بہ یاد خواجہ جاویداختر۔۔با دیدۂ تر۔۔از:پروفیسرصالحہ رشید

0
411

صدر شعبہ عربی و فارسی الہ آباد یونیورسٹی

زندگی کیا ہے؟ سانسوں کا مسلسل سفر!اس سفر میں ہر سانس اپنے جدا وجود کے ساتھ گذرتی ہے اور آ نے والے لمحے کے ساتھ جڑی بھی ہوتی ہے۔ سانسوں کا کارواں اسی طرح چلتا رہتا ہے ۔ اس کارواں میں شریک ہر مسافر کے تجربات یکساں نہیں ہوتے۔ کچھ اس شاہراہ سے یوں ہی گذر جاتے ہیں اور کچھ اسی شاہراہ پر بہت خاص تجربات و مشاہدات کے حامل ہوتے ہیں ۔ ان ہی مخصوص ہستیوں میں ایک نام شاعر خواجہ جاوید اختر کا ہے۔
مدت سے میرے سینے میں اک راز ہے پنہاں
ہر وقت یہ احساس دلانے کا نہیں میں
یہ راز مگر سب کو بتانے کا نہیں میں
تیرا ہوں فقط سارے زمانے کا نہیں میں
۱۳ جولائی ۲۰۱۳ء بروز سنیچر بمطابق ٣ رمضان المبارک سہ پہر عام طور پر ہشاش بشاش نظر آنے والے شہر الہ آباد پر سکتہ طاری ہو گیا۔ وجہ تھی ہر چہار طرف جنگل کی آگ کی مانند ایک روح فرسا خبر کا پھیلنا۔ اس خبر اور عین حقیقت کو باور کرنا ہر ایک کے لئے دشوار تھا کہ اپنی اہلیہ اور تین پیاری پیاری معصوم بچیوں کو اپنے پیار کا آخری احساس دلا کر ہر دل عزیز ، سارے زمانے کے اپنے خواجہ جاوید اختر کی سانسوں کا کارواں تھم گیا ہے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔

خواجہ جاوید اختر کی شناخت ایک اچھے انسان کی تھی ۔ ہر ایک سے خلوص سے ملنا اور شیریں لہجے میں گفتگو کرناآپ کا شیوہ تھا۔ آپ کی ذات حسن اخلاق کا پیکر تھی۔ حسن سیرت اور متانت آپ کے چہرے سے عیاں ہوتی تھی ۔آپ انتہائی ذہین واقع ہوئے تھے۔ سیاسی شعبدہ بازیوں سے خود کو دور رکھتے تھے۔ منجملہ آپ با ہمہ اور بے ہمہ قسم کے انسان تھے۔ جہان ادب میں آپ منفرد لب ولہجہ اور خاص شعری تجربات کے ساتھ داخل ہوئے اور ہر کس و ناکس کو اپنی شاعری سے محو حیرت کر دیا۔ (یہ بھی پڑھیں!افسانہ ”گرہ کشائی” از: پروفیسرصالحہ رشید)
خواجہ جاوید اختر انتہائی حساس تھے۔ حالات حاضرہ پر ان کی مسلسل نگاہ ہوتی تھی ۔ معاشرے میں جڑ تک اتری بد اعمالیاں ، اخلاقی پستی ، مذہبی ریاکاری ، سیاسی جبر و استحصال ، حکومتی نظام کی بد عنوانی ، کچھ بھی ان کی چشم بینا سے اوجھل نہیں تھا۔ ہم سب بھی ان ہی حالات میں سانسیں لے رہے ہیں ۔ یہ تمام بد عنوانیاں ہمارے سامنے بھی ہیں لیکن ہر کسی کا دل شاعر جتنا حساس نہیں ہوتا۔ ہر شخص کے درون خانہ ان بد عنوانیوں کے رد عمل میں بے چینی و بے تابی پیدا نہیں ہوتی لیکن شاعر کا دل بے چین ہو اٹھتا ہے۔ اس کا اندرونی کرب الفاظ کی صورت چھلکنے کو بے تاب ہو جاتا ہے ۔ جب یہی کرب چھلک کر شاعر کے گہر بار قلم سے سفید قرطاس پر بکھر جاتا ہے تو قاری اس کے کلام کے مطالعے سے انگشت بدندان رہ جاتا ہے ۔ خواجہ جاوید اختر کے کلام کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ انھوں نے اپنے گرد وپیش رونما ہونے والے واقعات اور حالات کا نہ فقط مشاہدہ کیا بلکہ ان کا غائر مطالعہ بھی کیا۔ پھر اپنے فکری زاوئے سے عام نظر آنے والے موضوع میں نئی جہت پیدا کر دی ۔ عام مضامین خواجہ جاوید اختر کے انوکھے الفاظ کا جامہ پہن کر بہت خاص ہو گئے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :
سخن شناس نہیں زود گو بھی ہے جاوید
پڑھا لکھا ہی نہیں آدمی ذہین بھی ہے
۔۔۔۔
قیامت ہے ترے آگے کسی کا لب کشا ہونا
نگاہیں بات کرتی ہیں دہن خاموش رہتا ہے
۔۔۔۔
لشکر ہو اپنی ذات میں وہ فردچاہئے
میدان زندگی کے لئے مرد چاہئے
۔۔۔۔
بشر کا شر نمایاں ہو گیا دور ترقی میں
یہی وہ آدمی ہے جو کبھی انسان تھا پہلے
۔۔۔۔
شکل سے لگے ہے آدمی
فطرتاً مگر وہ نہنگ ہے
۔۔
رام رحیم کی کھینچا تانی
کھیل جگت کے سارے دیکھے
ملت دیکھی صدیوں میں
لمحوں میں بٹوارے دیکھے
اپنے زمانے کے سرد و گرم کو انھوں نے محسوس کیا۔ دنیا والوں کی بے اعتنائی اور بے مروتی سے آپ مغموم ہوئے ۔ معاشرے کی بے حسی اور جدید تہذیب کا کھوکھلا پن آپ کو ستاتا رہا۔ ان احساسات کو آپ نے جذبات کی صداقت اور انتہائی سادگی سے ، تکلف اور تصنع سے عاری، ایسے سیدھے سادے اور پر اثر لہجے میں پیش کیا کہ آپ کا کلام سیدھے لوگوں کے دل میں اترتا چلا گیا۔ جزبات کی شدت آپ کے اشعار سے عیاں ہوتی ہے۔ کبھی کبھی یہ شدت نشتریت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اسی بناء پر آپ کا لہجہ کبھی تلخ تو کبھی خشک بھی ہو جاتا ہے۔ آپ کی غزل کے کردار کا ظاہر و باطن ایک ہے۔ وہ سچا ہے، کھرا ہے، بے لاگ ہے:
میرا خود سے ملنے کو جی چاہتا ہے
بہت اپنے بارے میں میں نے سنا ہے
۔۔۔۔
ضرورت کی ہر شے مہیا ہے لیکن
یہ کیا ہے کہ دل کو سکوں بھی نہیں ہے
۔۔۔۔
غرض شامل ہے اس کی خاکساری میں ورنہ
کبھی وہ شخص مجھ سے اس طرح جھک کر نہیں ملتا
۔۔۔۔
ملا کرتے ہیں تخت و تاج نا اہلوں کو دنیا میں
کسی بھی تاج کو لیکن مناسب سر نہیں ملتا
۔۔۔۔
سینے میں درد آنکھوں میں آنسو نہیں ہیں کیا
تم میں کسی شریف کی خو بو نہیں ہے کیا
ان کی غزلوں میں معاملات حسن و عشق کا ایک ہلکا سا شوخ رنگ اور تغزل کی رعنائی بھی موجود ہے۔ یہاں قاری کی ملاقات اردو غزل کے روایتی معشوق سے ہوتی ہے اور وہ حسن و عشق کے لطیف جذبات سے ہمکنار ہوتا ہے:
ترے ناز جب سے اٹھائے ہیں میں نے
کوئی کام اب میرے بس کا نہیں ہے
۔۔۔۔
جھیل میں چہرہ کیا دیکھا ، آگ لگا دی پانی میں
زلفوں میں وہ خوشبو ہے، جیسے رات کی رانی میں
۔۔۔۔
لگاتے ہیں چکر ہم ان کی گلی کا
کبھی شام ڈھلتے کبھی خوب تڑکے
۔۔۔۔
اس کی خوشی تھی جو ملحوظ
جان کے ہارے بازی ہم
قاضی سے کیا لینا دینا
تم راضی تو راضی ہم
ان کی غزل اپنے بیانیہ میں ایک خاص رنگ لئے ہوئے ہے۔ وہ اس میں سوز کا رنگ اس طرح بھرتے ہیں کہ تغزل کا نکھر آتا ہے:
پھر مرے دل کے خشک صحرا نے
یاد کا مانسون دیکھا ہے
۔۔۔۔
بجھی بجھی سی وہ تصویر جاںبناتے ہیں
کہیں چراگ کہیں دھواں بناتے ہیں
۔۔۔۔
جانے کس کی یاد تھی کہ نیند میری اڑ گئی
لے رہا تھا کروٹیں میں رات بھر ادھر ادھر
۔۔۔۔
خواجہ جاوید نے اپنے کلام میں المیہ کے احساس کو بھی اجاگر کیا ہے لیکن امید اور رجائیت کی قندیل ان کے اندر ہمیشہ روشن رہتی ہے ۔ ان کی شاعری میں فکری تساہلی نہیں بلکہ تجسس اور حرکت نظر آتی ہے اور یہ حسیت ان کے جدید رجحان کی طرف اشارہ کرتی ہے:
روشن اب بھی ہے اک تارہ
رات بہت تاریک نہیں ہے
۔۔۔۔
وجود ہوگا مجسم میرا کبھی نہ کبھی
ابھی تو تیری فضامیں لکھ رہا ہوں میں
۔۔۔۔
کاغذ کی ایک نائو پہ ہم ہیں سوار بھی
دعویٰ ہے جائیں گے کبھی دریا کے پار بھی
۔۔۔۔
ادب میں بہت کچھ پرانا ہے لیکن
ہمیں دیکھنا ہے کہ کیا کچھ نیا ہے
۔۔۔۔
سرمایہ داری انھیں الجھن میں ڈال دیتی ہے۔ وہ لوگوں کے دولت کے پیچھے بھاگنے اور ان کی اخلاقی گراوٹ سے ناخوش نظر آتے ہیں اور انتہائی تیک لہجے میں گویا ہیں:
ساری دنیا بھاگ رہی ہے
چھوڑ کے سب کچھ زر کے پیچھے
۔۔۔۔
جا کر کبھی جو چین کبھی روس رہے ہیں
وہ بھی تو غریبوں کا لہو چوس رہے ہیں
۔۔۔۔
ملک کی ترقی میں انھیں محنت کش طبقہ زیادہ معتبر نظر آتا ہے اور وہ اس طبقے کے لئے فکرمند بھی ہیں۔ وہ مفلس و ناداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان کی بہبود کے لئے کوشاں ہیں ۔ اسی سلسلے مین انھوں نے اس مئی ڈے پر ’’مزدور ‘‘ کے عنوان سے تازہ نظم پیش کی جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
یہ زمیں مزدور کی ہے آسماں مزدور کا
دور تک ملتا نہیں کوئی مکاں مزدور کا
کس قدر محنت مشقت کر رہا ہے دیکھئے
روز دنیا لے رہی ہے امتحاں مزدور کا
۔۔۔۔
خواجہ جاوید اختر شاعری کی صنعت گری سے بھی واقف ہیں۔ ان کا ذہن تجربہ پسند ہے۔ ان کا لب و لہجہ نیا پن لئے ہوئے ہے۔ آپ نے عام بول چال کی زبان کو انتہائی سلیقے سے برتتے ہوئے اپنی بات سیدھے سادے ڈھنگ سے ادا کی ہے ۔آپ کا کلام بے ساختہ پن ، روانی اور سہل ممتنع کی خوبیوں سے لبریز ہے ۔ علامات و اشارات ، محاورے کا استعمال غیر معمولی طور پربھی کیا ہے۔ کچھ غزلوں میں بہت مشکل قافیہ بندی کی ہے اور ایسا صوتی نظام اپنایا جو سماعت پر گراں گزرتا ہے:
ان کا بخیہ ادھیڑ رکھا ہے
ہم نے اس کو کھدیڑ رکھا ہے
اپنی رسوائی کے بکھیڑے میں
مجھ کو جبراً گھسیڑ رکھا ہے
۔۔۔۔
برسوں سے یہ کاٹ رہا ہے
کھٹیا پیٹو، کھٹمل مارو
چھوڑو دنیا کی یہ خواہش
نفس بہت ہے کھڑتل مارو
۔۔۔۔
ہم کو سمجھیں نعل برابر
گھر کی مرغی دال برابر
۔۔۔۔
جس بات کو محسوس نہ کرتے تھے کبھی ہم
اب آج اسی بات کو محسوس رہے ہیں
اس کے بر عکس فارسی ترکیب پر مبنی ایک شعر ملاحظہ ہو :
کھینچ کر صفحئہ قرطاس پر مبہم سے خطوط
لوگ بن جاتے ہیں بہزاد و مانی کیسے
عصری اور عالمی صورت حال بڑی آسانی سے آپ کے کلام میں جگہ بنا لیتی ہیں ۔ بہت کم الفاظ استعمال کر کے چھوٹی سی بحر میں ایک بڑے عالمی مسئلہ کو یوں بیان کر دیتے ہیں :
ان کو محاذ جنگ پہ لائو
جو سرحد سرحد کرتے ہیں
۔۔۔۔
ہندوستان بچا لیں گے ہم
تم تو پاکستان بچائو
حال ہی میں آپ نے ’گنگا ‘ عنوان سے ایک نظم کہی اور اپنی جائے بود و باش یعنی الہ آباد کا بھی حق ادا کر دیا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
پاک ہو جاتا ہے انسان کا شر گنگا میں
ہم نے دیکھا ہے کتنا اثر ہے گنگا میں
ڈھونڈھتا رہتا ہے ہر ایک بشر گنگا میں
ہے کیا جنت کی کوئی راہ گذر گنگا میں
زندگی بھر کی اڑانوں کی تھکن ہوتی ہے
ختم ہوتا ہے پرندوں کا سفر گنگا میں
خواجہ جاوید اختر کے کلام کا مجموعہ ’نیند شرط نہیں ‘ ۲۰۱۰؁ء میں منظر عام پر آیا۔ جسے اہل ذوق نے ہاتھوں ہاتھ لیااور خوب سراہا۔ یہ مجموعہ اردو کے سنجیدہ قاری کے لئے گراں قدر تحفہ ہے اور شعری ادب میں ایک نیا موڑ بھی ۔ در اصل شعر گوئی کی جو راہ آپ نے منتخب کی وہ کچھ الگ ضرور ہے لیکن زندہ ادب کی یہ ایک اہم جہت بھی ہے۔ آپ کے کلام سے لوگوں کو امیدیں بندھیں اور انھیں لگا کہ آپ دیر تک اور دور تک شعری سفر طے کرنے کی سکت رکھتے ہیں لیکن افسوس زندگی کی بے ثباتی آڑے آ گئی ۔ ادب کی دنیا کو سوگوار چوڑ وہ درّ یکتا ہم سے رخصت ہو گیا ۔ محفل غزل سونی ہو گئی۔ حلقئہ احباب سے غم کا دھواں اٹھنے لگاعلم و ادب کا ترجمان ہمیں شعر و سخن کا وقیع سرمایہ سونپ کر چل بسا ۔ نیند شرط نہیں ہم سے کہا اور خود ابدی نیند میں سو گیا ۔ ایسی نیند جہاں سانسوں کے کارواں کا نشان تلاش کرنے پر بھی نہیں مل سکتا حالانکہ جاوید اپنی تخلیق اور تخلیقی اسلوب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے باقی ماندہ کلام کو بھی منظر عام پر لایا جائے۔ یہی ان کے لئے سچا خراج عقیدت ہوگا۔
آہ وصد آہ !۔۔۔خواجہ جاوید اختر !! جن کی رحلت پر ہر آنکھ نم ہے اور ہر شخص با دیدئہ تر دعا گو ہے ۔۔۔۔’ حق غریق رحمتش کناد ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Previous articleناول’’ راجدیو کی امرائی‘‘ ایک جائزہ از:منظور حسین ریسرچ اسکالر جموں
Next articleقربانی جذبہ خلیل کا عکس ہے..از:محمد علی جوہر سوپولوی

اپنے خیالات کا اظہار کریں

Please enter your comment!
Please enter your name here