صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
انتخابِ کلام کاجواز
شہریار نے پچاس برس سے زیادہ مُدّت تک شاعری کی اوراُن کے چھے مجموعے سامنے آئے۔ آخری زمانے کا کلام ان کے کلّیات میں’ باقیات‘ کے طَور پر شامل ہے۔ ’ہجر کے موسم‘ بھی حقیقتاً انتخاب ہی تھا مگر اس میںایک حصّہ نئے کلام کا بھی شامل تھا۔ یہی نیا کلام ’حاصلِ سیرِ جہاں‘ یا دونوں کُلّیات میں اس مجموعے کے نام سے محفوظ رکھا گیا ہے۔شہریار کا کوئی مجموعہ ضخیم نہیں ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے زوٗد گوئی یا قادر الکلامی کے ثبوت کے مقابلے میں منتخب کلام کی پیش کش کا طَور اپنا یا۔ ان کی اکثر و بیش تر نظمیں نہایت مختصر ہیں اور اردو کی جدید شاعری میں مختصر تر نظم نگار کے طَور پر اُن کی خاص شناخت قایم ہوئی۔ ان کے شعری مجموعوں میں بہت کم ایسی غزلیں ہیں جن میں پانچ ، چھے یا سات سے زیادہ اشعار شامل ہوں۔ بہت ساری غزلوںمیں چار پانچ اشعارہی ملتے ہیں۔ غالباً یہاں بھی یہی رویّہ رہا کہ ہر قافیے میں شعر کہنے سے بہتر یہ کام ہے کہ چُنندہ فکر و اسلوب کو ہی عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔
اس انتخاب کے مرحلے میں شہریار کے شاعرانہ معیار اور اسلوبیاتی تنوّع کوبہ طورِ بنیادتسلیم کیا گیا۔ شہریار کی درجنوں غزلیں اور نظمیں قبولِ عام کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔ انھیں اس انتخاب میں لازمی طَور پر شامل ہونا تھا۔ پہلی نظر میں ایسی غزلوں اور نظموں کو داخلِ انتخاب کر لیا گیا۔ اس طرح ان کے نمایندہ کلام کو چُننے میں اس بات پر خاص توجّہ دی گئی کہ ان کا شاعرانہ اعتبار کچھ نئے زاویوں سے بھی ہمارے سامنے آ سکے۔ غزلوں کے انتخاب میں بحر کے تنوّع پر بھی ہماری نظر رہی۔ شہریار کے مخصوص مزاج کے ساتھ ساتھ بعض نئے گوشے ظاہر کرنے والے اشعار اور غزلیں بھی اس انتخاب میں شامل کی گئیں۔ کوشش یہ کی گئی کہ اگر قاری کو شہریار کی میانہ روی اور احتیاط و توازن کی کڑیاں ہاتھ لگتی ہیں تو اُسی کے ساتھ شور انگیزی اور عدم احتیاط کے رویّے بھی اُسے معلوم ہو سکیں۔ عام طَور سے شہریار کو وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا شاعر کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی ہر ضروری نظم اور غزل اس انتخاب کا حصّہ ہے مگر شہریار کی شاعری کے بہت سے دوٗسرے موضوعات بھی ہیں۔ہماری کوشش رہی ہے کہ ان نئے علاقوں کی شاعری بھی اس انتخاب کا حصّہ بن جائے۔ اس لیے اس انتخاب میں شہریار کا بہت سارا کلام شامل ہے جسے شہریار کے نقّادوں نے بھی ابھی تک قابلِ اعتنا نہیں سمجھا ہے۔
شہریار نے اپنے مجموعوں میں غزلوں اور نظموں کے حصّے الگ الگ رکھے ہیں۔ اس انتخاب کی تیّاری میں مجموعوں کی علاحدہ حیثیت کے بجاے غزلوں اور نظموں کو ترتیب وار پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر مجموعے کی انفرادی حیثیت کے پیشِ نظر فہرست اور متن میں صراحت بھی کی گئی ہے اور کلام کی ترتیب میں مجموعوں کی ترتیب کو بنیادی اہمیت دینے سے گُریز کی خوٗ نہیں اپنائی گئی ۔ غزلیں اور نظمیں منتخب کرتے ہوئے صرف معیار اور نمایندگی کو پیشِ نظر رکھا گیا ۔ کئی بار کے مطالعے اور انتخاب ، ترمیم و اضافہ میں محض شاعر کی مکمّل شبیہہ کی تلاش بنیادی کام تھا۔ انتخاب جب مکمّل ہوا تو اس بات کی خوشی ہوئی کہ ایک معقول تناسب کے ساتھ اس مجموعے میں شہریار کے ہر دَور کا کلام شامل ہو گیا ہے جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ شاعر کے یہاں تخلیقی معیار اور تنوّع کی ہر دَور میں فراوانی رہی۔ یہ بھی قابلِ اطمینان بات ہے کہ اس انتخاب میں نصف صدی سے زیادہ کے زمانے کا کلام اپنے آپ شامل ہو گیا۔ غزلوں کے اشعار میں مزید انتخاب کی کوشش اس لیے ممکن نہ ہو سکی کیوں کہ شہریار کی غزلوں میں یوں بھی زیادہ اشعار شامل نہیں ہوتے ہیں۔ اب ان میں سے کسی شعر کو حذف کر کے غزل کی مکمّل اکائی سے روٗگردانی مناسب نہیں تھی۔
شہریار نے ۱۹۵۶-۱۹۵۸ء کے آس پاس شاعری شروع کی تھی۔ علی گڑھ کے جس ماحول میں وہ موجود تھے، وہاں ترقی پسندوں کی ابھی بااَثر جماعت موجود تھی۔ جدیدیت کے حلقے میں وہاں جن شعرا و ادبا سے شہریار متاثّر ہوئے یعنی خلیل الرّحمان اعظمی اور وحید اختر ، وہ لوگ بھی ترقی پسندی سے جدیدیت کی طرف آئے تھے۔ شہریار کے ہم عمروں میں جو لوگ ادب کے میدان میں سرگرم تھے، ان کی پوری ٹولی جدیدیت کی عَلَم بردار تھی۔ یہ حلقہ کم و بیش بیس پچیس برس تک نہایت بااَثر رہا۔پھر ۱۹۸۰ء کے بعد رفتہ رفتہ ادبی اقدار میں تبدیلیاں آنے لگیں۔ ما بعدِ جدیدرویّوں کے ساتھ بھی شہریار دو دہائیوں سے زیادہ زمانے تک ہم سفر رہے۔ شہریار کا عمومی مزاج شور وشَر سے دوٗر رہنے کا تھا۔ تدریس کے پیشے کے باوجود انھوں نے تنقید کو اپنا کام نہیں بنایا اور شِدّت پسندی کے ساتھ کسی ادبی رویّے یا تحریک کے پیروٗکارنہیں بنے۔ ان کی شاعری میں اس کا واضح عکس نظر آتا ہے۔ ہر چند اُن کی بعض نظموں کی کیفیت اس بات کی چُغلی کھارہی ہے کہ اس شاعر کا ذہنی سانچا جدیدیت کے عہد میں تعمیر و تشکیل کے مرحلے سے گُزرا ہے۔ جدیدیت کے بعض رموٗز و علائم اور کچھ موضوعات ان کے ہر دور کی شاعری میں مل جائیں گے۔ اس انتخاب کے مرحلے میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ شہریار کے اس مزاج کی پورے طَور پر نمایندگی ہوسکے۔ اسی لیے ان کے معتدل مزاج کے ساتھ ساتھ ان کے جدیدیت کے عَلَم بردار ہونے کے عکس کو بھی پورے طور پر اس انتخاب میں محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
شاعرانہ شناخت
اردو میں جدید ادب کا رجحان ابھی بالکل ابتدائی مرحلے میں تھا۔ ایک طبقہ ابھی ترقی پسندی سے نکل کر نئے ادب کی شناخت کے لیے سرگرداں تھا، ابھی نہ ’شب خوں‘ جیسا رسالہ سامنے آیا تھا اور نہ ہی شمس الرّحمان فاروقی کی فکری وعملی قیادت اُبھر پائی تھی۔ ہندوپاک میں البتّہ نئے لکھنے والے جگہ جگہ اُبھر رہے تھے اور فیض، مخدوٗم، مجروٗح اور جذبی جیسے شعرا سے الگ مزاج کی نمایندگی کرنے لگے تھے۔ اس نسل میں شہریار سب سے خوش نصیب شعرا میں ہیں جن کا پہلا شعری مجموعہ ۱۹۶۵ء میں شایع ہوا اور وحید اختر کے پیش لفظ کے علاوہ آلِ احمد سروٗر ، منیب الرّحمان، مسیح الزّماں، ندا فاضلی، مغنی تبسُّم، انور سدید وغیرہ کے تبصرے اور تاثّرات رسائل کی زینت بنے۔ اُسی زمانے اور ذرا بعدمیں خلیل الرّحمان اعظمی، گوپی چند نارنگ اور شمیم حنفی نے بھی شہریار کی شاعری کی خصوصیات کے حوالے سے اپنے مضامین تحریر کیے۔ عمیق حنفی نے بھی شہریار کی ابتدائی شاعری پر اپنے تاثّرات مضمون کی شکل میں پیش کیے تھے۔ اس تفصیل سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شہریار کا پہلاشعری مجموعہ اردو کے مستند اہلِ قلم کی نگاہ میں ایک دستاویزثابت ہوا۔ انھیں صرف ان کے ہم عصروں نے داد نہیں دی بلکہ ان کے بزرگوں نے بھی ان کی شاعری میں امکانات تلاش کیے اور ان کے بنیادی اوصاف کی پہچان میں وہ مدد گار بنے۔
جب شہریار کا یہ مجموعہ سامنے آیا تھا، اُس وقت ان کی عمر انتیس (۲۹) برس کی تھی اور ابھی یونی ورسٹی کی ملازمت میں بھی وہ نہیں آ سکے تھے۔ یہ بات اب بھی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ کسی شاعر کے پانچ سات برس کے سرمایے پر لوگوں نے کیوں کر ایسی خصوصی توجّہ ظاہر کی ہوگی۔یہ بھی کچھ کم تعجب خیز نہیں کہ بزرگوں نے اس بات سے گریز کی کوئی خوٗ نہیں اپنائی کہ ہماری زبان میں ایک خاص شاعر کے اُبھرنے کا یہ موقع ہے۔ چوں کہ شہریار کو جدید و قدیم دونوں حلقے کے شعرا کی داد ملی اوریہ بھی سچّائی ہے کہ ’اسمِ اعظم‘ کے سرمایے میں شاعر نے لہجے کی سطح پر جدیدو قدیم اسالیب میں ایک مفاہمت کی جزوی طور پر ہی سہی، ایک صورت اختیار کی ہے۔ ابھی باضابطہ طَور پر جدید ادب کا وہ شور بھی برپا نہیں ہوا تھا، اس لیے شہریار کی ان تخلیقات میں روایت کا معقول شعور صاف صاف نظر آتا ہے۔ البتہ اس مجموعے کی نظموں میں جگہ جگہ جدیدیت کے موضوعات اور اسلوب کی سطح پر تھوڑے بہت تجربات نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ مجموعہ کیوں نئے اور پُرانے دونوں انداز کے لوگوں کے لیے قابلِ توجّہ ثابت ہوا۔
محض چار برس کے وقفے کے بعد شہریار کا دوسرا مجموعہ’ساتواں دَر‘ سامنے آیا۔ ابھی شہریار کی عمر صرف تینتیس(۳۳) برس کی تھی مگر اس دوران ہندو پاک میں جدید ادبی رویّوں کے اُبال کا موسم اور طوٗفان سامنے آ چُکا تھا۔ موضوع اور اسلوب کی سطح پر ہماری شاعری نے اس دوران جتنے رنگ برنگے اور بوٗقلموں انداز ملاحظہ کیے؛ اردو شاعری کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا دَور دیکھا جا سکا ۔ ’نئے نام‘( ۱۹۶۸ء) میں تو صرف فہرست ملاحظہ کی جا سکتی ہے مگر اُس دَور کے درجنوں رسائل اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ سیکڑوں کی تعداد میں ایسے شعرا میدان میں اُترے جن کا موضوع و اسلوب کے ساتھ برتاو قدرے مختلف تھا۔ خلیل الرّحمان اعظمی، ناصر کاظمی، ابنِ انشا، حسن نعیم، بانی، محمد علوی، وزیر آغا، عادل منصوٗری، سلطان اختر، منیر نیازی، ظفر اقبال، شہزاد احمد، سلیم احمد،پرکاش فکری، زیب غوری، شکیب جلالی، اطہر نفیس، شمس الرّحمان فاروقی، لطف الرّحمان، علیم اللہ حالی، فہمیدہ ریاض، کِشوَر ناہید، زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی، ظفر گورکھ پوری، کمار پاشی، شفیق فاطمہ شعریٰ،ندا فاضلی، بشیر بدر، عمیق حنفی، قیصر شمیم، مظفّر حنفی وغیرہ کے نام اس دور کی ادبی ہما ہمی کی واضح نمایندگی کرتے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے چند برسوں میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو ادب کا مزاج یکسر بدل گیا ۔ ترقی پسند شعرا رفتہ رفتہ کنارے لگ گئے اور انھیں یہ سمجھ میں آنے لگا کہ نئی بساطِ ادب یکسر مختلف ہے اور ماحول پورے طور پر بدل چکا ہے۔
ہندستان کے جدید شعرا میں شہریار ایسے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اس نئے ماحول کے مطابق نہ صرف یہ کہ اپنی مختلف انداز کی شاعری پیش کی بلکہ انھوں نے۱۹۶۹ء میں ’ساتواں دَر‘ کے عنوان سے جونیا شعری مجموعہ پیش کیا ،اس کے مشتملات اس بات کی واضح گواہی دے رہے ہیں کہ یہ نئے دور کا تازہ رجحان ہے۔ شہریار کے مجموعی محاسبے میں بھلے ہم اس بات کو قبول کرتے رہے ہوں کہ وہ اسلوبیاتی اور فکری اعتبار سے محتاط اور متوازن رویّہ رکھتے رہے ہیں مگر ’ساتواں دَر‘ مجموعے کی ایک ایک تخلیق چیخ چیخ کر اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ یہ ایک ایسی تازہ اور نئی شاعری ہے جسے روایت کی توسیع کے مقابلے نئے عہد کے رجحانات کے آئینے میں ملاحظہ کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس مجموعے کی غزلوں میں بھی جدیدیت کے موضوعات اُبھر کر سامنے آتے ہیں مگر حصّۂ نظم تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جدیدیت کا اعلان نامہ ہے۔ ’زوال کی حد‘،’عہدِ حاضر کی دل رُبا مخلوٗق‘، ’خطرے کا سائرن‘ وغیرہ نظمیں ظاہر ہے کسی اور دَور میں نہیں پیش کی جا سکتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی دو مجموعوں کے مختصر سرمایے کے باوجود شہریار اپنے دیگر ہم عصروں میں کچھ اس طرح سے نمایاں ہو گئے جیسے اس نسل کی وہ ایک مخصوص آواز ہیں۔ انھوں نے غزل اور نظم دونوں صنفوں میں کچھ اس قدر سنجیدہ توازن قایم کیا تھاجس سے بھی ان کے قدر دان بڑھے۔ روایت اور جدّت کے معاملے میں وہ کبھی فیشن پرست نہیں تھے۔ اس لیے بھی ان کی شاعری کو غیر جدیدحلقوں میں بھی پڑھنے والے ملتے گئے اور ۱۹۷۰ء تک جدیدیت کی نسل کی صفِ اوّل کے شعرا میں ان کی لازمی طَور پر شمولیت ہو چکی تھی۔ نئی شاعری کے حوالے سے شاید ہی کوئی مضمون اس زمانے میں لکھا گیا ہو جس میں شہریار کا کلام زیرِ بحث نہ رہا ہو۔
’ساتواںدَر‘ کے بعد شہریار کے نئے انتخابِ کلام’ہجر کے موسم‘ میں نئے کلام کے نام پر ایک مختصر سرمایۂ سخن شامل ہے۔ اس مجموعے نے حقیقتاً شہریار کی پچھلی اور نئی شاعری کے درمیان پُل کا کام کیا جس کا نقطۂ عروج ’خواب کا دَر بند ہے‘ (۱۹۸۵ء) کی شکل میں سامنے آیا۔ شہریار کے تمام مجموعوں میں یہ مقابلۃً ضخیم ہے یا یہ کہنا چاہیے کہ مقدار کے اعتبار سے دوسرے مجموعوں سے یہاںزیادہ کلام شامل کیا گیا ہے۔ ’ساتواں دَر‘ کے سولہ برسوں کے بعد’خواب کا دَر بند ہے‘ اُس وقت سامنے آتا ہے جب جدیدیت کا زور تھمنے لگا تھا اور اس سے مختلف شاعری کے امکانات روشن ہو رہے تھے۔ شہریار کے لیے جس میانہ روی اور توازن و احتیاط کی بات کی جاتی ہے ، اس کے لیے یہ مجموعہ ایک مثالی دنیا لے کر سامنے آتا ہے۔ یہاں سکّہ بند جدیدیت اگر کہیں ہے تو وہ محض پرچھائیں کی حد ہے۔ شہریار کی شاعری کا اگرچہ یہ نیا معاملہ نہیں مگر اس مجموعے میں ان کی شاعری میں حِسّی تجربے بڑھ گئے ہیں۔ اب عاشقانہ اُفتاد شباب پر ہے اور ان کی مشقِ سخن کوئی ربع صدی کا حصّہ ہے۔ پختہ عمری اور اچھی خاصی مشق کے بعد شہریار کی شاعری کا یہ نیا موضوعاتی مَحور سامنے آتا ہے۔ نظموں اور غزلوں دونوں میں یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور جدیدیت کی علامتیں اور بیان کا ڈھب سب پیچھے چھوٗٹتے گئے۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ ساہتیہ اکادمی نے ان کی اِسی کتاب پر انعام عطا کیا۔
’نیند کی کِرچیں‘(۱۹۹۵ء) مجموعے میں شہریار کی اس لمسیاتی کیفیت کی شاعری کی توسیع ہوتی ہے۔’شام ہونے والی ہے‘(۲۰۰۴ء) تک یہ حِسّی کیفیت شہریار کی شاعری پر طاری رہتی ہے۔ اس دوران اس موضوعاتی طلسم سے جب جب وہ نکلتے ہیں تو روٗحِ عصر کی پہنائیوں میں پہنچ کر جگہ جگہ ایک نیم طنزیاتی لہجہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شہریار اپنے پچاس برسوں کے ریاض میں دَور ِ دوم میں دوسرے جدید شاعروں سے یکسر بدل کر انسانی حسّیت کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں یہ سلسلہ ’خواب کا دَر بند ہے‘ سے شروع ہو ا تھا جو آخری دور تک قایم رہتا ہے۔ شہریار کے کُلّیات کے باقیات کو علاحدہ کرلیں تو اُن کے نصفِ دوم کی شاعری زیادہ بیدارحسّیاتی پیکر کی وجہ سے قابلِ توجّہ ثابت ہوئی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شہریار کی ابتدائی شاعری میں ایک ہلکی سی روٗمانی لہر یا لمسیاتی آفاق کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر بعد کی شاعری میں اس کا تناسب بڑھتا گیا اور دیگر جدید شعرا کے رنگ و آہنگ سے ایک بدلی ہوئی شاعری سامنے آتی ہے۔
شہریار کا کارنامہ یہ ہے کہ جس دور میں اُن کے دوسرے ہم عصر تھک رہے تھے یا خود کو دہرانے کے لیے مجبور تھے، شہریار نے اپنی شاعری کے بنیادی موضوع اور سروکار میں خاص تبدیلی کرکے نیا شاعرانہ انداز اور معیار مقرّر کیا۔ اسلوب کی سطح پر اُن کے یہاں پہلے سے ہی توازن موجود تھا جس کی وجہ سے بڑی سُرعت سے وہ اپنا موضوع اور اسلوب بدلتے ہوئے ایک نئے شاعر کی طرح ہماری محفل میں موجود رہے۔ جدید اور مابعدِ جدید ہی نہیں اگر بعض ترقی پسند نقّاد بھی ان کی شاعری کو قابلِ مطالعہ سمجھتے ہیں تو اس کی وجہ ان کی بدلتی ہوئی اور نئے عہد سے مطابقت بٹھائی ہوئی شاعری ہی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر زمانے میں اپنا اعتبار قایم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ شناخت ان کے کسی دوسرے ہم عصر کے حصّے میں نہیں آئی اور فلموں کی مقبولیت نے اس پر اضافہ ہی کیا۔یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شہریار دَورِ اوّل سے لے کر آخر ی زمانے تک اپنی شاعری کی وجہ سے ادبی حلقے میں قابلِ اعتبار تسلیم کیے گئے اور جدیدیت کے عَلَم بردار نسل کے نمایندہ شاعروں میں اپنی پہچان قایم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
[نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئی دہلی کی جانب سے شائع شدہ شہریار کے انتخابِ کلام کا مقدّمہ]
بہت ہی پیاری پیاری شیاری