صدر شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی، کولکاتا
مکرمی مرتضی ساحل تسلیمی بن مصطفیٰ علی خاں(۱۹۵۳۔۲۰۲۰) کے انتقال سے ادب اطفال کے ایک بڑے اور سرگرم عہد کا خاتمہ ہوگیا۔تقریباً تین نسلوں نے ان سے فیض اٹھایا، پہلی فیض یافتہ نسل اب اپنی دوسری پیڑھی سے گذرکر تیسری منزل میں قدم رکھ چکی ہے اور اپنی نئی پودمیں ’نور‘ کی شمع روشن کررہی ہے۔ ماہنامہ نور کے توسط سے ہم جیسے بہتوں نے تو ان کی انگلیاں پکڑ کر پائوں پائوں چلنا سیکھا، مطالعہ اور ذوق مطالعہ کا بھید جانا اور پھر اسی راہ سے تیز گام بھی ہوئے۔انتظار بلکہ اشتیاق آمیز انتظار کی وہ لذت جو ماہنامہ نور سے وابستہ تھی ،تاریخ بن چکی ہے یا تاریخ کے قالب میں ڈھلنے کو تیار ہے؛ وقت کی تیز آندھی میںخیمے طنابوں سمیت اکھڑتے چلے جارہے ہیں اور فانی انسان اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ع کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
مرتضیٰ علی خاںنام‘ساحلؔ تخلص اور تسلیمی نسبت ہے۔۳۰؍جون۱۹۵۳کو رام پور میں ایک معزز روہیلہ پٹھان خاندان میں پیدا ہوئے۔تعلیم کا سلسلہ مصباح العلوم سے شروع ہوا۔جامعہ اردو کے امتحانات فرسٹ اور سکینڈ ڈویژن میںپاس کرنے کے بعدسرکاری اسکول میں تعلیم کا سلسلہ چلتا رہا۔بی اے اور پھر ایم اے تک کی تعلیم حاصل کی(۱)۔اردو سے ہمیشہ لگائو رہا ہے اور طبیعت شعر و شاعری کی طرف مائل رہی ہے۔ شاعری کی ابتدا طنزیہ نظموں سے ہوئی۔بعد میں غزل کے میدان کو اپنایا۔نور اور ہلال سے وابستگی نے ان میں ادب اطفال کا ذوق پیدا کیا۔
ادب اطفال کے میدان میں ساحل صاحب ہمارے نشانِ منزل تھے اور ہمارے بعض ہم جماعت دوستوں کے ولی‘۔ان کی خدمات کا دائرہ زائد از پانچ دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ وہ مکتبہ الحسنات، رام پور کے بانی مولانا ابوسلیم محمد عبدالحی کا حسنِ انتخاب تھے۔ مولانا عبدالحی نے انھیں ۱۹۷۸ میں رسالہ نور کا مدیر مقررکیااور بچوں کے لیے لکھنے کی ترغیب دی۔یہ ذمے داری ساحل صاحب نے عنفوانِ شباب کی منزل پر قبول کی تھی، جہاں شخصیت کے بکھرائو کا کھٹکا لگارہتا ہے۔ لیکن ذاتی لیاقت اور انتظامی صلاحیت کے سبب وہ کچھ دنوں بعد ہی مکتبہ الحسنات کے سارے رسائل کے مدیر بنادیے گئے۔یہ امر بھی کچھ کم باعث استعجاب نہیں کہ مکتبہ الحسنات سے ساحل صاحب کی وابستگی ۱۹۷۲ میں ایک کلرک کی حیثیت سے ہوئی تھی ۔ کلرک ساحل نے محض چھ سال کی قلیل مدت میں مدیر مرتضی ساحل تسلیمی کا سفر طے کیا۔ وہ ادارت میں عالی مقام مائل خیرآبادی صاحب کی روشن روایات کے امین تھے۔ساحل صاحب کی وابستگی کے وقت محمود عالم صاحب (پٹنہ) ماہنامہ نور کے مدیر تھے اور ان سے پہلے مائل خیرآبادی صاحب اوران کے بعد خالدہ تنویر نور کی مدیرہ رہیں لیکن جلد ہی وہ امریکہ چلی گئیں۔ الحسنات کے بانی مولانا ابوسلیم عبدالحئی صاحب کی دور رس نگاہوں نے ایک کلرک میں سے ایک توانا ادیب؛ شاعر اور نثر نگار کو ڈھونڈنکالا اور انھیں شعلہ میں تبدیل کردیا۔ادارہ الحسنات سے وابستگی کے بعد طبیعت میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوگئی۔
ساحل صاحب وقت اور قوت کی تنظیم کا ہنر جانتے تھے۔میونسپل کمشنرکی حیثیت سے انھوں نے چھ سے نو بجے تک کا وقت وارڈ کے عمومی مسائل کے لیے مختص کررکھا تھا۔نو بجے تا شام سات بجے ادارہ الحسنات کے امور کی انجام دہی کے لیے وقف تھا۔ہر رسالہ کے لیے ماہ میں پانچ دن متعین تھے ۔اس نظام الاوقات کی پابندی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی ادارت میں نکلنے والے سارے رسائل ہمیشہ پابندی سے وقت پر شایع ہوئے ۔اس سیاق کا اعادہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ یہ دیکھنا آسان رہے کہ بڑے کام کے لیے وقت کی تنظیم کی معنویت کیاہوتی ہے۔( یہ بھی پڑھیں! اسٹورمرحوم کی یادمیں از: امتیاز وحید شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی)
فلاح کے اپنے زمانہ طالب علمی میں ہم نے ساحل کے پیش رومائل خیر آبادی کو دیکھا اور سنا بھی لیکن ساحل صاحب کی کشادہ پیشانی،تبسم کی کرنوں سے منور بیضوی چہرہ، کشادہ دلی ،سادگی، تواضع، انکساری، سمندر میں ڈوبا طرزِ تکلم اور پرتپاک شخصیت کا احوال مولاناسراج الدین ندوی کی تعزیتی تحریر میں پڑھا پایا تو عقیدت اور بڑھ گئی ۔ ایک شخص اپنے استقلالی رویہ، چٹان صفت ثابت قدمی اور جہد مسلسل کے درمیان نظر آیا، گویا ساحل صاحب منشی پریم چندر اور فکر تونسوی جیسے لکھاڑیوں کی طرح قلم کا مزدور نکلے اور خیال گزرا کہ رسائل اور جرائد سے ہماری فکری ہم آہنگی کے دورانیے میں ذہن کبھی اس کے جلیل القدر کردار کی طرف نہیں جاتا جبکہ فیض بخشی اور فیض رسانی کادوطرفہ عمل خاموشی سے جاری رہتا ہے ۔یہ بھی یاد آیا کہ سوشل رفارم کے میدان میں انگلستان کے ایڈیسن اور اسٹیل کو تہذیب اور اخلاق کے پیغمبروں کا درجہ حاصل ہے، جنھوں نے یکے بعد دیگرے اپنے دو رسائل’’ٹیٹلر اور اسپیکٹیٹر‘‘کی اشاعت سے انگلستان کی کایا پلٹ دی اور سماجی خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ذہنِ سرسید میں’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کی اشاعت کا ماخذانگلستان کے یہی دو غالی معلم اخلاق ر ہے ہیں۔جی میں آیا کہ اس مخصوص پیرائے میں الحسنات کی جملہ مساعی کو دیکھنا اور اس کی ٹیم کے ذریعہ سماجی اصلاح، افراد اور ان کی ذہن سازی کے سارے نظام پر غور کیا جانا چاہئے۔اس سیاق میں ساحل مرحوم ہمارے بچپن کے مصلح اورمربی نظرآئے ، جن کے ہاتھ میں الحسنات(۱۹۴۷)، نور( ۱۹۵۲)،ہندی رسالہ ہادی (۱۹۶۵)،ہلال(۱۹۷۳)، بتول (۱۹۷۴) اوررسالہ اجالا جیسے اخلاق و تربیت کے وسائل تھے اور جن سے ایک عہد فیض پاچکا ہے۔
ماہنامہ ’نور‘ ساحل صاحب کی ادارت کا نشان امتیاز ہے بلکہ ان کے نمایاں رنگ اور انفراد کا نقیب بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے دیگر رسالوں کی بیچ’نور‘ کی مرکزیت کچھ اس طرح قائم ہوئی کہ ساحل صاحب اور ’نور‘ دونوں لازم و ملزوم بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ بن کر رہ گئے۔ یاد پڑتا ہے کہ کسی جگہ میں نے ’نور‘ کو اطفالی رسائل کا مقدمۃ الجیش بھی لکھا ہے۔’ نور‘ سے میری شناسائی فلاح کے زمانہ میں ہوئی اور میں‘ اور میری جماعت کے بیشتراحباب ایک مدت تک اس کی سحر میں گرفتا ر رہے۔ امتحان کی تیز دھوپ میں بھی ’ہلالیوں‘ پر’نور‘ کاسایہ فگن رہتاتھا۔ بچوں کی طبیعت کو جس نفسیاتی رکھ رکھائو اور چہکار کی تلاش تھی وہ ہمیں ’نور‘ میں خوب میسر تھی۔بچوں کی ذہنی اور فکری تربیت، خیالات اور جذبات کی نشوونما، تخلیقی قوت کی بیداری، اوالعزمی اور بلند ہمتی، ذمہ دارانہ رویہ ، اخلاقی جرأت، ہمدردی، ترجیحات کے تعین کا ہنر اور قوم و ملک کی بہبودی کے لیے ایثار کا جذبہ اور کامیاب شہری کے فرائض اور ذمے داریاں وغیرہ سبھی پہلو ماہنامہ نور کی سرشت میں داخل تھے۔جونیر انسا ئیکلو پیڈیا بچوں کے ادب میں ان تمام کتب کی شمولیت کی بات کرتا ہے’’ جو لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے بہ طور خاص تحریر کی گئی ہیں، اس میں بڑوں کے لیے لکھی وہ کہانیاں بھی شامل ہیں، جنھیں بچوں نے اپنا لی ہیں‘‘(۲) گویا ڈاکٹر بانو سرتاج کے مطابق ’’وہ ادب جو بچوں میں جستجو، فکر و عمل کو فروغ دے کر زندگی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے، بچوں میں باہمی الفت، قربانی، انسانیت، بے لوث خدمت اور حب الوطنی کی صفات کو فروغ دیتا اور مشکلوں سے لڑنا سکھاتا ہے، وہ ادب اطفال ہے‘‘(۳)۔اس شاہراہ پر میں نے ’نور‘ کو ہمیشہ گامزن پایا۔
’نور‘ ایک ماہنامہ ڈائجسٹ تھا اور ایک خاص طبیعت کاحامل بھی۔تنوع رسالہ کا ایک اضافی وصف ہوتاہے، جوہرماہ نئی چیزیں، نئی کہانیاں، نئے لطائف، مہمات، معلومات، دلچسپیاں اور ثقافتی رنگا رنگی کے ایک خاص اہتمام کے ساتھ شایع ہوتا ہے۔ماہنامہ’ نور‘ نے بڑے جتن سے رسالہ کے اس بنیادی تقاضے کی پاسداری کی ہے۔نور کے نوع بہ نوع کالم میں شکاریات، ریڈیو نورستان، نظمیں، غزلیں، کہانیاں، قرآنیات، شہ پارے، اقوال، لطائف، عربی سیکھئے، انعامی مقابلے،جاسوسی تحریریں، خطوط اور ان خطوط کے دلچسپ جوابات شامل تھے، جو بچوں میں بڑے مقبول تھے۔
۱۹۷۳ سے بچوں کا ’ہلال‘ نکلنا شروع ہواتو’نور‘ کو ڈائجسٹ کی شکل دے دی گئی۔ ہلال نے رنگین تصاویر، چھوٹی چھوٹی کہانیوں، ہلکی پھلکی نظموں،دلچسپ تعلیمی مشاغل، بچوں کے لیے نئی نئی دلچسپیاں اور خوبصورت کارٹون کے ساتھ دل فریب سرورق پر ساحل صاحب کی نظموں کا ایسا اہتمام کررکھا تھا کہ بچوں کی اطفالی کائنات اس کی مٹھی سماتی چلی گئی۔ اپنی پینتالیس سالہ حکمرانی کے بعد’ہلال‘ بالآخر اماوس کی زد میں آگیا۔مولانا عبد الحی مرحوم کے بعدان کے جانشین عبد الملک سلیم نے جدوجہد جاری رکھی بالآخر وہ بھی جی ہار گئے۔ تیسری نسل نے ان کا چہرہ نہیں دیکھا۔ بتول اور یکے بعد دیگرے سبھی رسائل بندہوتے چلے گئے بلکہ اقامت دین اور تعمیری ادب کی راہ میں شہدا پرچوں کی طویل فہرست میںتجلی( دیوبند)، الایمان( دیوبند)، نئی نسلیں( لکھنو)، دوام (ٹانڈہ) کے ساتھ ہماری نظروں کے سامنے سہ روزہ دعوت کو بھی اجل نے آدبوچا ۔مقام شکر ہے کہ ہفت روزہ دعوت کی صورت میں اس نے پھر سے مراجعت کی ہے۔ اللہ سلامت رکھے۔
ادارہ الحسنات اور اس کے عالی فکر مولانا ابوسلیم عبدالحئی صاحب کا زریں کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے پوری مسلم فیملی کواپنی تعمیرپسند اصلاحی مشن کا حصہ بنایا۔عام قاری کے لیے رسالہ ’الحسنات‘ ،خواتین کے لیے ’بتول‘،ٹین ایج بچوں کے لیے ’ہلال‘ اور ’نور‘جاری کیا۔گویا خاندانی نظام کااسلامی تصوران کے نزدیک مختلف اکائیوں کی کلیت(Totality) میں مضمر تھا۔یہی وجہ ہے کہ اہل خانہ کی اصلاح میں چھوٹے بڑے کی تخصیص روا نہیں رکھی گئی تھی۔لڑکپن اور نو عمری کی کچی منزلوں سے بچوں کو سلامت روی سے پارلگانے کے لیے مکتبہ الحسنات کے دو اصلاحی ٹول تھے۔ ماہنامہ ’ہلال‘ ابتدائی درجات کے نونہال بچوں پر مرتکز تھا جبکہ ’نور‘ کا ہدف ثانوی درجات کے بچے تھے۔ یہ تھا مکتبہ الحسنات کے مکمل خاندانی نظام کا منصوبہ بند اصلاحی مشن۔مرد و زن اور تفاوت عمری کی تخصیص سے بالا تر؛ ایک مکمل تحریک۔
ادارہ الحسنات کے رسائل نے تین نسلوں کی آبیاری کی۔اس کی دو سطحیں تھیں؛ایک تازہ ، دلچسپ ، اور صالح مواد کی فراہمی ،دوسری قلمی اور صحافتی تربیت۔بارہ تیرہ برس کی کچی عمر میں لکھنے اور چھپنے کا کیف انگیز تجربہ ان رسائل کا رہین منت ہے بلکہ کئی جنریشن نے قلم پکڑنے کا ہنر ان سے سیکھا ہے ۔ یاد آتا ہے کہ اقامتی زندگی میں کسی ساتھی کی کوئی چیز جب نور میں چھپ کر آتی تو وہ ہمارا رول ماڈل بن جاتا اور پھر چراغ سے چراغ جلتے تھے ۔نور، ہلال اور بتول‘ میں بچوں کی عملی شراکت کا تناسب حوصلہ افزا تھا۔ یہ محض قاری نہیں لکھاڑی بنانے بلکہ بہ حیثیت مجموعی’ افراد ساز‘ فیکٹریاں تھیں۔نور پڑھ کر صحافی بننے والے ہمارے دوست اور معاصرین صرف مسکرانے پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ میری باتوں کی تائیدبھی کریں گے۔یہ رسائل اپنے کردار میں اخلاق کے عظیم مربی اور معلم تھے۔
اس تسلسل کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ تقسیم ملک کے بعد تحریک اسلامی کے خد وخال جب خود تحریک کے افراد کے ذہنوں میں ابھی پوری طرح واضح نہیں تھے اور تحریک الہ آباد، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر ، ملیح آباد اور رامپور میں ابتدائی مراحل طے کررہی تھی ،اس بے سروسامانی کے عالم میں مولانا عبد الحی مرحوم نے مکتبہ الحسنات کی بنیاد رکھی۔مولانا کی فکر بلیغ کو جس شخص نے زمین پر اتارا اور اسے جذبے میں تبدیل کیا، وہ ہمارے ممدوح مرحوم ساحل صاحب تھے۔ منصوبے بنانا اور اسے زمینی سطح پر عمل کی بھٹی میں تپاکر ٹھوس نتائج برآمد کرلانا، یہ دو الگ الگ باتیں ہیں۔ساحل صاحب نے کمال ہنر مندی سے ادارہ الحسنات کے تمام رسائل میں رنگ آمیزی کی۔مشمولات کا تعین کیا، ملک بھر سے بچوں کی عملی شراکت کو یقینی بنایا،خود قلم اٹھایا اور نثر و نظم کا انبار لگایا۔ ان کی شعری تخلیقات الحسنات، نور اور ہلال میں شایع ہوتی رہیں۔نور اور ہلال کی ترتیب و تنظیم کے دوران بچوں کے ادب کی طرف رجحان ہواتو بچوں کے لیے اصلاحی و دینی نظمیں کہنا شروع کیں۔ بچوں کے من کو ٹٹولا اور ان کے حسبِ حال کالم وضع کئے۔بچوں کی سطح پر اترے، ان کے خطوط کے جوابات دئے، ان کے ہاتھوں میں قلم تھمایا اور انھیں جذبات و احساسات کے اظہار کا موقع دیا۔ دین، رب اور اس کے رسول محمدﷺ سے محبت کرنا سکھایا۔نیکیوں کا شوق پیدا کیا اور اس راہ پر گامزن کیا۔اس سیاق میں وہ بچوں کے فاتح تھے۔ ساحل صاحب کا اس سے بھی بڑا کمال اس وقت ذہن میں تازہ ہوتا ہے جب آپ یہ تصور کریں کہ اس شخص نے اس راہ میں اپنا خون جلایا، خود کو کھپایا، مشنری جذبے سے کام کیا، ادارتی ٹیم کو ساتھ لے کر چلے اورپوری زندگی فکر بلیغ کی نشر وا شاعت میں صرف کردی ۔یہ کسی شخص کے ذاتی شوق سے زیادہ اس کی فکری ترجیحات کی بات ہے۔ فکر سے عاری منصوبے پیشہ ورانہ مقاصد کے تحت ایک خاص ڈگر پر تو چلائے جاسکتے ہیں تاہم انھیں تحریک میں تبدیل کیاجاسکتا ہے اور نہ جنون میں۔
الحسنات کی اشاعت کے تیسویں سال کے اداریہ میں یہ اشارہ قابل غور ہے :’’قابلِ شکر بات یہ ہے کہ حالات کے بہت سے نرم اور گرم تغیرات کے باوجودہم اپنی حد تک اپنی نگاہیںاس متعین مقصد پر جمائے رہے ، جس کی خاطر ’الحسنات‘شروع کیا گیا تھا‘‘۔اسی اداریہ میں الحسنات کے آئندہ خصوصی شمارہ’اردو شاعری پر اسلامی اثرات‘کے ضمن میںیہ اطلاع بھی اہم ہے:’’یہ خاص نمبر…اس معنی کر ممتاز ہوگاکہ ایک طرف تو یہ ان تمام اسلامی عقائدوافکار کی تشریح و توضیح اور تعارف کے لیے ایک جامع دستاویز کی حیثیت رکھے گاجن کا تعارف اورجن کی طرف دعوت الحسنات کا سب سے مقدم مقصد رہا ہے‘‘ (۴)ساحل صاحب کے جملہ رسائل کواسی مخصوص فکری سیاق اور تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔
مشن کی تکمیل پر مامور یہ سارے رسالے اردو زبان میں شایع ہوتے تھے۔یہیں سے ملک میں اردو سے ہمارے تہذیبی رشتے کا سیاق بھی روشن ہوتا ہے۔ان رسائل نے اردو زبان کی بے لوث خدمت کی اور اسے تازہ دم رکھا بلکہ نئی نسل میں بھی اپنی تہذیب اور اقدار عالیہ کی منتقلی کا فریضہ انجام دیا۔گھر کے وہ افراد جو اردو سے نابلد ہوں، ان کے لیے مولانا نے ہندی رسالہ ’ہادی‘ جاری کررکھا تھا۔اس کی ادارت بھی ساحل صاحب کے ذمے تھی۔
طنز و مزاح کی طرح بچوں کا ادب بھی کوئی طفلانہ شغل نہیں بلکہ دونوں میں شعور اور نفسیاتی ٹریٹمنٹ کی ایک خاص سطح مطلوب ہوتی ہے۔ساحل صاحب نے بچوں کے ادب کے سلسلے میں لکھا ہے کہ:
’’میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ بچوں کے لیے لکھنا بہت مشکل کام ہے۔خود کو بچوں کی سطح پر لانا پڑتا ہے۔ان کے مسائل کا تجزیہ ان کی ذہنی سطح سے کرنا پڑتا ہے ۔بچوں کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے ، اگر قریب سے مشاہدہ کیا جائے،اگر بچوں کو پوری سنجیدگی سے پڑھاجائے تو یہ اپنے آپ میں ایک دلچسپ مشغلہ ہے ۔میں نے گزشتہ پندرہ سال میں بچوں کے لیے جو کچھ لکھا ہے وہ بچوں کے ادب کی کسی تعریف کے سانچے میںڈھال کر نہیں لکھا ہے۔شاید کوئی دوسرا ادیب بھی اس طرح نہیں لکھتا ہوگا۔البتہ جو کچھ لکھاہے اس میں یہ کوشش کی ہے کہ بچوں کے لیے دلچسپ ہو، معلوماتی ہو اور مفید بھی ہو۔یعنی میری تحریریں پڑھ کر بچوں میںاخلاقی قدریں پیدا ہوں، وہ اچھے انسان بنیں اور برائی سے نفرت کریں لیکن سب کچھ غیر محسوس طریقے پر ہو‘‘۔(۵)
چنانچہ ساحل صاحب نے بچوں کے لیے جو نظم و نثر پارے خلق کئے، ان میں وہ خود بچپنے میں ملفوف نظر آئے۔ مترنم نظموں، سہل اور سلیس زبان اور پیرایۂ اظہار میں ان کی کہانیاں، ڈرامے مقصد کے استحضار سے کبھی غافل نہیں رہے۔ان فن پاروں میں نفسیاتی لحاظ، دلچسپی اور مقصد کا تناسب غور طلب ہے؛حکیم کے معجون کی طرح تولہ اور ماشا کی کمی بیشی کے بغیر متوازن مقدار ۔وہ اس نکتے سے غافل نہیں تھے کہ کہانی فقط وعظ ہو تو ‘بے معنی، دلچسپ اورلطفِ محض سے لبریز ہو تو‘بے فیض ہے۔ ساحل صاحب کے رسائل نے یہ فرائض بڑے جتن، سلیقے اور ایمانداری سے اداکئے اور بچوں کے تئیں اپنی فکری تحفظات کو یقینی بنایا۔ ہلال کے سرورق پر پابندی سے لکھی جانے والی ساحل صاحب کی نظموں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی انھوں نے نظمیں کہی ہیں۔ ’’لوری، پھل، کھیل، جانور، موسم اور ماہ و سال، تاج محل، لال قلعہ، جامع مسجد، قطب مینار، حامد منزل اور رضا لائبریری‘‘ چند قابل ذکر نظمیں ہیں۔نظموں کے سلسلے میں ان کا خیال تھا کہ ’’پابند نظمیںبچوں کو بہ آسانی یاد ہوجاتی ہیںاور ترنم سے بھی پڑھی جاسکتی ہیں۔آزاد نظمیں بچوں کے لیے مفید نہیں ہوتیں‘‘۔(۶)لہٰذاساحل صاحب نے بچوں کے لیے پابند نظمیں کہیں۔ ان کی ایک نظم ’’سوچتا ہوں اپنی ماں کا حق اداکیسے کروں‘‘بہار میں درجہ ہفتم کے سرکاری نصاب میں شامل ہے۔اس کے دو بند ملاحظہ کریں:
میری پیدائش پہ تکلیفیں اٹھائیں بے شمار
میں ہوا بھوکا تو دودھ اپنا پلایا بار بار
مجھ کو سینے سے لگا کر ہی اسے ملتا قرار
وہ سراپا مامتا ہے اور اس کو کیا کہوں
دن کو دن اس نے نہ سمجھا اور نہ سمجھا شب کو شب
میری بیماری میں اس کا حال ہوتا ہے عجب
وہ دعا کرکے دوا کرکے بھی ڈرتی بے سبب
سوچتا ہوں اپنی ماں کا حق ادا کیسے کروں
ساحل صاحب اپنی نظموں میں تجسس اور تحیر کی ایک دنیا آباد کرتے ہیں۔نظم’ لال قلعہ‘ سے یہ چند اشعار دیکھیں:
لال پتھر کے ہیں در و دیوار
اس میں کرتے تھے بادشاہ دربار
دیکھتے ہیں اسے ٹکٹ لے کر
اس کے اندر ہے اک عجائب گھر
جس میں سکے ہیں بادشاہوں کے
جس میں کپڑے ہیں بادشاہوں کے
جس میں رکھے ہیں انگنت ہتھیار
جیسے بندوق ڈھال اور تلوار
لال قلعہ جہاں میں ہے مشہور
جامع مسجد سے ہے یہ تھوڑی دور
بچوں کے سادہ، تازہ اور معصوم ذہن کے حسب حال قافیہ سہل، الفاظ کومل،ژولیدگی سے مبرّا، پیمانہ مختصراور بچوں کی متجسس فطرت کے عین مطابق مشمولات۔ان خوبیوں کا عکس ساحل کی نظموں میں پایاجاتا ہے۔اسی طرح’ماں باپ‘ کے عنوان سے کہی گئی ان کی ایک نظم کے گرد تقدس کا ہالہ ہے۔نظم کی اساس ’ولا تقل لھما اف و لا تنھر ھما‘کی پاک آیت پررکھی گئی ہے۔ تاہم نظم پند و نصیحت کی بیزارکن کیفیت کے علی الرغم سہل ممتنع کی راہ سے دلچسپ وادی کی سیر کراتی ہے اور غیر محسوس انداز میں اپنا کام کرتی ہے۔ ہدف کایہی حصول ساحل کی نظموں کا مطلوب اور مقصود ہے۔
ساحل صاحب کی کہانیوں کی ایک الگ دنیا ہے۔ بیانیہ، کہانی پن، زبان، اخلاقیات، تمیز و تہذیب، خیر و شر کے مابین چلتے پھرتے کردار، دلچسپی، سماجیات، نظافت، صداقت،اسکول، اتالیق،قوت متخیلہ،شوخی، تفریح، شرارت، کھلنڈراپن، خونی اور سماجی رشتوں کی حرمت،بڑوں کا ادب اوراقداری نظام کے تمام گوشے ان کی کہانی کی بنت کا حصہ ہوتے ہیں۔یہ باب ایک خود مکتفی مضمون کا متقاضی ہے لہٰذا اسے یہیں چھوڑتے ہیں اور چند باتیں ساحل صاحب کے اداریوں کے حوالے سے کرتے ہیں۔ساحل صاحب کے درجنوں اداریوں کے مطالعہ کے بعد یہ بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ مدیر نے قاری کے ذہنی حدود اور دائرہ کار کو پھلانگنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔’ ایک کہے اور دوسرا سمجھ لے‘کے اصول پر کاربند اداریوں میں ظاہرہے زبان اور لفظیات، پیغام اور مطلوب کی کماحقہ ترسیل، وژن اور نصب العین کی clarityکے ساتھ اختصاراور جوش عمل یا قوت عمل پیدا کرناساحل کے اداریوں کے امتیازات ہیں۔بتول کا ایک اداریہ ملاحظہ ہو، وہ لکھتے ہیں:
’’یہ بہت بدتمیزہوگیا ہے، اب میں اس سے بات نہیں کروںگی‘‘۔۔۔’’ارے اس معصوم کے کیوں سر ہورہی ہو‘‘۔’’تم مت بولو‘اس معاملے میں اماں!یہی عمر تو سیکھنے کی ہے۔۔۔اور چار سال کا بچہ مجرم کی حیثیت سے منہ بسورے کھڑا تھا۔۔۔اور میں خود کو بھی اس بچے سے کم قصوروار نہیں سمجھ رہا تھا۔جس نے مجھے’’آپ‘‘ کے بجائے ’’تم ‘‘سے مخاطب کیا تھا۔بچہ کی ماں مجھ سے عمر اور رشتہ دونوں میںچھوٹی ہیں۔جب بچہ اِدھراُدھر ہوگیا تو میں نے ان سے کہا۔۔۔’’آپ اپنے بچہ کو ادب اور سلیقہ سکھانا چاہتی ہیں نا!‘‘’’جی‘‘۔انھوں نے کہا۔’’تو پھر آپ کو نمونہ بن کر دکھانا ہوگا۔محض نصیحتوں اور تنبیہ سے کام نہیں چلے گا‘‘۔وہ میری اس بات پر سراپا سوال بن گئیں اور میں نے اپنی بات پوری کرنے کے لیے کہا۔’’آپ بچہ سے کہہ سکتی تھیں،آپ بہت بدتمیز ہوگئے ہیں، میں آپ سے بات نہیں کروں گی‘‘۔یہ تو خیر آپ کا بچہ تھا۔آپ نے اپنی اماں سے بھی ’’تم‘‘سے خطاب کیااور انھوں نے بھی تم کہہ کر جواب دیا۔حالانکہ ان سبھی جگہ’’آپ‘‘ کہنا زیادہ مناسب تھا‘‘۔
گھر کی فضا جب ’’تم‘‘ اور ’’تو‘‘ کی تکرار سے رچی بسی ہوتو پھر بچے سے ’’آپ‘‘جناب کی توقع کیسی؟‘‘ (۷)
اداریہ کا مزاج اور تمثیلی انداز قاری سے ایک خاص ذہن و فکر کا مطالبہ کرتا ہے۔یہ دیکھنا اہم ہے کہ الفاظ کو قوت صرف کردار سے حاصل ہوتی ہے۔کردار سے تہی دامن کوئی لفظ ساحل جیسے فکری انسان کی منزل نہیں۔ کردارکی تعمیر(Character building) ساحل صاحب کاپہلا ہدف ہے،جو عمل اور تجربات میں تبدیل ہوکرمطلوبہ شخصیت کو پیدا کرتا ہے۔
ساحل صاحب نے اپنی ادارت میں جن خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا، ان کی ایک طویل فہرست بنتی ہے۔ ان خصوصی نمبروں کے عناوین اتنے متنوع اور پہلودار ہیں کہ ان سے ساحل کی ہمہ جہت صلاحیت اور ژرف بینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ماہنامہ ’نور‘ کے خاص نمبروں میں’’سچ نمبر، امی جان نمبر، بچپن نمبر، خدمت نمبر، اجتماع نمبر، دلچسپ کہانی نمبر(۱۹۸۱)، رمضان المبارک نمبر (مارچ ۱۹۹۱)، کہانی نمبر، دلچسپ کہانی نمبر(زیادہ تر نمبرات کہانی نمبر اور دلچسپ کہانی نمبر پر ہی ہیں)، مرتضیٰ ساحل تسلیمی نمبر(مارچ ۲۰۱۶)وغیرہ اسی طرح ماہنامہ’ ہلال‘ کے خصوصی شماروں میں’’عید نمبر(۱۹۹۵)،بچپن نمبر(۱۹۹۶)،شرارت نمبر(۱۹۹۷)،پٹائی نمبر (۱۹۹۸)، گدگدی نمبر(۱۹۹۹)،ماں نمبر(۲۰۰۰)،ابّاجان نمبر(۲۰۰۱)، ننھے منے قلم کار نمبر (۲۰۰۲)، استاد نمبر (۲۰۰۳)، دوست اور دوستی نمبر(۲۰۰۴)، عزائم نمبر(۲۰۰۵)، گلدستہ(ہلال کے ابتدائی دس سالوں پرمشتمل ۲۰۰۶)، شرارت نمبر۲ (۲۰۰۷)، سچائی اور ایمانداری نمبر(۲۰۰۸)،حقوقِ والدین نمبر(۲۰۰۹)، بھائی بھائی نمبر(۲۰۱۰)، طالب علم نمبر (۲۰۱۱)،کہانی نمبر(۲۰۱۲)،امتحان نمبر (۲۰۱۳)،کارنامہ نمبر (۲۰۱۴)، محنت نمبر(۲۰۱۵)، کامیابی نمبر (۲۰۱۶)، جنگل کہانی نمبر (۲۰۱۷)‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
’’الحسنات‘‘ کے’’ توحید نمبر(۱۹۴۹)،آخرت نمبر(۱۹۵۰)، رسالت نمبر( ۱۹۵۱)، سیرت نمبر( ۱۹۵۲)، قرآن نمبر(۱۹۵۳)، حدیث نمبر(۱۹۵۴)، حیاتِ طیبہ نمبر (۱۹۵۶)، دعوت نمبر (اول ۱۹۵۷،دوم ۱۹۵۸)، اخلاق نمبر( ۱۹۵۹)، معاشرت نمبر( ۱۹۶۰)، انتخاب نمبر(۱۹۶۱)، دینی تعلیم نمبر( ۱۹۶۲)، نماز نمبر(۱۹۶۳)، زکوٰۃ نمبر( ۱۹۶۴)، روزہ نمبر (۱۹۶۵)، عبادت نمبر (۱۹۶۶)، مومن کی تصویر نمبر(۱۹۶۷)،اقامت دین نمبر(۱۹۶۸)، اسلام کا تعارف کیسے ہو؟ (۱۹۶۹)، توحید نمبر( ۱۹۷۰)، ’اردو شاعری پر اسلامی اثرات نمبر(۱۹۷۷)،نظام مصطفی نمبر (۱۹۷۹)،اردو شاعری میں ادب اسلامی،سالنامہ (۱۹۷۸)وغیرہ کچھ خاص نمبرات ہیں۔ یہ سارے نمبرات ماہ جنوری میں شایع ہوئے۔
بتول کے خصوصی نمبرات میں’’سالنامہ (۱۹۷۵،۱۹۷۶)،افسانہ نمبر(۱۹۷۷)،افسانہ نمبر(۱۹۷۹)، آپ بیتی نمبر(۱۹۸۰)،سچی کہانی نمبر(۱۹۸۱)،سالنامہ (۱۹۸۱)، سالنامہ (جون،۱۹۸۲)،طویل کہانی نمبر(دسمبر،۱۹۸۲)، سالنامہ(جون، ۱۹۸۳) اور معاشرتی افسانہ نمبر (دسمبر،۱۹۸۳)،سالنامہ (۱۹۸۴)، ہندوپاک افسانہ نمبر (۱۹۸۴)، سالنامہ (۱۹۸۵)،آپ بیتی نمبر (۱۹۸۵)،پاکستانی افسانہ نمبر (۱۹۸۷)،سالنامہ (۱۹۸۸)، افسانہ نمبر (۱۹۸۸)،سالنامہ (۱۹۸۹)قابل ذکر اشاعتیں ہیں۔
خصوصی نمبروں کی جمع وترتیب میں ساحل صاحب نے ہمیشہ متعلقہ مضمون کے صاحبِ فکر ونظر کی ہنرمندی سے فائدہ اٹھایا۔علامہ ابوالمجاہد زاہدؔ صاحب کی مدد سے الحسنات کا ’ادب اسلامی نمبر‘ اور غالباً’ غیر مسلم شعرا نمبر‘ نکالا۔مولانا سراج الدین ندوی صاحب کے تعاون سے ’فقہ اسلامی نمبر‘ترتیب پایا، اس خاص شمارہ کی مقبولیت کے سبب اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا (۸)۔ یہ اشاعتیں ساحل صاحب کے کامیاب ادارتی سفر کے غماز ہیں۔ ماہنامہ رسائل کی اشاعتیں اس پر مستزادہیں، جوادب اطفال کاایک بڑاسرمایہ ہے اورجن پر کئی پی ایچ ڈی تھیسس کی گنجائش ہے۔
ساحل صاحب نے تصنیف و تالیف پر بھی توجہ مبذول کی۔ان کی کتابوں کی تعداد پچاس سے زائد بتائی جاتی ہیں۔ تحقیق کے موضوع پر ’’تحریکِ اسلامی کے داعی، مولانا محمد عبدالحئی: حیات و خدمات(۲۰۰۶) اورملی مسائل میں مساجد کا کردار دو اہم کتابیں ہیں۔ اس کے علاوہ’’ جلوس (ناولٹ)،بھولو راجا (ناولٹ)،بدلہ، بچھو، توبہ،نٹ کھٹ،رحمدل ہاتھی،لالچی گیدڑ، سمجھ دار گدھا، مددگارچوہا،ڈاکٹر بندر، شیر کا انصاف،صبح کا بھولا،گھوڑے کی دم،مکار لومڑی،کھوٹی اٹھنّی،نقلی سورما،شام کا بھولا،نرم ٹہنی،واپسی اور گھمنڈی مور،گھر گھر کی کہانی، پھول اور کلیاں(۲۰۰۳)، آخری تعاقب (۲۰۱۵)،نوری نظمیں حصہ اول، دوم،مرتضیٰ ساحل تسلیمی کی ایک سو گیارہ کہانیاں (۲۰۲۰) ‘‘وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ادب اطفال کے شعبے میں مرتضی ساحل تسلیمی صاحب کی اہمیت مسلم ہے۔ جیتے جی اس کا اعتراف کیا گیا۔۱۹۹۴ ء میں جناب مسلم غازی صاحب (ایڈیٹر جدید خبریں) نے مرتضی ساحل تسلیمی صاحب کی شخصیت اور ان کے کارناموںپر ’’بچوں کا ادب اور مرتضیٰ ساحل تسلیمی‘‘ کتاب شائع کی ۔’نور‘ نے مارچ ۲۰۱۶ کا شمارہ ’’مرتضیٰ ساحل تسلیمی ‘‘ کے نام مختص کیا۔ اترپردیش اردو اکاڈمی کی جانب سے ۲۰۱۴ میں انہیں ایوارڈ برائے ادب اطفال سے نوازا گیا تھا۔علاوہ ازیں پریس کلب مرادآباد کا ’سینئر صحافی ایوارڈ‘، مولانا محمد علی جوہر ایوارڈ، ڈاکٹر ہتیش چند گپتا فیلوشپ ایوارڈ، آسرا ایوارڈاور شہید آصف شاہ میری قومی ایوارڈ سے انھیں سرفراز کیا گیا۔آل احمد سرور اور قاضی عبدالستار جیسے مقتدر ادبا نے ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ قاضی صاحب نے لکھا کہ ’’مرتضیٰ کی تخلیقات سبک خرام نرم رو آب جو ہے ، جس کی پیاری پیاری روانیوں میں بچپن گاتا ہوا سنائی دیتا ہے ۔ بچوں کے ادب کو ساحل صاحب نے باعظمت بنا دیا‘‘۔(۹)
ادب اطفال ایک اہم شعبہ ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ یہ شعبہ ہماری بے توجہی کی راہ سے اب ہماری ترجیحات سے نکلتا جارہا ہے۔شفیع الدین نیر ، اسماعیل میرٹھی اور مائل خیر آبادی جیسے ادبا شاندار ماضی کا بس ایک حوالہ بن کے رہ گئے ہیں۔ادب کے مرکزی دھارے میں ادب اطفال سے دامن بچانا عام بات ہے۔ جبکہ پروفیسر اور شیخ الجامعہ محمد مجیب ہمیں پیام تعلیم میں بچوں کا ادب خلق کرتے نظر آتے ہیں۔ صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کے زریں کارنامے گنائے جاسکتے ہیں، آزاد بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو بچوں کے’ چاچا نہرو‘ ہی ٹھہرے اور مائل صاحب ’چچا میاں‘۔ساحل صاحب کو بھی شکایت ہے کہ’’ بڑے ادیب پہلے کی طرح آج بچوںکے لیے نہیں لکھ رہے ہیں۔حالانکہ بچوں کے ادب کو پہلے سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے، بچوں کے ادب پر کام ہورہا ہے‘‘۔(۱۰) بچے اگر ملک و قوم کا مستقبل ہیں تو اس کی عملی راہیں مسدود کیوں ہوتی جارہی ہیں۔ اس پہلو پردرد اور شکایات کا ایک دفتر ہے۔ ساحل صاحب کی یاد سے یہ سارے زخم ہرے ہوگئے۔ ساحل صاحب کو یاد کرنا اوران پر چند سطور رقم کرنا فرض کفایہ کی ادائیگی ہے۔ ساحل صاحب ہم جیسے بے شمار’نوری‘ اور ’ہلالی‘ بچوں کے میر کارواں تھے۔ خانۂ دل میں بچوں سے وہ آج بھی ہم کلام ہیں۔
حوالے:
(۱)الحسنات،اردو شاعری میں ادب اسلامی نمبر،مدیر: محمد عبدالحی، ص۔۲۳۹، ۱۹۷۸
(۲) برٹانیکا جونیر انسا ئیکلو پیڈیا ، جلد، جہارم،ص۔۲۴۹
(۳)ماہنامہ اردو میلہ، ناگپور،وکیل نجیب نمبر،دسمبر ۲۰۰۹،ص۔۸۸
(۴)الحسنات( اداریہ:اپنی بات)، مدیر: محمد عبدالحی، دسمبر ۱۹۷۶
(۵)بچوں کا ادب اور مرتضیٰ ساحل تسلیمی، مرتبہ: محمد مسلم غازی،ص۔۱۳
(۶)ایضاً
(۷)ایضاًص۔۳۰۔۳۱
(۸) تعزیتی تحریر از مولانا سراج الدین ندوی، حی علی الفلاح، واٹس ایپ گروپ، اگست ۲۰۲۰
(۹)بچوں کا ادب اور مرتضیٰ ساحل تسلیمی، مرتبہ: محمد مسلم غازی،ص۔۱۴
(۱۰)ایضاً،ص۔۱۳