتھ اور بھی ڈھیر سارے اصطلاحات اس کتاب میں شامل ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے زبان و بیان کی روانی و تسلسل میں کہیں فرق آنے نہیں دیا ہے۔ میرے خیال سے اس کتاب کی یہ سب سے بڑی خوبی ہے – مجھے امید ہے کہ اس کتاب کی ادبی و علمی حلقوں میں کافی پذیرائی ہوگی۔ آخر میں اس کتاب کی اشاعت کے لیے ڈاکٹر خورشید اقبال کو مبارکباد پیش کرتا ہوں – اللہ انھیں حصارِ خیر میں رکھے۔ آمین!

Azim Ansari
Rahmat manzil, B. L. No. 5
P.O. Jagatdal
North 24 Parganas
PIN: 743125

Previous articleآزادی کے بعد اردو تحقیق کی صورتحال از ڈاکٹر احمد علی جوہر
Next articleجامعہ کاشف العلوم میں از: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here