رینو کے شہر میں: تخلیقی بیانیہ کی تمثال از: محمد جابر زماں

0
224

’رینو کے شہر میں‘ حقانی القاسمی کی ایک اہم تصنیف ہے۔ جس کا اظہاریہ جدت وندرت کی تمثال ہے۔بنیادی طور پر یہ تصنیف ’تذکرے‘ کے ضمن میں آتی ہے۔ لیکن مصنف کے تخلیقی ہنر اور ناقدانہ بالیدگی نے اس کی صنفی حیثیت کوبہت بلند کردیا ہے۔ ان کی تحریر وسعت مطالعہ کی مظہر ہے، ان کا قلم بڑا سرسبز وشاداب ہے۔ انتخاب لفظیات اور جملے کی ساخت ان کے جمالیاتی شعور کا شناخت نامہ ہے، جس میں نجد کی خوشبو، شیراز کی حلاوت اور ہندوستان کا الھڑ پن حلول کر گیا ہے۔ اس لیے قرات کے دوران قاری پرایک عجیب جمالیاتی کیف طاری ہوجاتاہے۔ حقانی القاسمی کی اس تصنیف میں اپنے مسکن اور اپنی زمین کی تخلیقی حسیت کی شناخت کا عمل بہ طورمحرک صاف دکھائی دیتاہے۔ دور افتادہ اور وسائل سے محروم فن کاروں کی شناخت اور ان کی خلاقانہ بصیرتوں کو نشاں زد کیا گیا ہے کہ انھیں صرف علاقائیت کی اساس پر نظر انداز کردیاگیا۔ کتاب کانام ہی ادبی جبر کے خلاف اعلامیہ بن کر سامنے آتاہے۔
حقانی القاسمی نے کتاب کو مختلف عناوین کے تحت تقسیم کیا ہے۔ پہلا عنوان’حدیث لالہ وگل‘ ہے جس کے تحت انھوں نے ’ رینو کے شہر‘ کی تاریخی کڑیوں کو متصل کرنے کی سعی بلیغ کی ہے اورعام تاریخی اسلوب سے ہٹ کرتخلیقی بیانیہ کے انداز میں حقائق کی پردہ دری کی ہے۔یہاںان کی ذ ہنی اورجذباتی کیفیات کا ادراک ہوتاہے، اور اپنے شہر کی تاریخ و ثقافت کی بازیافت کی کوشش ملتی ہے۔
’ ارریا آندھی اور آم‘ کے ذیلی عنوان سے انھوں نے گاؤں کے منظر نامے کو پیش کیا ہے جس میں ان کا دردمند دل امڈآیاہے ، اور تنقید کے تیر ونشترنے بھی ایک خوشگوار کیفیت پیداکردی ہے۔ اس ’بے چہرگی اور کلچر کی فراوانی‘ کے دور میں انھیں اپنے گاؤں کی ثقافت عزیز ہے۔ وہ گاؤں کی مثبت اقدار کی ہرممکن حفاظت چاہتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کلچر میں انسان اپنے فطری رنگ میں نظر آتاہے اور وہ اسے فطری انداز میں ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اوپر سے اوڑھائے گئے چہرے انھیں ناپسند ہیں:
’’اچھا لگا کہ گاؤں اپنے نیچرل چہرے کے ساتھ زندہ ہے۔ گاؤں کے دروازوں پر شہروں نے دستک نہیں دی ہے وہاں ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس ابھی زندہ ہے۔ مگر اب ڈر لگنے لگا ہے کہ گاؤں میں پری ورتن آگیا تو کیا ہوگا۔‘‘
(رینو کے شہر میں، ص:62)
اس مادہ پرست سماج میں صارفی شکنجے نے معاشرے کی ذہنی، تہذیبی اور اخلاقی اقدار کو تبدیل کردیا ہے۔ حقانی القاسمی کو اس کا بھرپور احساس ہے ۔ اسی احساس نے انھیں گاؤں کی انسانی اقدار سے محبت کرنے کا ہنر سکھادیا ہے۔ انھوں نے جدید سماج کی بے چہرگی کوشدت کے ساتھ محسوس کیا ہے، جس کے لیے انھوں نے ’نیم پلیٹ‘ کے ذریعہ پہچانے جا نے والے افراد کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ جو معاصر شہری ثقافتی منظرنامے پر شدید طنز ہے۔ گاؤں اور دیہات کے کلچر میں بھی اس بے چہرگی کے عناصر تیزی کے ساتھ اثر انداز ہورہے ہیں۔ اس تبدیلی پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا لہجہ ایک حد تک غم ناک ہوگیا ہے :
’’ ہمارے گاؤں میں شہر تیزی سے سمائے جارہے ہیں اور شہروں کی تہذیب ہماری ثقافت کو نگلتی جارہی ہے۔ ہماری قدریں بدل رہی ہیں اورہم تیزی کے ساتھ شہری اقدار کو اپنی زندگی میں شامل کرتے جارہے ہیں۔‘‘
(رینو کے شہر میں، ص:81)
حقانی القاسمی نے گاؤں کا جو تصور پیش کیا ہے، وہ ہمارے ادب میں رائج تصورات سے کافی مختلف ہے۔ گاؤں کی رومانوی تصویر کشی کے بجائے انھوں نے وہاں کے زمینی حقائق کو قبو ل کیا ہے۔ انھوں نے گاؤں کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ اسی مٹی میں اپنی زندگی کے حسین لمحات بسر کیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گاؤں ان کی تخلیقی شخصیت میں اس طرح بس گیا ہے کہ علاحدہ کرنا مشکل ہے۔ ان کے یہاں گاؤں کی ہر دو صورتیں جلوہ گر نظر آتی ہیں ہرے بھرے کھیت، خوشنما باغات، چہچہاتے پرندے اور لبالب تالاب کے ساتھ ہی گاؤں کی پگڈنڈیاں، روشنی تعلیم اور غربت کے مسائل بھی زیر بحث آئے ہیں۔ ندی سے متعلق ان کے احساسات اپنی تمام ترتابانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ انھوں نے احساسات کی منظر کشی جس انداز میں کی ہے وہ اس بات کا اعلامیہ ہے کہ انھوں نے صرف ندی کو دور سے دیکھ کر اپنے تصورات کو قلم بند نہیں کیا ہے بلکہ انھوں نے اس ندی سے وصال کا مزہ بھی چکھا ہے، جس نے ان کے اسلوب میں حلاوت پیداکردی ہے:
’’ندی میں اترا تو جسم وجاں کو بڑی راحت ملی۔ خدا کا شکر بجا لایا کہ بغیر قیمت کے بیش بہا دولت نصیب ہوئی۔ بڑے شہروں میں تا ایک ایک قطرے کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ یہاں تو ہر طرف جل ہی جل ہے۔ بہتے پانی سے جب جسم کا وصل ہوا تو باکرہ ندی میں وصل کی تڑپ تھی، مزاحمت اور مدافعت کی قوت سے معمور پانی کی ایک ایک بوند دوا کی طرح جسم میں اترتی جا رہی تھی۔‘‘
(رینو کے شہر میں، ص:59)
اسی کے ساتھ انھوں نے اس ندی کی طغیانی کیفیات کو بھی اجاگر کیا ہے۔ جو جوش روانی میں اپنے قرب وجوار کی بستیوں کو بھی اپنے ساتھ سمیٹ لے جاتی ہے اور اس وقت یہ پانی رحمت کے بجائے زحمت بن جاتا ہے۔ جس نے غریبی کی در میں اضافہ کیا ہے۔ حقانی القاسمی نے اس حوالے سے ہمارے بے حس سیاستدانوں کی جانب بھی اشارے کئے ہیں جو ایسے مواقع پر صرف اپنی جیب بھرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں اور انھیں متاثرہ عوام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔
گاؤں کی صورت حال کے حوالے سے اس فن پارے میں ان عورتوں کے دکھ درد کوبھی محسوس کیا جا سکتا ہے، جن کے شوہر تلاش معاش کی بنا پر ان سے دور ہیں۔ گاؤں کی عمومی صورت حال یہی ہے مرد وہاں سے ہجرت کر چکے ہیں، اور ان کی بیویاں ہجر کی اذیت سے گزر رہی ہیں۔ان کی آنکھیں انتظار میں تھک چکی ہیں، لیکن اس کے باوجود انتظار کی کیفیت ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔ اور ان کے دل ’برہ‘ کی ہندوستانی آواز سے معمور ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ حقانی القاسمی نے کھیت کھلیان، چرند پرند اور افراد کے چہروں پر کندہ کہانیوں کو پڑھنے کی کامیاب کوشش کی ہے جو خود آگہی اور ’دل کی کتاب‘ پڑھنے کا عمل ہے۔
’چھوٹے شہر کا بڑا سفر نامہ‘ بھی قابل ذکر مقالہ ہے جس میں ارریا کے فطری حسن اور تخلیقی منظرنامے کو سفرنامہ کی شکل میں بیان کیاگیا ہے۔ اس سفر میں جن تخلیقی شخصیات سے شناسائی حاصل ہوئی ان کا ذکر کیا گیا ہے ۔ حقانی القاسمی کو ان کے متون نے خود اپنی جانب متوجہ کیا اور بھر پور انبساط کاموقع بھی فراہم کیا۔حقیقت میں یہ سفرنامے کی تمہید ہے جس کا اقرار حقانی القاسمی کو بھی ہے ۔انھوں نے اصل سفرنامے کا انتظار کرنے کو کہا ہے ،لیکن یہ پوری تصنیف ایک سفر نامہ ہی تو ہے جس میں ہم نے بہتیرے تخلیق کاروں اور ان کے متون سے مکالمہ کیا ہے۔ اس موقع پر جہاں کئی طرح کے اعزازی پروگراموں کاذکر ہے۔ اسی میں ایک ایسی نشست بھی ہے ،جس نے حقانی القاسمی کو تخلیق کاروں کی لسانی حرکیات کے ساتھ متن سے ہم کلام ہونے کا موقع فراہم کیا۔ اس مجموعی تخلیقی حسیت پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے بعض ایسے جملے رقم کئے ہیں، جو خلاقانہ بصیرتوں کی ترجمانی کے ساتھ اس تصنیف کاجواز بھی ہیں:
’’ان کی دیہی شاعری میں مٹی کی مہک، زمین کی خوشبو اور تجربے مشاہدے کی جو آگ روشن ہے وہ شہری شاعری میں کہاں؟ دیہی شاعری کا الھڑ انداز بڑا لطف دے گیا۔
(رینو کے شہر میں، ص:84)
’داستانِ عہدِ گل‘ دوسرا عنوان ہے۔ جس کے تحت ان افرا دپر روشنی ڈالی گئی ہے، جنہوں نے مختلف اوقات میں ’پورنیہ‘ کی تاریخی، ادبی اور ثقافتی شناخت کو اپنا موضوع بنایاہے۔ اور کسی نہ کسی سطح پر ماضی کے حوالوں کو پیش نظر رکھ کر اپنے فکری اور تخلیقی تسلسل کی بازیافت کی سعی کی ہے۔ اور تاریخی مراجع کی روشنی میں اس علاقے کی جغرافیائی، ادبی اور تخلیقی حسیت کی شناخت میں اپنا کردار ادا کیا ہے، جس میں اکمل یزدانیؔ کا نام اپنے ذہنی تفاعل اور تاریخی شعور کی بنا پر اہم ہے۔ انھوں نے پورنیہ کی تاریخ و ثقافت کی شناخت کے لیے ہفتہ وار ’انسان‘ کشن گنج کا پورنیہ نمبر ترتیب دیا۔ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حقانی القاسمی نے لکھا ہے:
’’ پورنیہ کو عشاق تو بہت مل جائیں گے مگر اکمل یزدانیؔ جیسا مجنوں ملنا محال ہے۔ ’پورنیہ نمبر‘ ان کے جذبہ و جنوں کا نمایاں ثبوت ہے۔‘‘
(رینو کے شہر میں، ص:98)
ان کے علاوہ کبیر الدین فوزان، وہاج الدین صدیقی، ڈاکٹر عبد الرقیب صدیقی اور قمر شاداں کاذکر کیاگیا ہے۔ اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
’ زمین شور میں سنبل‘کے تحت انھوں نے پہلے اجمالی طور پر ’رینو کے شہر ‘ کے تخلیقی مونتاج پر گفتگو کی ہے۔ اوران افراد کی تخلیقی شناخت پر لگے ہوئے سوالیہ پربحث کی ہے جو وسائل کے عدم وجود کی بنا پر ادبی تاریخ کے صفحات سے گم ہیں۔اس حوالے سے ’پھنیشور ناتھ رینو‘ کانام بھی اہم ہے جنہوں نے ’میلا آنچل‘ کے نام سے ناول لکھا تو تعصباتی تنقید نے مقامیت کا لیبل لگاکراس ناول کو نظر انداز کردیا۔ اور فن کار کے خلاقانہ جوہر کو صرف اس لیے قابل توجہ نہیں سمجھا گیاکہ فن پارے کا انسلاک اپنی تہذیبی و ثقافتی اقدار سے تھا، لیکن ناول کو اسی خصوصیت کی بنا پر دوسری زبان میں قابل احترام سمجھا گیا۔ بقول حقانی القاسمی:
’’ہندوستان کی آزادی کے بعد کا ایسا سچا فن کارانہ منظرنامہ کسی اور نے نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ’میلا آنچل‘ کے روسی ترجمے کی ستر ہزار کاپیاں ایک ہی ہفتے میں فروخت ہوگئیں اور روس کے ادب شنا سوں نے یہ فیصلہ صادر کردیا کہ اس ناول میں ہندوستان کی سچی دھڑ کنوں کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔‘‘ (رینو کے شہر میں ص:115)
اپنے گھر سے دور ہونے کی بنا پران میں مہاجر کی نفسیات بھی نظر آتی ہے، لیکن وہ اپنے وطن سے دور ہونے کے باوجودذہنی سطح پرہمیشہ اس سے قریب رہے ہیں، اس لیے اس کی تخلیقی شناخت کی کوشش میں بھی وہی مثبت فکر بطور محرک موجود ہے۔حقانی القاسمی نے اس حصے میں تمہیدی منظرنامے کے بعد تخلیقی فن پاروں کے متون کوپیش نظر رکھ کر تخلیقی عمل کی قدر شناسی کی جانب پہل کی ہے اور شعری و نثری دونوں حوالوں کو مدنظر رکھاہے۔
ادب اپنی مخصوص ثقافت کا زائیدہ ہوتاہے، جو اپنی مٹی کی خوشبو سے معمور ہوتاہے۔ Globalisation کے اس دور میں جہاں ادب کی آفاقیت پر زور ہے۔ فن پارے کے حدوداور اس کے مضمرات میں اپنے ملک اور علاقے کی حرکیات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے۔ حقانی القاسمی نے اپنی تنقید کو اسی علاقائی اور جغرافیائی تناظر میں استوار کیا ہے اور فن پاروں کی قدر شناسی کے عمل سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی ہے۔ ان کے سینے میں تخلیق کاکرب بھی ہے اور تخلیق کاروں کا درد بھی۔ اسی وجہ سے ان کے یہاں ’تذکراتی تنقید‘ کی مخصوص رَو سے انحراف ملتاہے اور تخلیق کے درون میں اترنے کی کیفیت کا احساس ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بعض مقامات پر ’تلخ حقائق‘ بھی ان کے نوک قلم سے نکل گئے ہیں۔
عیسیٰ فرتاب جنھوں نے اپنی تخلیقی بصیرت کے اظہار کے لیے بیک وقت تین زبانوں کو وسیلہ بنا یا۔ جو ان کی ذہانت اور قدرت کی غمازی کرتاہے۔ اس کے باوجود انھیں ادبی تاریخ میں جگہ نہیں مل سکی۔صرف عیسیٰ فرتاب ہی نہیں، بلکہ ان جیسے کتنے نابغاتِ تخلیق کو ہماری تنقید نے فراموش کردیاہے۔ حقانی القاسمی ؔ نے جس طرح متن کی روشنی میں اس فن کار کی بازیافت کی سعی کی ہے وہ معاصر تنقیدی منظرنامے میں قابل توجہ ہے۔ متن کی تشکیل جدید کے حوالے سے جملۂ معترضہ کے طور پر اہم بات کہی گئی ہے۔دراصل ہم تشکیل اور اخذیت کی روایت کو ادب سے منہا کرنے کی کوشش کریں تو بڑی حد تک ادب اپنے ادب سے منہا ہوتا نظر آتا ہے۔زبیر الحسن غافلؔ کی تخلیقی نگارشات کے حوالے سے صنعت توشیح میں لکھاگیا مضمون بھی فکری و فنی دونوں حوالے سے حقانی القاسمی کی تخلیقی انفرادیت کو روشن کرتا ہے۔
’باغبان گل‘ کے تحت بزرگ ادیبوں اور سیاسی و سماجی حضرات کا ذکر ہواہے۔ جس میں پہلا نام ’ اسرار الحق قاسمی‘ کا ہے جو لوک سبھا میں اسی علاقے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ قاسمی صاحب بہت پہلے سے ہی سیاسی و ملی کوچے میںاپنی شناخت رکھتے ہیں۔ ’ملی کونسل‘ کے پلیٹ فارم سے انھوں نے قوم وملت کی فلاح کے لیے قابل قدر کارنامے انجام دیے ہیں۔ ملکی وعالمی سیاست پر ان کے بے لاگ تبصرے بھی ان کی سیاسی، سماجی اور ملی شخصیت کی شناخت میں اپنا کردار رکھتے ہیں۔
شیخ وہاج الدین جو بنیادی طور پر انجینئرہیں حقانی القاسمی نے انھیں ایک تخلیق کار کی صورت میں دریافت کیا ہے۔ اپنی بیٹی کا جو ’وفاتیہ‘ انھوں نے تحریر کیا ہے وہی ان کی تخلیقی شناخت کا محور ہے۔ ہر شخص میں تخلیقی قوتیں ودیعت ہوتی ہیں جن کی تحریک کے لیے مواقع درکار ہوتے ہیں۔ چنانچہ انجینئر صاحب کی بیٹی کی وفات ہی ان کی تخلیقی حسیت کو متحرک کرنے میں معاون ثابت ہوئی، اور انھوں نے ایک نثری مرثیہ سپرد قلم کر ڈالا جس میں ان کے احساسات وجذبات اپنے فطری رنگ میں سامنے آئے ہیں۔ان کے علاوہ بھی مختلف ادبی شخصیات کی تخلیقی حسیت کو دریافت کرنے کی کوشش ملتی ہے جس میں اردو کے علاوہ عربی ادب سے متعلق تحریریں بھی موضوع بحث رہی ہیں۔
’شاخ ِنو بہار ‘ یہ حصہ نئی نسل کے تعارف پر مشتمل ہے۔ جو مستقبل کی ناخدا ہے۔ حقانی القاسمی نے اس میں ان لوگوں کو موضوع بنایا ہے جو اردو ادب میں ابھی نو وارد ہیں، اور ان کی اپنی کوئی باقاعدہ شناخت نہیں۔ ان میں بعض میڈیا سے منسلک ہیں اور بعض جامعات سے، اور اپنی ادبی جگہ بنانے میں مصروف کار ہیں۔ یہ لائق ستائش ہے کہ حقانی القاسمی نے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی ہے، اور ان کے بارے میں خوش گوار اشارے بھی دیے ہیں۔میڈیا سے منسلک افراد کے فکری عمق پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کی ہے، اور ان کے مضامین و مقالات کو حوالہ بنایا ہے۔ جامعات سے منسلک افراد کے مقالات بھی ملک اور بیرون ملک معیاری جرائد و مجلات کی زینت بن چکے ہیں، جن کی روشنی میں تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر سے ادبی دنیا ناواقف ہے۔ہاں حقانی القاسمی کی اس کتاب نے بہت حد تک انھیں ادبی دنیا میں متعارف کرادیا ہے۔
’ لوح گم شدہ‘ کے نام سے کتاب کے آخر میں دو ایسے تخلیق کاروں کی بازیافت کی گئی ہے۔ جو ادبی منظرنامے سے مفقود ہو چکے ہیں۔ ان میں پہلا نام ’ قاضی نجم الدین ہری پوری‘ کا ہے۔ جنھوںنے اقبالؔ کے فکری توارث کو آگے بڑھانے میں حصہ لیا ۔ اور دوسرے ’ قاضی جلال ہری پوری‘ ہیں جن کے یہاں کلاسیکی روایات و اقدار سے فیضان حاصل کرنے کا رجحان واضح ہے، انھوں نے اس فیضان کو اپنے احساس و اظہار کے ذریعہ نئی جہت عطا کی ہے۔ ان کے یہاں کلاسیکی تشبیہات و علائم کے استعمال سے انکار نہیں کی جا سکتا، لیکن اسلوب کی ندرت و جدت اور لفظیات کے برتاؤ نے ان کی راہ الگ کردی ہے۔ ا ن دونوں تخلیق کاروں کی بازیافت اور ازسر نو قرات حقانی القاسمی کا کارنامہ ہے۔ مستقبل میں ازسرنو متون کی تشکیل میں اس مطالعہ کے کردار سے انکار ممکن نہیں ہے۔
حقانی القاسمی کے یہاں اپنی جڑوں سے کٹنے کا الم ہے ،جس نے ان کے احساسات کو اپنے وطن کی جانب متو جہ کیا ہے۔ اس کے محرکات و عوامل میں علاقائیت اور مقامیت کے اثرات نہیں، بلکہ یہ سچا تخلیقی کرب ہے جس سے مکالمہ کرنے کے لیے تخلیق کی حسیاتی اور ثقافتی حرکیات کی بازیافت ضروری ہے۔حقانی القاسمی کے متون میںعشق، وصل اور فراق کے کردار سے بھی انکار ممکن نہیںہے۔ ہجر اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتاہے لیکن ایسانہیں کہ یہ فراق انھیں نفسیاتی اور جنسی ناآسودگیوں کا شکار بنادے، بلکہ ان کے یہاں وصل کی شادکامیوں کا بھی احساس ہے جو ان کے جذبۂ عشق کو متوازن بناتا ہے۔
حقانی القاسمی کا اظہاریہ جدت وندرت کی تمثال ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حقانی القاسمی نے جو اسلوب خلق کیا ہے اس پر تقلید وتتبع کا گمان بھی نہیں گزرتا۔ بلکہ یہ ان کی مخصوص جمالیاتی انفرادیت کا اولین شناخت نامہ ہے۔

134-Sutlej Hostel
J.N.U. New Delhi-110067
Mob:+91-9999017802
Email: jabirzama@gmail.com

Previous article“فریاد ہے اے کشتئ ملت کے نگہباں” امارت شرعیہ کے تناظر میں از: انوار الحسن وسطوی
Next articleامیر شریعت ثانی: محی الملۃ والدین حضرت مولانا سید شاہ محی الدین قادری رح از: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here