سعادت حسن منٹو کی حیثیت اُس جنگلی ہاتھی کی طرح ہے جس نے افسانوی ادب کی روایت کے آراستہ وپیراستہ شیش محل کو اپنے ضدی اور باغیانہ طبیعت کے زور پر چکنا چور کرکے رکھ دیا۔ اس کی اسی امتیازی وصف کی وجہ سے وہ ایک طویل عرصے تک سکہ بند نقادوں کی نظر میں مطعون قرار دیا جاتا رہا۔ لیکن امتزاج زمانہ کے ساتھ ساتھ اُس کی شہرت اور قبولیت عام میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آج اگر ہم منٹو کو اردو کا سب سے عظیم افسانہ نگار تصور کریں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔
منٹونے اردو زبان وادب کی افسانوی صنف کو نئے موضوعات سے متعارف کرایا ہے۔ ان کے نسوانی کردار وں کی شبیہ بیسویں صدی کے اُفق پر نئی پہچان کے ساتھ نمودار ہوئی ہے۔ نسوانی کردار کو اپنے سماج سے منسلک کرکے انھیں نئے سانچے میں ڈھالنے کا ہنر سعادت حسن منٹو کو خوب آتا ہے۔ ان کی اسی خوبی کی وجہ سے اہل نقد نے انھیں دیگر افسانہ نگاروں سے منفرد قرار دیا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انسانی سماج مرد اور عورت کا ایک حسین گلدستہ ہے اور اس گلدستے میں دو جنسوں کی نفسیات پورے انسانی سماج کی عکاسی کرتی ہے۔
سعادت حسن منٹو نے انسانی سماج کی کمزور سمجھی جانے والی ذات عورت کو اپنے بیشتر افسانوں میں مرکزی کردار بنایا ہے اور ان کرداروں کے توسط سے سماج کی پوشیدہ اور گمشدہ نفسیات کو آئینہ دکھایا ہے۔ جنس زدہ لڑکیوں، سسکتی اور بلکتی عورتوں، ازدواجی زندگی سے بیزار خواتین کی مجبوریوں کو اجاگر کرکے افسانے کو منفرد رنگوں میں ڈھال دینا کسی چابکدست، دور رس اور ماہر نفسیات افسانہ نگار کا ہی کمال ہوسکتا ہے اور تمام کمالات سعادت حسن منٹو کے قلم میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
اگر منٹوکے افسانوں کے مرکزی کرداروں کا جائزہ لیا جائے تویہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ انھوں نے اپنے کرداروں کو بے خوف، بے باک اور نتیجہ خیز بناکر پیش کیاہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ منٹو نے اپنے افسانوں کے کرداروں میں ان عورتوں پر قلم اٹھایا جنھیں سماج سرے سے مستر دکر دیتا ہے۔ لاہور کی سردار بیگم کا ممبئی میں قیام، انبالہ کی سلطانہ کی دلی میں رہائش، اور جے پور کی شارداکی ممبئی میں آمد منٹو کے افسانوں کی ایسی نسوانی کردار ہیں جو نہ صرف شہری زندگی کے نشیب وفراز اورپیچ وخم سے ہمیں روشناس کراتی ہیں بلکہ ان بڑے شہروں میں پھیلی جنسی بے راہ روی سے بھی آگاہ کراتی ہیں۔
منٹو کی نسوانی کردار کا تعارف ان کے افسانوں کی عورت کی وضع قطع اور جسمانی نشیب وفراز سے بھی ہوتا ہے۔ معمولی بات کو غیر معمولی انداز سے پیش کرکے اپنے قارئین کے دل پر حکومت کرنے کا ہنر منٹو جیسے فنکار کا ہی کمال ہوسکتا ہے۔ منٹو کے مشہور افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ میں کلونت کور کی جسمانی ساخت کی منظر کشی باریک بینی کی علامت ہے۔ منٹو نے اپنے افسانہ ’’بو‘‘ میں ایک فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی لڑکی کے جسمانی خلوص اور پُر کشش اعضاء کا ایک معمولی گھاٹن لڑکی سے موازنہ کرکے اپنے سماج کی نفسیات کو بھرپور طریقے سے بیدار کیاہے۔
منٹو کے افسانوں کا ایک انوکھا رُخ یہ بھی ہے کہ ان کی زبان حسن بیان سے مزین ہے، ہر منظر واضح اور روز روشن کی طرح نمایاں ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار اتنا حقیقت پسندانہ ہے کہ مجاز کا دور تک گمان بھی نہیں ہوتا۔ غالباً اس فکری عمل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ منٹو نے اپنے افسانوں میں گھر سے باہر کی عورتوں بلکہ بازاری حسیناؤں کے عادات و اطوار اور سلوک و خلوص کو بحسن وخوبی قلم بند کیا ہے جس کا عکس شاردا، شکُنتلا، کانتا، سلطانہ، سوگندھی، موذیل، اقبال، الماس، جانکی، ممی، زینت، پیرن، سردار بیگم، ہلاکت، نواب، کلونت کور ، فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کی گریجویٹ بیٹی، مصر ی کی ڈلی کی کشمیری چرواہن میں بخوبی نظر آتا ہے۔
منٹو کے افسانوں میں اظہار بیان کی معروضیت بے باکی اور غیر جانب داری ان کے انفرادی رویہّ کو ظاہر کرتا ہے جن کی ایک مثال ان کے افسانے ’’ہتک‘‘ میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ جنسی خواہش کی تکمیل مرد اور عورت دونوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس تکمیلی مرحلے میں عورت کی مجبوری کاجو منظر منٹو نے ایک عورت کو ننگا کر کے پیش کیا ہے اس میں مرد کی ہوس اور عورت کے ویشیہ ہونے کے باوجود اس کے اندر پوشیدہ ایک پاکیزہ عورت کے وجود کو اجاگر کیا ہے۔
سعادت حسن منٹو کے افسانوں کے بیشتر شخصی کردار آپس میں مُدغم ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے کبھی کبھی پیش کش میں ٹکڑاؤ کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے اور قاری کے قائم شدہ خیالات ایک جھٹکے میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ تبدیلی افسانے کے کرداروں کو حلقہ بہ حلقہ آگے بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ اس طرح کے خیالات کا عکس ان کے افسانے موذیل، ممی، جانکی اور سوگندھی وغیرہ میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔
منٹو پر ہمارے تنقید نگاروں نے انتہا پسندی کا الزام لگایا ہے مگر حقیقت اس سے کچھ الگ ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے افسانوں کا کردار فرد سے سماج کی طرف سفر کرتا ہوا نظر آتا ہے اگر ہم منٹو کے افسانوں کے نسوانی کردار کا بغور مطالعہ کریں تو معاملہ اس کے برعکس نظر آئے گا اور یہ بات واضح ہوجائے گی کہ منٹو نے فرد سے سماج تک پہنچ کر فرد اور سماج کے درمیان کی اس حدّ فاصل کو توڑ دیا ہے جو دونوں کو الگ کرتی ہے۔
سعادت حسن منٹو نے اردو ادب کو اس وقت عورت کا نیا تصور دیا جب اس نازک صنف پر قلمکار قلم اٹھانے سے گھبراتے تھے مگر منٹو نے اپنے بے باک اور جراتمندانہ قلم سے دو دھاری تلوار کا کام لیا یعنی نسوانی کردار کی حقیقت کو پوری طاقت سے اجاگر کیا اور قلم کاروں کی حوصلہ شکنی کو بلند حوصلگی میں تبدیل بھی کیا۔ در اصل منٹو کے یہاں مرد اور عورت کا روپ جدا گانہ ہے اور نیا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ منٹو کو عورت کی شکل میں دیوی کا روپ بالکل پسند نہیں تھا کہ وہ مرد کے حکموں کا غلام بن جائے۔ منٹو عورت کو آزاد اور خود مختار دیکھنا چاہتا تھا۔منٹو نے قدرت کی اُس شاہکار عورت کے متعلق کہا تھا کہ مجھے اُس سے ملنے کا اتفاق ہی کہاں ہوا ہے۔ عورت کا وہ تصور جو ہم لوگ اپنے دماغ میں قائم کرتے ہیں، ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ منٹوتو اصل میں اسی اندر کی عورت سے ملنا چاہتا ہے جسے دولت سے ہرگز نہیں خریدا جاسکتا۔عورت در اصل محبت کی بھوکی ہوتی ہے چنانچہ، اس کا دل محبت سے ہی جیتا جا سکتا ہے۔
منٹو نے روایت کے یکسربتوں کو اپنے فن کے ضرب کلیمی سے توڑا ہے اور عورت کے ماورائی اور رومانوی تصور کو ردّ کرکے گوشت پوشت کی جیتی جاگتی عورت کا تصور پیش کیا ہے جس کے اپنے دکھ سکھ ہوتے ہیں۔ مرد سب کچھ کھا پی کر ہضم کر جاتاہے لیکن عورت آئندہ نسل کی پرورش بھی کرتی ہے اور معاشرے کی پرداخت بھی کرتی ہے، وہ جو کچھ بھی سماج سے حاصل کرتی ہے اُسے بہتر طریقے سے سماج کو لوٹا تی بھی ہے۔ منٹو کو خاص طور سے ماں کے روپ میں عورت بہت پسند تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ ممتا ایک ایسا جذبہ ہے جو عورت کی ذات کو فرشتوں کی نگاہ میں بھی ممتاز بنادیتا ہے۔
ایک طوائف جب چند روپیوں کے لئے اپنے جسم کو کسی مرد کے حوالے کرتی ہے تو منٹو اس خرید وفروخت کی منظر کشی اپنے افسانے میں کچھ اس طرح کرتا ہے کہ :
’’لوگ مجھے باہر کھیتوں میں لے جاتے ہیں۔ میں لیٹی رہتی ہوں ۔ بالکل بے حس وحرکت لیکن میری آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ دور بہت دور ان درختوں کو دیکھتی رہتی ہوں جن کے چھاؤں میں کئی بکریاں آپس میں لڑ جھگڑ رہی ہوتی ہیں۔ کتنا پیارا منظر ہوتا ہے۔ میں بکریاں گننا شروع کر دیتی ہوں یا پیڑوں کی ٹہنیوں پر کوؤں کو شمار کرنے لگتی ہوں۔ انیس، بیس، اکیس، بائیس اور مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ میرا ساتھی اپنے کام سے کب فارغ ہوکر ایک طرف ہانپ رہا ہے۔‘‘
منٹو کے نسوانی کردار کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر عورت ویشیہ نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیہ عورت ہوتی ہے۔ اس طرح گھر سے بازار تک کی عورتیں اپنے اپنے نفسیاتی دائرہ کار میں زندگی گذارتی ہیں۔ اگر چہ منٹو نے شہر اور گاؤں کی نسوانی کرداروں کا ایک ساتھ مطالعہ کیا مگر ان کے افسانوں کے کرداروں سے یہ لگتا ہے عورت گاؤں کے مقابلہ میں شہروں میں زیادہ مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ جبر اور مظالم کے مرکزی کردار پر مشتمل منٹو کا افسانہ ’’نکّی‘‘ اس کی بہترین مثال ہے جس کے مرکزی کردار نکی کو پیدائش سے موت تک کبھی سُکھ نصیب نہیں ہوا تھا۔ شوہر کا نکما پن اور شراب نوشی کا عمل طلاق تک لے جاتا ہے پھر اس افسانے کا مردانہ کردار اور جھگڑالو طرز معاشرت یہ سب اس کی بیٹی کو سماج کی نگاہوں میں گرا دیتا ہے۔ اس افسانے کو منٹو نے لفظوں کے برجستہ استعمال سے اردوکے افسانوی ادب کا ایک اعلیٰ نمونہ بنا دیا ہے۔
افسانہ کے بارے میں تنقید نگاروں کا متفقہ نظریہ ہے کہ افسانہ نگار کا کام صرف ترسیل ہے تبلیغ نہیں جبکہ ترسیل کا عمل بغیر تبلیغ کے تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس طرح منٹو کا افسانہ ’’شکُنتلا‘‘ بھی اسی ضمن میں رکھا جانا چاہیے جس میں ایک طوائف سے اپنی بیٹی کی آبرو کی حفاظت کا کام لیا گیا ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ طوائف کے اندر بھی ایک ماں، ایک بہن اور ایک آبرو پسند عورت ہمیشہ چھپی ہوتی ہے۔ اس طرح منٹو کی شخصیت کا یا ان کے افسانوں کے نسوانی کرداروں میں پوشیدہ رویّہ کو ٹائپ نہیں بلکہ نسوانی کرداروں کی مختلف اور متنوع عکس کہا جاسکتا ہے۔ جس میں خارجی حقائق کے تناظر میں نامیاتی بدلاؤ نمودار ہوتا رہتا ہے۔
منٹو کے نسوانی کرداروں کے اثرات اتنے گہرے اور تلخ ہیں کہ سماج کی مجبور وبیکس عورتوں کے اندرموجود عورت تک قاری کو پہنچنے اور سمجھنے پر کوئی دِقت نہیں ہوتی ہے۔’’ سڑک کے کنارے ‘‘، ’’خدا کی قسم‘‘ اور ’’شاہ دولے کا چوہا‘‘ میں مامتا کا وہی کرب ہے جو کسی ماں کی گود سے بچہ چھین لینے کے بعد یا اولاد کی حفاظت اور کفالت کے لئے ایک عورت کی جسم فروشی کے بعد پیدا ہوتا ہے۔
سعادت حسن منٹو کے ایک مشہور افسانہ ’’ خدا کی قسم‘‘ میں انسانی معاشرہ کا ایک دردناک کرب ہے جس میں بیٹی فسادات کی نذر ہوجاتی ہے۔ ہم اپنے سماج میں میلی کچیلی، عورتوں کو بھیک مانگتے دیکھتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ پھیلاتے دیکھتے ہیں۔بوڑھی عورتوں، نوجوان بے سہارا لڑکیاں اور ان کی بھوک کا علاج یہ سب مسائل منٹو کے افسانوں کا ایسا کرب ہے جس کو منٹو نے تبلیغ کے طور پر نہیں بلکہ ترسیل کے طور پر بڑے مؤثر اسلوب کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس کرب میں کہیں ماں کی ممتا کا کرب ہے تو کہیں فریب خوردہ نسائیت کا دلدوز منظرنامہ ہے بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو منٹو کے نسائی کردار میں ادب کا جو رویّہ ہم تک پہونچا ہے اس میں اردو ادب کا اعلیٰ نمونہ بھی ہے اور نسائی جور وستم کے خلاف ایک ہتھیار بھی موجود ہے۔ افسانوں میں پیش کردہ کر داروں کی بے باکی اور جرأتمندی ہی سعادت حسن منٹو کو نہ صرف دوسرے افسانہ نگاروں سے منفرد وممتاز کرتی ہے بلکہ نسائی مسائل حیات کے گوشوں کی طرف بھی ہماری نگاہیں مبذول کراتی ہے جہاں تک دوسرے فنکاروں کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی ہے۔
آخر میں ہم دیکھتے ہیں سعادت حسن منٹو نے اردو کے افسانوی ادب کے خزانے کو ایسے ایسے نسوانی کرداروں سے مالا مال کیا ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے جب تک دنیا میں انسان اور اس کے بشری مسائل موجود رہیں گے منٹو کے یہ لازوال نسوانی کردار بھی ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے۔ یہی منٹو کے فنکارانہ عظمت کی دلیل ہے۔
350جھیلم ہاسٹل جے این یو، نئی دہلی
rizwanalauddin1985@gmail.com
9868425314